حدثني زهير بن حرب ، حدثنا إسماعيل يعني ابن علية ، عن عبد العزيز ، عن انس : ان رسول الله صلى الله عليه وسلم غزا خيبر، قال: فصلينا عندها صلاة الغداة بغلس، فركب نبي الله صلى الله عليه وسلم، وركب ابو طلحة، وانا رديف ابي طلحة، فاجرى نبي الله صلى الله عليه وسلم في زقاق خيبر وإن ركبتي لتمس فخذ نبي الله صلى الله عليه وسلم، وانحسر الإزار عن فخذ نبي الله صلى الله عليه وسلم، فإني لارى بياض فخذ نبي الله صلى الله عليه وسلم، فلما دخل القرية، قال: " الله اكبر خربت خيبر، إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين "، قالها ثلاث مرات، قال: وقد خرج القوم إلى اعمالهم، فقالوا: محمد والله، قال عبد العزيز: وقال بعض اصحابنا: محمد والخميس، قال: واصبناها عنوة وجمع السبي فجاءه دحية، فقال: يا رسول الله، اعطني جارية من السبي، فقال: " اذهب فخذ جارية "، فاخذ صفية بنت حيي، فجاء رجل إلى نبي الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا نبي الله، اعطيت دحية صفية بنت حيي سيد قريظة، والنضير، ما تصلح إلا لك، قال: " ادعوه بها "، قال: فجاء بها، فلما نظر إليها النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " خذ جارية من السبي غيرها "، قال: واعتقها وتزوجها، فقال له ثابت: يا ابا حمزة ما اصدقها؟ قال: " نفسها، اعتقها وتزوجها "، حتى إذا كان بالطريق جهزتها له ام سليم، فاهدتها له من الليل، فاصبح النبي صلى الله عليه وسلم عروسا، فقال: " من كان عنده شيء، فليجئ به "، قال: وبسط نطعا، قال: فجعل الرجل يجيء بالاقط، وجعل الرجل يجيء بالتمر، وجعل الرجل يجيء بالسمن، فحاسوا حيسا، فكانت وليمة رسول الله صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حدثنا إِسْمَاعِيل يَعْنِي ابْنَ عُلَيَّةَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، عَنْ أَنَسٍ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزَا خَيْبَرَ، قَالَ: فَصَلَّيْنَا عَنْدَهَا صَلَاةَ الْغَدَاةِ بِغَلَسٍ، فَرَكِبَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَكِبَ أَبُو طَلْحَةَ، وَأَنَا رَدِيفُ أَبِي طَلْحَةَ، فَأَجْرَى نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي زُقَاقِ خَيْبَرَ وَإِنَّ رُكْبَتِي لَتَمَسُّ فَخِذَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَانْحَسَرَ الْإِزَارُ عَنْ فَخِذِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنِّي لَأَرَى بَيَاضَ فَخِذِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا دَخَلَ الْقَرْيَةَ، قَالَ: " اللَّهُ أَكْبَرُ خَرِبَتْ خَيْبَرُ، إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ "، قَالَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، قَالَ: وَقَدْ خَرَجَ الْقَوْمُ إِلَى أَعْمَالِهِمْ، فقَالُوا: مُحَمَّدٌ وَاللَّهِ، قَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ: وَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا: مُحَمَّدٌ وَالْخَمِيسُ، قَالَ: وَأَصَبْنَاهَا عَنْوَةً وَجُمِعَ السَّبْيُ فَجَاءَهُ دِحْيَةُ، فقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَعْطِنِي جَارِيَةً مِنَ السَّبْيِ، فقَالَ: " اذْهَبْ فَخُذْ جَارِيَةً "، فَأَخَذَ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ، فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَعْطَيْتَ دِحْيَةَ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ سَيِّدِ قُرَيْظَةَ، وَالنَّضِيرِ، مَا تَصْلُحُ إِلَّا لَكَ، قَالَ: " ادْعُوهُ بِهَا "، قَالَ: فَجَاءَ بِهَا، فَلَمَّا نَظَرَ إِلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم، قَالَ: " خُذْ جَارِيَةً مِنَ السَّبْيِ غَيْرَهَا "، قَالَ: وَأَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا، فقَالَ لَهُ ثَابِتٌ: يَا أَبَا حَمْزَةَ مَا أَصْدَقَهَا؟ قَالَ: " نَفْسَهَا، أَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا "، حَتَّى إِذَا كَانَ بِالطَّرِيقِ جَهَّزَتْهَا لَهُ أُمُّ سُلَيْمٍ، فَأَهْدَتْهَا لَهُ مِنَ اللَّيْلِ، فَأَصْبَحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرُوسًا، فقَالَ: " مَنْ كَانَ عَنْدَهُ شَيْءٌ، فَلْيَجِئْ بِهِ "، قَالَ: وَبَسَطَ نِطَعًا، قَالَ: فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ بِالْأَقِطِ، وَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ بِالتَّمْرِ، وَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ بِالسَّمْنِ، فَحَاسُوا حَيْسًا، فَكَانَتْ وَلِيمَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
3497. اسماعیل بن علیہ نے ہمیں عبدالعزیز سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی جنگ لڑی۔ کہا: ہم نے اس کے قریب ہی صبح کی نماز ادا کی، اس کے بعد اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے او ابوطلحہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی سوار ہوئے، میں ابوطلحہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پچھلی طرف سوار تھا، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے (اس کی طرف جانے والے) تنگ راستوں میں سواری کو تیز چلایا، میرا گھٹنا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ران کو چھو رہا تھا، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سے تہبند ہٹ گیا اور میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ران کی سفیدی کو دیکھ رہا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بستی میں داخل ہوئے تو فرمایا: ”اللہ سب سے بڑا ہے۔ خیبر اُجڑ گیا۔ بےشک ہم کسی قوم کے میدان میں اُترتے ہیں تو ان لوگوں کی صبح بری ہوتی ہے جن کو ڈرایا گیا تھا۔“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمات تین مرتبہ ارشاد فرمائے۔ کہا: لوگ اپنے کاموں کے لیے نکل چکے تھے۔ انہوں نے (یہ منظر دیکھا تو) کہا: اللہ کی قسم یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ عبدالعزیز نے کہا: (حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بھی بتایا کہ) ہمارے بعض ساتھیوں نے بتایا: (ان میں سے بعض نے یہ بھی کہا:) محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور لشکر ہے۔ (انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا: ہم نے خیبر کو بزور قوت حاصل کیا۔ قیدیوں کو اکٹھا کر لیا گیا تو حضرت دِحیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے صلی اللہ علیہ وسلم پاس آئے اور عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے قیدیوں میں سے ایک لونڈی عطا کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جا کر ایک لونڈی لے لو“ تو انہوں نے صفیہ بنت حُیی کو لے لیا۔ اس پر ایک آدمی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اے اللہ کے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دحیہ کو صفیہ بنت حُیی عنایت کر دی ہے جو بنو قریظہ اور بنو نضیر کی شہزادی ہے؟ وہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور کسی کے شایانِ شان نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں اس (لڑکی) سمیت بلا لاؤ۔“ وہ اسے لے کر حاضر ہوئے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ کو دیکھا تو فرمایا: ”قیدیوں میں سے اس کے سوا کوئی اور لونڈی لے لو۔“(آگے آئے گا کہ اپنی مرضی کی اور لونڈی کے علاوہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے اسے مزید کنیزیں بھی عطا فرمائیں، حدیث 3500) کہا: اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کیا اور ان سے شادی کر لی۔ (حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک اور شاگرد) ثابت نے ان سے کہا: ابوحمزہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کیا مہر دیا تھا؟ انہوں نے کہا: خود ان کو (انہیں دیا تھا،) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کیا (انہیں اپنی جان کا مالک بنایا) اور (اس کے عوض) ان سے نکاح کیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم (واپسی پر ابھی) راستے میں تھے تو ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تیار کیا اور رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دلہے کی حیثیت سے صبح کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنے ساتھیوں سے) فرمایا: ”جس کے پاس (کھانے کی) کوئی چیز ہو تو وہ اسے لے آئے۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چمڑے کا دسترخوان بچھوا دیا۔ کہا: تو کوئی آدمی پنیر لے کر آنے لگا، کوئی کھجور لے کر آنے لگا اور کوئی گھی لے کر آنے لگا۔ پھر لوگوں نے (کھجور، پنیر اور گھی کو) اچھی طرح ملا کر حلوہ تیار کیا۔ اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ولیمہ تھا۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کا قصد کیا اور ہم نے اس کے قریب صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھی، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور ابو طلحہ بھی سوار ہوئے اور میں ابو طلحہ کے پیچھے سوار تھا۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی سواری) خیبر کی گلیوں میں دوڑا دی (اور ہم نے بھی اپنی سواریاں دوڑائیں) اور میرا گھٹنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سے چھو رہا تھا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سے تہبند کھسک گئی یا سرک گئی تو مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ران کی سفیدی نظر آنے لگی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بستی میں داخل ہو گئے تو آپ نے فرمایا: "اللہ اکبر! خیبر تباہ و برباد ہو یا خیبر ویران ہو گیا ہم جب کسی قوم کے آنگن یا چوک میں اترتے ہیں تو ڈرائے گئے لوگوں کی صبح بری ہوتی ہے۔” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمات تین دفعہ فرمائے، اور لوگ اپنے کام کاج کے لیے نکل چکے تھے۔ اس لیے انہوں نے کہا: محمد، اللہ کی قسم! عبدالعزیز کی روایت میں ہے، ہمارے بعض ساتھیوں نے یہ الفاظ بیان کیے۔ محمد لشکر کے ساتھ آ گیا، اور ہم نے خیبر کو طاقت اور زورِ بازو سے فتح کیا، اور قیدیوں کو یکجا اکٹھا کیا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت دحیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے قیدیوں میں سے ایک لونڈی عنایت فرمائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ اور ایک باندی لے لو۔“ تو انہوں نے صفیہ بنت حیی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو لے لیا۔ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آ کر کہنے لگا: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دحیہ کو قریظہ اور بنو نضیر کی آقا صفیہ بنت حیی عنایت کر دی ہے؟ وہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شایان شان تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے اس سمیت بلاؤ۔“ تو وہ اس کو لے کر حاضر ہوا تو جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نظر ڈالی فرمایا: ”قیدیوں میں سے اس کے سوا کوئی اور لونڈی لے لو۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آزاد کر کے اس سے شادی کر لی، حضرت ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا، اے ابو حمزہ! (حضرت انس کی کنیت ہے) اس کو مہر کیا دیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا، اس کا نفس، اس کو آزاد کیا اور اس سے شادی کر لی، حتی کہ جب (واپسی پر) راستہ میں ہی تھے، تو حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انہیں تیار کر کے رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کر دیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کو نوشہ (دولہا) بن چکے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس کچھ ہو وہ لے آئے۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چمڑے کا دسترخوان بچھا دیا، تو کوئی آدمی پنیر لا رہا ہے اور کوئی آدمی کھجور لا رہا ہے اور کوئی گھی لا رہا ہے۔ ان سے صحابہ کرام نے مالیدہ تیار کیا، اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ولیمہ تھا۔
