سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں وقوف کیا اور فرمایا: کہ یہ وقوف کی جگہ ہے اور پورا عرفہ ہی وقوف کی جگہ ہے، پھر غروب شمس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے اپنے پیچھے سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کو بٹھا لیا اور اپنی سواری کی رفتار تیز کر دی، لوگ دائیں بائیں بھاگنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے، لوگو! سکون اور اطمینان اختیار کرو۔ پھر آپ مزدلفہ پہنچے تو مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھیں اور رات بھر وہیں رہے صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبل قزح پر تشریف لائے وہاں وقوف کیا اور فرمایا کہ یہ وقوف کی جگہ ہے اور پورا مزدلفہ ہی وقوف کی جگہ ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے ہوئے وادی محسر پہنچے، وہاں ایک لمحے کے لئے رکے پھر اپنی اونٹنی کو سرپٹ دوڑا دیا تاآنکہ اس وادی سے نکل گئے (کیونکہ یہ عذاب کی جگہ تھی)۔ پھر سواری روک کر اپنے پیچھے سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کو بٹھا لیا اور چلتے چلتے منیٰ پہنچ کر جمرہ عقبہ آئے اور اسے کنکریاں ماریں پھر قربان گاہ تشریف لائے اور فرمایا کہ یہ قربان گاہ ہے اور منیٰ پورا ہی قربان گاہ ہے، اتنی دیر میں بنوخثعم کی ایک نوجوان عورت کوئی مسئلہ پوچھنے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میرے والد بہت بوڑھے ہیں وہ تقریباً ختم ہو چکے ہیں لیکن ان پر حج بھی فرض ہے کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! تم اپنے والد کی طرف سے حج کر سکتی ہو“، یہ کہتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کی گردن موڑ دی (کیونکہ وہ اس عورت کو دیکھنے لگے تھے)۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر پوچھا: یا رسول اللہ! آپ نے اس کی گردن کس حکمت کی بنا پر موڑی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے دیکھا کہ دونوں نوجوان ہیں، مجھے ان کے بارے شیطان سے امن نہ ہوا اس لئے دونوں کا رخ پھیر دیا“، بہرحال تھوڑی دیر بعد ایک اور آدمی آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! میں نے قربانی کرنے سے پہلے بال کٹوا لیے، اب کیا کروں؟ فرمایا: ”اب قربانی کر لو، کوئی حرج نہیں“، ایک اور شخص نے آ کر عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے حلق سے پہلے طواف زیارت کر لیا، فرمایا: ”کوئی بات نہیں اب حلق یا قصر کرلو۔“ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم طواف زیارت کے لئے حرم شریف پہنچے، طواف کیا، زمزم پیا اور فرمایا: ”بنو عبدالمطلب! حاجیوں کو پانی پلانے کی ذمہ داری پوری کرتے رہو اگر لوگ تم پر غالب نہ آ جاتے تو میں بھی اس میں سے ڈول کھینچ کھینچ کر نکالتا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 562]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بچے کے پیشاب پر پانی کے چھینٹے مارنا بھی کافی ہے اور بچی کا پیشاب جس چیز پر لگ جائے اسے دھویا جائے گا“، قتادہ کہتے ہیں کہ یہ حکم اس وقت تک ہے جب انہوں نے کھانا پینا شروع نہ کیا ہو اور جب وہ کھانا پینا شروع کر دیں تو دونوں کا پیشاب جس چیز کو لگ جائے اسے دھونا ہی پڑے گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 563]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں وقوف کیا اور فرمایا کہ یہ وقوف کی جگہ ہے اور پورا عرفہ ہی وقوف کی جگہ ہے، پھر غروب شمس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے اپنے پیچھے سیدنا اسامہ کو بٹھا لیا اور اپنی سواری کی رفتار تیز کر دی، لوگ دائیں بائیں بھاگنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے، لوگو! سکون اور اطمینان اختیار کرو، پھر آپ مزدلفہ پہنچے تو مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھیں اور رات بھر وہیں رہے صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبل قزح پر تشریف لائے وہاں وقوف کیا اور فرمایا کہ یہ وقوف کی جگہ ہے اور پورا مزدلفہ ہی وقوف کی جگہ ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے ہوئے وادی محسر پہنچے وہاں ایک لمحے کے لئے رکے پھر اپنی اونٹنی کو سرپٹ دوڑا دیا تاآنکہ اس وادی سے نکل گئے (کیونکہ یہ عذاب کی جگہ تھی)۔ پھر سواری روک کر اپنے پیچھے سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کو بٹھا لیا اور چلتے چلتے منیٰ پہنچ کر جمرہ عقبہ آئے اور اسے کنکریاں ماریں پھر قربان گاہ تشریف لائے اور فرمایا کہ یہ قربان گاہ ہے اور منیٰ پورا ہی قربان گاہ ہے، اتنی دیر میں بنوخثعم کی ایک نوجوان عورت کوئی مسئلہ پوچھنے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میرے والد بہت بوڑھے ہیں، وہ تقریباً ختم ہو چکے ہیں لیکن ان پر حج بھی فرض ہے، کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! تم اپنے والد کی طرف سے حج کرسکتی ہو“، یہ کہتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کی گردن موڑ دی (کیونکہ وہ اس عورت کو دیکھنے لگے تھے)۔ تھوڑی دیر بعد ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ میں نے جمرہ عقبہ کی رمی کر لی، طواف زیارت کر لیا، کپڑے پہن لئے لیکن حلق نہیں کروا سکا اب کیا کروں؟ فرمایا: ”اب حلق کرلو، کوئی حرج نہیں“، ایک اور شخص نے آ کر عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے قربانی سے پہلے جمرہ عقبہ کی رمی کر لی، حلق کروا لیا، کپڑے پہن لئے؟ فرمایا: ”کوئی بات نہیں، اب قربانی کرلو۔“ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم طواف زیارت کے لئے حرم شریف پہنچے، طواف کیا، زمزم پیا اور فرمایا: ”بنو عبدالمطلب! حاجیوں کو پانی پلانے کی ذمہ داری پوری کرتے رہو، اگر لوگ تم پر غالب نہ آ جاتے تو میں بھی اس میں سے ڈول کھینچ کھینچ کر نکالتا۔“ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! آپ نے اپنے بھتیجے کی گردن کس حکمت کی بناء پر موڑی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے دیکھا کہ دونوں نوجوان ہیں، مجھے ان کے بارے شیطان سے امن نہ ہوا اس لئے دونوں کا رخ پھیر دیا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 564]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مریض کی عیادت کے لئے تشریف لے جاتے تو یہ دعا کرتے کہ اے لوگوں کے رب! اس پریشانی اور تکلیف کو دور فرما، اسے شفاء عطاء فرما کیونکہ تو ہی شفاء دینے والا ہے، تیرے علاوہ کہیں سے شفاء نہیں مل سکتی، ایسی شفاء جو بیماری کا نام ونشان بھی نہ چھوڑے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 565]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، لضعف الحارث الأعور
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر میں مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر کسی کو امیر بناتا تو ابن ام عبد یعنی سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو بناتا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 566]
عمرو بن سلیم کی والدہ کہتی ہیں کہ ہم میدان منیٰ میں تھے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ یہ دن کھانے پینے کے ہیں اس لئے ان دنوں میں کوئی شخص روزہ نہ رکھے اور اپنی سواری پر جو کہ اونٹ تھا بیٹھ کر لوگوں میں یہ اعلان کرتے رہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 567]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، والظاهر أنه سقط فى هذا الموضع عبدالله بن أبى سلمة بين يزيد بن عبدالله وبين عمرو بن سليم
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ جو شخص جھوٹا خواب بیان کرتا ہے اسے قیامت کے دن جَو کے دانے میں گرہ لگانے کا مکلف بنایا جائے گا (حکم دیا جائے گا)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 568]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالأعلى
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی دو سنتیں اقامت کے قریب پڑھتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 569]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، لضعف الحارث، وهو ابن عبدالله الأعور
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سحری کے وقت ایک مخصوص گھڑی ہوتی تھی جس میں، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے ہوتے تو سبحان اللہ کہہ دیتے یہ اس بات کی علامت ہوتی کہ مجھے اندر آنے کی اجازت ہے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت نماز نہ پڑھ رہے ہوتے تو یوں ہی اجازت دے دیتے (اور سبحان اللہ کہنے کی ضرورت نہ رہتی)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 570]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں تشریف لائے، میں اور فاطمہ رضی اللہ عنہا دونوں سو رہے تھے، صبح کا وقت تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم دروازے پر کھڑے ہو کر کہنے لگے کہ تم لوگ نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ میں نے جواب دیتے ہوئے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہماری روحیں اللہ کے قبضے میں ہیں جب وہ ہمیں اٹھانا چاہتا ہے اٹھا دیتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر مجھے کوئی جواب نہ دیا اور واپس چلے گئے، میں نے کان لگا کر سنا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ران پر اپنا ہاتھ مارتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ انسان بہت زیادہ جھگڑالو واقع ہوا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 571]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی زوجہ محترمہ ایک ہی برتن سے غسل کر لیا کرتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 572]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف الحارث
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن بھیجا، میں ایک ایسی قوم کے پاس پہنچا جنہوں نے شیر کو شکار کرنے کے لئے ایک گڑھا کھود کر اسے ڈھانپ رکھا تھا (شیر آیا اور اس میں گر پڑا) ابھی وہ یہ کام کر رہے تھے کہ اچانک ایک آدمی اس گڑھے میں گر پڑا، اس کے پیچھے دوسرا، تیسرا حتی کہ چار آدمی گر پڑے، اس گڑھے میں موجود شیر نے ان سب کو زخمی کر دیا، یہ دیکھ کر ایک آدمی نے جلدی سے نیزہ پکڑا اور شیر کو دے مارا، شیر ہلاک ہو گیا اور وہ چاروں آدمی بھی اپنے اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دنیا سے چل بسے۔ مقتولین کے اولیاء اسلحہ نکال کر جنگ کے لئے ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ گئے، اتنی دیر میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ آ پہنچے اور کہنے لگے کہ ابھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم حیات ہیں تم ان کی حیات میں باہمی قتل و قتال کرو گے؟ میں تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہوں، اگر تم اس پر راضی ہو گئے تو سمجھو کہ فیصلہ ہو گیا اور اگر تم سمجھتے ہو کہ اس سے تمہاری تشفی نہیں ہوئی تو تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر اس کا فیصلہ کروا لینا، وہ تمہارے درمیان اس کا فیصلہ کر دیں گے، اس کے بعد جو حد سے تجاوز کرے گا وہ حق پر نہیں ہو گا۔ فیصلہ یہ ہے کہ ان قبیلوں کے لوگوں نے اس گڑھے کی کھدائی میں حصہ لیا ہے ان سے چوتھائی دیت، تہائی دیت، نصف دیت اور کامل دیت لے کر جمع کرو اور جو شخص پہلے گر کر گڑھے میں شیر کے ہاتھوں زخمی ہوا، اس کے ورثاء کو چوتھائی دیت دے دو، دوسرے کو تہائی اور تیسرے کو نصف دیت دے دو، ان لوگوں نے یہ فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا (کیونکہ ان کی سمجھ میں ہی نہیں آیا) چنانچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم مقام ابراہیم کے پاس تھے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا قصہ سنایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہوں“، یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم گوٹ مار کر بیٹھ گئے، اتنی دیر میں ایک آدمی کہنے لگا، یا رسول اللہ! سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ہمارے درمیان یہ فیصلہ فرمایا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کو نافذ کر دیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 573]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف حنش، وهو ابن المعتمر
اس دوسری روایت کے مطابق چوتھے آدمی کے لئے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پوری دیت کا فیصلہ کیا تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 574]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت ہمارے یہاں تشریف لائے اور کہنے لگے کہ تم لوگ نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ میں نے جواب دیتے ہوئے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہماری روحیں اللہ کے قبضے میں ہیں، جب وہ ہمیں اٹھانا چاہتا ہے اٹھا دیتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر مجھے کوئی جواب نہ دیا اور واپس چلے گئے، میں نے کان لگا کر سنا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ران پر اپنا ہاتھ مارتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ انسان بہت زیادہ جھگڑالو واقع ہوا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 575]
سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ حضرات حسنین رضی اللہ عنہما کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: ”جو شخص مجھ سے محبت کرے، ان دونوں سے محبت کرے اور ان کے ماں باپ سے محبت کرے، وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے درجے میں ہو گا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 576]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”پھوپھی اور خالہ کی موجودگی میں اس کی بھتیجی یا بھانجی سے نکاح نہ کیا جائے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 577]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف أبن لهيعة
عبداللہ بن زریر کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے ہمارے سامنے خزیرہ (سالن مع گوشت و روٹی) پیش کیا، میں نے بےتکلفی سے عرض کیا کہ اللہ آپ کا بھلا کرے، اگر آپ یہ بطخ ہمارے سامنے پیش کرتے تو کیا ہو جاتا، اب تو اللہ نے مال غنیمت کی بھی فراوانی فرما رکھی ہے؟ فرمایا: ابن زریر! میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ خلیفہ کے لئے اللہ کے مال میں سے صرف دو پیالے ہی حلال ہیں ایک وہ پیالہ جس میں سے وہ خود اور اس کے اہل خانہ کھا سکیں اور دوسرا پیالہ وہ جسے وہ لوگوں کے سامنے پیش کر دے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 578]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لعاب دہن میری آنکھوں میں لگایا ہے، مجھے کبھی آشوب چشم کی بیماری نہیں ہوئی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 579]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے ابتدائی، درمیانے اور آخری ہر حصے میں وتر پڑھایا کرتے تھے، تاہم آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصے میں اس کی پابندی فرمانے لگے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 580]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جن لوگوں کو کوڑھ کی بیماری ہو، انہیں مت دیکھتے رہا کرو اور جب ان سے بات کیا کرو تو اپنے اور ان کے درمیان ایک نیزے کے برابر فاصلہ رکھا کرو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 581]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”علی! وضو! اچھی طرح کیا کرو اگرچہ تمہیں شاق ہی کیوں نہ گزرے (مثلاً سردی کے موسم میں) صدقہ مت کھایا کرو گدھوں کو گھوڑوں پر مت کدواؤ اور نجومیوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا مت رکھو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 582]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف هارون بن مسلم، وعلي بن الحسين والد محمد بن على الباقر لم يدرك جده على ابن أبى طالب
نزل بن سبرہ کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک کوزے میں پانی لایا گیا وہ مسجد کے صحن میں تھے، انہوں نے چلو بھر کر پانی لیا اور اس سے کلی کی، ناک میں پانی ڈالا، چہرے کا مسح کیا، بازوؤں اور سر پر پانی کا گیلا ہاتھ پھیرا، پھر کھڑے کھڑے وہ پانی پی لیا اور فرمایا کہ جو آدمی بےوضو نہ ہو بلکہ پہلے سے اس کا وضو موجود ہو، یہ اس شخص کا وضو ہے اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 583]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص جان بوجھ کر میری طرف کسی جھوٹی بات کی نسبت کرے، اسے جہنم میں اپنا ٹھکانہ تیار کر لینا چاہیے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 584]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، حبيب مدلس، وقد عنعن، والحديث متواتر، خ: 106، ومسلم فى المقدمة : 1
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت آخری کلام یہ تھا کہ نماز کی پابندی کرنا اور اپنے غلاموں باندیوں کے بارے اللہ سے ڈرتے رہنا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 585]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ نے مجھے شہادت والی یا اس کے ساتھ والی انگلی میں انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا: ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 586]
ابوعبید کہتے ہیں کہ . . . . ایک مرتبہ عید کے دن میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے خطبہ سے پہلے نماز پڑھائی، اس میں اذان یا اقامت کچھ بھی نہ کہی اور فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت اپنے پاس رکھنے سے منع فرماتے ہوئے سنا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 587]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کو دنیا اور آخرت میں سے کسی ایک کے انتخاب کا اختیار دیا تھا لیکن اسے طلاق شمار نہیں کیا تھا اور نہ ہی انہیں طلاق کا اختیار دیا تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 588]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف محمد بن عبيدالله بن أبى رافع
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے وہ شہید ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 590]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ان مشرکین کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 591]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کے زمانے میں ہی نکاح متعہ اور پالتو گدھوں کے گوشت کی ممانعت فرما دی تھی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 592]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ قربانی کے موقع پر آپ کے ساتھ موجود رہوں اور یہ کہ ان اونٹوں کی کھالیں اور جھولیں بھی تقسیم کر دوں اور گوشت بھی تقسیم کر دوں اور یہ بھی حکم دیا کہ قصاب کو ان میں سے کوئی چیز مزدوری کے طور پر نہ دوں اور فرمایا کہ اسے ہم اپنے پاس سے مزدوری دیتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 593]
مختلف راوی بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر الحجاج بنا کر بھیجا تھا تو آپ کو کیا پیغام دے کر بھیجا گیا تھا؟ فرمایا کہ مجھے چار پیغامات دے کر بھیجا گیا تھا، ایک تو یہ کہ جنت میں مسلمانوں کے علاوہ کوئی شخص داخل نہ ہو سکے گا، دوسرا یہ کہ آئندہ بیت اللہ کا طواف برہنہ ہو کر کوئی نہ کر سکے گا، تیسرا یہ کہ جس شخص کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی معاہدہ ہو، وہ مدت ختم ہونے تک برقرار رہے گا اور اس سال کے بعد مسلمانوں کے ساتھ مشرک حج نہ کرسکیں گے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 594]
حكم دارالسلام: حديث صحيح بشواهده، وهذا إسناد فيه عنعنة أبى إسحاق
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ میت کے قرض کی ادائیگی اجراء نفاذ وصیت سے پہلے ہو گی جبکہ قرآن میں وصیت کا ذکر قرض سے پہلے ہے اور یہ کہ اخیافی بھائی تو وارث ہوں گے لیکن علاتی بھائی وارث نہ ہوں گے۔ (فائدہ: ماں شریک بھائی کو اخیافی اور باپ شریک بھائی کو علاتی کہتے ہیں۔)[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 595]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، لضعف الحارث وهو الأعور
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ میں تمہیں دیتا رہوں اور اہل صفہ کو چھوڑ دوں جن کے پیٹ بھوک کی وجہ سے اندر کو دھنس چکے ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 596]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انہوں نے ”مسعی“ میں صفا و مروہ کے درمیان اس حال میں سعی کرتے ہوئے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اوپر کی چادر جسم سے ہٹ کر گھٹنوں تک پہنچ گئی تھی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 597]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے ہوتے تو سبحان اللہ کہہ دیتے یہ اس بات کی علامت ہوتی کہ مجھے اندر آنے کی اجازت ہے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت نماز نہ پڑھ رہے ہوتے تو یوں ہی اجازت دے دیتے (اور سبحان اللہ کہنے کی ضرورت نہ رہتی)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 598]
سیدنا ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ سے قرآن کے علاوہ بھی آپ کو کچھ ملا ہے؟ فرمایا: نہیں، اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پھاڑا اور جانداروں کو تندرستی بخشی، سوائے اس سمجھ اور فہم و فراست کے جو اللہ تعالیٰ کسی شخص کو فہم قرآن کے حوالے سے عطاء فرما دے یا وہ چیز جو اس صحیفہ میں ہے اور کچھ نہیں ملا، میں نے پوچھا کہ اس صحیفے میں کیا ہے؟ فرمایا: دیت کے احکام، قیدیوں کو چھوڑنے کے مسائل اور یہ کہ کسی مسلمان کو کسی کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 599]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ اور سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ کو ایک جگہ بھیجتے ہوئے فرمایا کہ تم لوگ روانہ ہو جاؤ، جب تم روضہ خاخ میں پہنچو گے تو وہاں تمہیں ایک عورت ملے گی جس کے پاس ایک خط ہو گا تم اس سے وہ خط لے کر واپس آ جانا، چنانچہ ہم لوگ روانہ ہو گئے، ہمارے گھوڑے ہمارے ہاتھوں سے نکلے جاتے تھے، یہاں تک کہ ہم روضہ خاخ جا پہنچے، وہاں ہمیں واقعۃ ایک عورت ملی، ہم نے اس سے کہا کہ تیرے پاس جو خط ہے وہ نکال دے، اس نے کہا کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہم نے اس سے کہا کہ یا تو، تو خود ہی خط نکال دے ورنہ ہم تجھے برہنہ کر دیں گے۔ مجبور ہو کر اس نے اپنے بالوں کی چوٹی میں سے ایک خط نکال کر ہمارے حوالے کر دیا، ہم وہ خط لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس خط کو جب کھول کر دیکھا گیا تو پتہ چلا کہ وہ حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے کچھ مشرکین مکہ کے نام تھا جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فیصلے کی خبر دی گئی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ حاطب! یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے معاملے میں جلدی نہ کیجئے گا، میں قریش سے تعلق نہیں رکھتا، البتہ ان میں شامل ہو گیا ہوں، آپ کے ساتھ جتنے بھی مہاجرین ہیں، ان کے مکہ مکرمہ میں رشتہ دار موجود ہیں جن سے وہ اپنے اہل خانہ کی حفاظت کروا لیتے ہیں، میں نے سوچا کہ میرا وہاں کوئی نسبی رشتہ دار تو موجود نہیں ہے، اس لئے ان پر ایک احسان کر دوں تاکہ وہ اس کے عوض میرے رشتہ داروں کی حفاظت کریں، میں نے یہ کام کافر ہو کر، یا مرتد ہو کر، یا اسلام کے بعد کفر کو پسند کرتے ہوئے نہیں کیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہوں نے تم سے سچ بیان کیا“، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے شدت جذبات سے مغلوب ہو کر فرمایا: مجھے اجازت دیجئے کہ اس منافق کی گردن اڑا دوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ غزوہ بدر میں شریک ہو چکے ہیں اور تمہیں کیا خبر کہ اللہ نے آسمان سے اہل بدر کو جھانک کر دیکھا اور فرمایا: تم جو کچھ کرتے رہو میں تمہیں معاف کرچکا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 600]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چیزوں سے منع فرمایا ہے، اب مجھے معلوم نہیں کہ ان کی ممانعت خصوصیت کے ساتھ میرے لئے ہے یا سب کے لئے عام ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ریشم اور سرخ زین پوش سے منع فرمایا ہے اور رکوع میں قرآن پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 601]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناده ضعيف، عطاء بن السائب قد اختلط هو منقطع، فإن على بن الحسين والد أبى جعفر الباقر لم يدرك جده على بن أبى طالب
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھا کہ سامنے سے حضرات شیخین رضی اللہ عنہما آتے ہوئے دکھائی دیئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علی! یہ دونوں حضرات انبیاء و مرسلین کے علاوہ جنت کے تمام بوڑھوں اور جوانوں کے سردار ہیں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 602]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کے لئے پیغام نکاح بھیجنے کا ارادہ کیا تو دل میں سوچا کہ میرے پاس تو کچھ ہے نہیں، پھر یہ کیسے ہو گا؟ پھر مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مہربانی اور شفقت یاد آئی چنانچہ میں نے پیغام نکاح بھیج دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے پاس کچھ ہے بھی؟ میں نے عرض کیا: نہیں! فرمایا: ”تمہاری وہ حطمیہ کی زرہ کیا ہوئی جو میں نے تمہیں فلاں دن دی تھی؟“ عرض کیا کہ وہ تو میرے پاس ہے؟ فرمایا: ”پھر وہی دے دو“، چنانچہ میں نے وہ لا کر انہی کو دے دی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 603]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة الرجل الذى سمع عليا
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں خادم کی درخواست لے کر آئیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتاؤں؟ ٣٣ مرتبہ سبحان اللہ، ٣٣ مرتبہ اللہ اکبر اور ٣٣ مرتبہ الحمدللہ کہہ لیا کرو، ان میں سے کوئی ایک ٣٤ مرتبہ کہہ لیا کرو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 604]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس بندہ مومن کو پسند کرتا ہے جو آزمائش میں مبتلا ہونے کے بعد توبہ کر لے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 605]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے بکثرت مذی آتی تھی، چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی میرے نکاح میں تھیں اس لئے مجھے خود یہ مسئلہ پوچھتے ہوئے شرم آتی تھی، میں نے سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھیں، چنانچہ انہوں نے یہ مسئلہ پوچھا: تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا شخص اپنی شرمگاہ کو دھو کر وضو کر لیا کرے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 606]
سیدنا ابوہریرہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر مجھے اپنی امت پر مشقت کا خوف نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 607]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، محمد بن إسحاق مدلس، وقد عنعن، وسيأتي برقم: 968، ..... عن ابن إسحاق حدثني عمي عبدالرحمن بن يسار
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں روزانہ صبح و شام دو مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا اگر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں داخل ہونا چاہتا اور وہ نماز پڑھ رہے ہوتے تو کھانس دیا کرتے تھے، ایک مرتبہ میں رات کے وقت حاضر ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں پتہ ہے آج رات فرشتے نے کیا کیا؟ میں نماز پڑھ رہا تھا کہ مجھے کسی کی آہٹ گھر میں محسوس ہوئی، میں گھبرا کر باہر نکلا تو سامنے جبرئیل علیہ السلام کھڑے تھے وہ کہنے لگے کہ میری ساری رات آپ کے انتظار میں گزر گئی، آپ کے کمرے میں کہیں سے کتا آ گیا ہے اس لئے میں اندر نہیں آ سکتا، کیونکہ ہم لوگ اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں کوئی کتا، کوئی جنبی یا کوئی تصویر اور مورتی ہو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 608]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے جس کا کان آگے یا پیچھے سے کٹا ہوا ہو یا اس میں سوراخ ہو یا وہ پھٹ گیا ہو یا جسم کے دیگر اعضاء کٹے ہوئے ہوں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 609]
حكم دارالسلام: حسن، وهذا إسناد ضعيف، أبوبكر بن عياش سماعه من أبى إسحاق ليس بذاك القوي، وأبو إسحاق لم يسمع هذا الحديث من شريح بن النعمان
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عصر کی نماز کے بعد کوئی نماز نہ پڑھی جائے، ہاں! اگر سورج صاف ستھرا دکھائی دے رہا ہو تو جائز ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 610]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے رکوع کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت، سونے کی انگوٹھی، ریشی کپڑے اور عصفر سے رنگے ہوئے کپڑے پہننے سے منع فرمایا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 611]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وإسناده حسن، م: 480، 2078
