المبتدا والانبياء وعجائب المخلوقات ابتدائے (مخلوقات)، انبیا و رسل، عجائبات خلائق जगत निर्माण, नबी और रसूलों का ज़िक्र और चमत्कार نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عجز و انکساری “ रसूल अल्लाह ﷺ की नम्रता ”
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے خیر البریّہ! (یعنی مخلوقات میں سے بہترین) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ( وصف تو) ابراہیم علیہ السلام کا تھا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن خلیل رحمن ابراھیم (علیہم السلام)، کریم بن کریم بن کریم بن کریم تھے۔ اگر میں (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اتنا عرصہ جیل میں ٹھہرتا جتنا کہ یوسف علیہ السلام ٹھہرے تھے اور میرے پاس بلانے کے لیے داعی آتا تو میں ( فوراً) اس کی بات قبول کرتا اور جب ان کے پاس قاصد آیا تو انہوں نے تو کہا: «فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ» ”اس سے پوچھو کہ اب ان عورتوں کا حقیقی واقعہ کیا ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔“ (۱۲-يوسف:۵۰) اور اللہ تعالیٰ لوط علیہ السلام پر رحمت کرے، وہ تو کسی مضبوط آسرے کا سہارا لینا چاہتے تھے۔ جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: «لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ» ”کاش کہ مجھ میں تم سے مقابلہ کرنے کی قوت ہوتی یا میں کسی زبردست کا آسرا پکڑ پاتا۔“ (۱۱-هود:۸۰) سو ان کے بعد جب بھی اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی بھیجا تو اسے اس کی قوم کے لوگوں کے انبوہ کثیر میں بھیجا۔“
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اپنے بھائی یوسف علیہ اسلام، اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرمائے، کے صبر اور کشادہ دلی پر بڑا تعجب ہے، جب ان کی طرف خواب کی تعبیر بیان کرنے کا پیغام بھیجا گیا۔ اگر میں وہاں ہوتا تو تعبیر بیان کرنے سے پہلے (جیل سے) باہر نکل آتا۔ بس ان کے صبر اور فیاضی پر بڑا تعجب ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرمائے، ان کے پاس آدمی آیا تاکہ وہ باہر نکل آئیں لیکن وہ اس وقت تک نہ نکلے، جب تک ان پر اپنے عذر کی وضاحت نہیں کر دی۔ اگر میں ہوتا تو دروازے کی طرف لپک پڑتا۔ اگر «اذْكُرْنِي عِنْدَ رَبِّكَ» ”اپنےآقاکےپاس میرا تذکرہ کرنا“ (۱۲-يوسف:۴۲) والی بات نہ ہوتی تو وہ جیل میں نہ ٹھہرتے، جب کہ وہ غیر اللہ سے پریشانی کا ازالہ چاہ رہے تھے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اتنا عرصہ جیل میں ٹھہرتا جتنا کہ یوسف علیہ السلام ٹھہرے تھے اور میرے پاس بلانے کے لیے داعی آتا تو میں (فوراً) اس کی بات قبول کرتا اور جب ان کے پاس قاصد آیا تو انہوں نے تو کہا: «ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ إِنَّ رَبِّي بِكَيْدِهِنَّ عَلِيمٌ» ”اس سے پوچھو کہ اب ان عورتوں کا حقیقی واقعہ کیا ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔ بےشک میرا رب ان کے مکر سے واقف ہے“ (۱۲-يوسف:۵۰) اور اللہ تعالیٰ لوط علیہ السلام پر رحمت کرے، وہ تو کسی مضبوط آسرے کا سہارا لینا چاہتے تھے۔ جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: «لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ» ”کاش کہ مجھ میں تم سے مقابلہ کرنے کی قوت ہوتی یا میں کسی زبردست کا آسرا پکڑ پاتا۔“(۱۱-هود:۸۰) سو ان کے بعد جب بھی اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی بھیجا تو اسے اس کی قوم کے لوگوں کے انبوہ کثیر میں بھیجا۔“
|