سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب الاستئذان والآداب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: سلام مصافحہ اور گھر میں داخل ہونے کے آداب و احکام
Chapters on Seeking Permission
3. باب مَا جَاءَ فِي الاِسْتِئْذَانِ ثَلاَثَةً
باب: کسی کے گھر داخل ہونے کے لیے تین بار اجازت حاصل کرنے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2690
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا سفيان بن وكيع، حدثنا عبد الاعلى بن عبد الاعلى، عن الجريري، عن ابي نضرة، عن ابي سعيد، قال: استاذن ابو موسى على عمر، فقال: السلام عليكم، اادخل؟ قال عمر: واحدة ثم سكت ساعة، ثم قال: السلام عليكم، اادخل؟ قال عمر: ثنتان ثم سكت ساعة، فقال: السلام عليكم، اادخل؟ فقال عمر: ثلاث، ثم رجع فقال عمر للبواب: ما صنع؟ قال: رجع، قال علي به، فلما جاءه قال: ما هذا الذي صنعت؟ قال: السنة، قال السنة؟ , والله لتاتيني على هذا ببرهان او ببينة او لافعلن بك، قال: فاتانا ونحن رفقة من الانصار، فقال: يا معشر الانصار، الستم اعلم الناس رسول لله صلى الله عليه وسلم؟ الم يقل رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الاستئذان ثلاث فإن اذن لك، وإلا فارجع " فجعل القوم يمازحونه، قال ابو سعيد: ثم رفعت راسي إليه فقلت: فما اصابك في هذا من العقوبة فانا شريكك، قال: فاتى عمر فاخبره بذلك، فقال عمر: ما كنت علمت بهذا , وفي الباب عن علي، وام طارق مولاة سعد، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، والجريري اسمه: سعيد بن إياس يكنى: ابا مسعود، وقد روى هذا غيره ايضا عن ابي نضرة، وابو نضرة العبدي اسمه: المنذر بن مالك بن قطعة.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ أَبُو مُوسَى عَلَى عُمَرَ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، أَأَدْخُلُ؟ قَالَ عُمَرُ: وَاحِدَةٌ ثُمَّ سَكَتَ سَاعَةً، ثُمّ قَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، أَأَدْخُلُ؟ قَالَ عُمَرُ: ثِنْتَانِ ثُمَّ سَكَتَ سَاعَةً، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، أَأَدْخُلُ؟ فَقَالَ عُمَرُ: ثَلَاثٌ، ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ عُمَرُ لِلْبَوَّابِ: مَا صَنَعَ؟ قَالَ: رَجَعَ، قَالَ عَلَيَّ بِهِ، فَلَمَّا جَاءَهُ قَالَ: مَا هَذَا الَّذِي صَنَعْتَ؟ قَالَ: السُّنَّةُ، قَالَ السُّنَّةُ؟ , وَاللَّهِ لَتَأْتِيَنِّي عَلَى هَذَا بِبُرْهَانٍ أَوْ بِبَيِّنَةٍ أَوْ لَأَفْعَلَنَّ بِكَ، قَالَ: فَأَتَانَا وَنَحْنُ رُفْقَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، أَلَسْتُمْ أَعْلَمَ النَّاسِ رَسُولِ للَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ أَلَمْ يَقُلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الِاسْتِئْذَانُ ثَلَاثٌ فَإِنْ أُذِنَ لَكَ، وَإِلَّا فَارْجِعْ " فَجَعَلَ الْقَوْمُ يُمَازِحُونَهُ، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: ثُمَّ رَفَعْتُ رَأْسِي إِلَيْهِ فَقُلْتُ: فَمَا أَصَابَكَ فِي هَذَا مِنَ الْعُقُوبَةِ فَأَنَا شَرِيكُكَ، قَالَ: فَأَتَى عُمَرَ فَأَخْبَرَهُ بِذَلِكَ، فَقَالَ عُمَرُ: مَا كُنْتُ عَلِمْتُ بِهَذَا , وفي الباب عن عَلِيٍّ، وَأُمِّ طَارِقٍ مَوْلَاةِ سَعْدٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْجُرَيْرِيُّ اسْمُهُ: سَعِيدُ بْنُ إِيَاسٍ يُكْنَى: أَبَا مَسْعُودٍ، وَقَدْ رَوَى هَذَا غَيْرُهُ أَيْضًا عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، وَأَبُو نَضْرَةَ الْعَبْدِيُّ اسْمُهُ: الْمُنْذِرُ بْنُ مَالِكِ بْنِ قُطَعَةَ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ نے عمر رضی الله عنہ سے ان کے پاس حاضر ہونے کی اجازت طلب کی تو انہوں نے کہا: «السلام عليكم» کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟ عمر رضی الله عنہ نے (دل میں) کہا: ابھی تو ایک بار اجازت طلب کی ہے، تھوڑی دیر خاموش رہ کر پھر انہوں نے کہا: «السلام عليكم» کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟ عمر رضی الله عنہ نے (دل میں) کہا: ابھی تو دو ہی بار اجازت طلب کی ہے۔ تھوڑی دیر (مزید) خاموش رہ کر انہوں نے پھر کہا: «السلام عليكم» کیا مجھے اندر داخل ہونے کی اجازت ہے؟ عمر رضی الله عنہ نے (دل میں کہا) تین بار اجازت طلب کر چکے، پھر ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ واپس ہو لیے، عمر رضی الله عنہ نے دربان سے کہا: ابوموسیٰ نے کیا کیا؟ اس نے کہا: لوٹ گئے۔ عمر رضی الله عنہ نے کہا انہیں بلا کر میرے پاس لاؤ، پھر جب وہ ان کے پاس آئے تو عمر رضی الله عنہ نے کہا: یہ آپ نے کیا کیا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے سنت پر عمل کیا ہے، عمر رضی الله عنہ نے کہا سنت پر؟ قسم اللہ کی! تمہیں اس کے سنت ہونے پر دلیل و ثبوت پیش کرنا ہو گا ورنہ میں تمہارے ساتھ سخت برتاؤ کروں گا۔ ابو سعید خدری کہتے ہیں: پھر وہ ہمارے پاس آئے، اس وقت ہم انصار کی ایک جماعت کے ساتھ تھے۔ ابوموسیٰ اشعری نے کہا: اے انصار کی جماعت! کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو دوسرے لوگوں سے زیادہ جاننے والے نہیں ہو، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا: «الاستئذان ثلاث» (اجازت طلبی) تین بار ہے۔ اگر تمہیں اجازت دے دی جائے تو گھر میں جاؤ اور اگر اجازت نہ دی جائے تو لوٹ جاؤ؟ (یہ سن کر) لوگ ان سے ہنسی مذاق کرنے لگے، ابو سعید خدری کہتے ہیں: میں نے اپنا سر ابوموسیٰ اشعری کی طرف اونچا کر کے کہا: اس سلسلے میں جو بھی سزا آپ کو ملے گی میں اس میں حصہ دار ہوں گا، راوی کہتے ہیں: پھر وہ (ابوسعید) عمر رضی الله عنہ کے پاس آئے، اور ان کو اس حدیث کی خبر دی، عمر نے کہا: مجھے اس حدیث کا علم نہیں تھا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور جریری کا نام سعید بن ایاس ہے اور ان کی کنیت ابومسعود ہے۔ یہ حدیث ان کے سوا اور لوگوں نے بھی ابونضرہ سے روایت کی ہے، اور ابونضرہ عبدی کا نام منذر بن مالک بن قطعہ ہے،
۲- اس باب میں علی اور سعد کی آزاد کردہ لونڈی رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الآداب 7 (2153) (تحفة الأشراف: 4330) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ بسا اوقات ایک ادنی شخص کو علم دین کی وہ بات معلوم ہو سکتی ہے جو کسی بڑے صاحب علم کو معلوم نہیں، چنانچہ عمر رضی الله عنہ کو یہ نہیں معلوم تھا کہ تین بار اجازت طلب کرنے پر اگر اجازت نہ ملے تو لوٹ جانا چاہیئے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 2691
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا عمر بن يونس، حدثنا عكرمة بن عمار، حدثني ابو زميل، حدثني ابن عباس، حدثني عمر بن الخطاب، قال: " استاذنت على رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثا فاذن لي " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، وابو زميل اسمه: سماك الحنفي، وإنما انكر عمر , عندنا , على ابي موسى حيث روى عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال: " الاستئذان ثلاث، فإذا اذن لك وإلا فارجع " وقد كان عمر استاذن على النبي صلى الله عليه وسلم ثلاثا فاذن له، ولم يكن علم هذا الذي رواه ابو موسى عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال: " فإن اذن لك وإلا فارجع ".(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنِي أَبُو زُمَيْلٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ: " اسْتَأْذَنْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا فَأَذِنَ لِي " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو زُمَيْلٍ اسْمُهُ: سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ، وَإِنَّمَا أَنْكَرَ عُمَرُ , عِنْدَنَا , عَلَى أَبِي مُوسَى حَيْثُ رَوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " الِاسْتِئْذَانُ ثَلَاثٌ، فَإِذَا أُذِنَ لَكَ وَإِلَّا فَارْجِعْ " وَقَدْ كَانَ عُمَرُ اسْتَأْذَنَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا فَأَذِنَ لَهُ، وَلَمْ يَكُنْ عَلِمَ هَذَا الَّذِي رَوَاهُ أَبُو مُوسَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " فَإِنْ أُذِنَ لَكَ وَإِلَّا فَارْجِعْ ".
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے پاس آنے کی تین بار اجازت مانگی، تو آپ نے مجھے اجازت دے دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- ابوزمیل کا نام سماک الحنفی ہے،
۳- میرے نزدیک عمر کو ابوموسیٰ کی اس بات پر اعتراض اور انکار اس وجہ سے تھا کہ ابوموسیٰ نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اجازت تین بار طلب کی جائے، اگر اجازت مل جائے تو ٹھیک ور نہ لوٹ جاؤ۔ (رہ گیا عمر رضی الله عنہ کا اپنا معاملہ) تو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تین بار اجازت طلب کی تھی تو انہیں اجازت مل گئی تھی، اس حدیث کی خبر انہیں نہیں تھی جسے ابوموسیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، آپ نے فرمایا: پھر اگر اندر جانے کی اجازت مل جائے تو ٹھیک ورنہ واپس لوٹ جاؤ۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10499) (ضعیف الإسناد منکر المتن) (اس کے راوی ”عکرمہ بن عمار“ روایت میں غلطی کر جاتے تھے، اور فی الحقیقت یہ روایت پچھلی صحیح روایت کے برخلاف ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد، منكر المتن

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.