عبدالرحمن بن ابی لیلی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ عنہ، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے آئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: عیادت کی نیت سے آئے ہو یا اس کے بیمار ہونے پر خوشی کا اظہار کرنے کے لئے آئے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں تو عیادت کی نیت سے آیا ہوں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر واقعی عیادت کی نیت سے آئے ہو تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب کوئی شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو وہ جنت کے باغات میں چلتا ہے یہاں تک کہ بیٹھ جائے، اس کے بیٹھنے پر اللہ کی رحمت اسے ڈھانپ لیتی ہے، پھر اگر صبح کو جائے تو شام تک اور شام کو جائے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اس کے لئے دعاء مغفرت کرتے رہتے ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 612]
حكم دارالسلام: صحيح موقوفاً، واختلف فى وقفه ورفعه ، والوقف أصح
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں وقوف کیا اور فرمایا کہ یہ وقوف کی جگہ ہے اور پورا عرفہ ہی وقوف کی جگہ ہے، پھر غروب شمس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے اپنے پیچھے سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کو بٹھا لیا اور اپنی سواری کی رفتار تیز کر دی، لوگ دائیں بائیں بھاگنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے لوگو! سکون اور اطمینان اختیار کرو۔ پھر آپ مزدلفہ پہنچے تو مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھیں اور رات بھر وہیں رہے، صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبل قزح پر تشریف لائے، وہاں وقوف کیا اور فرمایا کہ یہ وقوف کی جگہ ہے اور پورا مزدلفہ ہی وقوف کی جگہ ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے ہوئے وادی محسر پہنچے، وہاں ایک لمحے کے لئے رکے پھر اپنی اونٹنی کو سرپٹ دوڑا دیا تاآنکہ اس وادی سے نکل گئے (کیونکہ یہ عذاب کی جگہ تھی)۔ پھر سواری روک کر اپنے پیچھے سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کو بٹھا لیا اور چلتے چلتے منیٰ پہنچ کر جمرہ عقبہ آئے اور اسے کنکریاں ماریں پھر قربان گاہ تشریف لائے اور فرمایا کہ یہ قربان گاہ ہے اور منیٰ پورا ہی قربان گاہ ہے پھر راوی نے مکمل حدیث ذکر کی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 613]
حكم دارالسلام: حديث حسن، سويد بن سعيد و مسلم بن خالد قد توبعا
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عرب سے نفرت کرنے والا کوئی منافق ہی ہو سکتا ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 614]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف إسماعيل بن عياش وزيد بن جبيرة
ابراہیم تیمی اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ ہمارے پاس کتاب اللہ اور اس صحیفے جس میں اونٹوں کی عمریں اور زخموں کی کچھ تفصیلات ہیں کے علاوہ بھی کچھ اور ہے جو ہم پڑھتے ہیں تو وہ جھوٹا ہے، اس صحیفے میں یہ بھی لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عیر سے ثور تک مدینہ منورہ حرم ہے، جو شخص اس میں کوئی بدعت ایجاد کرے یا کسی بدعتی کو ٹھکانہ دے، اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، قیامت کے دن اللہ اس سے کوئی فرض یا نفلی عبادت قبول نہ کرے گا۔ اور جو شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنی نسبت کرے (کسی دوسرے شخص کو اپنا باپ کہنا شروع کر دے) یا کوئی غلام اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کو اپنا آقا کہنا شروع کر دے، اس پر بھی اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، قیامت کے دن اللہ اس کا بھی کوئی فرض یا نفل قبول نہیں کرے گا اور تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ایک جیسی ہے، ایک عام آدمی بھی اگر کسی کو امان دے دے تو اس کا لحاظ کیا جائے گا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 615]
سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا: جب میں تم سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی حدیث بیان کروں تو میرے نزدیک آسمان سے گر جانا ان کی طرف جھوٹی نسبت کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے اور جب کسی اور کے حوالے سے کوئی بات کروں تو میں جنگجو آدمی ہوں اور جنگ تو نام ہی تدابیر اور چال کا ہے۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے قریب ایسی اقوام نکلیں گی جن کی عمر تھوڑی ہو گی اور عقل کے اعتبار سے وہ بیوقوف ہوں گے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں کریں گے، لیکن ایمان ان کے گلے سے آگے نہیں جائے گا، تم انہیں جہاں بھی پاؤ قتل کر دو، کیونکہ ان کا قتل کرنا قیامت کے دن باعث ثواب ہو گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 616]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز مغرب اور عشاء کے درمیان ادا فرمائی۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 617]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے بکثرت مذی آتی تھی، مجھے خود یہ مسئلہ پوچھتے ہوئے شرم آتی تھی، میں نے سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھیں چنانچہ انہوں نے یہ مسئلہ پوچھا: تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا شخص وضو کر لیا کرے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 618]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع یا سجدہ کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت سے منع فرمایا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 619]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 480، 2078، وهذا إسناد ضعيف لضعف الحارث الأعور
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ہمیں چھوڑ کر قریش کے دوسرے خاندانوں کو کیوں پسند کرتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے پاس بھی کچھ ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ تو میرے لئے حلال نہیں ہے کیونکہ وہ میری رضاعی بھتیجی ہے۔ (دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا امیرحمزہ آپس میں رضاعی بھائی بھی تھے اور چچا بھتیجے بھی)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 620]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین کو کرید رہے تھے، تھوڑی دیر بعد سر اٹھا کر فرمایا: ”تم میں سے ہر شخص کا ٹھکانہ خواہ جنت ہو یا جہنم اللہ کے علم میں موجود اور متعین ہے“، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: یا رسول اللہ! پھر ہم عمل کیوں کریں؟ فرمایا: ”عمل کرتے رہو کیونکہ ہر ایک کے لئے وہی اعمال آسان کئے جائیں گے جن کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہو گا“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی کہ جس شخص نے دیا، تقویٰ اختیار کیا اور اچھی بات کی تصدیق کی تو ہم اس کے لئے آسانی کے اسباب پیدا کر دیں گے اور جو شخص بخل اختیار کرے اپنے آپ کو مستغنی ظاہر کرے اور اچھی بات کی تکذیب کرے تو ہم اس کے لئے تنگی کے اسباب پیدا کر دیں گے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 621]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر روانہ فرمایا اور ایک انصاری کو ان کا امیر مقرر کر دیا، جب وہ لوگ روانہ ہوئے تو راستے میں اس انصاری کو کسی بات پر غصہ آ گیا اور اس نے ان سے کہا کہ پھر لکڑیاں اکٹھی کرو، اس کے بعد اس نے آگ منگوا کر لکڑیوں میں آگ لگا دی اور کہا کہ میں تمہیں قسم دیتاہوں کہ اس آگ میں داخل ہو جاؤ۔ لوگ ابھی اس میں چھلانگ لگانے کی سوچ ہی رہے تھے کہ ایک نوجوان کہنے لگا کہ آگ ہی سے تو بھاگ کر تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے وابستہ ہوئے ہو، اس میں جلد بازی مت کرو پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مل کر پوچھ لو، اگر وہ تمہیں اس میں چھلانگ لگانے کا حکم دیں تو ضرور ایسا ہی کرو۔ چنانچہ لوگ رک گئے اور واپس آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا واقعہ بتایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم اس میں ایک مرتبہ داخل ہو جاتے تو پھر کبھی اس میں سے نکل نہ سکتے، یاد رکھو! اطاعت کا تعلق تو صرف نیکی کے کاموں سے ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 622]
واقد بن عمرو کہتے ہیں کہ میں بنوسلمہ کے کسی جنازے میں شریک تھا، میں جنازے کو دیکھ کر کھڑا ہو گیا، تو نافع بن جبیر مجھ سے کہنے لگے کہ بیٹھ جاؤ، میں تمہیں اس سلسلے میں ایک مضبوط بات بتاتا ہوں، مجھے مسعود بن حکم نے بتایا ہے کہ انہوں نے جامع کوفہ کے صحن میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے ہمیں جنازہ دیکھ کر کھڑے ہونے کا حکم دیتے تھے، پھر بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی بیٹھے رہنے لگے اور ہمیں بھی بیٹھے رہنے کا حکم دیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 623]
ابوساسان رقاشی کہتے ہیں کہ کوفہ سے کچھ لوگ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو ولید کی شراب نوشی کے حوالے سے کچھ خبریں بتائیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھی ان سے اس حوالے پر گفتگو کی تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ آپ کا چچازاد بھائی آپ کے حوالے ہے، آپ اس پر سزا جاری فرمائیے انہوں نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ حسن! کھڑے ہو کر اسے کوڑے مارو، اس نے کہا کہ آپ یہ کام نہیں کر سکتے، کسی اور کو اس کا حکم دیجئے، فرمایا: اصل میں تم کمزور اور عاجز ہو گئے ہو، اس لئے عبداللہ بن جعفر! تم کھڑے ہو کر اس پر سزا جاری کرو، چنانچہ سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کوڑے مارتے جاتے تھے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ گنتے جاتے تھے، جب چالیس کوڑے ہوئے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بس کرو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شرابی کو چالیس کوڑے مارے تھے، سیدنا ابوبکرضی اللہ عنہ نے بھی چالیس کوڑے مارے تھے، لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسی مارے تھے اور دونوں ہی سنت ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 624]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ میرے گھر تشریف لائے، انہوں نے وضو کے لئے پانی منگوایا، ہم ان کے پاس ایک پیالہ لائے جس میں ایک مد یا اس کے قریب پانی آتا تھا اور وہ لا کر ان کے سامنے رکھ دیا، اس وقت وہ پیشاب سے فارغ ہو چکے تھے، انہوں نے مجھ سے فرمایا: اے ابن عباس! کیا میں تمہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسا وضو کر کے نہ دکھاؤں؟ میں نے کہا: کیوں نہیں؟ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ چنانچہ ان کے وضو کے لئے برتن رکھا گیا، پہلے انہوں نے دونوں ہاتھ دھوئے، کلی کی، ناک میں پانی ڈال کر اسے صاف کیا، پھر دونوں ہاتھوں میں پانی لے کر چہرے پر مارا اپنے انگوٹھے کا پانی کان کے سامنے والے حصے پر ڈالا تین مرتبہ اسی طرح کیا، پھر دائیں ہاتھ سے ایک چلو بھر کر پانی لیا اور اسے پیشانی پر ڈال لیا، تاکہ وہ چہرے پر بہہ جائے، پھر دائیں ہاتھ کو کہنی سمیت تین مرتبہ دھویا، بائیں ہاتھ کو بھی اسی طرح دھویا، سر اور کانوں کا مسح کیا، پھر دونوں ہاتھوں میں پانی لے کر اپنے قدموں پر ڈالا، جبکہ انہوں نے جوتی پہن رکھی تھی، پھر جوتی کو ہلایا اور دوسرے پاؤں کے ساتھ بھی اسی طرح کیا۔ میں نے عرض کیا کہ جوتی پہنے ہوئے بھی وضو ہو سکتا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں! ہو سکتا ہے۔ یہ سوال جواب تین مرتبہ ہوئے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 625]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک مرتبہ خوارج کا ذکر ہوا تو فرمایا کہ ان میں ایک آدمی ناقص الخلقت بھی ہو گا، اگر تم حد سے آگے نہ بڑھ جاؤ تو میں تم سے وہ وعدہ بیان کرتا جو اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ان کے قتل کرنے والوں سے فرما رکھا ہے، راوی ہے کہتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے واقعی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں کوئی فرمان سنا ہے؟ تو انہوں نے تین مرتبہ فرمایا: ہاں! رب کعبہ کی قسم۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 626]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں قرآن کریم پڑھایا کرتے تھے، بشرطیکہ اختیاری طور پر غسل کے ضرورت مند نہ ہوتے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 627]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا، جب آپ مجھے کہیں بھیجتے ہیں تو میں ڈھلا ہوا سکہ بن کر جایا کروں یا وہاں کے حالات دیکھ کر فیصلہ کیا کروں کیونکہ موقع پر موجود شخص وہ دیکھتا ہے جو غائب نہیں دیکھتا؟ فرمایا: ”بلکہ یہ بات سامنے رکھو کہ موقع پر موجود شخص وہ دیکھتا ہے جو غائب نہیں دیکھتا (اور حالات دیکھ کر فیصلہ کیا کرو)۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 628]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد منقطع، محمد بن عمر بن على بن أبى طالب - لم يدرك جده
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میری طرف جھوٹی بات کی نسبت نہ کرو، کیونکہ جو شخص میری طرف کسی بات کی جھوٹی نسبت کرے گا، وہ جہنم میں داخل ہو گا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 629]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، والحديث متواتر ، خ: 106، ومسلم فى المقدمة : 1
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میری طرف جھوٹی بات کی نسبت نہ کرو، کیونکہ جو شخص میری طرف کسی بات کی جھوٹی نسبت کرے گا، وہ جہنم میں داخل ہو گا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 630]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ پہلے ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جنازے کے احترام میں کھڑے ہوتے ہوئے دیکھا تو ہم بھی کھڑے ہونے لگے، بعد میں بیٹھے ہوئے دیکھا تو ہم بھی بیٹھنے لگے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 631]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اس گھر میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے جس میں کوئی جنبی ہو یا تصویر یا کتا ہو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 632]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، دون ذكر الجنب، وهذا إسناد ضعيف لعلل
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ یا کان کٹے ہوئے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 633]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دباء اور مزفت سے منع فرمایا ہے۔ (جن کی وضاحت پیچھے گزر چکی)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 634]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دس قسم کے لوگوں پر لعنت فرمائی ہے، سود خور، سود کھلانے والا، سودی معاملات لکھنے والا، سودی معاملات کے گواہ، حلالہ کرنے والا، حلالہ کروانے والا، زکوٰۃ روکنے والا، جسم گودنے والی اور جسم گدوانے والی عورتوں پر۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 635]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف الحارث الأعور
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے یمن کی طرف بھیجا تو میں اس وقت نوخیز تھا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ مجھے ایک ایسی قوم کی طرف بھیج رہے ہیں جہاں لوگوں میں آپس میں اختلافات اور جھگڑے بھی ہوں گے اور مجھے فیصلہ کرنے کا قطعاً کوئی علم نہیں ہے؟ فرمایا: ”اللہ تمہاری زبان کو صحیح راستے پر چلائے گا اور تمہارے دل کو مضبوط رکھے گا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد کبھی بھی دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرنے میں مجھے کوئی شک نہیں ہوا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 636]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، أبو البختري لم يسمع من على شيئا
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا میرے پاس سے گزر ہوا، میں اس وقت بیمار تھا اور یہ دعا کر رہا تھا کہ اے اللہ! اگر میری موت کا وقت قریب آ گیا ہے تو مجھے اس بیماری سے راحت عطا فرما اور مجھے اپنے پاس بلا لے، اگر اس میں دیر ہو تو مجھے اٹھا لے اور اگر یہ کوئی آزمائش ہو تو مجھے صبر عطاء فرما، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ت”م کیا کہہ رہے ہو؟“ میں نے اپنی بات پھر دہرا دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پاؤں سے ٹھوکر ماری یعنی غصہ کا اظہار کیا اور فرمایا: ”کیا کہہ رہے ہو؟“ میں نے پھر اپنی بات دہرا دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: ”اے اللہ! اسے عافیت اور شفاء عطاء فرما“، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد مجھے وہ تکلیف کبھی نہیں ہوئی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 637]
عبداللہ بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں ایک آدمی کے ساتھ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، وہ فرمانے لگے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قضاء حاجت کے بعد وضو کئے بغیر باہر تشریف لا کر قرآن کریم کی تلاوت شروع کر دیتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ گوشت بھی تناول فرما لیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنابت کے علاوہ کوئی چیز قرآن سے نہیں روکتی تھی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 639]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے بہترین عورت سیدہ مریم بنت عمران علیہا السلام ہیں اور بہترین عورت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 640]
زاذان کہتے ہیں کہ میں نے صحن مسجد میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو لوگوں کو اللہ کی قسم دے کر یہ پوچھتے ہوئے سنا کہ غدیر خم کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کون حاضر تھا اور کس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سنا تھا؟ اس پر تیرہ آدمی کھڑے ہو گئے اور ان سب نے گواہی دی کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس کا میں مولیٰ ہوں علی بھی اس کے مولیٰ ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 641]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، ومتنه متواتر، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أبى عبدالرحيم الكندي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے یہ بات ذکر فرمائی تھی کہ مجھ سے بغض کوئی منافق ہی کر سکتا ہے اور مجھ سے محبت کوئی مومن ہی کر سکتا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 642]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے جہیز میں روئیں دار کپڑے، ایک مشکیزہ اور چمڑے کا تکیہ دیا تھا جس میں اذخر نامی گھاس بھری ہوئی تھی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 643]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوا، ہم خانہ کعبہ پہنچے تو نبی صلی اللہ علیہ نے مجھ سے بیٹھنے کے لئے فرمایا اور خود میرے کندھوں پر چڑھ گئے، میں نے کھڑا ہونا چاہا لیکن نہ ہو سکا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھ میں کمزوری کے آثار دیکھے تو نیچے اتر آئے، خود بیٹھ گئے اور مجھ سے فرمایا: میرے کندھوں پر چڑھ جاؤ، چنانچہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں پر سوار ہو گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے لے کر کھڑے ہو گئے۔ اس وقت مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اگر میں چاہوں تو افق کو چھو لوں، بہرحال! میں بیت اللہ پر چڑھ گیا، وہاں پیتل تانبے کی ایک مورتی نظر آئی، میں اسے دائیں بائیں اور آگے پیچھے سے دھکیلنے لگا، جب میں اس پر قادر ہو گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”اسے نیچے پھینک دو“، چنانچہ میں نے اسے نیچے پٹخ دیا اور وہ شیشے کی طرح چکنا چور ہو گئی، پھر میں نیچے اتر آیا۔ پھر میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہوئے تیزی سے روانہ ہو گئے یہاں تک کہ گھروں میں جا کر چھپ گئے، ہمیں یہ اندیشہ تھا کہ کہیں کوئی آدمی نہ مل جائے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 644]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، لجهالة أبى مريم الثقفي و ضعف نعيم ابن حكيم
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مہدی کا تعلق ہم اہل بیت سے ہو گا، اللہ اسے ایک ہی رات میں سنوار دے گا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 645]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، إبراهيم ابن محمد ابن الحنفية لم يوثقة غير العجلي وابن حبان، وياسين العجلي فيه نظر
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا، سیدنا عباس اور سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے، سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کہنے لگے یا رسول اللہ! میں اب بوڑھا ہوگیا ہوں، میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں اور میری ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں، اگر آپ مجھے اتنے من غلہ اور گندم دے دیں تو میرا کام بن جائے گا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا دے دیں گے۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ! اگر مناسب سمجھیں تو آپ نے اپنے چچا کے لئے جو حکم دیا ہے وہ ہمارے لئے بھی دے دیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا دے دیں گے، پھر سیدنا زید بن حارثہ کہنے لگے یا رسول اللہ! آپ نے مجھے زمین کا ایک ٹکڑا عطا فرمایا تھا جس سے میری گزر اوقات ہو جاتی تھی، لیکن پھر آپ نے وہ زمین واپس لے لی، اگر آپ مناسب خیال فرمائیں تو وہ مجھے واپس کر دیں فرمایا: اچھا کر دیں گے۔ اس کے بعد میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ نے قرآن کریم میں ہمارے لئے خمس کا جو حق مقرر فرمایا ہے، اگر آپ مناسب خیال فرمائیں تو مجھے اس کا نگران بنا دیجئے تاکہ میں آپ کی حیات طیبہ میں اسے تقسیم کیا کروں اور آپ کے بعد کوئی شخص اس میں مجھ سے جھگڑا نہ کر سکے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا بنا دیں گے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کا نگران بنا دیا اور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں اسے تقسیم کرتا رہا، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے زمانے میں مجھے اس کی نگرانی پر برقرار رکھا اور میں ان کی حیات میں بھی اسے تقسیم کرتا رہا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی مجھے اس پر برقرار رکھا اور میں اسے تقسیم کرتا رہا لیکن جب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا آخری سال تھا تو اس کی نگرانی مجھ سے لے لی گئی، اس وقت ان کے پاس بہت مال آیا تھا۔ (اور وہ مختلف طریقہ اختیار کرنا چاہتے تھے)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 646]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، حسين بن ميمون ليس بمعروف، قل من روى عنه، قال البخاري : هو حديث لم يتابع عليه
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کا شرف مجھے ایک ایسے وقت میں حاصل ہوتا تھا جو مخلوق میں میرے علاوہ کسی کو حاصل نہ ہو سکا، میں روزانہ سحری کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا اور سلام کرتا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھانس کر مجھے اندر آنے کی اجازت عطا فرما دیتے۔ ایک مرتبہ میں رات کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور حسب عادت سلام کرتے ہوئے کہا: «السلام عليك يا نبي الله» آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوالحسن! رکو“، میں خود ہی باہر آ رہا ہوں، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! کیا کسی نے آپ کو غصہ دلایا ہے؟ فرمایا: ”نہیں“ میں نے پوچھا: تو پھر کل گزشتہ رات آپ نے مجھ سے کوئی بات کیوں نہیں کی؟ فرمایا:”مجھے اپنے حجرے میں کسی چیز کی آہٹ محسوس ہوئی، میں نے پوچھا: کون ہے؟ آواز آئی کہ میں جبرئیل ہوں، میں نے انہیں اندر آنے کے لئے کہا: تو وہ کہنے لگے نہیں، آپ ہی باہر تشریف لے آئیے۔ جب میں باہر آیا تو وہ کہنے لگے کہ آپ کے گھر میں ایک ایسی چیز ہے کہ وہ جب تک گھر میں رہے گی، کوئی فرشتہ بھی گھر میں داخل نہ ہو گا، میں نے کہا کہ جبرئیل! مجھے تو ایسی کسی چیز کا علم نہیں ہے، وہ کہنے لگے کہ جا کر اچھی طرح دیکھئے، میں نے گھر کھول کر دیکھا تو وہاں کتے کے ایک چھوٹے سے بچے کے علاوہ مجھے کوئی اور چیز نہیں ملی جس سے حسن کھیل رہے تھے چنانچہ میں نے آ کر ان سے یہی کہا کہ مجھے تو کتے کے ایک چھوٹے سے پلے کے علاوہ کچھ نہیں ملا، اس پر انہوں نے کہا: کہ تین چیزیں ایسی ہیں جو کسی گھر میں جب تک رہیں گی، اس وقت تک رحمت کا کوئی فرشتہ وہاں داخل نہ ہو گا، کتا، جنبی آدمی یا کسی جاندار کی تصویر۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 647]
عبداللہ بن نجی کے والد ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جا رہے تھے، ان کے ذمے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے وضو کی خدمت تھی، جب وہ صفین کی طرف جاتے ہوئے نینوی کے قریب پہنچے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پکار کر فرمایا: ابوعبداللہ! فرات کے کنارے پر رک جاؤ، میں نے پوچھا کہ خیریت ہے؟ فرمایا: میں ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسوؤں کی بارش ہو رہی تھی، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! کیا کسی نے آپ کو غصہ دلایا، خیر تو ہے کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں؟ فرمایا: ایسی کوئی بات نہیں ہے، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے میرے پاس سے جبرئیل اٹھ کر گئے ہیں، وہ کہہ رہے تھے کہ حسین کو فرات کے کنارے شہید کر دیا جائے گا، پھر انہوں نے مجھ سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو اس مٹی کی خوشبو سونگھا سکتا ہوں؟ میں نے انہیں اثبات میں جواب دیا، تو انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھا کر ایک مٹھی بھر کر مٹی اٹھائی اور مجھے دے دی، بس اس وقت سے اپنے آنسؤوں پر مجھے قابو نہیں ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 648]
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں قرآن کریم کی وہ سب سے افضل آیت جو ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی تھی نہ بتاؤں؟ وہ آیت یہ ہے «مااصابكم من مصيبة فبما كسبت ايديكم و يعفو عن كثير» اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ علی! میں تمہارے سامنے اس کی تفسیر بیان کرتا ہوں، اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں دنیا میں جو بیماری، تکلیف یا آزمائش پیش آتی ہے تو وہ تمہاری اپنی حرکتوں اور کرتوتوں کی وجہ سے ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے بہت کریم ہے کہ آخرت میں اس کی دوبارہ سزا دے اور اللہ نے دنیا میں جس چیز سے درگزر فرمایا ہو، اس کے حلم سے یہ بعید ہے کہ وہ اپنے عفو سے رجوع کر لے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 649]
عاصم بن ضمرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دن کے وقت کس طرح نوافل پڑھتے تھے؟ فرمایا: تم اس طرح پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتے، ہم نے عرض کیا: آپ بتا دیجئے، ہم اپنی طاقت اور استطاعت کے بقدر اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے، فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھ کر تھوڑی دیر انتظار فرماتے، جب سورج مشرق سے اس مقدار میں نکل آتا جتنا عصر کی نماز کے بعد مغرب کی طرف ہوتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر دو رکعت نماز پڑھتے۔ پھر تھوڑی دیر انتظار فرماتے اور جب سورج مشرق سے اتنی مقدار میں نکل آتاجتنا کہ ظہر کی نماز کے بعد مغرب کی طرف ہوتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر چار رکعت نماز پڑھتے، پھر سورج ڈھلنے کے بعد چار رکعتیں ظہر سے پہلے، دو رکعتیں ظہر کے بعد اور چار رکعتیں عصر سے پہلے پڑھتے تھے اور ہر دو رکعتوں میں ملائکہ مقربین، انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کی پیروی کرنے والے مسلمانوں اور مومنین کے لئے سلام کے کلمات کہتے (تشہد پڑھتے) اس اعتبار سے پورے دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نوافل کی یہ سولہ رکعتیں ہوئیں، لیکن ان پر دوام کرنے والے بہت کم ہیں، یہ حدیث بیان کر کے حبیب بن ابی ثابت نے کہا کہ اے ابواسحاق! آپ کی یہ حدیث اس مسجد کے سونے سے بھرپور ہونے کے اعتبار سے برابر ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 650]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے ابتدائی، درمیانے اور آخری ہر حصے میں وتر پڑھ لیا کرتے تھے، تاہم آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصے میں اس کی پابندی فرمانے لگے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 651]
حكم دارالسلام: حديث قوي، وهذا إسناد ضعيف لضعف الحارث الأعور
