جنازے کے مسائل जनाज़े के बारे में جس عورت کا شوہر فوت ہو جائے اس کا سوگ؟ “ जिस औरत का पती मर जाए उसका शोक ?
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کفر کا سر مشرق کی طرف ہے، فخر اور تکبر گھوڑوں والوں اور اونٹوں والوں میں اور بلند آواز سے بولنے والے خانہ بدوشوں میں ہے اور سکون بکریاں رکھنے والوں میں ہے۔“
تخریج الحدیث: «363- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 970/2 ح 1876، ك 54 ب 6 ح 15) التمهيد 142/18، الاستذكار: 1812، وأخرجه البخاري (3301)، ومسلم (52/85) من حديث مالك به، سقط من الأصل و استدركته من رواية يحيي بن يحيي.»
حمید بن نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدہ زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا نے انہیں تین حدیثیں بتائیں: زینب نے کہا: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہ زوجہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے والد ابوسفیان بن حرب رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو میں ان کے پاس گئی، پھر ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے زرد رنگ کی خوشبو منگوائی جس میں زعفران یا کوئی دوسری چیز ملی ہوئی تھی اور وہ خوشبو (تیل کے ساتھ) اپنی لونڈی کو لگائی پھر (باقی ماندہ حصے سے) اپنے رخساروں پر مل لی اور فرمایا: اللہ کی قسم! مجھے خوشبو کی کوئی ضرورت نہیں ہے سوائے اس کے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو عورت اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہے اس کے لئے حلال نہیں کہ وہ کسی مرنے والے پر تین راتوں سے زیادہ سوگ کرے سوائے (اپنے) خاوند کے، اس پر وہ چار مہینے اور دس دن سوگ کرے گی، زینب (بنت ابی سلمہ) نے فرمایا: پھر میں زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کے پاس گئی جن کا بھائی فوت ہوا تھا، پھر انہوں نے خوشبو منگوائی اور اس میں سے لگا کر فرمایا: اللہ کی قسم! مجھے خوشبو کی کوئی ضرورت نہیں ہے سوائے اس کے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو عورت اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہے اس کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ کسی مرنے والے پر تین راتوں سے زیادہ سوگ کرے سوائے (اپنے) خاوند کے، اس پر وہ چار مہینے اور دس دن سوگ کرے گی زینت (بنت ابی سلمہ) نے کہا: میں نے اپنی امی اُم سلمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت آئی اور کہا: یا رسول اللہ! میری بیٹی کا شوہر فوت ہو گیا ہے اور اس کی آنکھوں میں درد ہے تو کیا وہ سرمہ ڈال سکتی ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین دفعہ فرمایا: ”نہیں“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو چار مہینے اور دس دن ہیں زمانہ جاہلیت میں تم عورتوں میں سے شوہر کے مرنے والی عورت ایک سال گزرنے پر مینگنی پھینک دیتی تھی۔“ حمید بن نافع نے کہا: میں نے زینب (بنت ام سلمہ) سے پوچھا: سال گزرنے پر مینگنی پھینک دینے کا کیا مطلب ہے؟، تو زینب نے کہا: جب کسی عورت کا خاوند فوت ہو جاتا تو وہ ایک گندی کوٹھڑی میں داخل ہو جاتی اور گندے کپڑے پہن لیتی تھی، وہ نہ خوشبو لگاتی اور نہ کوئی دوسری چیز (صفائی کے لیے) استعمال کرتی، پھر جب ایک سال گزر جاتا تو کوئی جانور: گدھا، بکری یا پرندہ لایا جاتا تو اسے اپنے جسم سے لگاتی، وہ جس جانور کو اپنے جسم سے لگاتی تو (عام طور پر) مر جاتا تھا، پھر وہ (کوٹھڑی سے) باہر نکلتی تو اسے (اونٹ کی) مینگنی (یا لید) دی جاتی تو وہ اسے پھینکتی تھی پھر اس کے بعد وہ خوشبو وغیرہ لگاتی تھی۔، امام مالک نے کہا: «تفتض» کا مطلب ہے «تمسح» (چھوتی تھی) اور «حفش» (چھوٹی سی بند کوٹھڑی والے) قلعہ کو کہتے ہیں، عبداللہ بن ابی بکر کی بیان کردہ حدیثیں مکمل ہو گئیں۔
تخریج الحدیث: «318- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 596/2-298 ح 1306، ك 29 ب 35 ح 101-103) التمهيد 310/17، 311، الاستذكار: 1224-1226، و أخرجه البخاري (5334-5337) و مسلم (1486-1489) من حديث مالك به، من رواية يحيي بن يحيي وجاء الأصل: ”عشرا“!، وفي رواية يحيي بن يحيي: ولحفش البيت الردي.»