حماد، یعنی ابن زید نے ثابت اور عبدالعزیز بن صہیب سے، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے۔ حماد نے ثابت اور شعیب بن حَبحَاب سے، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے۔ اسی طرح ابوعوانہ نے قتادہ اور عبدالعزیز سے، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے۔ ابوعوانہ (ہی) نے ابوعثمان سے، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے۔ معاذ بن ہشام نے اپنے والد سے، انہوں نے شعیب بن حبحاب سے، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے اور اسی طرح یونس بن عبید نے شعیب بن حبحاب سے، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے اور ان سب نے (کہا: انہوں نے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کیا اور ان کو آزادی کو ان کا مہر مقرر کیا۔ معاذ کی اپنے والد (ہشام) سے روایت کردہ حدیث میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا اور ان کی آزادی، ان کو مہر میں دی
امام صاحب اپنے اساتذہ سے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت بیان کرتے ہیں۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے بارے میں، جو اپنی لونڈی کو آزاد کرتا ہے، پھر اس سے شادی کرتا ہے، فرمایا: "اس کے لیے دو اجر ہیں۔" (آزاد کرنے کا اجر اور اس کے بعد شادی کے ذریعے اسے عزت کا مقام دینے کا اجر
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے بارے میں جو اپنی لونڈی کو آزاد کر کے اس سے شادی کرتا ہے فرمایا: ”اس کے لیے دو اجر ہیں۔“
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، حدثنا ثابت ، عن انس ، قال: كنت ردف ابي طلحة يوم خيبر، وقدمي تمس قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فاتيناهم حين بزغت الشمس وقد اخرجوا مواشيهم، وخرجوا بفؤوسهم، ومكاتلهم، ومرورهم، فقالوا: محمد، والخميس، قال: وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " خربت خيبر، إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين "، قال: وهزمهم الله عز وجل، ووقعت في سهم دحية جارية جميلة، فاشتراها رسول الله صلى الله عليه وسلم بسبعة ارؤس، ثم دفعها إلى ام سليم تصنعها له وتهيئها، قال: واحسبه، قال: وتعتد في بيتها وهي صفية بنت حيي، قال: وجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم وليمتها التمر، والاقط، والسمن، فحصت الارض افاحيص وجيء بالانطاع، فوضعت فيها وجيء بالاقط والسمن، فشبع الناس، قال: وقال الناس: لا ندري اتزوجها ام اتخذها ام ولد؟ قالوا: إن حجبها فهي امراته، وإن لم يحجبها فهي ام ولد، فلما اراد ان يركب حجبها، فقعدت على عجز البعير فعرفوا انه قد تزوجها، فلما دنوا من المدينة دفع رسول الله صلى الله عليه وسلم ودفعنا، قال: فعثرت الناقة العضباء، وندر رسول الله صلى الله عليه وسلم وندرت فقام فسترها وقد اشرفت النساء، فقلن ابعد الله اليهودية، قال: قلت: يا ابا حمزة، اوقع رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: إي والله لقد وقع. (حديث موقوف) قال انس : وشهدت وليمة زينب، فاشبع الناس خبزا ولحما، وكان يبعثني فادعو الناس، فلما فرغ قام وتبعته، فتخلف رجلان استانس بهما الحديث لم يخرجا، فجعل يمر على نسائه فيسلم على كل واحدة منهن: " سلام عليكم كيف انتم يا اهل البيت؟ "، فيقولون: بخير يا رسول الله، كيف وجدت اهلك؟: فيقول: بخير، فلما فرغ رجع ورجعت معه، فلما بلغ الباب إذا هو بالرجلين قد استانس بهما الحديث، فلما راياه قد رجع قاما فخرجا فوالله ما ادري انا اخبرته ام انزل عليه الوحي بانهما قد خرجا، فرجع ورجعت معه، فلما وضع رجله في اسكفة الباب ارخى الحجاب بيني وبينه، وانزل الله تعالى هذه الآية: لا تدخلوا بيوت النبي إلا ان يؤذن لكم سورة الاحزاب آية 53 الآية ".حدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حدثنا عَفَّانُ ، حدثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، حدثنا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: كُنْتُ رِدْفَ أَبِي طَلْحَةَ يَوْمَ خَيْبَرَ، وَقَدَمِي تَمَسُّ قَدَمَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم، قَالَ: فَأَتَيْنَاهُمْ حِينَ بَزَغَتِ الشَّمْسُ وَقَدْ أَخْرَجُوا مَوَاشِيَهُمْ، وَخَرَجُوا بِفُؤُوسِهِمْ، وَمَكَاتِلِهِمْ، وَمُرُورِهِمْ، فقَالُوا: مُحَمَّدٌ، وَالْخَمِيسُ، قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَرِبَتْ خَيْبَرُ، إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ "، قَالَ: وَهَزَمَهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَوَقَعَتْ فِي سَهْمِ دِحْيَةَ جَارِيَةٌ جَمِيلَةٌ، فَاشْتَرَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَبْعَةِ أَرْؤُسٍ، ثُمَّ دَفَعَهَا إِلَى أُمِّ سُلَيْمٍ تُصَنِّعُهَا لَهُ وَتُهَيِّئُهَا، قَالَ: وَأَحْسِبُهُ، قَالَ: وَتَعْتَدُّ فِي بَيْتِهَا وَهِيَ صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيٍّ، قَالَ: وَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلِيمَتَهَا التَّمْرَ، وَالْأَقِطَ، وَالسَّمْنَ، فُحِصَتِ الْأَرْضُ أَفَاحِيصَ وَجِيءَ بِالْأَنْطَاعِ، فَوُضِعَتْ فِيهَا وَجِيءَ بِالْأَقِطِ وَالسَّمْنِ، فَشَبِعَ النَّاسُ، قَالَ: وَقَالَ النَّاسُ: لَا نَدْرِي أَتَزَوَّجَهَا أَمِ اتَّخَذَهَا أُمَّ وَلَدٍ؟ قَالُوا: إِنْ حَجَبَهَا فَهِيَ امْرَأَتُهُ، وَإِنْ لَمْ يَحْجُبْهَا فَهِيَ أُمُّ وَلَدٍ، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَرْكَبَ حَجَبَهَا، فَقَعَدَتْ عَلَى عَجُزِ الْبَعِيرِ فَعَرَفُوا أَنَّهُ قَدْ تَزَوَّجَهَا، فَلَمَّا دَنَوْا مِنَ الْمَدِينَةِ دَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَفَعَنْا، قَالَ: فَعَثَرَتِ النَّاقَةُ الْعَضْبَاءُ، وَنَدَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَدَرَتْ فَقَامَ فَسَتَرَهَا وَقَدْ أَشْرَفَتِ النِّسَاءُ، فَقُلْنَ أَبْعَدَ اللَّهُ الْيَهُودِيَّةَ، قَالَ: قُلْتُ: يَا أَبَا حَمْزَةَ، أَوَقَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم؟ قَالَ: إِي وَاللَّهِ لَقَدْ وَقَعَ. (حديث موقوف) قَالَ أَنَسٌ : وَشَهِدْتُ وَلِيمَةَ زَيْنَبَ، فَأَشْبَعَ النَّاسَ خُبْزًا وَلَحْمًا، وَكَانَ يَبْعَثُنِي فَأَدْعُو النَّاسَ، فَلَمَّا فَرَغَ قَامَ وَتَبِعْتُهُ، فَتَخَلَّفَ رَجُلَانِ اسْتَأْنَسَ بِهِمَا الْحَدِيثُ لَمْ يَخْرُجَا، فَجَعَلَ يَمُرُّ عَلَى نِسَائِهِ فَيُسَلِّمُ عَلَى كُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ: " سَلَامٌ عَلَيْكُمْ كَيْفَ أَنْتُمْ يَا أَهْلَ الْبَيْتِ؟ "، فَيَقُولُونَ: بِخَيْرٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ وَجَدْتَ أَهْلَكَ؟: فَيَقُولُ: بِخَيْرٍ، فَلَمَّا فَرَغَ رَجَعَ وَرَجَعْتُ مَعَهُ، فَلَمَّا بَلَغَ الْبَابَ إِذَا هُوَ بِالرَّجُلَيْنِ قَدِ اسْتَأْنَسَ بِهِمَا الْحَدِيثُ، فَلَمَّا رَأَيَاهُ قَدْ رَجَعَ قَامَا فَخَرَجَا فَوَاللَّهِ مَا أَدْرِي أَنَا أَخْبَرْتُهُ أَمْ أُنْزِلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ بِأَنَّهُمَا قَدْ خَرَجَا، فَرَجَعَ وَرَجَعْتُ مَعَهُ، فَلَمَّا وَضَعَ رِجْلَهُ فِي أُسْكُفَّةِ الْبَابِ أَرْخَى الْحِجَابَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ، وَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى هَذِهِ الْآيَةَ: لا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ سورة الأحزاب آية 53 الْآيَةَ ".