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وتر فرض نماز کی طرح قرآن کریم سے حتمی ثبوت نہیں رکھتے لیکن ان کا وجوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 652]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے ابتدائی، درمیانے اور آخری ہر حصے میں وتر پڑھ لیا کرتے تھے، تاہم آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصے میں اس کی پابندی فرمانے لگے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 653]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر کے دن ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پناہ میں آ جاتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہماری نسبت دشمن سے زیادہ قریب تھے اور اس دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے زیادہ سخت جنگ کی تھی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 654]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک دیہاتی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ سوال پوچھا کہ یا رسول اللہ! ہم لوگ دیہات میں رہتے ہیں یہ بتائیے کہ اگر ہم میں سے کسی کی ہوا خارج ہو جائے تو وہ کیا کرے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ حق بات سے نہیں شرماتے (اس لئے میں بھی تم سے بلاتکلف کہتا ہوں کہ ایسی صورت میں) اسے وضو کر لینا چاہیے اور یاد رکھو! عورت کے ساتھ اس کی دبر میں مباشرت نہ کرنا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 655]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف مسلم بن سلام، والقطعة الأخيرة : لا تأتوا النساء فى أدبارهن صحيحة بشواهدها
عبیداللہ بن عیاض کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے چند روز بعد سیدنا عبداللہ بن شداد رضی اللہ عنہ عراق سے واپس آ کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس وقت ہم لوگ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے، عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے فرمایا: عبداللہ! میں تم سے جو پوچھوں گی، اس کا صحیح جواب دوگے؟ کیا تم مجھے ان لوگوں کے بارے بتا سکتے ہو جنہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو شہید کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں آپ سے سچ کیوں نہیں بولوں گا، فرمایا کہ پھر مجھے ان کا قصہ سناؤ۔ سیدنا عبداللہ بن شداد رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے خط و کتابت شروع کی اور دونوں ثالثوں نے اپنا اپنا فیصلہ سنا دیا، تو آٹھ ہزار لوگ جنہیں قراء کہا جاتا تھا، نکل کر کوفہ کے ایک طرف حروراء نامی علاقے میں چلے گئے، وہ لوگ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ناراض ہو گئے تھے اور ان کا یہ کہنا تھا کہ اللہ نے آپ کو جو قمیص پہنائی تھی، آپ نے اسے اتار دیا اور اللہ نے آپ کو جو نام عطاء کیا تھا، آپ نے اسے اپنے آپ سے دور کر دیا، پھر آپ نے جا کر دین کے معاملے میں ثالث کو قبول کر لیا، حالانکہ حکم تو صرف اللہ کا ہی چلتا ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو جب یہ بات معلوم ہوئی کہ یہ لوگ ان سے ناراض ہو کر جدا ہو گئے ہیں تو انہوں نے منادی کو یہ نداء لگانے کا حکم دیا کہ امیر المؤمنین کے پاس صرف وہی شخص آئے جس نے قرآن کریم اٹھا رکھا ہو، جب ان کا گھر قرآن پڑھنے والوں سے بھر گیا، تو انہوں نے قرآن کریم کا ایک بڑا نسخہ منگوا کر اپنے سامنے رکھا اور اسے اپنے ہاتھ سے ہلاتے ہوئے کہنے لگے، اے قرآن! لوگوں کو بتا، یہ دیکھ کر لوگ کہنے لگے، امیر المؤمنین! آپ اس نسخے سے کیا پوچھ رہے ہیں؟ یہ تو کاغذ میں روشنائی ہے، ہاں! اس کے حوالے ہم تک جو احکام پہنچے ہیں وہ ہم ایک دوسرے سے بیان کرتے ہیں، آپ کا اس سے مقصد کیا ہے؟ فرمایا: تمہارے یہ ساتھی جو ہم سے جدا ہو کر چلے گئے ہیں، میرے اور ان کے درمیان قرآن کریم ہی فیصلہ کرے گا، اللہ تعالیٰ خود قرآن کریم میں میاں بیوی کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ اگر تمہیں ان دونوں کے درمیان ناچاقی کا اندیشہ ہو تو ایک ثالث مرد کی طرف سے اور ایک ثالث عورت کے اہل خانہ کی طرف سے بھیجو، اگر ان کی نیت محض اصلاح کی ہوئی، تو اللہ ان دونوں کے درمیان موافقت پیدا فرما دے گا، میرا خیال ہے کہ ایک آدمی اور ایک عورت کی نسبت پوری امت کا خون اور حرمت زیادہ اہم ہے (اس لئے اگر میں نے اس معاملہ میں ثالثی کو قبول کیا تو کون سا گناہ کیا؟) اور انہیں اس بات پر جو غصہ ہے کہ میں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ خط و کتاب کی ہے (تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ تو پھر مسلمان اور صحابی ہیں)، جب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ میں تھے اور سہیل بن عمرو ہمارے پاس آیا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم قریش سے صلح کی تھی، تو اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ہی لکھوایا تھا، «بسم الله الرحمن الرحيم»، اس پر سہیل نے کہا: کہ آپ اس طرح مت لکھوائیے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر کس طرح لکھوائیں؟“ اس نے کہا کہ آپ «باسمك اللهم» لکھیں۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا نام «محمد رسول الله» لکھوایا تو اس نے کہا کہ اگر میں آپ کو اللہ کا پیغمبر مانتا تو کبھی آپ کی مخالفت نہ کرتا، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ لکھوائے «هذا ما صالح محمد بن عبدالله قريشا» اور اللہ فرماتا ہے کہ اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں تمہارے لئے بہترین نمونہ موجود ہے (میں نے تو اس نمونے کی پیروی کی ہے)۔ اس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو ان کے پاس سمجھانے کے لئے بھیجا، راوی کہتے ہیں کہ میں بھی ان کے ساتھ گیا تھا، جب ہم ان کے وسط لشکر میں پہنچے تو ابن الکواء نامی ایک شخص لوگوں کے سامنے تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ اے حاملین قرآن! یہ عبداللہ بن عباس آئے ہیں، جو شخص انہیں نہ جانتا ہو، میں اس کے سامنے ان کا تعارف قرآن کریم سے پیش کر دیتا ہوں، یہ وہی ہیں کہ ان کے اور ان کی قوم کے بارے میں قرآن کریم میں «قوم خصمون»، یعنی جھگڑالو قوم کا لفظ وارد ہوا ہے، اس لئے انہیں ان کے ساتھی یعنی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس واپس بھیج دو اور کتاب اللہ کو ان کے سامنے مت بچھاؤ۔ یہ سن کر ان کے خطباء کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ بخدا! ہم تو ان کے سامنے کتاب اللہ کو پیش کریں گے، اگر یہ حق بات لے کر آئے ہیں تو ہم ان کی پیروی کریں گے اور اگر یہ باطل لے کر آئے ہیں تو ہم اس باطل کو خاموش کرا دیں گے، چنانچہ تین دن تک وہ لوگ کتاب اللہ کو سامنے رکھ کر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مناظرہ کرتے رہے، جس کے نتیجے میں ان میں سے چار ہزار لوگ اپنے عقائد سے رجوع کر کے توبہ تائب ہو کر واپس آ گئے، جن میں خود ابن الکواء بھی شامل تھا، اور یہ سب کے سب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں کوفہ حاضر ہو گئے۔ اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بقیہ افراد کی طرف قاصد کے ذریعے یہ پیغام بھجوا دیا کہ ہمارا اور ان لوگوں کا جو معاملہ ہواوہ تم نے دیکھ لیا، اب تم جہاں چاہو ٹھرو، تا آنکہ امت مسلمہ متفق ہو جائے، ہمارے اور تمہارے درمیان یہ معاہدہ ہے کہ تم ناحق کسی کا خون نہ بہاؤ، ڈاکے نہ ڈالو اور ذمیوں پر ظلم وستم نہ ڈھاؤ، اگر تم نے ایسا کیا تو ہم تم پر جنگ مسلط کر دیں گے کیونکہ اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔ یہ سارئ روئیداد سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ابن شداد! کیا انہوں نے پھر قتال کیا ان لوگوں سے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس وقت تک ان کے پاس اپنا کوئی لشکر نہیں بھیجا جب تک انہوں نے مذکورہ معاہدے کو ختم نہ کر دیا، انہوں نے ڈاکے ڈالے، لوگوں کا خون ناحق بہایا، اور ذمیوں پر دست درازی کو حلال سمجھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرمایا: کیا بخدا! ایسا ہی ہوا ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! اس خدا کی قسم! جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، ایسا ہی ہوا ہے۔ پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ اس بات کی کیا حقیقت ہے جو مجھے تک اہل عراق کے ذریعے پہنچی ہے کہ ”ذوالثدی“ نامی کوئی شخص تھا؟ حضرت عبداللہ بن شداد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے خود اس شخص کو دیکھا ہے اور مقتولین میں اس کی لاش پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑا بھی ہوا ہوں، اس موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بلا کر پوچھا تھا، کیا تم اس شخص کو جانتے ہو؟ اکثر لوگوں نے یہی کہا کہ میں نے اسے فلاں محلے کی مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، میں نے اسے فلاں محلے کی مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، کوئی مضبوط بات جس سے اس کی چھان ہو سکتی، وہ لوگ نہ بتا سکے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کی لاش کے پاس کھڑے تھے تو انہوں نے کیا وہی بات کہی تھی، جو اہل عراق بیان کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ آپ نے اس کے علاوہ بھی ان کے منہ سے کوئی بات سنی؟ انہوں نے کہا: بخدا! نہیں، فرمایا: اچھا ٹھیک ہے، اللہ علی پر رحم فرمائے، یہ ان کا تکیہ کلام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں جب بھی کوئی چیز اچھی یا تعجب خیز معلوم ہوتی ہے تو وہ یہی کہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا، اور اہل عراق ان کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کرنا شروع کر دیتے ہیں، اور اپنی طرف سے بڑھا چڑھا کر بات کو پیش کر تے ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 656]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازے میں شریک تھے، اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کون شخص مدینہ منورہ جائے گا کہ وہاں جا کر کوئی بت ایسا نہ چھوڑے جسے اس نے توڑ نہ دیا ہو، کوئی قبر ایسی نہ چھوڑے جسے برابر نہ کر دیا اور کوئی تصویر ایسی نہ دیکھے جس پر گارا اور کیچڑ نہ مل دے؟“ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں یہ کام کروں گا، چنانچہ وہ آدمی روانہ ہو گیا، لیکن جب مدینہ منورہ پہنچا تو وہ اہل مدینہ سے مرعوب ہو کر واپس لوٹ آیا۔ یہ دیکھ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں جاتا ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی، چنانچہ جب وہ واپس آئے تو عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے جہاں بھی کسی نوعیت کا بت پایا اسے توڑ دیا، جو قبر بھی نظر آئی اسے برابر کر دیا اور جو تصویر بھی دکھائی دی اس پر کیچڑ ڈال دیا، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب جو شخص ان کاموں میں سے کوئی کام دوبارہ کرے گا گویا وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کردہ وحی کا انکار کرتا ہے“، نیز یہ بھی فرمایا کہ تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے یا شیخی خورے مت بننا، صرف خیر ہی کے تاجر بننا، کیونکہ یہ وہی لوگ ہیں جن پر صرف عمل کے ذریعے ہی سبقت لے جانا ممکن ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 657]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبى المورع، وقصة طمس الصورة و تسوية القبر المشرف، ستأتي بإسناد صحيح برقم :741
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذان فجر کے قریب وتر ادا فرماتے تھے اور اقامت کے قریب فجر کی سنتیں پڑھتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 659]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، شريك وهو ابن عبدالله القاضي، سيء الحفظ، والحارث وهو ابن عبدالله الأعور ضعيف
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سود خور، سود کھلانے والا، سودی معاملات لکھنے والا، سودی معاملات کے گواہ، حلالہ کرنے والا، حلالہ کروانے والا، زکوٰۃ روکنے والا، جسم گودنے والی اور جسم گدوانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نوحہ کرنے سے منع فرماتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 660]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، أبو جعفر سيء الحفظ، والحارث الأعور ضعيف
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”علی! اگر میرے بعد کسی بھی وقت زمام حکو مت تمہارے ہاتھ میں آئے تو اہل نجران کو جزیرہ عرب سے نکال دینا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 661]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جداً لضعف قيس- وهو أبن الربيع الأسدي الكوفي - و أشعث بن سوار
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے خروج مذی کثرت کے ساتھ ہونے کا مرض لاحق تھا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حکم پوچھا تو فرمایا: ”منی سے تو غسل واجب ہے اور مذی میں صرف وضو واجب ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 662]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد الهاشمي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص عشاء سے پہلے یا بعد میں تلاوت کرتے ہوئے اپنی آواز کو بلند کرے، کیونکہ اس طرح اس کے دوسرے ساتھیوں کو نماز پڑھتے ہوئے مغالطہ ہو سکتا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 663]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف الحارث الأعور
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ سے ہدایت اور درستگی کی درخواست کیا کرو اور ہدایت سے راستے کی ہدایت ذہن میں رکھا کرو اور درستگی کا معنی مراد لیتے وقت تیر کی درستگی اور سیدھا پن یاد رکھا کرو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 664]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مجھ سے پہلے جتنے بھی انبیاء کرام علیہم السلام تشریف لائے ہیں ان میں سے ہر ایک کو سات نقباء، وزراء، نجباء دیئے گئے جب کہ مجھے خصوصیت کے ساتھ چودہ وزراء، نقباء، نجباء دیئے گئے ہیں جن میں سے سات کا تعلق صرف قریش سے ہے اور باقی سات کا تعلق دیگر مہاجرین سے ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 665]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف كثير النواء وعبدالله بن مليل
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے یمن کی طرف بھیجا تو میں اس وقت نوخیز تھا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ مجھے ایک ایسی قوم کی طرف بھیج رہے ہیں جہاں لوگوں میں آپس میں اختلافات اور جھگڑے بھی ہوں گے اور مجھے فیصلہ کرنے کا قطعاً کوئی علم نہیں ہے؟ فرمایا: ”اللہ تمہاری زبان کو صحیح راستے پر چلائے گا اور تمہارے دل کو مضبوط رکھے گا۔“ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد کبھی بھی دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرنے میں مجھے کوئی شک نہیں ہوا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 666]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ صدقے کے کچھ اونٹ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزر رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اونٹ کے پہلو سے اپنے دست مبارک سے اس کی اون پکڑی اور فرمایا کہ میں ایک عام مسلمان کی نسبت اس اون کا بھی کوئی زائد استحقاق نہیں رکھتا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 667]
حكم دارالسلام: حسن بشواهده، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عمرو بن غزي وعمه علباء
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے، اچانک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز چھوڑ کر گھر چلے گئے اور ہم کھڑے کے کھڑے ہی رہ گئے، تھوڑی دیر بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو آپ کے سر سے پانی کے قطرات ٹپک رہے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازسرنو ہمیں نماز پڑھائی اور بعد فراغت فرمایا کہ جب میں نماز کے لئے کھڑا ہو گیا تب مجھے یاد آیا کہ میں تو اختیاری طور پر ناپاک ہو گیا تھا اور ابھی تک میں نے غسل نہیں کیا، اس لئے اگر تم میں سے کسی شخص کو اپنے پیٹ میں گڑبڑ محسوس ہو رہی ہو یا میری جیسی کیفیت کا وہ شکار ہو جائے تو اسے چاہیے کہ واپس لوٹ جائے اور اپنی ضرورت پوری کر کے یا غسل کر کے پھر نماز کی طرف متوجہ ہو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 668]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف ابن لهيعة، وانظر حديث أبى هريرة الصحيح فى المسند : 2/ 338، ففيه أن انصرافه كان قبل الدخول فى الصلاة
زاذان کہتے ہیں کہ میں نے صحن مسجد میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو لوگوں کو اللہ کی قسم دے کر یہ پوچھتے ہوئے سنا کہ غدیر خم کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کون حاضر تھا اور کس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سنا تھا؟ اس پر بارہ بدری صحابہ کھڑے ہو گئے اور ان سب نے گواہی دی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 670]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سود خور، سود کھلانے والے، سودی معاملات لکھنے والے، سودی معاملات کے گواہ، حلالہ کرنے والے، حلالہ کروانے والے پر لعنت فرمائی ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 671]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف الحارث الأعور
ابوکثیر کہتے ہیں کہ جس وقت میرے آقا سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اہل نہروان سے قتال شروع کیا، اس وقت میں ان کے ساتھ تھا، ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے لوگ ان سے جنگ کر کے خوش نہیں ہیں، یہ دیکھ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگو! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے ایسی قوم کا تذکرہ کیا تھا جو دین سے اس طرح نکل جائے گی جیسے تیر، کمان سے نکل جاتا ہے اور وہ لوگ دین کی طرف کبھی بھی واپس نہ آ سکیں گے یہاں تک کہ تیر کمان کی طرف واپس آ جائے۔ ان لوگوں کی نشانی یہ ہو گی کہ ان میں سیاہ رنگ کا ایک ایسا شخص ہو گا جس کا ہاتھ ناتمام ہو گا اور اس کا ایک ہاتھ عورت کی چھاتی کی طرح ہو گا اور عورت کی چھاتی میں موجود گھنڈی کی طرح اس کی بھی گھنڈی ہو گی، جس کے گرد سات بالوں کا ایک گچھا ہو گا، تم اسے ان مقتولین میں تلاش کرو، میرا خیال ہے کہ وہ ان ہی میں ہو گا۔ جب لوگوں نے اسے تلاش کیا تو وہ نہر کے کنارے مقتولین کے نیچے انہیں مل گیا، انہوں نے اسے نکالا، تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور فرمایا: اللہ رب العزت اور اس کے رسول نے سچ فرمایا اس وقت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی عربی کمان لٹکا رکھی تھی، انہوں نے اسے ہاتھ میں پکڑا اور اس کے ناتمام ہاتھ میں اس کی نوک چبھونے لگے اور فرمانے لگے کہ اللہ رب العزت اور اس کے رسول نے سچ فرمایا لوگوں نے بھی جب اسے دیکھا تو وہ بہت خوش ہوئے اور ان کا غصہ یکدم کافور ہو گیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 672]
حكم دارالسلام: حديث صحيح. م: 1066، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أبى كثير مولى الأنصار
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں، جب ملاقات ہو تو سلام کرے، جب چھینکے تو جواب دے، جب بیمار ہو تو عیادت کرے، جب دعوت دے تو قبول کرے، جب فوت ہو جائے تو جنازے میں شرکت کرے اپنے لئے جو پسند کرتا ہے اس کے لئے بھی وہی پسند کرے اور اس کی غیر موجودگی میں اس کا خیر خواہ رہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 673]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف الحارث الأعور
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی (جب تک میرے صحابہ مکمل طور پر دنیا سے رخصت نہ ہو جائیں) یہاں تک کہ میرے کسی ایک صحابی کو اس طرح تلاش کیا جائے گا جیسے کسی گمشدہ چیز کو تلاش کیا جاتا ہے لیکن کوئی ایک صحابی بھی نہ مل سکے گا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 675]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر کے دن ارشاد فرمایا: ”اگر ممکن ہو تو بنوعبدالمطلب کو صرف قید کرنے پر اکتفاء کرے کیونکہ وہ بڑی مجبوری میں زبردستی نکلے ہیں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 676]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قرآن کریم میں یہ جو فرمایا گیا ہے کہ تم نے اپنا حصہ یہ بنا رکھا ہے کہ تم تکذیب کرتے ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ تم یہ کہتے ہو فلاں فلاں ستارے کے طلوع و غروب سے بارش ہوئی ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 677]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالأعلى الثعلبي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی نماز میں مفصلات کی نو مختلف سورتوں کی تلاوت فرماتے تھے، اسود کے بقول پہلی رکعت میں سورت تکاثر، سورت قدر اور سورت زلزال کی تلاوت فرماتے، دوسری رکعت میں سورت عصرہ، سورت نصر اور سورت کوثر جبکہ تیسری رکعت میں سورت کفرون، سورت لہب اور سورت اخلاص کی تلاوت فرماتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 678]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کی کسی باندی سے بدکاری کا گناہ سرزد ہو گیا اور اس کی اس حرکت پر اس کے امید سے ہو جانے پر مہر تصدیق بھی لگ گئی، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بچہ پیدا ہونے تک اسے چھوڑے رکھو، بعد میں اسے کوڑے مار دینا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 679]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبد الأعلى الثعلبي
زر بن حبیش کہتے ہیں کہ ابن جرموز نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت مانگی، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کون ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ ابن جرموز اندر آنا چاہتا ہے؟ فرمایا: اسے اندر آنے دو، زبیر کا قاتل جہنم میں ہی داخل ہو گا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہر نبی کا ایک خاص حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 680]
زر بن حبیش کہتے ہیں کہ ابن جرموز نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت مانگی، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کون ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ ابن جرموز اندر آنا چاہتا ہے؟ فرمایا: اسے اندر آنے دو، زبیر کا قاتل جہنم میں ہی داخل ہو گا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہر نبی کا ایک خاص حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 681]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنے رفیق ”حیان“ کو مخاطب کر کے فرمایا: میں تمہیں اس کام کے لئے بھیج رہا ہوں جس کام کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجا تھا، انہوں نے مجھے ہر قبر کو برابر کرنے اور ہر بت کو مٹا ڈالنے کا حکم دیا تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 683]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جداً لضعف يونس بن خباب، وأصل الحديث صحيح من حديث حيان بن حصين أبى الهياج الأسدي. وسيأتي برقم: 741
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک بڑا، آنکھیں موٹی موٹی، پلکیں لمبی لمبی، آنکھوں میں سرخی کے ڈورے، گھنی ڈاڑھی، کھلتا ہوا رنگ اور چلنے کی کیفیت ایسی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قدم جما کر چھوٹے چھوٹے تیز رفتار قدموں سے چلتے تھے، ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی گھاٹی پر چل رہے ہوں اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی طرف متوجہ ہوتے تو مکمل طور پر متوجہ ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلیاں اور دونوں پاؤں مبارک بھرے ہوئے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 684]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بےوضو ہونے کے بعد اور پانی چھونے سے پہلے قرآن کریم کی تلاوت کی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 686]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ بھوک کی شدت سے تنگ آ کر میں اپنے گھر سے نکلا (میں ایک عورت کے پاس سے گزرا، جس نے کچھ گارا اکٹھا کر رکھا تھا، میں سمجھ گیا کہ یہ اسے پانی سے تربتر کرنا چاہتی ہے، میں نے اس کے پاس آ کر اس سے یہ معاہدہ کیا کہ) ایک ڈول کھینچنے کے بدلے تم مجھے ایک کھجور دو گی، چنانچہ میں نے سولہ ڈول کھینچے (یہاں تک کہ میرے ہاتھ تھک گئے) پھر میں نے پانی کے پاس آ کر پانی پیا (اس کے بعد اس عورت کے پاس آ کر اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلا دیا اور اس نے گن کر سولہ کھجوریں میرے ہاتھ پر رکھ دیں) میں وہ کھجوریں لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا (اور انہیں یہ سارا واقعہ بتایا) اور کچھ کھجوریں میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کھلا دیں اور کچھ خود کھا لیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 687]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف شريك، وهو ابن عبدالله القاضي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: میں نے منت مانی ہے کہ میں اپنی اونٹنی کو ذبح کروں اور فلاں فلاں کام کروں؟ فرمایا: ”اپنی اونٹنی کو تو ذبح کرو اور فلاں فلاں کام شیطان کی طرف سے ہے لہٰذا اسے چھوڑ دو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 688]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف جابر، وهو أبن يزيد الجعفي
بنو اسد کے ایک صاحب کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہمارے یہاں تشریف لائے لوگوں نے ان سے وتر کے متعلق سوالات پوچھے، انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ اس وقت وتر ادا کر لیا کریں ابن نباح! اٹھ کر اذان دو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 689]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة الرجل من بني أسد الراوي عن علي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: ”جب تمہارے پاس دو فریق آئیں تو صرف کسی ایک کی بات نہ سننا بلکہ دونوں کی بات سننا تم دیکھو گے کہ تم کس طرح فیصلہ کرتے ہو“، سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں مسلسل عہدہ قضاء پر فائز رہا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 690]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، حنش - وإن كان فيه ضعف قد توبع
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر پر روانہ ہونے کا ارادہ فرماتے تو یہ دعا پڑھتے: اے اللہ! میں آپ ہی کے نام کی برکت سے حملہ کرتا ہوں آپ ہی کے نام کی برکت سے حرکت کرتا ہوں اور آپ ہی کے نام کی برکت سے چلتا ہوں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 691]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف عمران ابن ظبيان الحنفي الكوفي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جسم مبارک کی رگ سے زائد خون نکلوایا اور مجھے حکم دیا کہ یہ کام کرنے والو کو جسے حجام کہا جاتا تھا اس کی مزدوری دے دو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 692]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالأعلى الثعلبي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک طبق لانے کا حکم دیا تاکہ آپ اس میں ایسی ہدایات لکھ دیں جن کی موجودگی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت گمراہ نہ ہو سکے، مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں کاغذ لینے کے لئے جاؤں اور پیچھے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پرواز کر جائے، اس لئے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ مجھے زبانی بتا دیجئے، میں اسے یاد رکھوں گا، فرمایا: ”میں نماز اور زکوٰۃ کی وصیت کرتا ہوں، نیز غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کرتا ہوں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 693]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ جو شخص جھوٹا خواب بیان کرتا ہے، اسے قیامت کے دن جو کے دانے میں گرہ لگانے کا مکلف بنایا جائے گا (حکم دیا جائے گا)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 694]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره ، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالأعلى
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عنقریب امت میں اختلافات ہوں گے، اگر تمہارے لئے سلامتی ممکن ہو تو اسی کو اختیار کرنا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 695]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی جنگ کو چال قرار دیا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 696]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة سعيد بن ذي حدان، ثم هو لم يدرك عليا ، وشريك سيء الحفظ. ومتن الحديث صحيح، عند أحمد والبخاري ومسلم من حديث جابر
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی جنگ کو چال قرار دیا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 697]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کہیں سے ہدیہ کے طور پر ایک ریشمی جوڑا آیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ میرے پاس بھیج دیا، میں نے اسے زیب تن کر لیا، لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور پر ناراضگی کے اثرات دیکھے تو میں نے اسے اپنی عورتوں میں تقسیم کر دیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 698]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح. خ: 2614، م: 2071، والمراد بقوله: بين نسائي بين الفواطم، أى فاطمة بنت النبى وفاطمة بنت الأسد، والدة علي، وفاطمة بنت حمزة
