كتاب الإيمان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: ایمان و اسلام 18. باب مَا جَاءَ فِي افْتِرَاقِ هَذِهِ الأُمَّةِ باب: امت محمدیہ کی فرقہ بندی کا بیان۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہود اکہتر یا بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور نصاریٰ بھی اسی طرح بٹ گئے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی“ ۱؎۔
۱- ابوہریرہ کی یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں سعد، عبداللہ بن عمرو، اور عوف بن مالک رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الفتن 17 (3991) (تحفة الأشراف: 15082) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: بعض احادیث میں یہ آیا ہے کہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، ان میں سے بہتر جہنمی ہوں گے، صرف ایک فرقہ جنتی ہو گا، امت کے یہ فرقے کون ہیں؟ صاحب تحفہ الأحوذی نے اس کی تشریح میں یہ لکھا ہے کہ فرق مذمومہ سے فروعی مسائل میں اختلاف کرنے والے فرقے مراد نہیں ہیں، بلکہ اس سے مراد وہ فرقے ہیں جو اہل حق سے اصول میں اختلاف رکھتے ہیں، مثلاً توحید، تقدیر، نبوت کی شرطیں اور موالات صحابہ وغیرہ، کیونکہ یہ ایسے مسائل ہیں جن میں اختلاف کرنے والوں نے ایک دوسرے کی تکفیر کی ہے جب کہ فروعی مسائل میں اختلاف کرنے والے ایک دوسرے کی تکفیر نہیں کرتے، جنتی فرقہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو کتاب وسنت پر قائم رہنے والے اور صحابہ کرام سے محبت کے ساتھ ان کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں۔ قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (3991)
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے ساتھ ہو بہو وہی صورت حال پیش آئے گی جو بنی اسرائیل کے ساتھ پیش آ چکی ہے، (یعنی مماثلت میں دونوں برابر ہوں گے) یہاں تک کہ ان میں سے کسی نے اگر اپنی ماں کے ساتھ اعلانیہ زنا کیا ہو گا تو میری امت میں بھی ایسا شخص ہو گا جو اس فعل شنیع کا مرتکب ہو گا، بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، اور ایک فرقہ کو چھوڑ کر باقی سبھی جہنم میں جائیں گے، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ کون سی جماعت ہو گی؟ آپ نے فرمایا: ”یہ وہ لوگ ہوں گے جو میرے اور میرے صحابہ کے نقش قدم پر ہوں گے“۔
یہ حدیث جس میں ابوہریرہ رضی الله عنہ کے حدیث کے مقابلہ میں کچھ زیادہ وضاحت ہے حسن غریب ہے۔ ہم اسے اس طرح صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 8864) (حسن) (تراجع الالبانی 249، والصحیحہ 1348)»
قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (171 / التحقيق الثاني)، الصحيحة (1348)
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو تاریکی میں پیدا کیا پھر ان پر اپنا نور ڈالا (یعنی اپنے نور کا پر تو) تو جس پر یہ نور پڑ گیا وہ ہدایت یاب ہو گیا اور جس پر نور نہ پڑا (تجاوز کر گیا) تو وہ گمراہ ہو گیا، اسی لیے میں کہتا ہوں کہ اللہ کے علم پر (تقدیر کا) قلم خشک ہو چکا ہے“ ۱؎۔
یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: لم یذکرہ المزي)، و مسند احمد (2/176، 197) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی ہدایت و گمراہی کی پیشگی تحریر اللہ کے علم کے مطابق ازل میں لکھی جا چکی ہے، اس میں کسی قسم کا ردوبدل نہیں ہو سکتا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (101)، الصحيحة (1076)، الظلال (241 - 244)
معاذ بن جبل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں معلوم ہے کہ بندوں پر اللہ کا حق کیا ہے؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”اس کا حق بندوں پر یہ ہے کہ بندے اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں“۔ (پھر) آپ نے کہا: ”کیا تم یہ بھی جانتے ہو کہ جب لوگ ایسا کریں تو اللہ پر ان کا کیا حق ہے؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں“۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کا حق اللہ پر یہ ہے کہ وہ انہیں عذاب نہ دے“۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث متعدد سندوں سے معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے مروی ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجھاد 46 (2856)، واللباس 101 (5967)، والاستئذان 30 (6267)، والرقاق 37 (6500)، والتوحید 1 (7373)، صحیح مسلم/الإیمان 10 (30)، سنن ابن ماجہ/الزہد 35 (4296) (تحفة الأشراف: 11351) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (4296)
ابوذر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور مجھے بشارت دی کہ جو شخص اس حال میں مر گیا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا تو وہ جنت میں جائے گا“، میں نے کہا: اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“، (اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو) ۱؎۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابو الدرداء سے بھی روایت ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الاستقراض 3 (2388)، و بدء الخلق 6 (3222)، والاستئذان 30 (6268)، والرقاق 13 (6443)، و 14 (6444)، والتوحید 33 (7487)، صحیح مسلم/الإیمان 40 (94)، والزکاة 9 (94/32) (تحفة الأشراف: 11915)، و مسند احمد (5/159) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس کی صورت یہ ہو گی کہ وہ زنا اور چوری کی اپنی سزا کاٹ کر اپنے موحد ہونے کے صلہ میں لامحالہ جنت میں جائے گا، یا ممکن ہے رب العالمین اپنی رحمت سے اسے معاف کر دے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (826)
|