كتاب الإيمان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: ایمان و اسلام 13. باب مَا جَاءَ أَنَّ الإِسْلاَمَ بَدَأَ غَرِيبًا وَسَيَعُودُ غَرِيبًا باب: اسلام اجنبی بن کر آیا پھر اجنبی بن جائے گا۔
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام اجنبی حالت میں شروع ہوا، عنقریب پھر اجنبی بن جائے گا، لہٰذا ایسے وقت میں اس پر قائم رہنے والے اجنبیوں کے لیے خوشخبری و مبارک بادی ہے“ ۱؎۔
۱- ابن مسعود رضی الله عنہ کی روایت سے یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں سعد، ابن عمر، جابر، اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی روایت ہے، ۳- میں اس حدیث کو صرف حفص بن غیاث کی روایت سے جسے وہ اعمش کے واسطہ سے روایت کرتے ہیں، جانتا ہوں، ۴- ابوالاحوص کا نام عوف بن مالک بن نضلہ جشمی ہے، ۵- ابوحفص اس حدیث کی روایت میں منفرد ہیں۔ تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الفتن 15 (3988) (تحفة الأشراف: 9510)، و مسند احمد (1/398)، وسنن الدارمی/الرقاق 42 (2797) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مفہوم یہ ہے کہ اسلام جب آیا تو اس کے ماننے والوں کی زندگی جس اجنبیت کے عالم میں گزر رہی تھی یہاں تک کہ لوگ ان سے نفرت کرتے تھے، اور ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کو اپنے لیے حقارت سمجھتے تھے انہیں تکلیفیں پہنچاتے تھے، ٹھیک اسی اجنبیت کے عالم میں اسلام کے آخری دور میں اس کے پیروکار ہوں گے، لیکن خوشخبری اور مبارک بادی ہے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے اس اجنبی حالت میں اسلام کو گلے سے لگایا اور جو اس کے آخری دور میں اسے گلے سے لگائیں گے، اور دشمنوں کی تکالیف برداشت کر کے جان و مال سے اس کی خدمت و اشاعت کرتے رہیں گے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3988)
عمرو بن عوف رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(ایک وقت آئے گا کہ) دین اسلام حجاز میں سمٹ کر رہ جائے گا جس طرح کہ سانپ اپنے سوراخ میں سمٹ کر بیٹھ جاتا ہے۔ اور یقیناً دین حجاز میں آ کر ایسے ہی محفوظ ہو جائے گا جس طرح پہاڑی بکری پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ کر محفوظ ہو جاتی ہے ۱؎، دین اجنبی حالت میں آیا اور وہ پھر اجنبی حالت میں جائے گا، خوشخبری اور مبارک بادی ہے ایسے گمنام مصلحین کے لیے جو میرے بعد میری سنت میں لوگوں کی پیدا کردہ خرابیوں اور برائیوں کی اصلاح کرتے ہیں“۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10778) (ضعیف جدا) (سند میں کثیر بن عبداللہ سخت ضعیف راوی ہیں)»
وضاحت: ۱؎: کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بارش کا بادل پہاڑ کی نچلی سطح پر ہوتا ہے تو بکری پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر اپنے کو بارش سے بچا لیتی ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بکری پہاڑ کی نشیبی سطح پر ہو اور برساتی پانی کا ریلا آ کر اسے بہا لے جائے اور مار ڈالے اس ڈر سے وہ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر اس طرح کی مصیبتوں اور ہلاکتوں سے اپنے کو محفوظ کر لیتی ہے۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا الصحيحة تحت الحديث (1273)، المشكاة (170) // ضعيف الجامع الصغير (1441) //
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”منافق کی نشانیاں تین ہیں: (۱) جب بات کرے تو جھوٹ بولے (۲) جب وعدہ کرے تو وعدے کی خلاف ورزی کرے (۳) اور جب اسے امانت سونپی جائے تو اس میں خیانت کرے“ ۱؎۔
۱- یہ حدیث علاء کی روایت سے حسن غریب ہے، ۲- یہ حدیث کئی سندوں سے ابوہریرہ رضی الله عنہ سے آئی ہے جسے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، ۳- اس باب میں ابن مسعود، انس اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإیمان 24 (33)، والشھادات 28 (2682)، والوصایا 8 (2749)، والأدب 69 (6095)، صحیح مسلم/الإیمان 25 (59)، سنن النسائی/الإیمان 20 (5024) (تحفة الأشراف: 14096)، و مسند احمد (2/357) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح إيمان أبي عبيد ص (95)
|