سنن ترمذي
كتاب الإيمان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: ایمان و اسلام
18. باب مَا جَاءَ فِي افْتِرَاقِ هَذِهِ الأُمَّةِ
باب: امت محمدیہ کی فرقہ بندی کا بیان۔
حدیث نمبر: 2642
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي عَمْرٍو السَّيْبَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الدَّيْلَمِيِّ، قَال: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو , يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ خَلْقَهُ فِي ظُلْمَةٍ، فَأَلْقَى عَلَيْهِمْ مِنْ نُورِهِ، فَمَنْ أَصَابَهُ مِنْ ذَلِكَ النُّورِ اهْتَدَى، وَمَنْ أَخْطَأَهُ ضَلَّ، فَلِذَلِكَ أَقُولُ: جَفَّ الْقَلَمُ عَلَى عِلْمِ اللَّهِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
”اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو تاریکی میں پیدا کیا پھر ان پر اپنا نور ڈالا
(یعنی اپنے نور کا پر تو) تو جس پر یہ نور پڑ گیا وہ ہدایت یاب ہو گیا اور جس پر نور نہ پڑا
(تجاوز کر گیا) تو وہ گمراہ ہو گیا، اسی لیے میں کہتا ہوں کہ اللہ کے علم پر
(تقدیر کا) قلم خشک ہو چکا ہے
“ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: لم یذکرہ المزي)، و مسند احمد (2/176، 197) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی ہدایت و گمراہی کی پیشگی تحریر اللہ کے علم کے مطابق ازل میں لکھی جا چکی ہے، اس میں کسی قسم کا ردوبدل نہیں ہو سکتا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (101) ، الصحيحة (1076) ، الظلال (241 - 244)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2642 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2642
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی ہدایت و گمراہی کی پیشگی تحریر اللہ کے علم کے مطابق ازل میں لکھی جا چکی ہے،
اس میں کسی قسم کا ردوبدل نہیں ہو سکتا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2642
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 101
´تخلیق آدم`
«. . . وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٌو قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: \" إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ خَلْقَهُ فِي ظُلْمَةٍ فَأَلْقَى عَلَيْهِمْ مِنْ نُورِهِ فَمَنْ أَصَابَهُ مِنْ ذَلِكَ النُّورِ اهْتَدَى وَمَنْ أَخْطَأَهُ ضَلَّ فَلذَلِك أَقُول: جف الْقلب على علم الله \". رَوَاهُ أَحْمد وَالتِّرْمِذِيّ . . .»
”. . . سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ نے مخلوق (یعنی انسان و جن) کو اندھیرے میں پیدا کیا پھر ان پر اپنا نور ڈالا لہٰذا جسے اللہ کی روشنی نصیب ہوئی اسے ہدایت نصیب ہوئی اور اس نے اللہ کی راہ پائی۔ اور جسے وہ نور نہیں ملا اور نہ وہ روشنی پہنچی، اسے صحیح راستہ نہیں ملا اور وہ گمراہ ہو گیا اسی وجہ سے میں کہتا ہوں (کہ سب کچھ لکھنے کے بعد قلم قدرت اللہ کے علم سے خشک ہو گیا)۔ اس حدیث کو امام احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔ (اس نور سے ایمان مراد ہے اور ظلمت سے خواہشات تفسانی مراد ہے)۔ . . .“ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 101]
تخریج:
[سنن ترمذي 2642]
تحقیق الحدیث:
اس روایت کی سند حسن ہے۔
● اسماعیل بن عیاش مختلف فیہ راوی ہیں، اگر وہ اپنے ثقہ و صدوق شامی استادوں سے حدیث بیان کریں تو حسن لذاتہ ہوتی ہے اور اگر غیر شامیوں مثلا حجازیوں سے روایت کریں تو ضعیف ہوتی ہے۔ دیکھئے: طبقات المدلسین للحافظ ابن حجر [68؍3] وعام کتب رجال۔
● اسماعیل بن عیاش قول راجح میں مدلس نہیں تھے۔ دیکھئے: میری کتاب الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین [ص49]
● اسماعیل بن عیاش اس روایت میں منفرد نہیں ہیں، بلکہ امام اوزاعی رحمہ اللہ نے ان کی متابعت کر رکھی ہے، یعنی یہی روایت اوزاعی نے یحییٰ بن ابی عمرو السیبانی (الحمصی الشامی: ثقہ) سے بیان کر رکھی ہے۔
● دیکھئے: امام ابواسحاق ابراہیم بن محمد الفزاری رحمہ اللہ (متوفی 186ھ) کی کتاب السیر [ح641] اور المستدرک للحاکم [1؍30 ح83]
اسے یحییٰ بن ابی عمرو سے ایک جماعت نے بیان کیا ہے۔ مثلاً دیکھئے: کتاب السنۃ لابن ابی عاصم [242] وغیرہ
● یحییٰ بن ابی عمرو بھی اس روایت میں منفرد نہیں ہیں بلکہ ربیعہ بن یزید (الدمشقی: ثقہ عابد) نے اسے عبداللہ بن (فیروز) الدیلمی (ثقہ من کبار التابعین) سے بیان کیا ہے۔ دیکھئے: مسند أحمد [ج2 ص 176 6644 وسندہ صحیح]
↰ اس متابعت کے ساتھ یہ روایت صحیح ہے۔
فقہ الحدیث:
➊ تقدیر برحق ہے۔
➋ یہاں مخلوق سے مراد انسان اور جن ہیں، کیونکہ فرشتے تو نور سے پیدا کئے گئے ہیں۔
➌ سنن ترمذی کی یہ روایت حافظ المزی رحمہ اللہ کی کتاب تحفتہ الاشراف سے رہ گئی ہے۔ نیز دیکھئے: المسند الجامع [ج11 ص 17 ح8330]
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 101