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ جو شخص جھوٹا خواب بیان کرتا ہے، اسے قیامت کے دن جو کے دانے میں گرہ لگانے کا مکلف بنایا جائے گا (حکم دیا جائے گا)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 699]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالأعلى
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سحری تک وصال فرمایا کرتے تھے (یعنی افطاری کے بعد بھی سحری تک کچھ نہ کھاتے پیتے تھے)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 700]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالأعلى الثعلبي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی تکلیف یا مصیبت آنے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ دعا سکھائی: ”اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، وہ بڑا بردبار اور مہربان ہے، اللہ ہر عیب اور نقص سے پاک ہے، اللہ کی ذات بڑی بابرکت ہے، وہ عرش عظیم کا رب ہے اور تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کو پالنے والا ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 701]
ایک مرتبہ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے آئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: عیادت کی نیت سے آئے ہو یا ملاقات کے لئے آئے ہو؟ انہوں نے کہا کہ امیر المؤمنین! میں تو عیادت کی نیت سے آیا ہوں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب کوئی شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو صبح سے شام تک ستر ہزار فرشتے اس کے لئے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ جنت میں اس کے لئے ایک خریف بنا دیتا ہے ہم نے عرض کیا کہ اے امیر المؤمنین! خریف سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے فرمایا: وہ نہر جس سے باغات سیراب ہوں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 702]
حكم دارالسلام: حديث حسن. لكن الصحيح وقفه، وهذا إسناد ضعيف لضعف ثوير بن أبى فاختة
زید بن وہب کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس بصرہ کے خوارج کی ایک جماعت آئی، ان میں جعد بن بعجہ نامی ایک آدمی بھی تھا، وہ کہنے لگا کہ علی! اللہ سے ڈرو، تم نے بھی ایک دن مرنا ہے، فرمایا: نہیں، بلکہ شہید ہونا ہے وہ ایک ضرب ہو گی جو سر پر لگے گی اور اس داڑھی کو رنگین کر جائے گی، یہ ایک طے شدہ معاملہ اور فیصلہ شدہ چیز ہے اور وہ شخص نقصان میں رہے گا جو جھوٹی باتیں گھڑے گا، پھر اس نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لباس میں کچھ کیڑے نکالے تو فرمایا کہ تمہیں میرے لباس سے کیا غرض یہ تکبر سے دور اور اس قابل ہے کہ اس معاملے میں مسلمان میری پیروی کریں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 703]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف شريك، وهو ابن عبدالله النخعي
حارث بن عبداللہ اعور کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ آج رات ضرور امیر المؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضری دوں گا اور ان سے اس چیز کے متعلق ضرور سوال کروں گا جو میں نے ان سے کل سنی ہے چنانچہ میں عشاء کے بعد ان کے یہاں پہنچا، پھر انہوں نے مکمل حدیث ذکر کی اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نقل کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے پاس جبرئیل آئے اور کہنے لگے کہ اے محمد! آپ کی امت آپ کے بعد اختلافات میں پڑ جائے گی، میں نے پوچھا: کہ جبرئیل! اس سے بچاؤ کا راستہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: قرآن کریم، اسی کے ذریعے اللہ ہر ظالم کو تہس نہس کرے گا، جو اس سے مضبوطی کے ساتھ چمٹ جائے گا وہ نجات پا جائے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا وہ ہلاک ہو جائے گا یہ بات انہوں نے دو مرتبہ کہی۔ پھر فرمایا کہ یہ قرآن ایک فیصلہ کن کلام ہے یہ کوئی ہنسی مذاق کی چیز نہیں ہے، زبانوں پر یہ پرانا نہیں ہوتا، اس کے عجائب کبھی ختم نہ ہوں گے، اس میں پہلوں کی خبریں ہیں، درمیان کے فیصلے ہیں اور بعد میں پیش آنے والے حالات ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 704]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف الحارث الأعور، وانقطاع بين محمد بن إسحاق ومحمد بن كعب القرظي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت ہمارے یہاں تشریف لائے اور ہمیں نماز کے لئے جگا کر خود اپنے کمرے میں جا کر نماز پڑھنے لگے، کافی دیر گزرنے کے بعد جب ہماری کوئی آہٹ نہ سنائی دی تو دوبارہ آ کر ہمیں جگایا اور فرمایا: ”کھڑے ہو کر نماز پڑھو“، میں اپنی آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھا اور عرض کیا ہم صرف وہی نماز پڑھ سکتے ہیں جو ہمارے لئے لکھ دی گئی ہے اور ہماری روحیں اللہ کے قبضے میں ہیں جب وہ ہمیں اٹھانا چاہتا ہے اٹھا دیتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر مجھے کوئی جواب نہ دیا اور واپس چلے گئے، میں نے کان لگا کر سنا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ران پر اپنا ہاتھ مارتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ہم صرف وہی نماز پڑھ سکتے ہیں جو ہمارے لئے لکھ دی گئی ہے انسان بہت زیادہ جھگڑالو واقع ہوا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 705]
زید بن وہب کہتے ہیں کہ جب نہروان میں خوارج نے خروج کیا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمانے لگے کہ ان لوگوں نے ناحق خون بہایا ہے، لوگوں کے جانوروں کو لوٹا ہے اور یہ تمہارے سب سے قریب ترین دشمن ہیں اس لئے میری رائے یہ ہے کہ تم اپنے دشمنوں کی طرف کوچ کرو، مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں یہ لوگ عقب سے تم پر نہ آ پڑیں اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میری امت میں ایک ایسا گروہ ظاہر ہو گا جس کی نمازوں کے سامنے تمہاری نمازوں کی کوئی حیثیت نہ ہو گی، جن کے روزوں کے سامنے تمہارے روزوں کی کوئی وقعت نہ ہو گی، جن کی تلاوت کے سامنے تمہاری تلاوت کچھ نہ ہو گی، وہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے یہ سمجھتے ہوں گے کہ اس پر انہیں ثواب ملے گا حالانکہ وہ ان کے لئے باعث عقاب ہو گا، کیونکہ وہ قرآن ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا، وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے آر پار ہو جاتا ہے اور ان کی علامت یہ ہو گی کہ ان میں ایک ایسا آدمی بھی ہو گا جس کا بازو تو ہو گا لیکن کہنی نہ ہو گی، اس کے ہاتھ پر عورت کی چھاتی کی گھنڈی جیسا نشان ہو گا جس کے ارگرد سفید رنگ کے کچھ بالوں کا گچھا ہو گا اگر کسی ایسے لشکر کو جو ان پر حملہ آور ہو اس ثواب کا پتہ چل جائے جو ان کے پیغمبر کی زبانی ان سے کیا گیا ہے تو وہ صرف اسی پر بھروسہ کر کے بیٹھ جائیں اس لئے اللہ کا نام لے کر روانہ ہو جاؤ، اس کے بعد راوی نے مکمل حدیث ذکر کی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 706]
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بخدا! ہم اس وقت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ مقام جحفہ میں تھے جب کہ ان کے پاس اہل شام کا ایک وفد آیا تھا ان میں حبیب بن مسلمہ فہری بھی تھے، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے حج تمتع کا ذکر چھڑا تو انہوں نے فرمایا: حج اور عمرہ کا اتمام یہ ہے کہ ان دونوں کو اشہر حج میں اکٹھا نہ کیا جائے اگر تم اپنے عمرہ کو مؤخر کردو اور بیت اللہ کی دو مرتبہ زیارت کرو تو یہ زیادہ افضل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نیکی کے کاموں میں وسعت اور کشادگی رکھی ہے۔ اس وقت سیدنا علی رضی اللہ عنہ بطن وادی میں اپنے اونٹ کو چارہ کھلا رہے تھے، انہیں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی یہ بات معلوم ہوئی تو وہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ کیا آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت کا اور اللہ کی اس رخصت کو جو اس نے قرآن میں اپنے بندوں کو دی ہے، لوگوں کو اس سے روک کر انہیں تنگی میں مبتلا کریں گے؟ حالانکہ ضرورت مند آدمی کے لئے اور اس شخص کے لئے جس کا گھر دور ہو، یہ حکم یعنی حج تمتع کا اب بھی باقی ہے۔ یہ کہہ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھ لیا (تاکہ لوگوں پر اس کا جواز واضح ہو جائے) اس پر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے سامنے آ کر ان سے پوچھا کہ کیا میں نے حج تمتع سے منع کیا ہے؟ میں نے تو اس سے منع نہیں کیا، یہ تو ایک رائے تھی جس کا میں نے مشورہ دیا تھا، جو چاہے قبول کرے اور جو چاہے چھوڑ دے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 707]
مسعود بن حکم انصاری کی والدہ کہتی ہیں کہ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا میں اب بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنی نگاہوں کے سامنے دیکھ رہی ہوں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سفید خچر پر سوار ہیں، حجۃ الوداع کے موقع پر وہ انصار کے ایک گروہ کے پاس رک رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اے لوگو! نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ یہ روزے کے ایام نہیں ہیں، یہ تو کھانے پینے اور ذکر کے دن ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 708]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کسی کے لئے سوائے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے اپنے والدین کو جمع کرتے ہوئے نہیں سنا غزوہ احد کے دن آپ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے فرما رہے تھے کہ سعد تیر پھینکو، تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 709]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ”میں یہ نہیں کہتا کہ تمہیں“ سونے کی انگوٹھی، ریشم یا عصفر سے رنگا ہوا کپڑا پننے اور رکوع کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت سے منع کیا ہے اور ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک ریشمی جوڑا عنایت فرمایا:: میں اسے پہن کر نکلا تو فرمایا: علی! میں نے تمہیں یہ اس لئے نہیں دیا کہ تم خود اسے پہن لو، چنانچہ میں اسے لے کر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس واپس آ گیا اور اس کا ایک کنارہ ان کے ہاتھ میں پکڑایا تاکہ وہ میرے ساتھ زور لگا کر اسے کھینچیں، چنانچہ میں نے اس کے دو ٹکڑے کر دئیے، یہ دیکھ کر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں کہ آپ کو کیا ہو گیا ہے، یہ آپ نے کیا کیا، میں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ لباس پہننے سے منع فرمایا ہے اس لئے اب تم اپنے لئے اس کا لباس بنا لو اور گھر کی جو عورتیں ہیں انہیں بھی دے دو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 710]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وانظر الشطر الأول فى م: 2078
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں نے تم سے گھوڑے اور غلام کی زکوٰۃ چھوڑی دی ہے اس لئے چاندی کی زکوٰۃ بہرحال تمہیں ادا کرنا ہو گی، جس کا نصاب یہ ہے کہ ہر چالیس پر ایک درہم واجب ہو گا، ایک سو نوے درہم تک کچھ واجب نہ ہو گا، لیکن جب ان کی تعداد دو سو تک پہنچ جائے تو اس پر پانچ درہم واجب ہوں گے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 711]
حكم دارالسلام: صحيح، أبو عوانة وإن روي عن أبى إسحاق بعد تغيره، لكن قد تابعه غير واحد
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایسے کلمات نہ سکھا دوں کہ جب تم انہیں زبان سے ادا کر لو تو تمہارے گناہ معاف کر دئیے جائیں حالانکہ تمہارے گناہ معاف ہو چکے، یہ کلمات کہہ لیا کرو جن کا ترجمہ یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے وہ حلیم و کریم ہے، اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ بزرگ و برتر ہے، اللہ ہر عیب اور نقص سے پاک ہے، وہ ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا رب ہے، تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کو پالنے والا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 712]
ابویحییٰ کہتے ہیں کہ جب ابن ملجم نامی ایک بدنصیب اور شقی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ کیا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کے ساتھ وہی سلوک کرو جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے ساتھ کیا تھا جس نے انہیں شہید کرنے کا ارادہ کیا تھا، پھر فرمایا کہ اسے قتل کر کے اس کی لاش نذر آتش کر دو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 713]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف شريك، وهو ابن عبدالله النخعي- وعمران بن ظبيان
نعیم بن دجاجہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا آپ ہی نے یہ بات فرمائی ہے کہ لوگوں پر سو سال نہیں گزریں گے کہ زمین پر کوئی آنکھ ایسی باقی نہ بچے گی جس کی پلکیں جھپکتی ہوں یعنی سب لوگ مر جائیں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات فرمائی تھی وہ یہ ہے کہ آج جو لوگ زندہ ہیں سو سال گزرنے پر ان میں سے کسی کی آنکھ ایسی نہ رہے گی جس کی پلکیں جھپکتی ہوں، یعنی قیامت مراد نہیں ہے، بخدا! اس امت کو سو سال کے بعد تو سہولیات ملیں گی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 714]
حكم دارالسلام: إسناده قوي، عبدالله بن سلمة قد توبع
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے جہیز میں روئیں دار کپڑے، ایک مشکیزہ اور چمڑے کا تکیہ دیا تھا جس میں اذخر نامی گھاس بھری ہوئی تھی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 715]
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ کی ایک عورت پر رجم کی سزا جاری فرمائی، جمعرات کے دن اسے کوڑے مارے اور جمعہ کے دن اسے سنگسار کر دیا اور فرمایا کہ میں نے کوڑے قرآن کریم کی وجہ سے مارے اور سنگسار سنت کی وجہ سے کیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 716]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، رجاله ثقات من طريق سلمة ، وأما مجالد فضعيف، روي له مسلم مقرونة، وأصحاب السنن. وفي خ: 6812، وهو مختصر بقصة الرجم دون الجلد
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز کی تکبیر ہونے کے بعد اللہ اکبر کہتے، کندھوں کے برابر ہاتھ اٹھاتے، قرأت مکمل ہونے کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں جانے لگتے تب بھی اسی طرح کرتے، رکوع سے سر اٹھا کر بھی اسی طرح کرتے، بیٹھے ہونے کی صورت میں کسی رکن کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم رفع یدین نہ فرماتے تھے، البتہ جب دونوں سجدے کر کے کھڑے ہوتے تو رفع یدین کر کے تکبیر کہتے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 717]
نعیم بن دجاجہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا آپ ہی نے یہ بات فرمائی ہے کہ لوگوں پر سو سال نہیں گزریں گے کہ زمین پر کوئی آنکھ ایسی باقی نہ بچے گی جس کی پلکیں جھپکتی ہوں یعنی سب لوگ مر جائیں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات فرمائی تھی وہ یہ ہے کہ آج جو لوگ زندہ ہیں سو سال گزرنے پر ان میں سے کسی کی آنکھ ایسی نہ رہے گی جس کی پلکیں جھپکتی ہوں یعنی قیامت مراد نہیں ہے، بخدا! اس امت کو سو سال کے بعد تو سہولیات ملیں گی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 718]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو شیاطین اپنے اپنے ٹھکانوں سے نکل پڑتے ہیں اور لوگوں کو بازاروں میں روکنے کی کوششیں کرتے ہیں ان کے ساتھ کچھ جھنڈے بھی ہوتے ہیں دوسری طرف فرشتے مسجدوں کے دروازوں پر بیٹھ جاتے ہیں اور لوگوں کے لئے ان کے مراتب کے مطابق ثواب لکھتے ہیں، پہلے کا، دوسرے کا، اس کے بعد آنے والے کا، یہاں تک کہ امام نکل آئے، سو جو شخص امام کے قریب ہو، خاموشی سے بیٹھ کر توجہ سے اس کی بات سنے، کوئی لغو حرکت نہ کرے تو اس کے لی دہرا اجر ہے اور جو شخص امام سے دور ہو لیکن پھر بھی خاموش بیٹھ کر توجہ سے سننے میں مشغول رہے اور کوئی لغو حرکت نہ کرے تو اس کے لئے اکہرا اجر ہے اور جو شخص امام کے قریب بیٹھ کر بیکار کاموں میں لگا رہے، خاموشی سے بیٹھے اور نہ ہی توجہ سے اس کی بات سنے تو اسے اکہرا گناہ ہو گا اور جو شخص کسی کو خاموش کرانے کے لئے ”سی“ کی آواز نکالے تو اس نے بھی بات کی اور جس شخص نے بات کی اسے جمعہ کا کوئی ثواب نہیں ملے گا، پھر فرمایا کہ میں نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح سنا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 719]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی (جب تک میرے صحابہ مکمل طور پر دنیا سے رخصت نہ ہو جائیں) یہاں تک کہ میرے کسی ایک صحابی کو اس طرح تلاش کیا جائے گا جیسے کسی گمشدہ چیز کو تلاش کیا جاتا ہے لیکن کوئی ایک صحابی بھی نہ مل سکے گا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 720]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سود خور، سود کھلانے والے، سودی معاملات لکھنے والے، سودی معاملات کے گواہ، حلالہ کرنے والے، حلالہ کروانے والے پر لعنت فرمائی ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 721]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف الحارث الأعور
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی انگوٹھی، ریشم اور سرخ زین پوش سے منع فرمایا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 722]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عبد مکاتب یعنی وہ غلام جس سے ایک مقررہ مقدار ادا کرنے پر آقا نے آزادی کا معاہدہ کر لیا ہو، اس نے جتنی مقدار ادا کر دی ہو، اتنی مقدار میں وہ دیت کا مستحق بھی ہو جائے گا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 723]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر روانہ فرمایا اور ایک انصاری کو ان کا امیر مقرر کر دیا، اس نے آگ جلائی اور کہا کہ اس آگ میں داخل ہو جاؤ، لوگ ابھی اس میں چھلانگ لگانے کی سوچ ہی رہے تھے کہ ایک نوجوان کہنے لگا کہ آگ ہی سے تو بھاگ کر ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے وابستہ ہوئے ہیں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا واقعہ بتایا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں داخل ہونے کا ارادہ کرنے والوں سے فرمایا کہ اگر تم اس میں ایک مرتبہ داخل ہو جاتے تو پھر کبھی اس میں سے نہ نکل نہ سکتے اور دوسروں کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: ”اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت جائز نہیں ہے، اطاعت کا تعلق تو صرف نیکی کے کاموں سے ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 724]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے فرمایا کہ ہمارے پاس یہ جو کچھ زائد مال بچ گیا ہے اس کے بارے میں تمہاری کیا رائے؟ لوگوں نے کہا کہ امیر المؤمنین! آپ ہماری وجہ سے اپنے اہل خانہ، اپنے کاروبار اور تجارت سے رہ گئے ہیں، اس لئے یہ آپ رکھ رلیں، انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے کہا کہ لوگوں نے آپ کو مشورہ دے تو دیا ہے، انہوں نے فرمایا کہ آپ بھی تو کوئی رائے دیجئے، میں نے عرض کیا کہ آپ اپنے یقین کو گمان میں کیوں تبدیل کر رہے؟ فرمایا: آپ اپنی بات کی وضاحت خود ہی کر دیں۔ میں نے کہا: بہت بہتر، میں اس کی ضرور وضاحت کروں گا، آپ کو یاد ہو گا کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو صدقات و زکوٰۃ کی وصولی کے لئے بھیجا تھا، آپ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، انہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا، آپ دونوں کے درمیان کچھ اونچ نیچ ہو گئی۔ آپ نے مجھ سے کہا کہ میرے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلو، ہم وہاں پہنچے تو ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں وہ نشاط نہ دیکھا جو ہوتا تھا، چنانچہ ہم واپس آ گئے، اگلے دن جب ہم دوبارہ حاضر ہوئے تو اس وقت ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہشاش بشاش پایا، پھر آپ نے انہیں سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بتایا، انہوں نے آپ سے فرمایا کہ کیا آپ کے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ انسان کا چچا اس کے باپ کے مرتبہ میں ہوتا ہے۔ پھر ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے دن کی کیفیت اور دوسرے دن کی کیفیت کے حوالے سے پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب آپ دونوں پہلے دن میرے پاس آئے تھے تو میرے پاس زکوٰۃ کے دو دینار بچ گئے تھے، یہی وجہ تھی کہ آپ نے مجھے بوجھل طبیعت میں دیکھا اور جب آج آپ دونوں میرے پاس آئے تو میں وہ کسی کو دے چکا تھا اسی وجہ سے آپ نے مجھے ہشاش بشاش پایا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے یہ سن کر فرمایا: آپ نے صحیح فرمایا: بخدا! میں دنیا و آخرت میں آپ کا شکر گزار رہوں گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 725]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، أبو البختري- واسمه سعيد بن فيروز- لم يدرك علياً، و أن عم الرجل صنو أبيه له شاهد صحيح من حديث أبى هريرة فى صحيح مسلم وغيره
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی تکلیف یا مصیبت آنے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ دعا سکھائی ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ بڑا بردبار اور مہربان ہے، اللہ ہر عیب اور نقص سے پاک ہے، اللہ کی ذات بڑی بابرکت ہے، وہ عرش عظیم کا رب ہے اور تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کو پالنے والا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 726]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص جنابت کی حالت میں غسل کرتے ہوئے ایک بال کے برابر بھی جگہ خالی چھوڑ دے جہاں پانی نہ پہنچا ہو، اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ جہنم میں ایسا ایسا معاملہ کریں گے، بس اسی وقت سے میں نے اپنے بالوں کے ساتھ دشمنی پال لی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 727]
حكم دارالسلام: إسناده مرفوعاً ضعيف، عطاء بن السائب اختلط بأخرة، وعامة من رفع عنه هذا الحديث، فإنما رواه عنه بعد اختلاطه
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سات کپڑوں میں دفنایا گیا تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 728]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لتفرد عبدالله بن محمد بن عقيل به، ولمخالفة الحديث الصحيح الذى رواه البخاري: 1264، ومسلم: 941 من حديث عائشة إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كفن فى ثلاثة أثواب
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب تکبیر تحریمہ کہہ چکتے تو ثناء پڑھنے کے بعد فرماتے کہ میں نے اپنے چہرے کا رخ اس ذات کی طرف سب سے یکسو ہو کر اور مسلمان ہو کر پھیر لیا جس نے آسمان و زمین کو تخلیق کیا اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں، میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور موت اس اللہ کے لئے وقف ہے جو تمام جہانوں کو پالنے والا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں مسلمانوں میں سے ہوں، الہیٰ! آپ ہی حقیقی بادشاہ ہیں، آپ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، آپ ہی میرے رب اور میں آپ کا عبد ہوں، میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور مجھے اپنے گناہوں کا اعتراف ہے اس لئے آپ میرے تمام گناہوں کو معاف فرمادیں، کیونکہ آپ کے علاوہ کوئی گناہوں کو معاف کر ہی نہیں سکتا اور بہتر اخلاق کی طرف میری رہنمائی فرمائیے، کیونکہ بہترین اخلاق کی طرف بھی آپ ہی رہنمائی کر سکتے ہیں اور مجھے برے اخلاق سے بچائیے کیونکہ ان سے بھی آپ ہی بچا سکتے ہیں، آپ کی ذات تو بڑی بابرکت اور برتر ہے، میں آپ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا اور توبہ کرتا ہوں۔ جب رکوع میں جاتے تو یوں کہتے ہیں کہ الہیٰ! میں نے آپ کے لئے رکوع کیا، آپ پر ایمان لایا، آپ کا تابع فرمان ہوا، میرے کان اور آنکھیں، دماغ، ہڈیاں اور پٹھے سب آپ کے سامنے جھکے ہوئے ہیں۔ جب رکوع سے سر اٹھاتے تو «سمع الله لمن حمده» اور «ربنا ولك الحمد» کہنے کے بعد فرماتے کہ تمام تعریفیں آپ ہی کے لئے ہیں جو زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی جگہ کو پر کر دیں اور اس کے علاوہ جس چیز کو آپ چاہیں، بھر دیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں جاتے تو یوں فرماتے کہ الہیٰ! میں نے آپ کے لئے سجدہ کیا، آپ پر ایمان لایا، آپ کا تابع فرمان ہوا، میرا چہرہ اس ذات کے سامنے سجدہ ریز ہے جس نے اسے پیدا کیا اور اس کی بہترین تصویر کشی کی، اس کے کان (سننے) اور آنکھ دیکھنے کے قابل بنائے، اللہ کی ذات بڑی بابرکت ہے جو بہترین خالق ہے۔ اور جب نماز کا سلام پھیرتے تو یوں فرماتے کہ اے اللہ! میرے اگلے پچھلے، پوشیدہ اور ظاہر تمام گناہوں کو معاف فرما دے اور جو میں نے تجاوز کیا وہ بھی معاف فرما دے اور جن چیزوں کو آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں، وہ بھی معاف فرما دے، آپ ہی اول و آخر ہیں اور آپ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 729]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! یہ بتائیے کہ اگر آپ کے بعد میرے یہاں کوئی لڑکا پیدا ہو تو کیا میں اس کا نام آپ کے نام پر اور اس کی کنیت آپ کی کنیت پر رکھ سکتا ہوں؟ فرمایا: ہاں! یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لئے رخصت تھی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 730]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے یہ بات ذکر فرمائی تھی کہ تم سے بغض کوئی منافق ہی کر سکتا ہے اور تم سے محبت کوئی مومن ہی کر سکتا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 731]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم فرمایا ہے کہ قربانی کے جانوروں کی آنکھ اور کان اچھی طرح دیکھ لیں کہ کہیں ان میں کوئی عیب تو نہیں ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 732]
مروان بن حکم سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ چلے جا رہے تھے کہ ایک شخص حج اور عمرہ دونوں کا تلبیہ کہتے ہوئے نظر آیا، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ کیا آپ کے علم میں نہیں ہے کہ میں نے اس کی ممانعت کا حکم جاری کر دیا ہے؟ فرمایا: کیوں نہیں لیکن آپ کی بات کے آگے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو نہیں چھوڑ سکتا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 733]
ایک آدمی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے گائے کی قربانی کے حوالے سے سوال کیا، انہوں نے فرمایا کہ ایک گائے سات آدمیوں کی طرف سے کفایت کر جاتی ہے، اس نے پوچھا کہ اگر اس کا سینگ ٹوٹا ہوا ہو تو؟ فرمایا: کوئی حرج نہیں، اس نے کہا کہ اگر وہ لنگڑی ہو؟ فرمایا: اگر قربان گاہ تک خود چل کر جا سکے تو اسے ذبح کر لو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ جانور کے آنکھ اور کان اچھی طرح دیکھ لیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 734]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک قوم نکلے گی، ان میں ایک آدمی ناقص الخلقت بھی ہو گا، اگر تم حد سے آگے نہ بڑھ جاؤ تو میں تم سے وہ وعدہ بیان کرتا جو اللہ نے نبی کی زبانی ان کے قتل کرنے والوں سے فرما رکھا ہے، راوی کہتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے واقعی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں کوئی فرمان سنا ہے؟ تو انہوں نے تین مرتبہ فرمایا ہاں! رب کعبہ کی قسم۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 735]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی باندی سے بدکاری کا گناہ سرزد ہو گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس پر حد جاری کرنے کا حکم دیا، میں اس کے پاس پہنچا تو ابھی اس کا خون بند نہیں ہوا تھا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اس کا خون رک جائے تو اس پر حد جاری کر دینا اور یاد رکھو! اپنے مملوکوں پر بھی حدود جاری کیا کرو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 736]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالأعلى الثعلبي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میری رائے یہ تھی کہ «مسح على الخفين» کے لئے موزوں کا وہ حصہ زیادہ موزوں ہے جو زمین کے ساتھ لگتا ہے بہ نسبت اس حصے کے جو پاؤں کے اوپر رہتا ہے، حتی کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اوپر کے حصے پر مسح کرتے ہوئے دیکھ لیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 737]
حكم دارالسلام: حديث صحيح بمجموع طرقه، والأعمش كان مضطرباً فى حديث أبى إسحاق، وأشار الدارقطني فى العلل إلى الاختلاف فى سند الحديث ومتنه
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں گھوڑوں پر گدھوں کو کدوانے سے (جفتی کروانے سے) منع فرمایا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 738]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف بالانقطاع بين سالم بن أبى الجعد وعلي بن أبى طالب
