(مرفوع) حدثنا ابو عمار الحسين بن حريث الخزاعي، اخبرنا وكيع، عن كهمس بن الحسن، عن عبد الله بن بريدة، عن يحيى بن يعمر، قال: اول من تكلم في القدر معبد الجهني، قال: فخرجت انا وحميد بن عبد الرحمن الحميري حتى اتينا المدينة فقلنا: لو لقينا رجلا من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فسالناه عما احدث هؤلاء القوم، قال: فلقيناه يعني عبد الله بن عمر وهو خارج من المسجد، قال: فاكتنفته انا وصاحبي، قال: فظننت ان صاحبي سيكل الكلام إلي، فقلت: يا ابا عبد الرحمن إن قوما يقرءون القرآن ويتقفرون العلم ويزعمون ان لا قدر وان الامر انف، قال: فإذا لقيت اولئك فاخبرهم اني منهم بريء، وانهم مني برآء، والذي يحلف به عبد الله لو ان احدهم انفق مثل احد ذهبا ما قبل ذلك منه حتى يؤمن بالقدر خيره وشره، قال: ثم انشا يحدث فقال: قال عمر بن الخطاب: كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجاء رجل شديد بياض الثياب، شديد سواد الشعر، لا يرى عليه اثر السفر، ولا يعرفه منا احد حتى اتى النبي صلى الله عليه وسلم فالزق ركبته بركبته، ثم قال: يا محمد ما الإيمان؟ قال: " ان تؤمن بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر والقدر خيره وشره "، قال: فما الإسلام؟ قال: " شهادة ان لا إله إلا الله وان محمدا عبده ورسوله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، وحج البيت وصوم رمضان " قال: فما الإحسان؟ قال: " ان تعبد الله كانك تراه فإنك إن لم تكن تراه فإنه يراك " , قال: في كل ذلك يقول له: صدقت، قال: فتعجبنا منه يساله ويصدقه، قال: فمتى الساعة؟ قال: " ما المسئول عنها باعلم من السائل " قال: فما امارتها؟ قال: " ان تلد الامة ربتها، وان ترى الحفاة العراة العالة اصحاب الشاء يتطاولون في البنيان "، قال عمر: فلقيني النبي صلى الله عليه وسلم بعد ذلك بثلاث، فقال: " يا عمر هل تدري من السائل؟ ذاك جبريل اتاكم يعلمكم معالم دينكم ".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ الْخُزَاعِيُّ، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، عَنْ كَهْمَسِ بْنِ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، قَالَ: أَوَّلُ مَنْ تَكَلَّمَ فِي الْقَدَرِ مَعْبَدٌ الْجُهَنِيُّ، قَالَ: فَخَرَجْتُ أَنَا وَحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيُّ حَتَّى أَتَيْنَا الْمَدِينَةَ فَقُلْنَا: لَوْ لَقِينَا رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْنَاهُ عَمَّا أَحْدَثَ هَؤُلَاءِ الْقَوْمُ، قَالَ: فَلَقِينَاهُ يَعْنِي عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ وَهُوَ خَارِجٌ مِنَ الْمَسْجِدِ، قَالَ: فَاكْتَنَفْتُهُ أَنَا وَصَاحِبِي، قَالَ: فَظَنَنْتُ أَنَّ صَاحِبِي سَيَكِلُ الْكَلَامَ إِلَيَّ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّ قَوْمًا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ وَيَتَقَفَّرُونَ الْعِلْمَ وَيَزْعُمُونَ أَنْ لَا قَدَرَ وَأَنَّ الْأَمْرَ أُنُفٌ، قَالَ: فَإِذَا لَقِيتَ أُولَئِكَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنِّي مِنْهُمْ بَرِيءٌ، وَأَنَّهُمْ مِنِّي بُرَآءُ، وَالَّذِي يَحْلِفُ بِهِ عَبْدُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا قُبِلَ ذَلِكَ مِنْهُ حَتَّى يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ، قَالَ: ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُ فَقَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ، شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعَرِ، لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ، وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ حَتَّى أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَلْزَقَ رُكْبَتَهُ بِرُكْبَتِهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ مَا الْإِيمَانُ؟ قَالَ: " أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ "، قَالَ: فَمَا الْإِسْلَامُ؟ قَالَ: " شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَإِقَامُ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ، وَحَجُّ الْبَيْتِ وَصَوْمُ رَمَضَانَ " قَالَ: فَمَا الْإِحْسَانُ؟ قَالَ: " أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ " , قَالَ: فِي كُلِّ ذَلِكَ يَقُولُ لَهُ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَتَعَجَّبْنَا مِنْهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ، قَالَ: فَمَتَى السَّاعَةُ؟ قَالَ: " مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ " قَالَ: فَمَا أَمَارَتُهَا؟ قَالَ: " أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا، وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ أَصْحَابَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ "، قَالَ عُمَرُ: فَلَقِيَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ بِثَلَاثٍ، فَقَالَ: " يَا عُمَرُ هَلْ تَدْرِي مَنِ السَّائِلُ؟ ذَاكَ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ مَعَالِمَ دِينِكُمْ ".