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جنگ خیبر کے موقع پر میں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیچھے سوار تھا اور میرا قدم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم سے لگ رہا تھا۔ تو ہم ان کے پاس سورج کے روشن ہونے (اچھی طرح طلوع ہونے پر) پہنچے اور انہوں نے (گھروں سے) اپنے مویشی نکال لیے تھے، اور اپنے کلہاڑے، ٹوکریاں، بیلچے، کدال، یا رسیاں بھی ساتھ لے جا رہے تھے، تو وہ کہنے لگے، محمد لشکر کے ساتھ آ گئے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خیبر برباد ہو یا خیبر تباہ ہو گیا، ہم جب کسی قوم کے میدان میں اترتے ہیں تو ڈرائے گئے لوگوں کی صبح بری ہوتی ہے۔“ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں اللہ عزوجل نے انہیں شکست سے دوچار کیا اور حضرت دحیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حصہ میں ایک خوبرو لونڈی آئی، اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات لونڈیوں کے عوض خرید لیا، پھر اسے حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد فرمایا تاکہ وہ اسے بنا سنوار کر، اسے تیار کرے۔ راوی کا خیال ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بھی کہا کہ وہ ام سلیم ہی کے گھر (ان کے پاس) عدت گزارے (یعنی استبرائے رحم ہو، جو لونڈی کے لیے ضروری ہے) اور وہ لونڈی صفیہ بنت حیی تھی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ولیمہ میں، کھجور، پنیر اور گھی رکھا۔ زمین کو کرید کر، چمڑے کے دسترخوان لا کر اس میں رکھے گئے، اور پنیر اور گھی لایا گیا جس سے لوگ سیر ہوئے۔ لوگ کہنے لگے ہمیں معلوم نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے شادی کی ہے یا اسے ام ولد بنایا ہے۔ کہنے لگے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پردہ میں رکھا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہو گی اور اگر اسے پردہ میں نہ رکھا تو وہ ام ولد ہو گی، تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوار ہونے کا ارادہ کیا، اسے پردہ میں کیا اور وہ اونٹ کے پچھلے حصہ پر بیٹھیں تو لوگوں نے جان لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے شادی کی ہے، تو جب صحابہ کرام مدینہ کے قریب پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری کو تیز کر دیا اور ہم نے بھی سواریاں دوڑائیں، اور (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی) عضباء اونٹنی نے ٹھوکر کھائی، جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گر گئے اور وہ بھی گر گئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر اسے پردہ کیا، اور عورتیں دیکھ رہی تھیں، اس لیے کہنے لگیں اللہ تعالیٰ یہودن کو دور کرے۔ ثابت نے پوچھا اے ابو حمزہ! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گر پڑے تھے؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں، اللہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم گر پڑے تھے۔
وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا شبابة ، حدثنا سليمان ، عن ثابت ، عن انس . ح وحدثني به عبد الله بن هاشم بن حيان ، واللفظ له: حدثنا بهز ، حدثنا سليمان بن المغيرة ، عن ثابت ، حدثنا انس ، قال: صارت صفية لدحية في مقسمه، وجعلوا يمدحونها عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: ويقولون: ما راينا في السبي مثلها، قال: " فبعث إلى دحية، فاعطاه بها ما اراد، ثم دفعها إلى امي، فقال: اصلحيها "، قال: ثم خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم من خيبر حتى إذا جعلها في ظهره نزل، ثم ضرب عليها القبة، فلما اصبح، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من كان عنده فضل زاد، فلياتنا به "، قال: فجعل الرجل يجيء بفضل التمر وفضل السويق، حتى جعلوا من ذلك سوادا حيسا، فجعلوا ياكلون من ذلك الحيس ويشربون من حياض إلى جنبهم من ماء السماء، قال: فقال انس: فكانت تلك وليمة رسول الله صلى الله عليه وسلم، عليها قال: فانطلقنا حتى إذا راينا جدر المدينة هششنا إليها، فرفعنا مطينا ورفع رسول الله صلى الله عليه وسلم مطيته، قال: صفية خلفه، قد اردفها رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فعثرت مطية رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصرع وصرعت، قال: فليس احد من الناس ينظر إليه ولا إليها، حتى قام رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسترها، قال: فاتيناه، فقال: " لم نضر "، قال: فدخلنا المدينة، فخرج جواري نسائه يتراءينها، ويشمتن بصرعتها.وحدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حدثنا شَبَابَةُ ، حدثنا سُلَيْمَانُ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ . ح وحَدَّثَنِي بِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هَاشِمِ بْنِ حَيَّانَ ، وَاللَّفْظُ لَهُ: حدثنا بَهْزٌ ، حدثنا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ ثَابِتٍ ، حدثنا أَنَسٌ ، قَالَ: صَارَتْ صَفِيَّةُ لِدِحْيَةَ فِي مَقْسَمِهِ، وَجَعَلُوا يَمْدَحُونَهَا عَنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم، قَالَ: وَيَقُولُونَ: مَا رَأَيْنَا فِي السَّبْيِ مِثْلَهَا، قَالَ: " فَبَعَثَ إِلَى دِحْيَةَ، فَأَعْطَاهُ بِهَا مَا أَرَادَ، ثُمَّ دَفَعَهَا إِلَى أُمِّي، فقَالَ: أَصْلِحِيهَا "، قَالَ: ثُمَّ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خَيْبَرَ حَتَّى إِذَا جَعَلَهَا فِي ظَهْرِهِ نَزَلَ، ثُمَّ ضَرَبَ عَلَيْهَا الْقُبَّةَ، فَلَمَّا أَصْبَح، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ كَانَ عَنْدَهُ فَضْلُ زَادٍ، فَلْيَأْتِنَا بِهِ "، قَالَ: فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ بِفَضْلِ التَّمْرِ وَفَضْلِ السَّوِيقِ، حَتَّى جَعَلُوا مِنْ ذَلِكَ سَوَادًا حَيْسًا، فَجَعَلُوا يَأْكُلُونَ مِنْ ذَلِكَ الْحَيْسِ وَيَشْرَبُونَ مِنْ حِيَاضٍ إِلَى جَنْبِهِمْ مِنْ مَاءِ السَّمَاءِ، قَالَ: فقَالَ أَنَسٌ: فَكَانَتْ تِلْكَ وَلِيمَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَلَيْهَا قَالَ: فَانْطَلَقْنَا حَتَّى إِذَا رَأَيْنَا جُدُرَ الْمَدِينَةِ هَشِشْنَا إِلَيْهَا، فَرَفَعَنْا مَطِيَّنَا وَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَطِيَّتَهُ، قَالَ: صَفِيَّةُ خَلْفَهُ، قَدْ أَرْدَفَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم، قَالَ: فَعَثَرَتْ مَطِيَّةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصُرِعَ وَصُرِعَتْ، قَالَ: فَلَيْسَ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ يَنْظُرُ إِلَيْهِ وَلَا إِلَيْهَا، حَتَّى قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَتَرَهَا، قَالَ: فَأَتَيْنَاهُ، فقَالَ: " لَمْ نُضَرَّ "، قَالَ: فَدَخَلْنَا الْمَدِينَةَ، فَخَرَجَ جَوَارِي نِسَائِهِ يَتَرَاءَيْنَهَا، وَيَشْمَتْنَ بِصَرْعَتِهَا.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ انہوں نے کہا کہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا، سیدنا دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئیں تھیں اور لوگ ان کی تعریف کرنے لگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے اور کہنے لگے کہ ہم نے قیدیوں میں اس کے برابر کوئی عورت نہیں دیکھی۔ سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دحیہ رضی اللہ عنہ کے پاس کہلا بھیجا اور ان کے عوض جو انہوں نے مانگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دے دیا، اور صفیہ کو ان سے لے کر میری ماں کو دیا (یعنی ام سلیم رضی اللہ عنہا کو) اور فرمایا: کہ ”ان کا سنگار کرو۔“ کہا کہ پھر نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر سے یہاں تک کہ جب خیبر کو پس پشت کر دیا اترے اور ان کے لیے ایک خیمہ لگا دیا۔ پھر جب صبح ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس توشہ حاجت سے زیادہ ہو ہمارے پاس لائے۔“ سو کوئی تمر یعنی کھجور جو زیادہ تھی لانے لگا، کوئی ستو۔ یہاں تک کہ ایک ڈھیر ہو گیا ملیدہ کا اور سب لوگ اس میں سے کھانے لگے اور پانی پینے لگے اپنے بازو پر سے جو حوض تھے آسمان کے پانی کے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ ولیمہ تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صفیہ رضی اللہ عنہا کے اوپر۔ کہا کہ پھر چلے ہم یہاں تک کہ جب دیکھیں ہم نے دیواریں مدینہ کی اور مشتاق ہوئے ہم اس کے اور ہم نے اپنی سواریاں دوڑائیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی سواری دوڑائی اور صفیہ رضی اللہ عنہا ان کے پیچھے تھیں۔ سو ٹھوکر کھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی نے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم گر پڑے اور وہ بھی گر پڑیں اور کوئی آدمی اس وقت نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھتا تھا، نہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کی طرف، یہاں تک کہ کھڑے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کو ڈھانپ لیا۔ اور پھر ہم لوگ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم کو کچھ صدمہ نہیں پہنچا۔“ پھر داخل ہوئے ہم مدینہ میں اور چھوکریاں (یعنی باندیاں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیوں کی نکلیں اور صفیہ رضی اللہ عنہا کو دیکھنے لگیں اور طعنہ دینے لگیں اس کے گرنے کا۔