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر میں مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر کسی کو امیر بناتا تو ابن ام عبد یعنی سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو بناتا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 739]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف الحارث بن عبدالله الأعور
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ آٹا پیس پیس کر ہاتھوں میں نشان پڑ گئے ہیں، اس دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کہیں سے کچھ قیدی آئے، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو پتہ چلا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک خادم کی درخواست لے کر حاضر ہوئیں، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہ ملے، چنانچہ وہ واپس آگئیں۔ رات کو جب ہم اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، میں نے کھڑا ہونا چاہا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی جگہ رہو“، یہ کہہ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس بیٹھ گئے، حتیٰ کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کی ٹھنڈک محسوس کی، اور فرمایا: ”کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جو تمہارے لئے خادم سے بہتر ہو؟ جب تم اپنے بستر پر لیٹا کرو تو تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، تینتیس مرتبہ الحمدللہ اور چونتیس مرتبہ اللہ اکبر کہہ لیا کرو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 740]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنے رفیقابوالھیاج اسدی کو مخاطب کر کے فرمایا: میں تمہیں اس کام کے لئے بھیج رہا ہوں، جس کام کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجا تھا، انہوں نے مجھے ہر قبر کو برابر کرنے اور ہر بت کو مٹا ڈالنے کا حکم دیا تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 741]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۃ الاعلی بہت محبوب تھی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 742]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تین آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان میں سے ایک نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے پاس سو دینار تھے جن میں سے میں نے دس دینار صدقہ کر دئیے، دوسرے نے کہا: یا رسول اللہ! میرے پاس دس دینار تھے، میں نے ان میں سے ایک دینار صدقہ کر دیا، اور تیسرے نے عرض کیا کہ میرے پاس ایک دینار تھا، میں نے اس کا دسواں حصہ صدقہ کر دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سب کو برابر برابر اجر ملے گا، اس لئے کہ تم سب نے اپنے مال کا دسواں حصہ صدقہ کیا ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 743]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف الحارث الأعور، وعنعنة أبى إسحاق
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلیاں اور پاؤں بھرے ہوئے اور ہڈیوں کے جوڑ مضبوط تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 744]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، عثمان بن عبدالله لم يرو عنه غير المسعودي ومسعر بن كدام، وقال النسائي: ليس بذاك، وذكره ابن حبان فى الثقات
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: ”جب تمہارے پاس دو فریق آئیں تو صرف کسی ایک کی بات سن کر فیصلہ نہ کرنا، بلکہ دونوں کی بات سننا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 745]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف شريك وحنش
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ لمبے تھے اور نہ بہت زیادہ چھوٹے، سر مبارک بڑا اور داڑھی گھنی تھی، ہتھیلیاں اور پاؤں بھرے ہوئے تھے، چہرہ مبارک میں سرخی کی آمیزش تھی، سینے سے لے کر ناف تک بالوں کی ایک لمبی سی دھاری تھی، ہڈیوں کے جوڑ بہت مضبوط تھے، چلتے وقت چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے تھے، ایسا محسوس ہوتا تھا گویا کہ کسی گھاٹی سے اتر رہے ہیں، میں نے ان سے پہلے یا ان کے بعد ان جیسا کوئی نہ دیکھا، صلی اللہ علیہ وسلم ۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 746]
حكم دارالسلام: حسن لغيره كسابقه، وسماع وكيع من المسعودي قبل الاختلاط
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسری نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیہ بھیجا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرما لیا، اسی طرح قیصر نے ہدیہ بھیجا تو وہ بھی قبول فرما لیا، اور دیگر بادشاہوں نے بھیجا تو وہ بھی قبول فرما لیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 747]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف ثوير بن أبى فاختة، وأخذ الهدية من المشركين بقصد تأنيسهم وتأليفهم على الإسلام ثابت عنه فى غير ما حديث هي فى صحيح البخاري فى الهبة، باب قبول الهدية من المشركين، وفي صحيح مسلم 2469
شریح بن ہانی کہتے ہیں کہ میں نے موزوں پر مسح کے حوالے سے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک سوال پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ سوال تم سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھو، انہیں اس مسئلے کا زیادہ علم ہوگا کیونکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں بھی رہتے تھے، چنانچہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مسافر کے لئے تین دن اور تین رات موزوں پر مسح کرنے کی اجازت ہے، اور مقیم کے لئے ایک دن اور ایک رات۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 748]
حكم دارالسلام: صحيح. م: 276، الحجاج مدلس و عنعن، وقد توبع
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ میں سونا اور بائیں ہاتھ میں ریشم پکڑا اور دونوں ہاتھوں کو بلند کر کے فرمایا: ”یہ دونوں چیزیں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 750]
حكم دارالسلام: صحيح لشواهده، وقد سقط من الاسناد أبو أفلح الهمداني بين عبدالعزيز وبين عبدالله بن زرير، وسيأتي الحديث فى المسند برقم: 935 ، وفيه أبو أفلح هذا
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے آخر میں یوں فرماتے تھے: «اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ وَأَعُوذُ بِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ.»”اے اللہ! میں تیری رضا کے ذریعے تیری ناراضگی سے پناہ مانگتا ہوں، تیری درگزر کے ذریعے تیری سزا سے اور تیری ذات کے ذریعے تجھ سے پناہ مانگتا ہوں، میں تیری تعریف کا احاطہ نہیں کر سکتا، تو اسی طرح ہے جس طرح تو نے اپنی تعریف خود کی ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 751]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص مغرب اور عشاء کے درمیان تلاوت کرتے ہوئے اپنی آواز کو بلند کرے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 752]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف الحارث الأعور
علی بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ ان کے پاس سواری کے لئے ایک جانور لایا گیا، جب انہوں نے اپنا پاؤں اس کی رکاب میں رکھا تو بسم اللہ کہا، جب اس پر بیٹھ گئے تو یہ دعا پڑھی: «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ»”تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، پاک ہے وہ ذات جس نے اس جانور کو ہمارا تابع فرمان بنا دیا، ہم تو اسے اپنے تابع نہیں کر سکتے تھے، اور بیشک ہم اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔“ پھر تین مرتبہ الحمدللہ اور تین مرتبہ اللہ اکبر کہہ کر فرمایا: «سُبْحَانَكَ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ قَدْ ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي»”اے اللہ! آپ پاک ہیں، آپ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، میں نے اپنی جان پر ظلم کیا، پس مجھے معاف فرما دیجئے۔“ پھر مسکرا دئیے۔ میں نے پوچھا کہ امیر المؤمنین! اس موقع پر مسکرانے کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا تھا جیسے میں نے کیا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسکرائے تھے، اور میں نے بھی ان سے اس کی وجہ پوچھی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ”جب بندہ یہ کہتا ہے کہ پروردگار! مجھے معاف فرما دے، تو پروردگار کو خوشی ہوتی ہے اور وہ کہتا ہے کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ میرے علاوہ اس کے گناہ کوئی معاف نہیں کر سکتا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 753]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، شريك سيئ الحفظ، وقد توبع، وأبو إسحاق دلسه ، فحذف منه رجلين بينه وبين على بن ربيعة
عبداللہ بن یسار کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ عمرو بن حریث سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے آئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: یوں تو آپ حسن کی بیمار پرسی کے لئے آئے ہیں اور اپنے دل میں جو کچھ چھپا رکھا ہے اس کا کیا ہوگا؟ عمرو نے کہا کہ آپ میرے رب نہیں ہیں کہ جس طرح چاہیں میرے دل میں تصرف کرنا شروع کر دیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لیکن اس کے باوجود ہم تم سے نصیحت کی بات کہنے سے نہیں رکیں گے، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو مسلمان اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیادت کے لیے جاتا ہے، اللہ اس کے لئے ستر ہزار فرشتے مقرر فرما دیتا ہے جو شام تک دن کے ہر لمحے میں اس کے لئے دعا مغفرت کرتے رہتے ہیں، اور اگر شام کو گیا ہو تو صبح تک رات کی ہر گھڑی اس کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں۔“ عمرو بن حریث نے پوچھا کہ جنازے کے ساتھ چلنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے، جنازے کے آگے چلنا چاہئے یا پیچھے؟ فرمایا کہ آگے چلنے پر پیچھے چلنا اسی طرح افضل ہے جیسے فرض نماز باجماعت پڑھنے کی فضیلت تنہا پڑھنے پر ہے، عمرو نے کہا کہ میں نے تو خود سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما کو جنازے کے آگے چلتے ہوئے دیکھا ہے؟ فرمایا: وہ دونوں لوگوں کو اپنی وجہ سے تنگی میں مبتلا نہیں کرنا چاہتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 754]
حكم دارالسلام: حسن، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عبدالله بن يسار
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کہیں سے ہدیہ کے طور پر ایک ریشمی جوڑا آیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ میرے پاس بھیج دیا، میں اسے پہن کر باہر نکلا، لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور پر ناراضگی کے اثرات دیکھے تو میں نے اسے اپنی عورتوں میں تقسیم کر دیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 755]
عبداللہ بن شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ لوگوں کو حج تمتع سے روکتے تھے، اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس کے جواز کا فتوی دیتے تھے، ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے کچھ کہا ہوگا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ جانتے بھی ہیں کہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج تمتع کیا ہے پھر بھی اس سے روکتے ہیں؟ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بات تو ٹھیک ہے، لیکن ہمیں اندیشہ ہے (کہ لوگ رات کو بیویوں کے قریب جائیں اور صبح کو غسل جنابت کے پانی سے گیلے ہوں اور حج کا احرام باندھ لیں)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 756]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شیر خوار بچے کے متعلق ارشاد فرمایا: ”بچے کے پیشاب پر پانی کے چھینٹے مارنا بھی کافی ہے اور بچی کا پیشاب جس چیز پر لگ جائے اسے دھویا جائے گا۔“ قتادہ کہتے ہیں کہ یہ حکم اس وقت تک ہے جب انہوں نے کھانا پینا شروع نہ کیا ہو، اور جب وہ کھانا پینا شروع کر دیں تو دونوں کا پیشاب جس چیز کو لگ جائے اسے دھونا ہی پڑے گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 757]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کوئی شخص اس وقت تک کامل مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک چار چیزوں پر ایمان نہ لے آئے، اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، اور یہ کہ میں اللہ کا پیغمبر ہوں، اس نے مجھے برحق نبی بنا کر بھیجا ہے، مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان لائے اور تقدیر پر ایمان رکھے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 758]
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں ابوطالب کی وفات کی خبر دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جا کر انہیں کسی گڑھے میں چھپا دو۔“ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ وہ تو شرک کی حالت میں مرے ہیں (میں کیسے ان کو قبر میں اتاروں؟) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی فرمایا کہ ”جا کر انہیں کسی گڑھے میں چھپا دو۔“ جب میں انہیں کسی گڑھے میں اتار کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آیا تو مجھ سے فرمایا کہ ”جا کر غسل کرو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 759]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ مجھے دو غلاموں کو بیچنے کا حکم دیا، وہ دونوں آپس میں بھائی تھے، میں نے ان دونوں کو دو الگ الگ آدمیوں کے ہاتھ فروخت کر دیا، اور آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”واپس جا کر ان دونوں کو واپس لو اور اکٹھا ایک ہی آدمی کے ہاتھ ان دونوں کو فروخت کرو۔“(تاکہ دونوں کو ایک دوسرے سے کچھ تو قرب اور انس رہے)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 760]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، سعيد بن أبى عروبة لم يسمع من الحكم بن عتيبة شيئاً
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وتر فرض نماز کی طرح قرآن کریم سے حتمی ثبوت نہیں رکھتے، لیکن ان کا وجوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 761]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اپنے اہل خانہ کو بھی رات جاگنے کے لئے اٹھایا کرتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 762]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مجھے کچھ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔“ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ کیا چیزیں ہیں؟ فرمایا: ”میری مدد رعب کے ذریعے کی گئی ہے، مجھے زمین کے خزانے دئیے گئے ہیں، میرا نام احمد رکھا گیا ہے، مٹی کو میرے لئے پانی کی طرح پاک کرنے والا قرار دیا گیا ہے، اور میری امت کو بہترین امت کا خطاب دیا گیا ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 763]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذان فجر کے قریب وتر ادا فرماتے تھے، اور اقامت کے قریب فجر کی سنتیں پڑھتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 764]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوئے تھے اور ہم قریب ہی بیٹھے دجال کا تذکرہ کر رہے تھے، اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کا رنگ سرخ ہو رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے تم پر دجال سے زیادہ ایک دوسری چیز کا خطرہ ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 765]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بطور ہدیہ کے ایک خچر پیش کیا گیا، میں نے پوچھا یہ کیا ہے؟ فرمایا کہ ”خچر ہے مذکر یا مونث“، میں نے پوچھا کہ یہ کس نسل سے ہوتا ہے؟ فرمایا: ”گھوڑی پر گدھے کو سوار کر دیا جاتا ہے، جس کا نتیجہ اس خچر کی صورت میں نکلتا ہے۔“ میں نے عرض کیا کہ پھر میں بھی فلاں گدھے کو فلاں گھوڑی پر نہ چڑھا دوں؟ فرمایا: ”نہیں، یہ وہ لوگ کرتے ہیں جو جاہل ہوں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 766]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف شريك وجهالة على بن علقمة
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے ہوتے تو سبحان اللہ کہہ دیتے، اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت نماز نہ پڑھ رہے ہوتے تو یوں ہی اجازت دے دیتے (اور سبحان اللہ کہنے کی ضرورت نہ رہتی)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 767]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم منی میں قربان گاہ پر تشریف لائے اور فرمایا: ”یہ قربان گاہ ہے، اور پورا منی ہی قربان گاہ ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 768]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حسن کی پیدائش ہوئی تو میں نے اس کا نام حرب رکھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بچے کی پیدائش کی خبر معلوم ہوئی تو تشریف لائے اور فرمایا: ”مجھے میرا بیٹا تو دکھاؤ، تم نے اس کا کیا نام رکھا ہے؟“ میں نے عرض کیا: حرب، فرمایا: ”نہیں، اس کا نام حسن ہے۔“ پھر جب حسین پیدا ہوئے تو میں نے ان کا نام حرب رکھ دیا، اس موقع پر بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: ”مجھے میرا بیٹا تو دکھاؤ، تم نے اس کا کیا نام رکھا ہے؟“ میں نے پھر عرض کیا: حرب، فرمایا: ”نہیں، اس کا نام حسین ہے۔“ تیسرے بیٹے کی پیدائش پر بھی اسی طرح ہوا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام بدل کر ”محسن“ رکھ دیا، پھر فرمایا: ”میں نے ان بچوں کے نام حضرت ہارون علیہ السلام کے بچوں کے نام پر رکھے ہیں، جن کے نام شبر، شبیر اور مشبر تھے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 769]
حكم دارالسلام: ضعفه الشيخ الألباني فى الضعيفة : 3706، هانئ بن هانئ مجهول
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ہم مکہ مکرمہ سے نکلنے لگے تو سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی چچا جان! چچاجان! پکارتی ہوئی ہمارے پیچھے لگ گئی، میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حوالے کر دیا، اور ان سے کہا کہ اپنی چچا زاد بہن کو سنبھالو، جب ہم مدینہ منورہ پہنچے تو اس بچی کی پرورش کے سلسلے میں میرا، سیدنا جعفر اور سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما کا جھگڑا ہو گیا۔ سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کا موقف یہ تھا کہ یہ میرے چچا کی بیٹی ہے، اور اس کی خالہ یعنی سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا میرے نکاح میں ہیں، لہذا اس کی پرورش میرا حق ہے۔ سیدنا زید رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ یہ میری بھتیجی ہے۔ اور میں نے یہ موقف اختیار کیا کہ اسے میں لے کر آیا ہوں اور یہ میرے چچا کی بیٹی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا: ”جعفر! آپ تو صورت اور سیرت میں میرے مشابہہ ہیں، علی! آپ مجھ سے ہیں اور میں آپ سے ہوں، اور زید! آپ ہمارے بھائی اور ہمارے مولی (آزاد کردہ غلام) ہیں، بچی اپنی خالہ کے پاس رہے گی کیونکہ خالہ بھی ماں کے مرتبہ میں ہوتی ہے۔“ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ اس سے نکاح کیوں نہیں کر لیتے؟ فرمایا: ”اس لئے کہ یہ میری رضاعی بھتیجی ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 770]
حكم دارالسلام: إسناده حسن. هانئ وهبيرة حديثهما حسن لمتابعة أحدهما للآخر
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک آدمی کو اپنے مشرک والدین کے لئے دعا مغفرت کرتے ہوئے سنا تو میں نے کہا کہ کیا کوئی شخص اپنے مشرک والدین کے لئے بھی دعا مغفرت کر سکتا ہے؟ اس نے کہا کہ کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے والد کے لئے دعا مغفرت نہیں کرتے تھے؟ میں نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کی تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی: «﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ﴾ [التوبة: 113] »”پیغمبر اور اہلِ ایمان کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ مشرکین کے لئے دعا مغفرت کریں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 771]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات رات کو نماز پڑھ رہے ہوتے تھے اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ان کے اور قبلہ کے درمیان لیٹی ہوئی ہوتی تھیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 772]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر دنیا ختم ہونے میں صرف ایک دن ہی بچ جائے تب بھی اللہ تعالیٰ ہم میں سے ایک ایسے آدمی کو ضرور بھیجے گا جو زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے بھر دے گا جیسے پہلے وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی۔“(مراد سیدنا امام مہدی رضی اللہ عنہ ہیں، جن پر اس ناکارہ کی مستقل کتاب ”اسلام میں امام مہدی رضی اللہ عنہ کا تصور“ کے نام سے بازار میں دستیاب ہے)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 773]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سینے سے لے کر سر تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہہ ہیں، اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نچلے حصے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھتے ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 774]
حكم دارالسلام: ضعفه الألباني فى ضعيف سنن الترمذي : 4050
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص دنیا میں کسی گناہ کا ارتکاب کر بیٹھے اور اسے اس کی سزا بھی مل جائے تو اللہ تعالیٰ اس سے بہت عادل ہے کہ اپنے بندے کو دوبارہ سزا دے، اور جو شخص دنیا میں کوئی گناہ کر بیٹھے اور اللہ اس کی پردہ پوشی کرتے ہوئے اسے معاف فرما دے تو اللہ تعالیٰ اس سے بہت کریم ہے کہ جس چیز کو وہ معاف کر چکا ہو اس کا معاملہ دوبارہ کھولے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 775]
حبہ عرنی کہتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو منبر پر اس طرح ہنستے ہوئے دیکھا کہ اس سے قبل انہیں اتنا ہنستے ہوئے کبھی نہیں دیکھا تھا، یہاں تک کہ ان کے آخری دانت بھی نظر آنے لگے، پھر فرمانے لگے کہ مجھے اپنے والد ابوطالب کی ایک بات یاد آگئی، ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بطن نخلہ میں نماز پڑھ رہا تھا کہ ابوطالب آگئے اور کہنے لگے کہ بھتیجے! یہ تم دونوں کیا کر رہے ہو؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی، وہ کہنے لگے کہ تم دونوں جو کر رہے ہو اس میں کوئی حرج تو نہیں ہے لیکن واللہ! مجھ سے اپنے کولہے اوپر نہ کئے جا سکیں گے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنے والد کی اس بات پر تعجب سے ہنسی آگئی اور فرمانے لگے کہ اے اللہ! میں اس بات پر فخر نہیں کرتا کہ آپ کے نبی کے علاوہ اس امت میں آپ کے کسی بندے نے مجھ سے پہلے آپ کی عبادت کی ہو۔ یہ بات تین مرتبہ دہرا کر وہ فرمانے لگے کہ میں نے لوگوں کے نماز پڑھنے سے سات سال پہلے نماز پڑھی ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 776]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جداً، يحيى بن سلمة بن كهيل متروك الحديث، وحبة العرني ضعيف أيضاً
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے، اچانک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز چھوڑ کر گھر چلے گئے اور ہم کھڑے کے کھڑے ہی رہ گئے، تھوڑی دیر بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر سے پانی کے قطرات ٹپک رہے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے از سر نو ہمیں نماز پڑھائی، اور بعد فراغت فرمایا کہ ”جب میں نماز کے لئے کھڑا ہو گیا تب مجھے یاد آیا کہ میں تو اختیاری طور پر ناپاک ہو گیا تھا، اس لئے اگر تم میں سے کسی شخص کو اپنے پیٹ میں گڑبڑ محسوس ہو رہی ہو، یا میری جیسی کیفیت کا وہ شکار ہو جائے تو اسے چاہیے کہ میری ہی طرح کرے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 777]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف ابن لهيعة. وانظر حديث أبى هريرة الصحيح فى المسند: 2/ 338، 339، ففيه أن انصرافه كان قبل الدخول فى الصلاة
عبدالرحمٰن بن ابی لیلی کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رات کے وقت مختلف امور پر بات چیت کیا کرتے تھے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی عجیب عادت تھی کہ وہ سردی کے موسم میں گرمی کے کپڑے، اور گرمی کے موسم میں سردی کے کپڑے پہن لیا کرتے تھے، کسی نے میرے والد صاحب سے کہا کہ اگر آپ اس چیز کے متعلق سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھیں تو شاید وہ جواب دے دیں؟ چنانچہ والد صاحب کے سوال کرنے پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ غزوہ خیبر کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پاس ایک قاصد بھیجا، مجھے آشوب چشم کی بیماری لاحق تھی، اس لئے میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے تو آشوب چشم ہوا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر میری آنکھوں میں اپنا لعاب دہن ڈال دیا اور یہ دعا کی: «اَللّٰهُمَّ أَذْهِبْ عَنْهُ الْحَرَّ وَالْبَرْدَ»”اے اللہ! اس کی گرمی سردی دور فرما۔“ اس دن سے آج تک مجھے کبھی گرمی اور سردی کا احساس ہی نہیں ہوا۔ اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ”میں یہ جھنڈا اس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوگا، اور خود اللہ اور اس کے رسول کی نگاہوں میں محبوب ہوگا، وہ بھاگنے والا نہ ہوگا۔“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اس مقصد کے لئے اپنے آپ کو نمایاں کرنے لگے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ جھنڈا مجھے عنایت فرما دیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 778]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف ابن أبى ليلى شيخ وكيع، وهو محمد بن عبدالرحمن بن أبى ليلى
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا، اتنی دیر میں سیدنا عمار رضی اللہ عنہ آ کر اجازت طلب کرنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”انہیں اجازت دے دو، خوش آمدید اس شخص کو جو پاکیزہ ہے اور پاکیزگی کا حامل ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 779]
شریح بن ہانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے موزوں پر مسح کے حوالے سے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک سوال پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ سوال تم سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھو، چنانچہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ مسافر کے لئے تین دن اور تین رات موزوں پر مسح کرنے کی اجازت ہے، اور مقیم کے لئے ایک دن اور ایک رات۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 780]
شریح بن ہانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مجھے موزوں پر مسح کرنے کا حکم دیا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 781]
طارق بن شہاب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو منبر پر یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ واللہ! ہمارے پاس قرآن کریم کے علاوہ کوئی ایسی کتاب نہیں ہے جسے ہم پڑھتے ہوں، یا پھر یہ صحیفہ ہے جو تلوار سے لٹکا ہوا ہے، میں نے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا تھا، اس میں زکوٰۃ کے حصص کی تفصیل درج ہے۔ مذکورہ صحیفہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اس تلوار سے لٹکا رہتا تھا جس کے حلقے لوہے کے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 782]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره ، وهذا إسناد ضعيف لضعف شريك
عبداللہ بن الحارث کہتے ہیں کہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں میرے والد حارث مکہ مکرمہ میں کسی عہدے پر فائز تھے، ایک مرتبہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ تشریف لائے تو - بقول عبداللہ بن حارث کے - میں نے قدید نامی جگہ کے پڑاؤ میں ان کا استقبال کیا، اہل ماء نے ایک گھوڑا شکار کیا، ہم نے اسے پانی اور نمک ملا کر پکایا، اور اس کا گوشت ہڈیوں سے الگ کر کے اس کا ثرید تیار کیا، اس کے بعد ہم نے وہ کھانا سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے سامنے پیش کیا، لیکن ان کے ساتھیوں نے اس کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ نہ تو میں نے اس شکار کو پکڑ کر شکار کیا، اور نہ ہی اسے شکار کرنے کا حکم دیا، ایک غیر محرم جماعت نے اسے شکار کیا اور وہ اسے ہمارے سامنے پیش کر رہے ہیں، تو اس میں کیا حرج ہے؟ اسے کون ناجائز کہتا ہے؟ لوگوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا نام لگا دیا۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے انہیں بلاوا بھیجا، عبداللہ بن حارث کہتے ہیں کہ وہ منظر میری نگاہوں میں اب بھی محفوظ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھوں سے گرد و غبار جھاڑتے ہوئے آرہے تھے، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے بھی یہی فرمایا کہ نہ تو ہم نے اسے شکار کیا ہے، اور نہ ہی شکار کرنے کا حکم دیا ہے، ایک غیر محرم جماعت نے اسے شکار کر کے ہمارے سامنے کھانے کے لئے پیش کر دیا تو اس میں کیا حرج ہے؟ یہ سن کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کچھ تردد کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ میں ہر اس شخص کو قسم دے کر کہتا ہوں جو اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھا جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک جنگلی گدھے کے پائے لائے گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”ہم محرم لوگ ہیں، یہ اہل حل کو کھلا دو۔“ کیا ایسا ہے یا نہیں؟ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ صحابہ رضی اللہ عنہم کھڑے ہوگئے جنہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی تصدیق کی۔ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شتر مرغ کے انڈے لائے گئے، اس موقع پر موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو میں قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ ”ہم محرم لوگ ہیں، یہ غیر محرم لوگوں کو کھلا دو؟“ اس پر بارہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کھڑے ہوگئے، یہ دیکھ کر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ دستر خوان سے اٹھ کر اپنے خیمے میں چلے گئے اور وہ کھانا اہل ماء ہی نے کھا لیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 783]