یحییٰ بن یعمر کہتے ہیں کہ سب سے پہلے جس شخص نے تقدیر کے انکار کی بات کی وہ معبد جہنی ہے، میں اور حمید بن عبدالرحمٰن حمیری دونوں (سفر پر) نکلے یہاں تک کہ مدینہ پہنچے، ہم نے (آپس میں بات کرتے ہوئے) کہا: کاش ہماری نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی شخص سے ملاقات ہو جائے تو ہم ان سے اس نئے فتنے کے متعلق پوچھیں جو ان لوگوں نے پیدا کیا ہے، چنانچہ (خوش قسمتی سے) ہماری ان سے یعنی عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے کہ جب وہ مسجد سے نکل رہے تھے، ملاقات ہو گئی، پھر میں نے اور میرے ساتھی نے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا ۱؎ میں نے یہ اندازہ لگا کر کہ میرا ساتھی بات کرنے کی ذمہ داری اور حق مجھے سونپ دے گا، عرض کیا: ابوعبدالرحمٰن! کچھ لوگ ہیں جو قرآن پڑھتے ہیں اور قرآن میں غور و فکر اور تلاش و جستجو (کا دعویٰ) بھی کرتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ یہ خیال رکھتے ہیں کہ تقدیر کوئی چیز نہیں ہے، اور امر (معاملہ) از سرے نو اور ابتدائی ہے ۲؎ ابن عمر رضی الله عنہما نے کہا: جب تم ان سے ملو (اور تمہارا ان کا آمنا سامنا ہو) تو انہیں بتا دو کہ میں ان سے بری (و بیزار) ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کی قسم کھاتا ہے عبداللہ! (یعنی اللہ کی) اگر ان میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کر ڈالے تو جب تک وہ اچھی اور بری تقدیر پر ایمان نہیں لے آتا اس کا یہ خرچ مقبول نہ ہو گا، پھر انہوں نے حدیث بیان کرنی شروع کی اور کہا: عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے اسی دوران ایک شخص آیا جس کے کپڑے بہت زیادہ سفید تھے، اس کے بال بہت زیادہ کالے تھے، وہ مسافر بھی نہیں لگتا تھا اور ہم لوگوں میں سے کوئی اسے پہچانتا بھی نہ تھا۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آیا اور اپنے گھٹنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں سے ملا کر بیٹھ گیا پھر کہا: اے محمد! ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لاؤ“۔ اس نے (پھر) پوچھا: اور اسلام کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکاۃ دینا، بیت اللہ شریف کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا“، اس نے (پھر) پوچھا: احسان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو تو ان تم اسے دیکھ رہے ہو، اور اگر تم اللہ کو دیکھنے کا تصور اپنے اندر پیدا نہ کر سکو تو یہ یقین کر کے اس کی عبادت کرو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے“، وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر جواب پر کہتا جاتا تھا کہ آپ نے درست فرمایا۔ اور ہم اس پر حیرت کرتے تھے کہ یہ کیسا عجیب آدمی ہے کہ وہ خود ہی آپ سے پوچھتا ہے اور خود ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کی تصدیق بھی کرتا جاتا ہے، اس نے (پھر) پوچھا: قیامت کب آئے گی؟ آپ نے فرمایا: ”جس سے پوچھا گیا ہے، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا“، اس نے کہا: اس کی علامت (نشانی) کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اس وقت حالت یہ ہو گی کہ لونڈی اپنی مالکن کو جنے گی ۳؎، اس وقت تم دیکھو گے کہ ننگے پیر چلنے والے، ننگے بدن رہنے والے، محتاج بکریوں کے چرانے والے ایک سے بڑھ کر ایک اونچی عمارتیں بنانے میں فخر کرنے والے ہوں گے“، عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اس واقعہ کے تین دن بعد ملے تو آپ نے فرمایا: ”عمر! کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ پوچھنے والا کون تھا؟ وہ جبرائیل علیہ السلام تھے۔ تمہارے پاس تمہیں دین کی بنیادی باتیں سکھانے آئے تھے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإیمان 1 (8)، سنن ابی داود/ السنة 17 (4695)، سنن النسائی/الإیمان 5 (4993)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 9 (63) (تحفة الأشراف: 10572)، و مسند احمد (1/27، 28، 51، 52) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ایک ان کے داہنے ہو گیا اور دوسرا ان کے بائیں۔
۲؎: ”اور امر (معاملہ) از سرے نو اور ابتدائی ہے“ کا مطلب یعنی جب کوئی چیز واقع ہو جاتی ہے تب اللہ کو اس کی خبر ہوتی ہے، پہلے سے ہی کوئی چیز لکھی ہوئی اور متعین شدہ نہیں ہے۔
۳؎: یعنی لونڈی زادی مالکہ بن جائے گی اور جسے مالکہ کے مقام پر ہونا چاہیئے وہ لونڈی کے مقام ودرجہ پر پہنچا دی جائے گی۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا معاذ بن معاذ، عن كهمس بهذا الإسناد نحوه بمعناه، وفي الباب عن طلحة بن عبيد الله، وانس بن مالك، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، قد روي من غير وجه نحو هذا، عن عمر، وقد روي هذا الحديث عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، والصحيح هو ابن عمر , عن عمر، عن النبي.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، عَنْ كَهْمَسٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ، وَفِي الْبَابِ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ نَحْوُ هَذَا، عَنْ عُمَرَ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالصَّحِيحُ هُوَ ابْنُ عُمَرَ , عَنْ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ.
اس سند سے بھی عمر رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ متعدد سندوں سے ابن عمر سے بھی اسی طرح مروی ہے، ۳- کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ یہ حدیث ابن عمر کے واسطہ سے آئی ہے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ ابن عمر روایت کرتے ہیں، عمر رضی الله عنہ سے اور عمر رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے، ۲- اس باب میں طلحہ بن عبیداللہ، انس بن مالک اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