كتاب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے احکامات اور فیصلے 41. باب مَا ذُكِرَ فِي الْمُزَارَعَةِ باب: مزارعت کا بیان۔
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر والوں کے ساتھ خیبر کی زمین سے جو بھی پھل یا غلہ حاصل ہو گا اس کے آدھے پر معاملہ کیا ۱؎۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں انس، ابن عباس، زید بن ثابت اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ آدھے، تہائی یا چوتھائی کی شرط پر مزارعت کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے، ۴- اور بعض اہل علم نے یہ اختیار کیا ہے کہ بیج زمین والا دے گا، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے، ۵- بعض اہل علم نے تہائی یا چوتھائی کی شرط پر مزارعت کو مکروہ سمجھا ہے، لیکن وہ تہائی یا چوتھائی کی شرط پر کھجور کے درختوں کی سینچائی کرانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں۔ مالک بن انس اور شافعی کا یہی قول ہے، ۶- بعض لوگ مطلقًا مزارعت کو درست نہیں سمجھتے البتہ سونے یا چاندی (نقدی) کے عوض کرایہ پر زمین لینے کو درست سمجھتے ہیں۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحرث 8 (2328)، 9 (2329)، صحیح مسلم/المساقاة 1 (البیوع 22)، (1551)، سنن ابی داود/ البیوع 35 (3408)، سنن النسائی/الأیمان والمزارعة 46 (3961، 3962)، سنن ابن ماجہ/الرہون 14 (3467)، (تحفة الأشراف: 8138)، و مسند احمد (2/17، 22، 37) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے مزارعت (بٹائی پر زمین دینے) کا جواز ثابت ہوتا ہے، ائمہ ثلاثہ اور دیگر علمائے سلف و خلف سوائے امام ابوحنیفہ کے جواز کے قائل ہیں، احناف نے خیبر کے معاملے کی تاویل یہ کی ہے کہ یہ لوگ آپ کے غلام تھے، لیکن یہ تاویل صحیح نہیں کیونکہ آپ کا ارشاد گرامی ہے «نقركم ما أقركم الله» ہم تمہیں اس وقت تک برقرار رکھیں گے جب تک اللہ تمہیں برقرار رکھے گا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپ کے غلام نہیں تھے، نیز احناف کا کہنا ہے کہ یہ معدوم یا مجہول پیداوار کے بدلے اجارہ ہے جو جائز نہیں، اس کا جواب جمہوریہ دیتے ہیں کہ اس کی مثال مضارب کی ہے کہ مضارب جس طرح نفع کی امید پر محنت کرتا ہے اور وہ نفع مجہول ہے اس کے باوجود وہ جائز ہے، اسی طرح مزارعت میں بھی یہ جائز ہو گا، رہیں وہ روایات جو مزارعت کے عدم جواز پر دلالت کرتی ہیں تو جمہور نے ان روایات کی تاویل کی ہے کہ یہ روایات نہی تنزیہی پر دلالت کرتی ہیں، یا یہ ممانعت اس صورت میں ہے جب صاحب زمین کسی مخصوص حصے کی پیداوار خود لینے کی شرط کر لے «واللہ اعلم» حاصل بحث یہ ہے کہ مزارعت کی جائز شکل یہ ہے کہ مالک اور بٹائی پر لینے والے کے مابین زمین سے حاصل ہونے والے غلہ کی مقدار اس طرح متعین ہو کہ دونوں کے مابین جھگڑے کی نوبت نہ آئے اور غلہ سے متعلق نقصان اور فائدہ میں طے شدہ امر کے مطابق دونوں شریک ہوں یا روپے کے عوض زمین بٹائی پر دی جائے اور مزارعت کی وہ شکل جو شرعاً ناجائز ہے وہ حنظلہ بن قیس انصاری کی روایت میں ہے، وہ کہتے ہیں رافع بن خدیج کہتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں زمین کی بٹائی کا معاملہ اس شرط پر کرتے تھے کہ زمین کے اس مخصوص حصے کی پیداوار میں لوں گا اور باقی حصے کی تم لینا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا کیونکہ اس صورت میں کبھی بٹائی پر لینے والے کا نقصان ہوتا کبھی دینے والے کا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2467)
|