حكم دارالسلام: حسن لغيره ، وهذا إسناد ضعيف لعلي بن زيد جدعان ، وثبت جواز أكل الصيد للمحرم إذا صاده الحلال وأهداه للمحرم في صحيح البخاري: 1821
عبداللہ بن الحارث کہتے ہیں کہ ان کے والد حارث سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے کھانے کے ذمے دار تھے، عبداللہ بن حارث کہتے ہیں کہ وہ منظر میری نگاہوں میں اب بھی محفوظ ہے کہ ہانڈیوں کے گرد گھوڑے کا گوشت پڑا ہوا ہے، ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اسے اچھا نہیں سمجھتے، سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے انہیں بلا بھیجا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھوں سے گرد و غبار جھاڑتے ہوئے آئے، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ آپ ہم سے بہت زیادہ اختلاف کرتے ہیں، یہ سن کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں ہر اس شخص کو قسم دے کر کہتا ہوں جو اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھا جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک جنگلی گدھے کے سرین لائے گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”ہم محرم لوگ ہیں، یہ اہل حل کو کھلا دو“، کیا ایسا ہے یا نہیں؟ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم کھڑے ہو گئے جنہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی تصدیق کی۔ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شتر مرغ کے پانچ انڈے لائے گئے، اس موقع پر موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو میں قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ ”ہم محرم لوگ ہیں، یہ غیر محرم لوگوں کو کھلا دو؟“ اس پر کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کھڑے ہو گئے، یہ دیکھ کر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ دستر خوان سے اٹھ کر اپنے خیمے میں چلے گئے اور وہ کھانا اہل ماء ہی نے کھا لیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 784]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بطور ہدیہ کے ایک خچر پیش کیا گیا، ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اگر ہم بھی فلاں گدھے کو فلاں گھوڑی پر چڑھا دیں اور ایسا جانور پیدا ہو جائے تو کیسا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ وہ لوگ کرتے ہیں جو جاہل ہوں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 785]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وتر فرض نماز کی طرح قرآن کریم سے حتمی ثبوت نہیں رکھتے، لیکن ان کا وجوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے، اور اللہ تعالیٰ طاق ہے اور طاق عدد کو پسند فرماتا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 786]
حكم دارالسلام: صحيح، أبو خيثمة - وإن كان سماعه من أبى إسحاق بعد الاختلاط - قد توبع
عبداللہ بن حارث کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ خلافت فاروقی یا خلافت عثمانی میں مجھے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ عمرہ کرنے کی سعادت حاصل ہوئی، اس دوران وہ اپنی ہمشیرہ سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا کے یہاں اترے، جب عمرہ سے فارغ ہو گئے تو ان کے یہاں واپس آئے، ان کے غسل کے لئے پانی رکھ دیا گیا، انہوں نے غسل کیا، ابھی غسل کر کے فارغ ہوئے تھے کہ اہل عراق کا ایک وفد آگیا، وہ لوگ کہنے لگے کہ اے ابوالحسن! ہم آپ کے پاس ایک سوال لے کر آئے ہیں، ہماری خواہش ہے کہ آپ ہمیں اس کے متعلق کچھ بتائیں؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے آپ لوگوں سے یہ حدیث بیان کی ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے قریب العہد ہیں، انہوں نے کہا: بالکل ٹھیک، ہم اسی کے متعلق آپ سے پوچھنے آئے ہیں، فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریب العہد قثم بن عباس ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 787]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اہل صفہ میں سے ایک صاحب کا انتقال ہو گیا، انہوں نے ترکہ میں دو دینار یا دو درہم چھوڑے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ جہنم کے دو انگارے ہیں جن سے داغا جائے گا، تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ خود پڑھ لو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 788]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة عتيبة وبريد بن أصرم
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر جھوٹا خواب بیان کرتا ہے، اسے قیامت کے دن جو کے دانے میں گرہ لگانے کا مکلف بنایا جائے گا (حکم دیا جائے گا)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 789]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالأعلى).
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے میرے کانوں نے سنی، اور میرے دل دماغ نے اسے محفوظ کیا کہ ”تمام لوگ قریش کے تابع ہیں، نیک لوگ نیکوں کے تابع، اور برے لوگ بروں کے تابع ہیں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 790]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف محمد بن جابر اليمامي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ یا کان کٹے ہوئے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے اس کا مطلب پوچھا تو انہوں نے فرمایا: وہ جانور جس کا نصف یا اس سے زیادہ کان کٹا ہوا ہو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 791]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے غریب خانے پر تشریف لائے، میں سو رہا تھا، اتنی دیر میں سیدنا حسن یا سیدنا حسین رضی اللہ عنہما کو پیاس لگی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہماری ایک بکری کی طرف بڑھے جو بہت کم دودھ دیتی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا دودھ دوہا تو وہ بہت زیادہ نکلا، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ ان کے پاس چلے گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک طرف بٹھا لیا، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں کہ یا رسول اللہ! شاید آپ کو اس سے زیادہ محبت ہے؟ فرمایا: ”یہ بات نہیں ہے، اصل میں اس نے پہلے مانگا تھا۔“ پھر فرمایا کہ ”قیامت کے دن میں، تم، یہ دونوں اور یہ سونے والا ایک ہی جگہ میں ہوں گے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 792]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جداً لضعف قيس بن الربيع واضطرابه فى الحديث
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں اس وقت گھر سے نکلا جب چاند طلوع ہو چکا تھا، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ کسی بڑے پیالے کا شگاف ہو،“ اور فرمایا: ”آج کی رات شب قدر ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 793]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف حديج
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو شخص جنابت کی حالت میں غسل کرتے ہوئے ایک بال کے برابر بھی جگہ خالی چھوڑ دے جہاں پانی نہ پہنچا ہو، اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ جہنم میں ایسا ایسا معاملہ کریں گے۔“ بس اسی وقت سے میں نے اپنے بالوں کے ساتھ دشمنی پال لی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 794]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف مرفوعاً، عطاء بن السائب أختلط بآخرة، وعامة من رفع عنه هذا الحديث، فإنما رواه عنه بعد أختلاطه
زاذان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر پانی پیا، لوگ ان کی طرف تعجب سے دیکھنے لگے، انہوں نے فرمایا: مجھے کیوں گھور گھور کر دیکھ رہے ہو؟ اگر میں نے کھڑے ہو کر پانی پیا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کیا ہے، اور اگر بیٹھ کر پیا ہے تو انہیں اس طرح بھی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 795]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک بڑا، آنکھیں موٹی موٹی، پلکیں لمبی لمبی، آنکھوں میں سرخی کے ڈورے، گھنی داڑھی، کھلتا ہوا رنگ اور ہاتھ پاؤں بھرے ہوئے تھے، اور چلنے کی کیفیت ایسی تھی کہ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی گھاٹی پر چل رہے ہوں۔ اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی طرف متوجہ ہوتے تو مکمل طور پر متوجہ ہوتے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 796]
ربعی بن حراش کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ صحن کوفہ میں تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہوئے، اللہ کی حمد و ثناء بیان کی، اور جو اللہ نے چاہا سو انہوں نے کہا، اس کے بعد پانی کا ایک برتن منگوایا، اس میں سے کلی کی، کچھ پانی مسح کے طور پر اپنے جسم کے اعضاء وضو پر پھیر لیا، اور باقی ماندہ پانی کھڑے ہو کر پی لیا، اور فرمایا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم میں سے بعض لوگ کھڑے ہو کر پانی پینے کو مکروہ سمجھتے ہیں، یہ اس شخص کا وضو ہے جو بےوضو نہ ہو، اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 797]
طارق بن شہاب کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو منبر پر یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ واللہ! ہمارے پاس قرآن کریم کے علاوہ کوئی ایسی کتاب یا وحی نہیں ہے جسے ہم پڑھتے ہوں، یا پھر یہ صحیفہ ہے جو میری تلوار سے لٹکا ہوا ہے، اس میں زکوٰۃ کے حصص کی تفصیل درج ہے۔ مذکورہ صحیفہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اس تلوار سے لٹکا رہتا تھا جس کے حلقے لوہے کے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 798]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف شريك
زر بن حبیش کہتے ہیں کہ (ابن جرموز نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت مانگی، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا کون ہے؟) لوگوں نے بتایا کہ ابن جرموز اندر آنا چاہتا ہے، فرمایا: اسے اندر آنے دو، سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کا قاتل جہنم میں ہی داخل ہوگا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”ہر نبی کا ایک خاص حواری ہوتا ہے، اور میرا حواری زبیر ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 799]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ مجھے دو غلام ہبہ کر دیئے، وہ دونوں آپس میں بھائی تھے، میں نے ان میں سے ایک کو فروخت کر دیا، ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ ”وہ غلام کیا ہوئے؟“ میں نے عرض کیا کہ میں نے ان میں سے ایک کو فروخت کردیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے واپس لے لو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 800]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، ميمون بن أبى شبيب لم يدرك علياً، وليس هو بذاك ، والحجاج مدلس، وقد عنعن
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سات کپڑوں میں کفن دیا گیا تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 801]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لتفرد عبدالله بن محمد ابن عقيل به، ولمخالفة الحديث الصحيح الذى رواه البخاري : 1664، ومسلم: 941، من حديث عائشة: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كفن فى ثلاثة أثواب......
فضالہ - جن کے والد سیدنا ابوفضالہ انصاری رضی اللہ عنہ بدری صحابہ کرام میں سے تھے - کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اپنے والد کے ساتھ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیمار پرسی کے لئے گیا، وہ کچھ بیمار ہو گئے تھے اور اس سے ان کی طبیعت بوجھل ہو رہی تھی، میرے والد صاحب نے ان سے کہا کہ بیماری نے آپ کا کیا حال کر رکھا ہے؟ اگر آپ کا آخری وقت آپہنچا تو آپ کے پاس جہینہ کے دیہاتیوں کے علاوہ کوئی نہیں آئے گا جو آپ کو مدینہ منورہ لے جائیں گے، اس لئے اگر آپ کا آخری وقت قریب آجائے تو آپ کے ساتھیوں کو آپ کا خیال کرنا چاہئے، اور آپ کی نماز جنازہ پڑھنی چاہئے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ بات بتا رکھی ہے کہ میں اس وقت تک نہیں مروں گا جب تک کہ میں خلیفہ نہ بن جاؤں، اس کے بعد یہ داڑھی اس سر کے خون سے رنگین ہو جائے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے دور خلافت میں شہید ہوئے، جبکہ سیدنا ابوفضالہ رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جہاد میں شریک ہو کر جنگ صفین کے موقع پر شہید ہو گئے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 802]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة فضالة بن أبى فضالة
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب تکبیر تحریمہ کہہ چکتے تو ثناء پڑھنے کے بعد فرماتے: «وَجَّهْتُ وَجْهِي لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ اَللّٰهُمَّ أَنْتَ الْمَلِكُ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ أَنْتَ رَبِّي وَأَنَا عَبْدُكَ ظَلَمْتُ نَفْسِي وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي جَمِيعًا لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ اَللَّهُمَّ اهْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ لَا يَهْدِي لِأَحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ اصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَهَا لَا يَصْرِفُ عَنِّي سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي يَدَيْكَ وَالشَّرُّ لَيْسَ إِلَيْكَ أَنَا بِكَ وَإِلَيْكَ تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ»”میں نے اپنے چہرے کا رخ اس ذات کی طرف سب سے یکسو ہو کر اور مسلمان ہو کر پھیر لیا جس نے آسمان و زمین کو تخلیق کیا، اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں، میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور موت اس اللہ کے لئے وقف ہے جو تمام جہانوں کو پالنے والا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں مسلمانوں میں سے ہوں، الٰہی! آپ ہی حقیقی بادشاہ ہیں، آپ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، آپ ہی میرے رب اور میں آپ کا عبد ہوں، میں نے اپنی جان پر ظلم کیا، اور مجھے اپنے گناہوں کا اعتراف ہے، اس لئے آپ میرے تمام گناہوں کو معاف فرما دیں، کیونکہ آپ کے علاوہ کوئی گناہوں کو معاف کر ہی نہیں سکتا، اور بہتر اخلاق کی طرف میری رہنمائی فرمائیے، کیونکہ بہترین اخلاق کی طرف بھی آپ ہی رہنمائی کر سکتے ہیں، اور مجھے برے اخلاق سے بچائیے کیونکہ ان سے بھی آپ ہی بچا سکتے ہیں، میں آپ کی بارگاہ میں حاضر اور آپ کا خادم ہوں، ہر قسم کی خیر آپ کے ہاتھ میں ہے، اور شر آپ کے قریب نہیں کر سکتا، میں آپ کا ہوں اور آپ ہی کی طرف لوٹ کر آؤں گا، آپ کی ذات بڑی بابرکت اور برتر ہے، میں آپ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا اور توبہ کرتا ہوں۔“ جب رکوع میں جاتے تو یوں کہتے: «اَللّٰهُمَّ لَكَ رَكَعْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَلَكَ أَسْلَمْتُ خَشَعَ لَكَ سَمْعِي وَبَصَرِي وَمُخِّي وَعِظَامِي وَعَصَبِي»”الٰہی! میں نے آپ کے لئے رکوع کیا، آپ پر ایمان لایا، آپ کا تابع فرمان ہوا، میرے کان اور آنکھیں، دماغ، ہڈیاں اور پٹھے سب آپ کے سامنے جھکے ہوئے ہیں۔“ جب رکوع سے سر اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ اور ربنا ولک الحمد کہنے کے بعد فرماتے: «لَكَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ»”تمام تعریفیں آپ ہی کے لئے ہیں جو زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی جگہ کو پر کر دیں، اور اس کے علاوہ جس چیز کو آپ چاہیں بھر دیں۔“ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں جاتے تو یوں فرماتے: «اَللّٰهُمَّ لَكَ سَجَدْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَلَكَ أَسْلَمْتُ سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ وَصَوَّرَهُ فَأَحْسَنَ صُوَرَهُ فَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ فَتَبَارَكَ اللّٰهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ»”الٰہی! میں نے آپ کے لئے سجدہ کیا، آپ پر ایمان لایا، آپ کا تابع فرمان ہوا، میرا چہرہ اس ذات کے سامنے سجدہ ریز ہے جس نے اسے پیدا کیا اور اس کی بہترین تصویر کشی کی، اس کے کان اور آنکھ دیکھنے کے قابل بنائے، اللہ کی ذات بڑی بابرکت ہے جو بہترین خالق ہے۔“ اور جب نماز کا سلام پھیرتے تو یوں فرماتے: «اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِيْ مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَسْرَفْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ»”اے اللہ! میرے اگلے پچھلے، پوشیدہ اور ظاہر تمام گناہوں کو معاف فرما دے، اور جو میں نے حد سے تجاوز کیا وہ بھی معاف فرما دے، اور جن چیزوں کو آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں وہ بھی معاف فرما دے، آپ ہی اول و آخر ہیں، اور آپ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 803]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ تین دن کے بعد اس کے گھر میں اس کی قربانی کا گوشت تھوڑا سا بھی موجود ہو۔“ فائدہ: یہ حکم بعد میں منسوخ ہو گیا تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 806]
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں ابوطالب کی وفات کی خبر دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جا کر انہیں کسی گڑھے میں چھپا دو، اور میرے پاس آنے سے پہلے کوئی دوسرا کام نہ کرنا۔“ چنانچہ جب میں انہیں کسی گڑھے میں اتار کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آیا تو مجھ سے فرمایا کہ ”جا کر غسل کرو، اور میرے پاس آنے سے پہلے کوئی دوسرا کام نہ کرنا۔“ چنانچہ میں غسل کر کے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اتنی دعائیں دیں کہ مجھے ان کے بدلے سرخ یا سیاہ اونٹ ملنے پر اتنی خوشی نہ ہوتی۔ راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جب بھی کسی میت کو غسل دیا تو خود بھی غسل کر لیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 807]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”آخر زمانے میں ایک قوم ظاہر ہوگی جس کا نام روافض ہوگا، یہ لوگ اسلام کو چھوڑ دیں گے“(ان کے عقائد و اعمال اسلامی نہ ہوں گے گو کہ وہ اسلام کا نام استعمال کرتے ہوں گے)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 808]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جداً لضعف يحيي بن المتوكل وكثير النواء
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے ہوتے تو ”سبحان اللہ“ کہہ دیتے، اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت نماز نہ پڑھ رہے ہوتے تو یوں ہی اجازت دے دیتے (اور سبحان اللہ کہنے کی ضرورت نہ رہتی)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 809]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس بندہ مومن کو پسند کرتا ہے جو آزمائش میں مبتلا ہونے کے بعد توبہ کر لے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 810]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے بکثرت مذی آتی تھی، چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی میرے نکاح میں تھیں اس لئے مجھے خود یہ مسئلہ پوچھتے ہوئے شرم آتی تھی، جب میں اس سے عاجز آگیا تو میں نے سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھیں، چنانچہ انہوں نے یہ مسئلہ پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا شخص وضو کر لیا کرے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 811]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد فيه الحجاج بن أرطاة، وهو مدلس، وقد عنعن
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کے زمانے میں ہی نکاح متعہ اور پالتو گدھوں کے گوشت کی ممانعت فرما دی تھی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 812]
حكم دارالسلام: صحيح. خ: 5115، م: 1407، وهذا إسناد فيه انقطاع، عبدالله بن محمد بن على لم يدرك جده على بن أبى طالب
زر بن حبیش کہتے ہیں کہ (ابن جرموز نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت مانگی، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا کون ہے؟) لوگوں نے بتایا کہ ابن جرموز اندر آنا چاہتا ہے؟ فرمایا: اسے اندر آنے دو، سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کا قاتل جہنم میں ہی داخل ہوگا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”ہر نبی کا ایک خاص حواری ہوتا ہے، اور میرا حواری زبیر ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 813]
عبداللہ بن الحارث کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ تشریف لائے تو قدید نامی جگہ میں پڑاؤ کیا، ان کی خدمت میں بڑی ہانڈیوں کے اندر گھوڑے کا گوشت لایا گیا۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بلایا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھوں سے گرد و غبار جھاڑتے ہوئے آئے لیکن انہوں نے وہ کھانا نہیں کھایا، لوگوں نے بھی اپنے ہاتھ روک لئے، پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: قبیلہ اشجع کا کوئی آدمی یہاں موجود ہے؟ کیا تم جانتے ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک دیہاتی آدمی نے شتر مرغ کے کچھ انڈے اور ایک وحشی جانور کا خشک کیا ہوا گوشت پیش کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اپنے گھر والوں کو کھلا دو، کیونکہ ہم محرم ہیں۔“ لوگوں نے کہا کیوں نہیں۔ یہ دیکھ کر سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ دستر خوان سے اٹھ کر اپنے خیمے میں چلے گئے اور کہنے لگے کہ اب اس میں ہمارے لئے بھی ناپسندیدگی پیدا ہوگئی ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 814]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد ابن جدعان، أكل الصيد للمحرم إذا صاده الحلال وأهداه للمحرم فى صحيح البخاري : 1821
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اس گھر میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے جس میں کوئی تصویر یا کتا ہو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 815]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی انگوٹھی، ریشم اور سرخ زین پوش سے منع فرمایا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 816]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص عشاء سے پہلے یا بعد میں تلاوت کرتے ہوئے اپنی آواز کو بلند کرے، کیونکہ اس طرح اس کے دوسرے ساتھیوں کو نماز پڑھتے ہوئے مغالطہ ہو سکتا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 817]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف الحارث الأعور
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عبد مکاتب - یعنی وہ غلام جس سے ایک مقررہ مقدار ادا کرنے پر آقا نے آزادی کا معاہدہ کر لیا ہو - اس نے جتنی مقدار ادا کر دی ہو، اتنی مقدار میں وہ دیت کا مستحق بھی ہو جائے گا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 818]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے جہیز میں روئیں دار کپڑے، ایک مشکیزہ اور ایک چمڑے کا تکیہ دیا تھا جس میں اذخر نامی گھاس بھری ہوئی تھی، نیز دو چکیاں اور دو مٹکے بھی دئیے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 819]
سعد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یحنس اور صفیہ دونوں خمس کے قیدیوں میں سے تھے، صفیہ نے خمس کے ایک دوسرے آدمی سے بدکاری کی اور ایک بچے کو جنم دیا، اس زانی اور یحنس دونوں نے اس بچے کا دعویٰ کر دیا، اور اپنا مقدمہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے، انہوں نے ان دونوں کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تمہارے درمیان وہی فیصلہ کروں گا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، اور وہ یہ کہ بچہ بستر والے کا ہوگا، اور بدکار کے لئے پتھر ہیں، پھر انہوں نے دونوں کو پچاس پچاس کوڑے مارے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 820]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة سعد ابن معبد والد الحسن وتدليس الحجاج، وللمرفوع شاهد من حديث أبى هريرة فى البخاري : 6818، ومسلم: 1458
عمرو بن سلیم کی والدہ کہتی ہیں کہ ہم میدان منی میں تھے کہ ایک آدمی کو یہ منادی کرتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”یہ دن کھانے پینے کے ہیں اس لئے ان دنوں میں کوئی شخص روزہ نہ رکھے۔“ میں نے اپنے خیمے کا پردہ ہٹا کر دیکھا تو وہ منادی کرنے والے سیدنا علی رضی اللہ عنہ تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 821]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا کہ اگر کوئی شخص سال گذرنے سے پہلے ہی زکوٰۃ دینا چاہے تو کیا حکم ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پہلے ادا کرنے کی اجازت عطا فرما دی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 822]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ پوچھنے کے لئے بھیجا کہ اگر انسان کے جسم سے مذی کا خروج ہو تو وہ کیا کرے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وضو کرے اور اپنی شرمگاہ پر پانی کے چھینٹے ڈال لے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 823]
عمرو بن سلیم کی والدہ کہتی ہیں کہ ہم میدان منیٰ میں تھے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنے اونٹ پر بیٹھ کر یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”یہ دن کھانے پینے کے ہیں، اس لئے ان دنوں میں کوئی شخص روزہ نہ رکھے۔“ چنانچہ لوگوں نے ان کی اتباع کی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 824]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے ابتدائی، درمیانے اور آخری ہر حصے میں وتر پڑھ لیا کرتے تھے، تاہم آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصے میں اس کی پابندی فرمانے لگے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 825]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ایک آدمی نے کہا کہ میں نے یہ گائے قربانی کے لئے خریدی ہے، انہوں نے فرمایا کہ یہ سات آدمیوں کی طرف سے ہو سکتی ہے، اس نے کہا کہ اس کے سینگ نہیں ہیں؟ انہوں نے فرمایا: کوئی حرج نہیں، اس نے کہا کہ اس کے پاؤں میں لنگڑا پن ہے؟ انہوں نے فرمایا: اگر یہ قربان گاہ تک خود چل کر جا سکتی ہے تو کوئی حرج نہیں، پھر فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ قربانی کے جانوروں کی آنکھ اور کان اچھی طرح دیکھ لیں کہ کہیں ان میں کوئی عیب تو نہیں ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 826]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، سیدنا زبیر اور سیدنا ابومرثد رضی اللہ عنہما - کہ ہم میں سے ہر ایک شہسوار تھا - کو ایک جگہ بھیجتے ہوئے فرمایا: ”تم لوگ روانہ ہو جاؤ، جب تم روضہ خاخ میں پہنچو گے تو وہاں تمہیں ایک عورت ملے گی جس کے پاس ایک خط ہوگا، جو حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین کے نام ہوگا، تم اس سے وہ خط لے کر واپس آجانا۔“ چنانچہ ہم لوگ روانہ ہو گئے، ہمارے گھوڑے ہمارے ہاتھوں سے نکلے جاتے تھے، یہاں تک کہ ہم روضہ خاخ جا پہنچے، وہاں ہمیں واقعۃ ایک عورت ملی جو اپنے اونٹ پر چلی جا رہی تھی، اس خط میں اہل مکہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی کی اطلاع دی گئی تھی، ہم نے اس سے کہا کہ تیرے پاس جو خط ہے وہ نکال دے، اس نے کہا کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے، ہم نے اس کا اونٹ بٹھایا، اس کے کجاوے کی تلاشی لی لیکن کچھ نہ ملا، میرے دونوں ساتھیوں نے کہا کہ اس کے پاس تو ہمارے خیال میں کوئی خط نہیں ہے، میں نے کہا: آپ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، پھر میں نے قسم کھا کر کہا کہ یا تو تو خود ہی خط نکال دے ورنہ ہم تجھے برہنہ کر دیں گے۔ مجبور ہو کر اس نے اپنے بالوں کی چوٹی میں سے ایک خط نکال کر ہمارے حوالے کر دیا، ہم وہ خط لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، لوگ کہنے لگے: یا رسول اللہ! اس نے اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں سے خیانت کی ہے، مجھے اس کی گردن مارنے کی اجازت دیجئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ ”حاطب! یہ کیا ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ کی قسم! میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہوں، بات یہ ہے کہ میں قریش سے تعلق نہیں رکھتا، البتہ ان میں شامل ہو گیا ہوں، آپ کے ساتھ جتنے بھی مہاجرین ہیں، ان کے مکہ مکرمہ میں رشتہ دار موجود ہیں جن سے وہ اپنے اہل خانہ کی حفاظت کروا لیتے ہیں، میں نے سوچا کہ میرا وہاں کوئی نسبی رشتہ دار تو موجود نہیں ہے، اس لئے ان پر ایک احسان کر دوں تاکہ وہ اس کے عوض میرے رشتہ داروں کی حفاظت کریں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے سچ بیان کیا، ان کے متعلق اچھی بات ہی کہنا۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے شدت جذبات سے مغلوب ہو کر فرمایا: یا رسول اللہ! اس نے اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں سے خیانت کی ہے، مجھے اجازت دیجئے کہ اس کی گردن اڑا دوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ غزوہ بدر میں شریک ہو چکے ہیں، اور تمہیں کیا خبر کہ اللہ نے آسمان سے اہل بدر کو جھانک کر دیکھا اور فرمایا: تم جو کچھ کرتے رہو، میں تمہارے لئے جنت کو واجب کر چکا۔“ اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں اور وہ فرمانے لگے کہ اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 827]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”علی! تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان میں کسی قسم کی تاخیر نہ کرو: (1) نماز جب اس کا وقت آجائے، (2) جنازہ جب وہ حاضر ہوجائے، (3) عورت جب اس کے جوڑ کا رشتہ مل جائے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 828]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة سعيد بن عبدالله الجهني
