كتاب الإيمان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: ایمان و اسلام 14. باب مَا جَاءَ فِي عَلاَمَةِ الْمُنَافِقِ باب: منافق کی پہچان کا بیان۔
اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
یہ حدیث صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف: 14341) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں ایک منافق کی جو خصلتیں بیان ہوئی ہیں، بدقسمتی سے آج مسلمانوں کی اکثریت اس عملی نفاق میں مبتلا ہے، مسلمان دنیا بھر میں جو ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں اس میں ان کے اسی منافقانہ کردار اور اخلاق و عمل کا دخل ہے، منافق وہ ہے جو اپنی زبان سے اہل اسلام کے سامنے اسلام کا اظہار کرے، لیکن دل میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بغض و عناد رکھے، یہ اعتقادی نفاق ہے، وحی الٰہی کے بغیر اس کا پہچاننا اور جاننا ناممکن ہے، حدیث میں مذکورہ خصلتیں عملی نفاق کی ہیں، اعتقادی نفاق کفر ہے، جب کہ عملی نفاق کفر نہیں ہے تاہم یہ بھی بہت خطرناک ہے جس سے بچنا چاہیئے، رب العالمین مسلمانوں کو ہدایت بخشے۔ آمین قال الشيخ الألباني: صحيح إيمان أبي عبيد ص (95)
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چار خصلتیں جس شخص میں ہوں گی وہ (مکمل) منافق ہو گا۔ اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہو گی، اس میں نفاق کی ایک خصلت ہو گی یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے: وہ جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، جب جھگڑا کرے تو گالیاں بکے اور جب معاہدہ کرے تو بے وفائی کرے“۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإیمان 24 (34)، والمظالم 17 (2459)، والجزیة 17 (2178)، صحیح مسلم/الإیمان 25 (58)، سنن ابی داود/ السنة 16 (4688)، سنن النسائی/الإیمان 20 (5023) (تحفة الأشراف: 8931)، و مسند احمد (2/189، 198) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
اس سند سے بھی عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس سے اہل علم کے نزدیک عملی نفاق مراد ہے، نفاق تکذیب (اعتقادی نفاق) صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا ۱؎، ۳- حسن بصری سے بھی اس بارے میں کچھ اسی طرح سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: نفاق دو طرح کا ہوتا ہے، ایک عملی نفاق اور دوسرا اعتقادی نفاق۔ تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کا عمل منافقوں جیسا ہے۔ اس کے عمل میں نفاق ہے، لیکن ہم اس کے منافق ہونے کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ اسے اس کے ایمان میں جھوٹا ٹھہرا کر منافق قرار نہیں دے سکتے۔ ایسا تو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہو سکتا تھا۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صاحب وحی تھے، وحی الٰہی کی روشنی میں آپ کسی کے بارے میں کہہ سکتے تھے کہ فلاں منافق ہے مگر ہمیں اور آپ کو کسی کے منافق ہونے کا فیصلہ کرنے کا حق و اختیار نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
زید بن ارقم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی کسی سے وعدہ کرے اور اس کی نیت یہ ہو کہ وہ اپنا وعدہ پورا کرے گا لیکن وہ (کسی عذر و مجبوری سے) پورا نہ کر سکا تو اس پر کوئی گناہ نہیں“ ۱؎۔
۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اس کی اسناد قوی نہیں ہے، ۳- علی بن عبدالاعلی ثقہ ہیں، ابونعمان اور ابووقاص غیر معروف ہیں اور دونوں ہی مجہول راوی ہیں۔ تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأدب 90 (4995) (تحفة الأشراف: 3693) (ضعیف) (مولف نے وجہ بیان کر سنن الدارمی/ ہے)»
وضاحت: ۱؎: یعنی ایسا شخص منافقین کے زمرہ میں نہ آئے گا، کیونکہ اس کی نیت صالح تھی اور عمل کا دارومدار نیت پر ہے۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (4881)، الضعيفة (1447) // ضعيف الجامع الصغير (723) //
|