المبتدا والانبياء وعجائب المخلوقات ابتدائے (مخلوقات)، انبیا و رسل، عجائبات خلائق जगत निर्माण, नबी और रसूलों का ज़िक्र और चमत्कार کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا؟ “ क्या रसूल अल्लाह ﷺ ने अल्लाह को देखा ? ”
مسروق کہتے ہیں: میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ٹیک لگا کر بیٹھا تھا۔ انہوں نے مجھے کہا: اے ابو عائشہ! تین امور ہیں، ان میں سے ایک کا قائل ہونے کا مطلب اللہ تعالیٰ پر جھوٹا الزام لگانا ہو گا۔ میں نے کہا وہ کون سے امور ہیں؟ انہوں نے کہا جس آدمی کا یہ خیال ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ربّ کو دیکھا تو اس نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولا۔ میں ٹیک لگائے ہوئے تھا، یہ سن کر میں بیٹھ گیا اور کہا: اے ام المؤمنین! ذرا مجھے مہلت دیجئے اور جلدی مت کیجئیے، کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ «وَلَقَدْ رَآهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ» ”اور تحقیق اس نے اس کو واضح افق میں دیکھا۔“ (۸۱-التكوير:۲۳) «وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى» ”اور تحقیق اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا۔“ (۵۳-النجم:۱۳) (ان آیات سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رب تعالیٰ کو دیکھا ہے)؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اس امت میں میں نے سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان آیات کے بارے میں سوال کیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ جواب دیا ”یہ تو جبریل تھا، میں نے اسے اس کی اصلی حالت میں دو مرتبہ دیکھا، میں نے اسے آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا، اس کی بڑی جسامت نے آسمان و زمین کے درمیانی خلا کو بھر رکھا تھا۔“ پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا: «لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ» ”آنکھیں اس اللہ کا ادراک نہیں کر سکتیں، لیکن وہ آنکھوں کا ادراک کر لیتا ہے اور وہ تو باریک بیں اور باخبر ہے۔“ (۶-الأنعام:۱۰۳) نیز آپ نے یہ ارشاد باری تعالیٰ نہیں سنا: «وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّـهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ» ”اور ناممکن ہے کسی بندہ سے اللہ تعالیٰ کلام کرے مگر وحی کے ذریعہ یا پردے کے پیچھے سے یا کسی فرشتہ کو بھیجے اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے جو چاہے وحی کرے، بیشک وہ برتر ہے حکمت والا ہے۔“ (۴۲-الشورى:۵۱) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اور جس نے یہ گمان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں سے بعض احکام چھپائے ہیں تو اس نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹا الزام دھر دیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتے ہیں: «يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّـهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ» ”اے رسول! جو کچھ تیرے رب کی طرف سے تیری طرف نازل کیا گیا، اسے آگے پہنچا دو، اگر تم نے ایسے نہ کیا تو (اس کا مطلب یہ ہو گا کہ) تم نے اس کا پیغام نہیں پہنچایا۔“ (۵-المائدة:۶۷) پھر انہوں نے کہا: اور جس نے یہ گمان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ کل میں ہونے والے امور کی خبر دیتے ہیں تو اس نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا، حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: «قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّـهُ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ» ”کہہ دیجئیے کہ آسمانوں والوں میں سے زمین والوں میں سے سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی غیب نہیں جانتا۔“ (۲۷-النمل:۶۵)۔
|