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سونے کی انگوٹھی، ریشمی کپڑے پہننے اور رکوع کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت سے منع فرمایا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 829]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف محمد بن عبدالرحمن بن أبى ليلى وعبدالكريم، ويشبه أن يكون نهيه عن لبس الحمراء معناه النهي عن المعصفر
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں - جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حالت احرام میں تھے - شکار کا گوشت لایا گیا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں کھایا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 830]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف كسابقه، وثبت جواز أكل الصيد للمحرم إذا صاده الحلال وأهداه للمحرم فى صحيح البخاري : 1821
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ریشمی کپڑے، سرخ زین پوش اور عصفر سے رنگے ہوئے کپڑے پہننے اور رکوع یا سجدے کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 831]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن أبى ليلى وعبد الكريم
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہمیں قرآن کریم کی کسی سورت میں شک ہو گیا، بعض اس کی آیات کی تعداد پینتیس بتاتے تھے اور بعض چھتیس۔ جب یہ بحث بڑھی تو اس کا فیصلہ کروانے کے لئے ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، وہاں پہنچے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کرتا ہوا پایا، ہم نے اپنے آنے کے مقصد کو واضح کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارا ایک سورت کی قرأت کے درمیان اختلاف ہو گیا ہے، یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کا رنگ سرخ ہو گیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں کہ ”جس طرح تمہیں سکھایا گیا ہے، قرآن کریم کی تلاوت اسی طرح کیا کرو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 832]
ابوجحیفہ - جنہیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ وہب الخیر کہا کرتے تھے - سے مروی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو (دوران خطبہ یہ) کہتے ہوئے سنا کہ کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص کون ہے؟ (ابوجحیفہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: کیوں نہیں، اور میں یہ سمجھتا تھا کہ خود ان سے افضل کوئی نہیں ہے) وہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، اور میں تمہیں بتاؤں کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد اس امت میں سب سے بہترین شخص کون ہے؟ وہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 833]
وہب سوائی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے دوران خطبہ یہ فرمایا: اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص کون ہے؟ میں نے کہا: امیر المؤمنین! آپ ہی ہیں، انہوں نے فرمایا: نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت میں سب سے بہترین شخص سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد سب سے بہترین شخص سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں، اور اس میں کوئی تعجب نہیں ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی زبان پر سکینہ بولتا تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 834]
ابوجحیفہ - جنہیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ وہب الخیر کہا کرتے تھے - سے مروی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو دوران خطبہ یہ کہتے ہوئے سنا کہ کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص کون ہے؟ - ابوجحیفہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کیوں نہیں، اور میں یہ سمجھتا تھا کہ خود ان سے افضل کوئی نہیں ہے - وہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد اس امت میں سب سے بہترین شخص سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں، اور ان کے بعد ایک تیسرا آدمی ہے، لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس کا نام نہیں لیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 835]
ابوجحیفہ سے مروی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں، اور اگر میں چاہوں تو تیسرے آدمی کا نام بھی بتا سکتا ہوں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 836]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، شريك سيء الحفظ، لكن للحديث طرق أخرى تقويه
عون بن ابی جحیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میرے والد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حفاظتی گارڈز میں سے تھے، وہ کہتے ہیں کہ ایک دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ منبر پر رونق افروز ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھنے کے بعد فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت میں سب سے بہترین شخص سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، دوسرے نمبر پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں، اور اللہ جہاں چاہتا ہے خیر رکھ دیتا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 837]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح ان سے کیا تو ان کے ساتھ جہیز کے طور پر روئیں دار کپڑے، چمڑے کا تکیہ جس میں گھاس بھری ہوئی تھی، دو چکیاں، مشکیزہ اور دو مٹکے بھی روانہ کئے، ایک دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ اللہ کی قسم! کنوئیں سے پانی کھینچ کھینچ کر میرے تو سینے میں درد شروع ہو گیا ہے، آپ کے والد صاحب کے پاس کچھ قیدی آئے ہوئے ہیں، ان سے جا کر کسی خادم کی درخواست کیجئے، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں: واللہ! چکی چلا چلا کر میرے ہاتھوں میں بھی گٹے پڑ گئے ہیں۔ چنانچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے کی وجہ دریافت فرمائی، انہوں نے عرض کیا کہ سلام کرنے کے لئے حاضر ہوئی تھی، انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی درخواست پیش کرتے ہوئے شرم آئی اور وہ واپس لوٹ آئیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا ہوا؟ فرمایا: مجھے تو ان سے کچھ مانگتے ہوئے شرم آئی اس لئے واپس لوٹ آئی۔ اس کے بعد ہم دونوں اکٹھے ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہنے لگے: یا رسول اللہ! کنوئیں سے پانی کھینچ کھینچ کر میرے سینے میں درد شروع ہو گیا ہے، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں کہ چکی چلا چلا کر میرے بھی ہاتھوں میں گٹے پڑگئے ہیں، آپ کے پاس کچھ قیدی آئے ہوئے ہیں، ان میں سے کوئی ایک بطور خادم کے ہمیں بھی عنایت فرما دیں۔ یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”واللہ! میں اہل صفہ کو چھوڑ کر - جن کے پیٹ چپکے پڑے ہوئے ہیں اور ان پر خرچ کرنے کے لئے میرے پاس کچھ نہیں ہے - تمہیں کوئی خادم نہیں دے سکتا، بلکہ میں انہیں بیچ کر ان کی قیمت اہل صفہ پر خرچ کروں گا۔“ اس پر وہ دونوں واپس چلے آئے، رات کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لے گئے، انہوں نے جو چادر اوڑھ رکھی تھی وہ اتنی چھوٹی تھی کہ اگر سر ڈھکتے تھے تو پاؤں کھل جاتے تھے، اور اگر پاؤں ڈھکتے تو سر کھل جاتا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر دونوں اٹھنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کر دیا اور فرمایا کہ ”ہر نماز کے بعد دس دس مرتبہ سبحان اللہ، الحمدللہ اور اللہ اکبر کہہ لیا کرو، اور جب بستر پر آیا کرو تو تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، تینتیس مرتبہ الحمدللہ اور چونتیس مرتبہ اللہ اکبر کہہ لیا کرو۔ (تمہاری ساری تھکاوٹ اور بیماری دور ہوجایا کرے گی)۔“ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم! جب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ان کلمات کی تعلیم دی ہے میں نے انہیں کبھی ترک نہیں کیا۔ ابن کواء کہنے لگا کہ جنگ صفین کے موقع پر بھی نہیں؟ فرمایا: اہل عراق! اللہ تم سے سمجھے، ہاں! صفین کے موقع پر بھی نہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 838]
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے شراحہ کو جمعرات کے دن کوڑے مارے اور جمعہ کے دن اسے سنگسار کر دیا اور فرمایا: میں نے کوڑے قرآن کریم کی وجہ سے مارے اور سنگسار سنت کی وجہ سے کیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 839]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، وفي خ: 6812، وهو مختصر بقصة الرجم دون الجلد
عبداللہ بن سلمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور دو دیگر آدمی جن میں سے ایک میری قوم کا آدمی تھا اور دوسرا بنو اسد میں سے تھا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کو اپنے سامنے بھیجا اور فرمایا کہ تم دونوں ابھی نا سمجھ ہو، اس لئے دین کو سمجھنے کے لئے مشق کرو، پھر وہ بیت الخلاء تشریف لے گئے اور قضاء حاجت کر کے باہر نکلے تو ایک مٹھی بھر پانی لے کر اسے اپنے چہرے پر پھیر لیا، اور قرآن پڑھنا شروع کر دیا، جب انہوں نے دیکھا کہ ہمیں اس پر تعجب ہو رہا ہے تو فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی قضاء حاجت کر کے باہر نکلنے کے بعد قرآن کریم پڑھنا شروع کر دیتے تھے، اور ہمارے ساتھ گوشت بھی کھا لیا کرتے تھے، آپ کو جنابت کے علاوہ کوئی چیز قرآن کریم کی تلاوت سے نہیں روک سکتی تھی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 840]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا میرے پاس سے گذر ہوا، میں اس وقت بیمار تھا اور یہ دعا کر رہا تھا کہ اے اللہ! اگر میری موت کا وقت قریب آگیا ہے تو مجھے اس بیماری سے راحت عطاء فرما اور مجھے اپنے پاس بلا لے، اگر اس میں دیر ہو تو مجھے اٹھا لے، اور اگر یہ کوئی آزمائش ہو تو مجھے صبر عطاء فرما۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم کیا کہہ رہے ہو؟“ میں نے اپنی بات پھر دہرا دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پاؤں سے ٹھوکر ماری یعنی غصہ کا اظہار کیا اور دعا فرمائی: «”اَللّٰهُمَّ عَافِهِ أَوْ اَللّٰهُمَّ اشْفِهِ“ شَكَّ شُعْبَةُ»”اے اللہ! اسے عافیت اور شفاء عطاء فرما۔“ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد مجھے وہ تکلیف کبھی نہیں ہوئی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 841]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وتر فرض نماز کی طرح قرآن کریم سے حتمی ثبوت نہیں رکھتے، لیکن ان کا وجوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے، اس لئے تم اسے ترک نہ کیا کرو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 842]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ مجھے اپنی طرف سے قربانی کرنے کا حکم دیا، چنانچہ میں آخر دم تک ان کی طرف سے قربانی کرتا رہوں گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 843]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبى الحسناء وضعف شريك
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دس قسم کے لوگوں پر لعنت فرمائی ہے، سود خور، سود کھلانے والا، سودی معاملات لکھنے والا، سودی معاملات کے گواہ، حلالہ کرنے والا، حلالہ کروانے والا، زکوٰۃ روکنے والا، جسم گودنے والی اور جسم گودوانے والی پر لعنت فرمائی ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نوحہ کرنے سے منع فرماتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 844]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف جابر الجعفي والحارث الأعور
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں روزانہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا، اگر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں داخل ہونا چاہتا اور وہ نماز پڑھ رہے ہوتے تو کھانس دیا کرتے تھے، اور جب وہ خاموش رہتے تو میں گھر میں داخل نہ ہوتا۔ ایک مرتبہ میں رات کے وقت حاضر ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر نکل کر فرمایا کہ ”آج رات عجیب واقعہ ہوا ہے، مجھے کسی کی آہٹ گھر میں محسوس ہوئی، میں گھبرا کر باہر نکلا تو سامنے حضرت جبرئیل علیہ السلام کھڑے تھے، میں نے ان سے پوچھا کہ آپ گھر کے اندر کیوں نہیں آ رہے؟ وہ کہنے لگے: آپ کے کمرے میں کہیں سے کتا آگیا ہے اس لئے میں اندر نہیں آ سکتا، اور واقعی حسن کی کرسی کے نیچے کتے کا ایک پلہ موجود تھا، اور فرمایا کہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں کوئی کتا، کوئی جنبی یا کوئی تصویر ہو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 845]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر میں مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر کسی کو امیر بناتا تو ابن ام عبد یعنی سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو بناتا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 846]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے کثرت سے خروج مذی کا عارضہ لاحق رہتا تھا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی بابت دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر خروج منی ہو جائے تو غسل کیا کرو جس طرح جنابت کی صورت میں کیا جاتا ہے، اور اگر ایسا نہ ہو تو غسل کرنے کی ضرورت نہیں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 847]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، جواب بن عبيد الله التيمي فيه مقال
طارق بن زیادہ کہتے ہیں کہ ہم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خوارج سے جنگ کے لئے نکلے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان سے قتال کیا اور فرمایا: دیکھو! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”عنقریب ایک ایسی قوم کا خروج ہوگا جو بات تو صحیح کرے گی لیکن وہ ان کے حلق سے آگے نہیں بڑھے گی، وہ لوگ حق سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، ان کی علامت یہ ہوگی کہ ان میں ایک شخص کا ہاتھ ناتمام ہوگا، اس کے ہاتھ (ہتھیلی) میں کالے بال ہوں گے“، اب اگر ایسا ہی ہے تو تم نے ایک بدترین آدمی کے وجود سے دنیا کو پاک کر دیا، اور اگر ایسا نہ ہوا تو تم نے ایک بہترین آدمی کو قتل کر دیا، یہ سن کر ہم رونے لگے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اسے تلاش کرو، چنانچہ ہم نے اسے تلاش کیا تو ہمیں ناقص ہاتھ والا ایک آدمی مل گیا، جسے دیکھ کر ہم سجدے میں گر پڑے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی ہمارے ساتھ ہی سربسجود ہو گئے، البتہ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ ان کی بات صحیح تھی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 848]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1066، وهذا إسناد ضعيف لجهالة طارق بن زياد الكوفي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قرآن کریم میں یہ جو فرمایا گیا ہے کہ تم نے اپنا حصہ یہ بنا رکھا ہے کہ تم تکذیب کرتے رہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ تم یہ کہتے ہو: فلاں فلاں ستارے کے طلوع و غروب سے بارش ہوئی ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 849]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالأعلى الثعلبي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا تھا کہ ”قربانی کے جانور کے کان اور آنکھ اچھی طرح دیکھ لیں، کانے جانور کی قربانی نہ کریں، مقابلہ، مدابرہ، شرقاء یا خرقاء کی قربانی نہ کریں۔“ راوی کہتے ہیں کہ میں نے ابواسحاق سے پوچھا: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عضباء کا ذکر بھی کیا تھا یا نہیں؟ انہوں نے کہا: نہیں! پھر میں نے پوچھا کہ مقابلہ سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: وہ جانور جس کے کان کا ایک کنارہ کٹا ہوا ہو، میں نے پوچھا کہ مدابرہ سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: وہ جانور جس کا کان پیچھے سے کٹا ہوا ہو، میں نے شرقاء کا معنی پوچھا، تو فرمایا: جس کا کان چیرا ہوا ہو، میں نے خرقاء کا معنی پوچھا، تو انہوں بتایا: وہ جانور جس کا کان پھٹ گیا ہو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 851]
حكم دارالسلام: حسن. وهذا إسناد ضعيف، زهير سمع من أبى إسحاق بعد تغيره
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر میں مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر کسی کو امیر بناتا تو ابن ام عبد یعنی سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو بناتا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 852]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے جہیز میں روئیں دار کپڑے، ایک مشکیزہ اور ایک چمڑے کا تکیہ دیا تھا جس میں اذخر نامی گھاس بھری ہوئی تھی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 853]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سینے سے لے کر سر تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہہ ہیں، اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نچلے حصے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھتے ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 854]
سیدنا ابوالطفیل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ہمیں کوئی ایسی بات بتائیے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصیت کے ساتھ آپ سے بیان کی ہو؟ فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایسی کوئی خصوصی بات نہیں کی جو دوسرے لوگوں سے چھپائی ہو، البتہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے ضرور سنا ہے کہ ”اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو غیر اللہ کے نام پر کسی جانور کو ذبح کرے، اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو کسی بدعتی کو ٹھکانہ دے، اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو اپنے والدین پر لعنت کرے، اور اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو زمین کے بیج بدل دے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 855]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے جسم سے مذی کا اخراج بکثرت ہوتا تھا، جب ایسا ہوتا تو میں غسل کر لیتا، پھر میں نے سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ سے کہا تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حل پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہنس کر فرمایا: ”اس میں صرف وضو ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 856]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں، سیدنا جعفر اور سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا: ”زید! آپ ہمارے مولیٰ (آزاد کردہ غلام) ہیں، جعفر! آپ تو صورت اور سیرت میں میرے مشابہہ ہیں، اور علی! آپ مجھ سے ہیں اور میں آپ سے ہوں۔“ اس ترتیب میں نبی صلی اللہ علیہ نے سیدنا زید رضی اللہ عنہ کے بعد سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کا تذکرہ کیا اور میرا ذکر سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کے بعد فرمایا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 857]
سیدنا ابوالطفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کسی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ہمیں کوئی ایسی بات بتائیے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصیت کے ساتھ آپ سے بیان کی ہو؟ فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایسی کوئی خصوصی بات نہیں کی جو دوسرے لوگوں سے چھپائی ہو، البتہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے ضرور سنا ہے کہ ”اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو کسی بدعتی کو ٹھکانہ دے، اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو اپنے والدین پر لعنت کرے، اور اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو زمین کے بیج بدل دے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 858]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے پوچھا: یا رسول اللہ! آپ کے بعد ہم کسے اپنا امیر مقرر کریں؟ فرمایا: ”اگر ابوبکر کو امیر بناؤ گے تو انہیں امین پاؤ گے، دنیا سے بےرغبت اور آخرت کا مشتاق پاؤ گے، اگر عمر کو امیر بناؤ گے تو انہیں طاقتور اور امین پاؤ گے، وہ اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے، اور اگر تم علی کو امیر بناؤ گے - لیکن میرا خیال ہے کہ تم ایسا نہیں کرو گے - تو انہیں ہدایت کرنے والا اور ہدایت یافتہ پاؤ گے، جو تمہیں صراط مستقیم پر لے کر چلیں گے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 859]
بنو اسد کے ایک صاحب کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہمارے یہاں تشریف لائے، (لوگوں نے ان سے وتر کے متعلق سوالات پوچھے) انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ”اس وقت وتر ادا کر لیا کریں۔“ ابن نباح! اٹھ کر اذان دو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 860]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة الرجل من بني أسد
بنو اسد کے ایک صاحب کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے، اس وقت مؤذن نماز فجر کے لئے لوگوں کو مطلع کر رہا تھا، انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ”اس وقت وتر ادا کر لیا کریں۔“ ابن نواحہ! اٹھ کر اقامت کہو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 861]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درمیانی شہادت والی انگلی میں انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 863]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ یا کان کٹے ہوئے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 864]
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف جابر الجعفي، وعبدالله بن نجي إلى لضعف أقرب، ثم هو لم يسمع من علي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب قرآن کریم کی تلاوت کرتے تو آواز کو پست رکھتے، جبکہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ بلند آواز سے قرآن کریم پڑھتے تھے، اور سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کبھی کسی سورت سے تلاوت فرماتے اور کبھی کسی سورت سے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب اس کا تذکرہ ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ”آپ اپنی آواز کو پست کیوں رکھتے ہیں؟“ عرض کیا کہ میں جس سے مناجات کرتا ہوں اسی کو سناتا ہوں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بلند آواز کے ساتھ تلاوت کرنے کی وجہ دریافت فرمائی تو انہوں نے عرض کیا کہ میں شیطان کو بھگاتا ہوں اور سونے والوں کو جگاتا ہوں، سیدنا عمار رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ”آپ کبھی کسی سورت سے اور کبھی دوسری سورت سے تلاوت کیوں کرتے ہیں؟“ عرض کیا کہ کیا آپ نے مجھے کسی سورت میں دوسری سورت کو خلط ملط کرتے ہوئے سنا ہے؟ فرمایا: ”نہیں، سب ہی اپنی جگہ ٹھیک ہیں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 865]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، هانئ بن هانئ مجهول، وأبو إسحاق تغير بأخرة، رواية زكريا عنه بعد تغيره
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا جنازہ منبر اور روضہ مبارکہ کے درمیان لا کر رکھ دیا گیا، اس اثناء میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے اور صفوں کے سامنے کھڑے ہو کر کہنے لگے: یہ وہی ہیں (یہ جملہ انہوں نے تین مرتبہ کہا)، پھر فرمایا: اللہ کی رحمتوں کا نزول ہو آپ پر، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نامہ اعمال کے بعد اس کپڑا اوڑھے ہوئے شخص کے علاوہ اللہ کی پوری مخلوق میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جس کے نامہ اعمال کے ساتھ اللہ سے ملاقات کرنا مجھے محبوب ہو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 866]
حكم دارالسلام: حسن لغيره ، وهذا إسناد ضعيف لضعف أبى معشر نجيح ، وانظر مابعده
ابوجحیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے جنازے کے قریب ہی تھا، ان کا چہرہ کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا تھا، اسی اثناء میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے اور ان کے چہرے سے کپڑا ہٹا کر فرمایا: اے ابوحفص! اللہ کی رحمتوں کا نزول ہو آپ پر، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نامہ اعمال کے بعد آپ کے علاوہ اللہ کی پوری مخلوق میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جس کے نامہ اعمال کے ساتھ اللہ سے ملاقات کرنا مجھے محبوب ہو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 867]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، سويد بن سعيد ويونس بن أبى يعفور حديثهما حسن فى المتابعات والشواهد، وانظر ما قبله
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے جسم سے خروج مذی بکثرت ہوتا تھا، میں سردی میں بھی اس کی وجہ سے اتنا غسل کرتا تھا کہ میری کمر چھل گئی تھی، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو فرمایا: ”ایسا نہ کرو، جب مذی دیکھو تو اپنی شرمگاہ کو دھو لیا کرو اور نماز جیسا وضو کر لیا کرو، اور اگر منی خارج ہو تو غسل کر لیا کرو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 868]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے خروج مذی کثرت کے ساتھ ہونے کا مرض لاحق تھا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حکم پوچھا تو فرمایا: ”مذی میں صرف وضو واجب ہے، اور خروج منی کی صورت میں غسل واجب ہوتا ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 869]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے خروج مذی کثرت کے ساتھ ہونے کا مرض لاحق تھا، میں نے ایک آدمی سے کہا، اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حکم پوچھا تو فرمایا: ”مذی میں صرف وضو واجب ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 870]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح. م: 303 ، وانظر ماتقدم برقم: 823، وفيه أن الرجل الذى أمره أن يسأل النبى هو المقداد بن الأسود
ابوجحیفہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے (دوران خطبہ یہ) فرمایا: کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص کون ہے؟ وہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، اور میں تمہیں بتاؤں کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد اس امت میں سب سے بہترین شخص کون ہے؟ وہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 871]
ابوالغریف کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس وضو کا پانی لایا گیا، انہوں نے تین مرتبہ کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، تین مرتبہ چہرہ دھویا، ہاتھوں اور کہنیوں کو تین تین مرتبہ دھویا، سر کا مسح کیا اور پاؤں کو دھو کر فرمایا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے، پھر قرآن کریم کے کچھ حصے کی تلاوت کی اور فرمایا: یہ اس شخص کے لئے ہے جو جنبی نہ ہو، جنبی کے لئے یہ حکم نہیں ہے، اور نہ ہی وہ کسی ایک آیت کی تلاوت کر سکتا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 872]
زر بن حبیش کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے دوران وضو سر کا مسح کیا اور اتنا پانی ڈالا کہ قریب تھا کہ اس کے قطرے ٹپکنا شروع ہو جاتے، اور فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 873]