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے اس حاملہ عورت کے بارے میں پوچھا: جس کا خاوند فوت ہو جائے تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: دونوں عدتوں (وضع حمل اور چار مہینے دس دن) میں سے جو بعد میں ختم ہو اسے اختیار کرے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جب بچے کو جنم دے گی تو حلال ہو جائے گی۔ پھر ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے تو ان سے اس بارے میں پوچھا: تو انہوں نے فرمایا: سبیعہ الاسلمیہ رضی اللہ عنہا کے ہاں اپنے شوہر کی وفات کے پندرہ دن بعد بچہ پیدا ہوا تو دو آدمیوں نے انہیں شادی کا بیغام بھیجا، ایک نوجوان تھا اور دوسرا بوڑھا تھا تو وہ نوجوان کی طرف مائل ہوئیں۔ پھر بوڑھے نے کہا: اس کی عدت ختم نہیں ہوئی۔ سبیعہ کے گھر والے (اس وقت) غیر حاضر تھے اور بوڑھے کو یہ امید تھی کہ جب اس کے گھر والے آئیں گے تو وہ اسے اس نوجوان پر ترجیح دیں گے۔ پھر وہ (سبیعہ رضی اللہ عنہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تیری عدت ختم ہو گئی ہے لہٰذا تو جس سے چاہے نکاح کر لے۔“
تخریج الحدیث: «396- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 589/2 ح 1686، ك 29 ب 30 ح 83) التمهيد 33/20، الاستذكار: 1286، و أخرجه النسائي (191/6، 192 ح 3540) من حديث ابن القاسم عن مالك به.»
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی بہن فریعہ بنت مالک بن سنان رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ پوچھنے کے لئے آئیں کہ کیا وہ بنو خدرہ میں اپنے گھر والوں کے پاس جا سکتی ہیں کیونکہ ان کے خاوند اپنے بھاگے ہوئے غلاموں کی تلاش میں نکلے اور جب قدوم کے مقام پر ان کے پاس پہنچ گئے تو ان غلاموں نے انہیں قتل کر دیا۔ فریعہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا میں بنو خدرہ میں اپنے گھر والوں کے پاس جا سکتی ہوں کیونکہ میرے خاوند نے میرے لئے اپنی ملکیت میں نہ کوئی گھر چھوڑا ہے اور نہ نان نفقہ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“، پھر میں وہاں سے نکل کر حجرے یا مسجد تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلوایا یا بلوانے کا حکم دیا پھر فرمایا: تو نے کیسے کہا تھا؟ میں نے اپنے خاوند کے بارے میں سارا قصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیان کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے گھر میں ہی ٹھہری رہو حتیٰ کہ عدت پوری ہو جائے۔“ تو میں نے وہاں چار مہینے دس دن عدت گزاری پھر جب سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے مجھے بلایا اور اس بارے میں پوچھا: تو میں نے آپ کو بتا دیا اور انہوں نے اسی کے مطابق فیصلہ کیا۔
تخریج الحدیث: «407- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 591/2 ح 1290، ك 29 ب 31 ح 87 وقال سعيد بن اسحاق/والصواب: سعد بن اسحاق) التمهيد 27/21، الاستذكار: 1209، و أخرجه أبوداود (2300) و الترمذي (1204، وقال: ”حسن صحيح“) من حديث مالك به و صححه ابن حبان (الاحسان: 4278/4292)، وفي رواية يحيي بن يحيي:”يملكه“.»
|