طارق بن شہاب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو منبر پر یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ واللہ! ہمارے پاس قرآن کریم کے علاوہ کوئی ایسی کتاب نہیں ہے جسے ہم پڑھتے ہوں، یا پھر یہ صحیفہ ہے جو تلوار سے لٹکا ہوا ہے، میں نے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا تھا، اس میں زکوٰۃ کے حصص کی تفصیل درج ہے۔ مذکورہ صحیفہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اس تلوار سے لٹکا رہتا تھا جس کے حلقے لوہے کے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 874]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف شريك
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز میں سنت یہی ہے کہ ہتھیلیوں کو ہتھیلیوں پر اور ناف کے نیچے رکھا جائے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 875]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف عبدالرحمن بن إسحاق، وجهالة زياد بن زيد السوائي
عبدخیر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ وضو سکھایا، چنانچہ سب سے پہلے ایک لڑکے نے ان کے ہاتھوں پر پانی ڈالا، انہوں نے اپنے ہاتھوں کو صاف کیا، پھر انہیں برتن میں ڈالا، کلی کی، ناک میں پانی ڈالا، تین مرتبہ چہرہ دھویا، دونوں بازوؤں کو کہنیوں سمیت تین تین مرتبہ دھویا، پھر دوبارہ اپنے ہاتھوں کو برتن میں ڈالا اور اپنے ہاتھ کو اس کے نیچے ڈبو دیا، پھر اسے باہر نکال کر دوسرے ہاتھ پر مل لیا اور دونوں ہتھیلیوں سے سر کا ایک مرتبہ مسح کیا، اور ٹخنوں سمیت دونوں پاؤں تین تین مرتبہ دھوئے، پھر ہتھیلی سے چلو بنا کر تھوڑا سا پانی لیا اور اسے پی گئے، اور فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح وضو کیا کرتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 876]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے اہل قرآن! وتر پڑھا کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ طاق ہے اور طاق عدد کو پسند کرتا ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 877]
ابوجحیفہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص کون ہے؟ وہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں، پھر ایک اور آدمی ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 878]
ابوجحیفہ سے مروی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں، اور اگر میں چاہوں تو تیسرے آدمی کا نام بھی بتا سکتا ہوں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 879]
ابوجحیفہ سے مروی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں، اور اگر میں چاہوں تو تیسرے آدمی کا نام بھی بتا سکتا ہوں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 880]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مدینہ منورہ بھیجا اور انہیں یہ حکم دیا کہ تمام قبروں کو برابر کر دیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 881]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أبى محمد الهذلي الراوي عن علي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن کی طرف بھیجنے کا ارادہ کیا، تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ مجھے ایسی قوم کی طرف بھیج رہے ہیں جو مجھ سے بڑی عمر کی ہے اور میں نو عمر ہوں، صحیح طرح فیصلہ نہیں کر سکتا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک میرے سینے پر رکھا اور دعا کی: «اَللّٰهُمَّ ثَبِّتْ لِسَانَهُ وَاهْدِ قَلْبَهُ»”اے اللہ! اس کی زبان کو ثابت قدم رکھ اور اس کے دل کو ہدایت بخش۔“ اے علی! جب تمہارے پاس دو فریق آئیں تو صرف کسی ایک کی بات سن کر فیصلہ نہ کرنا بلکہ دونوں کی بات سننا، اس طرح تمہارے لئے فیصلہ کرنا آسان ہو جائے گا۔“ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد مجھے کبھی کسی فیصلے میں اشکال پیش نہیں آیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 882]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب آیت ذیل کا نزول ہوا: «﴿وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ﴾ [الشعراء: 214] » تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان والوں کو جمع کیا، تیس آدمی اکٹھے ہوئے اور سب نے کھایا پیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”میرے قرضوں اور وعدوں کی تکمیل کی ضمانت کون دیتا ہے کہ وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا، اور میرے اہل خانہ میں میرا نائب ہوگا؟“ کسی شخص نے بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ تو سمندر تھے، آپ کی جگہ کون کھڑا ہو سکتا تھا؟ بہرحال! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے سے بھی یہی کہا، بالآخر اپنے اہل بیت کے سامنے یہ دعوت پیش کی، تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ کام میں کروں گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 883]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف شريك بن عبدالله النخعي وعباد بن عبدالله الأسدي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذان فجر کے قریب وتر ادا فرماتے تھے، اور اقامت کے قریب فجر کی سنتیں پڑھتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 884]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف شريك والحارث الأعور
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ پورے دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نوافل کی سولہ رکعتیں ہوتی تھیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 885]
حكم دارالسلام: صحيح، شريك - وإن كان سيء الحفظ - قد توبع
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس گدھے پر سواری فرماتے تھے اس کا نام عفیر تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 886]
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف ، سلمة بن الفضل مختلف فيه ، ومحمد بن إسحاق مدلس، وقد عنعن
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”آنکھ شرمگاہ کا بندھن ہے (یعنی انسان جب تک جاگ رہا ہوتا ہے اسے اپنا وضو ٹوٹنے کی خبر ہو جاتی ہے اور سوتے ہوئے کچھ پتہ نہیں چلتا)، اس لئے جو شخص سو جائے اسے چاہئے کہ بیدار ہونے کے بعد وضو کر لیا کرے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 887]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لتدليس بقية بن الوليد الحمصي، والوضين بن عطاء مختلف فيه. وعبدالرحمن بن عائذ حديثه عن على مرسل
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ خیبر کے موقع پر جب میں نے مرحب کو قتل کر لیا تو اس کا سر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لا کر پیش کر دیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 888]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنے رفیق حیان کو مخاطب کر کے فرمایا: میں تمہیں اس کام کے لئے بھیج رہا ہوں جس کام کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجا تھا، انہوں نے مجھے ہر قبر کو برابر کرنے اور ہر بت کو مٹا ڈالنے کا حکم دیا تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 889]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جداً لضعف يونس بن خباب، وأصل الحديث صحيح، وانظر 741
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے خروج مذی کثرت کے ساتھ ہونے کا مرض لاحق تھا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حکم پوچھا، تو فرمایا: ”مذی میں صرف وضو واجب ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 890]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے خروج مذی کثرت کے ساتھ ہونے کا مرض لاحق تھا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حکم پوچھا، تو فرمایا: ”منی میں تو غسل واجب ہے، اور مذی میں صرف وضو واجب ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 891]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے بہت نیند آتی تھی، حتی کہ جب میں مغرب کی نماز پڑھ لیتا اور کپڑے مجھ پر ہوتے تو میں وہیں سو جاتا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے یہ مسئلہ پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عشاء سے پہلے سونے کی اجازت دے دی (اس شرط کے ساتھ کہ نماز عشاء کے لئے آپ بیدار ہو جاتے تھے)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 892]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن أبى ليلى- وهو محمد بن عبدالرحمن - سيء الحفظ، وجدة ابن الأصبهاني لا تعرف
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے خروج مذی کثرت کے ساتھ ہونے کا مرض لاحق تھا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حکم پوچھا، تو فرمایا: ”منی میں تو غسل واجب ہے، اور مذی میں صرف وضو واجب ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 893]
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ ہدی کا جانور بھیجا اور حکم دیا کہ ”ان اونٹوں کی کھالیں اور جھولیں بھی تقسیم کر دیں اور گوشت بھی تقسیم کر دیں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 894]
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد حسن. خ: 1717، م: 1317
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے تشریف لے گئے، دوسرے نمبر پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ چلے گئے، اور تیسرے نمبر پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ چلے گئے، اس کے بعد ہمیں امتحانات نے گھیر لیا، اللہ جسے چاہے گا اسے معاف فرما دے گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 895]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، أبو إسحاق تغير بأخرة، وسماع خلف منه لايعرف قبل التغير أم بعده
ابن عبید کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ جس وقت عراق میں تھے، ان کے سامنے اہل شام کا تذکرہ ہوا، لوگوں نے کہا: امیر المومنین! ان کے لئے لعنت کی بد دعا کیجئے، فرمایا: نہیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”ابدال شام میں ہوتے ہیں، یہ کل چالیس آدمی ہوتے ہیں، جب بھی ان میں سے کسی ایک کا انتقال ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی جگہ بدل کر کسی دوسرے کو مقرر فرما دیتے ہیں (اور اسی وجہ سے انہیں ابدال کہا جاتا ہے)، ان کی دعا کی برکت سے بارش برستی ہے، ان ہی کی برکت سے دشمنوں پر فتح نصیب ہوتی ہے، اور اہل شام سے ان ہی کی برکت سے عذاب کو ٹال دیا جاتا ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 896]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، شريح ابن عبيد لم يدرك علياً، وحديث الباب باطل عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے قربانی کے جانوروں کے ساتھ بھیجا اور حکم دیا کہ قصاب کو ان میں سے کوئی چیز مزدوری کے طور پر نہ دوں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 897]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 1717، م: 1317، سويد بن سعيد قد توبع
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے جسد خاکی کو چار پائی پر لا کر رکھا گیا تو لوگوں نے چاروں طرف سے انہیں گھیر لیا، ان کے لئے دعائیں کرنے لگے، اور جنازہ اٹھائے جانے سے قبل ہی ان کی نماز جنازہ پڑھنے لگے، میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا، اچانک ایک آدمی نے پیچھے سے آکر میرے کندھے پکڑ کر مجھے اپنی طرف متوجہ کیا، میں نے دیکھا تو وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ تھے، انہوں نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے لئے دعا رحمت کی اور انہیں مخاطب ہو کر فرمایا کہ آپ نے اپنے پیچھے کوئی ایسا شخص نہیں چھوڑا جس کے نامہ اعمال کے ساتھ مجھے اللہ سے ملنا زیادہ پسند ہو، واللہ! مجھے یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ہی رکھے گا، کیونکہ میں کثرت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنتا تھا کہ ”میں، ابوبکر اور عمر گئے؛ میں، ابوبکر اور عمر داخل ہوئے ہیں؛ میں، ابوبکر اور عمر نکلے۔“ اس لئے مجھے یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ان دونوں کے ساتھ ہی رکھے گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 898]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے ہوتے تو ”سبحان اللہ“ کہہ دیتے، اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت نماز نہ پڑھ رہے ہوتے تو یوں ہی اجازت دے دیتے (اور سبحان اللہ کہنے کی ضرورت نہ رہتی)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 899]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت ہمارے یہاں تشریف لائے اور کہنے لگے کہ ”تم لوگ نماز کیوں نہیں پڑھتے؟“ میں نے جواب دیتے ہوئے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہماری روحیں اللہ کے قبضے میں ہیں، جب وہ ہمیں اٹھانا چاہتا ہے اٹھا دیتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر مجھے کوئی جواب نہ دیا اور واپس چلے گئے، میں نے کان لگا کر سنا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ران پر اپنا ہاتھ مارتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ”انسان بہت زیادہ جھگڑالو واقع ہوا ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 900]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ نرم ہے، نرمی کو پسند کرتا ہے اور نرمی پر وہ کچھ عطاء فرما دیتا ہے جو سختی پر نہیں دیتا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 902]
حكم دارالسلام: حديث حسن فى الشواهد، عبدالله بن وهب وأبو خليفة كل منهما مقبول، وله شاهد من حديث عائشة عند مسلم برقم: 2593
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص میری طرف نسبت کر کے کوئی ایسی حدیث بیان کرے جسے وہ جھوٹ سمجھتا ہے تو وہ دو میں سے ایک جھوٹا ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 903]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک مرتبہ خوارج کا ذکر ہوا تو فرمایا کہ ان میں ایک آدمی ناقص الخلقت بھی ہوگا، اگر تم حد سے آگے نہ بڑھ جاؤ تو میں تم سے وہ وعدہ بیان کرتا جو اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ان کے قتل کرنے والوں سے فرما رکھا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا: کیا آپ نے واقعی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں کوئی فرمان سنا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: ہاں! رب کعبہ کی قسم۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 904]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب آیت ذیل کا نزول ہوا: «﴿وَلِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا﴾ [آل عمران: 97] » تو لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا ہر سال حج کرنا فرض ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، تین مرتبہ سوال اور خاموشی کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، اور اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال حج کرنا فرض ہو جاتا۔“ اور اسی مناسبت سے یہ آیت نازل ہوئی: «﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ .....﴾ [المائدة: 101] »”اے اہل ایمان! ایسی چیزوں کے بارے میں سوال مت کیا کرو جو اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو وہ تمہیں ناگوار گذریں ......۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 905]
حكم دارالسلام: حديث صحيح بالشواهد، وهذا إسناد ضعيف، عبد الأعلى الثعلبي ضعيف، وفيه انقطاع أيضاً، أبو البختري لم يسمع علياً
شریح بن ہانی کہتے ہیں کہ میں نے موزوں پر مسح کے حوالے سے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک سوال پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ سوال تم سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھو، انہیں اس مسئلے کا زیادہ علم ہوگا، چنانچہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ایک دن رات موزوں پر مسح کرنے کا حکم دیتے تھے، جو مسافر کے لئے تین دن اور تین رات ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 906]
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: کیا میں تمہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت میں سب سے بہترین شخص کا نام بتاؤں؟ سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 908]
عبدخیر ہمدانی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو (دوران خطبہ یہ) کہتے ہوئے سنا کہ کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص کون ہے؟ وہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، اور میں تمہیں بتاؤں کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد اس امت میں سب سے بہترین شخص کون ہے؟ وہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں۔ پھر فرمایا: اگر میں چاہوں تو تمہیں تیسرے آدمی کا نام بھی بتا سکتا ہوں۔ تاہم وہ خاموش رہے، ہم یہی سمجھتے ہیں کہ وہ خود سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہی تھے۔ میں نے راوی سے پوچھا کہ کیا واقعی آپ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: رب کعبہ کی قسم! ہاں، (اگر میں جھوٹ بولوں) تو یہ کان بہرے ہو جائیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 909]
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے (ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ وضو سکھایا) چنانچہ سب سے پہلے انہوں نے تین مرتبہ اپنی ہتھیلیوں کو دھویا، تین مرتبہ کلی کی، ناک میں پانی ڈالا، تین مرتبہ چہرہ دھویا، اور فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح وضو کیا کرتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 910]
حكم دارالسلام: حديث حسن، مسهر - وإن فى حديثه لين - متابع
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔“ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز مغرب اور عشاء کے درمیان ادا فرمائی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 911]
سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا: جب میں تم سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی حدیث بیان کروں تو میرے نزدیک آسمان سے گر جانا ان کی طرف جھوٹی نسبت کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے، اور جب کسی اور کے حوالے سے کوئی بات کروں تو میں جنگجو آدمی ہوں اور جنگ تو نام ہی تدبیر اور چال کا ہے۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”قیامت کے قریب ایسی اقوام نکلیں گی جن کی عمریں تھوڑی ہوں گی اور عقل کے اعتبار سے وہ بیوقوف ہوں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں کریں گے، لیکن ایمان ان کے گلے سے آگے نہیں جائے گا، تم انہیں جہاں بھی پاؤ قتل کر دو، کیونکہ ان کا قتل کرنا قیامت کے دن باعث ثواب ہوگا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 912]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں نے تم سے گھوڑے اور غلام کی زکوٰۃ چھوڑ دی ہے (اس لئے چاندی کی زکوٰۃ بہرحال تمہیں ادا کرنا ہوگی)، اور دو سو درہم سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 913]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ہمیں چھوڑ کر قریش کے دوسرے خاندانوں کو کیوں پسند کرتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے پاس بھی کچھ ہے؟“ میں نے عرض کیا: جی ہاں! سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی، فرمایا: ”وہ تو میری رضاعی بھتیجی ہے۔“(دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ آپس میں رضاعی بھائی بھی تھے اور چچا بھتیجے بھی)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 914]
عکرمہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ مزدلفہ سے واپس ہوا تو میں نے انہیں مسلسل تلبیہ پڑھتے ہوئے سنا، تا آنکہ انہوں نے جمرہ عقبہ کی رمی کر لی، میں نے ان سے اس حوالے سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ میں اپنے والد صاحب کے ساتھ مزدلفہ سے واپس ہوا تھا تو میں نے انہیں بھی جمرہ عقبہ کی رمی تک مسلسل تلبیہ پڑھتے ہوئے سنا، میں نے ان سے اس حوالے سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مزدلفہ سے واپس ہوا تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جمرہ عقبہ کی رمی تک مسلسل تلبیہ پڑھتے ہوئے سنا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 915]
حكم دارالسلام: إسناده حسن، محمد بن إسحاق صرح بالتحديث عند أبى يعلى والبيهقي
میسرہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر پانی پیا، میں نے ان سے کہا کہ آپ کھڑے ہو کر پانی پی رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: اگر میں نے کھڑے ہو کر پانی پیا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کیا ہے، اور اگر بیٹھ کر پیا ہے تو انہیں اس طرح بھی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 916]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، ابن فضيل - وإن كان روي عن عطاء بعد الاختلاط - قد توبع
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میری رائے یہ تھی کہ مسح علی الخفین کے لئے موزوں کا وہ حصہ زیادہ موزوں ہے جو زمین کے ساتھ لگتا ہے بہ نسبت اس حصے کے جو پاؤں کے اوپر رہتا ہے، حتیٰ کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اوپر کے حصے پر مسح کرتے ہوئے دیکھ لیا تو میں نے اپنی رائے کو ترک کر دیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 917]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، والأعمش كان مضطرباً فى حديث أبى إسحاق، وأشار الدارقطني فى العلل إلى الاختلاف فى سند الحديث ومتنه. وانظر ما بعده
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، انہوں نے پاؤں کے اوپر والے حصے کو دھویا اور فرمایا: اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پاؤں کا اوپر والا حصہ دھوتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میری رائے یہ تھی کہ پاؤں کا نچلا حصہ دھوئے جانے کا زیادہ حق دار ہے (کیونکہ وہ زمین کے ساتھ زیادہ لگتا ہے)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 918]
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے (ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ وضو سکھایا اور) فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح وضو کیا کرتے تھے، اس وضو میں انہوں نے ہر عضو کو تین تین مرتبہ دھویا تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 919]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو وہ درخت پر چڑھ گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کچھ لانے کا حکم دیا تھا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو درخت پر چڑھتے ہوئے دیکھا تو ان کی پنڈلی پر بھی نظر پڑی، وہ ان کی پتلی پتلی پنڈلیاں دیکھ کر ہنس پڑے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیوں ہنس رہے ہو؟ یقینا عبداللہ کا ایک پاؤں قیامت کے دن میزان عمل میں احد پہاڑ سے بھی زیادہ وزنی ہوگا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 920]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جنگ جمل کے دن فرمایا کہ امارت کے سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کوئی وصیت نہیں فرمائی تھی جس پر ہم عمل کرتے، بلکہ یہ تو ایک چیز تھی جو ہم نے خود سے منتخب کر لی تھی، پہلے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے، ان پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں، وہ قائم رہے اور قائم کر گئے، پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے، ان پر بھی اللہ کی رحمتیں نازل ہوں، وہ قائم رہے اور قائم کر گئے یہاں تک کہ دین نے اپنی گردن زمین پر ڈال دی (یعنی جم گیا اور مضبوط ہو گیا)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 921]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة الرجل الذى روى عن علي
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص کون ہے؟ وہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد اس امت میں سب بہترین شخص سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہیں، اس کے بعد اللہ جہاں چاہتا ہے اپنی محبت پیدا فرما دیتا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 922]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خالد الواسطي سماعه من عطاء بعد الاختلاط، لكن تابع عطاء حصين بن عبدالرحمن، وهو ثقة
سیدنا علی اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حق جوار پر فیصلہ فرمایا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 923]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة الراوي عن على وابن مسعود
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سونے کی انگوٹھی، ریشمی لباس یا عصفر سے رنگا ہوا کپڑا پہننے اور رکوع یا سجدہ کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت سے منع فرمایا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 924]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ تین آدمی بارگارہ رسالت میں حاضر ہوئے، ان میں سے ایک نے کہا: میرے پاس سو اوقیے تھے جن میں سے دس اوقیے میں نے اللہ کے راستہ میں خرچ کر دیئے، دوسرے نے کہا: میرے پاس سو دینار تھے جن میں سے دس دینار میں نے اللہ کے راستہ میں خرچ کر دیئے، تیسرے نے کہا: میرے پاس دس دینار تھے جن میں سے ایک دینار میں نے اللہ کے راستہ میں خرچ کر دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سب اجر و ثواب میں برابر ہو، کیونکہ تم میں سے ہر ایک نے اپنے مال کا دسواں حصہ خرچ کیا ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 925]
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر فرمایا: اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں، ان کے بعد ہم نے ایسی چیزیں ایجاد کر لی ہیں جن میں اللہ جو چاہے گا فیصلہ فرما دے گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 926]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وتر فرض نماز کی طرح قرآن کریم سے حتمی ثبوت نہیں رکھتے، لیکن ان کا وجوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 927]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرتے ہوئے اعضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھویا تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 928]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی نماز اذان فجر کے قریب پڑھتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 929]
علی بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ ان کے پاس سواری کے لئے ایک جانور لایا گیا، جب انہوں نے اپنا پاؤں اس کی رکاب میں رکھا تو بسم اللہ کہا، جب اس پر بیٹھ گئے تو یہ دعا پڑھی: الْحَمْدُ لِلّٰہِ، «سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ»”تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، پاک ہے وہ ذات جس نے اس جانور کو ہمارا تابع فرمان بنا دیا، ہم تو اسے اپنے تابع نہیں کر سکتے تھے اور بیشک ہم اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔“ پھر تین مرتبہ الحمدللہ اور تین مرتبہ اللہ اکبر کہہ کر فرمایا: «اَللّٰهُمَّ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ»”اے اللہ! آپ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، میں نے اپنی جان پر ظلم کیا پس مجھے معاف فرما دیجئے، کیونکہ آپ کے علاوہ کوئی بھی گناہوں کو معاف نہیں کر سکتا۔“ پھر مسکرا دیئے۔ میں نے پوچھا کہ امیر المومنین! اس موقع پر مسکرانے کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا تھا جیسے میں نے کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسکرائے تھے، اور میں نے بھی ان سے اس کی وجہ پوچھی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ”جب بندہ یہ کہتا ہے کہ پروردگار! مجھے معاف فرما دے، تو مجھے خوشی ہوتی ہے کہ وہ جانتا ہے کہ اللہ کے علاوہ اس کے گناہ کوئی معاف نہیں کر سکتا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 930]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، أبو إسحاق دلسه ، فحذف منه رجلين بينه وبين على بن ربيعة
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ہم مکہ مکرمہ سے نکلنے لگے تو سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی چچا جان! چچا جان! پکارتی ہوئی ہمارے پیچھے لگ گئی، میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حوالے کر دیا، اور ان سے کہا کہ اپنی چچا زاد بہن کو سنبھالو، (جب ہم مدینہ منورہ پہنچے) تو اس بچی کی پرورش کے سلسلے میں میرا، سیدنا جعفر اور سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما کا جھگڑا ہو گیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا تھا کہ اسے میں لے کر آیا ہوں اور یہ میرے چچا کی بیٹی ہے، سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کا موقف یہ تھا کہ یہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ یعنی سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا میرے نکاح میں ہیں، لہٰذا اس کی پرورش میرا حق ہے، سیدنا زید رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ یہ میری بھتیجی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا: ”جعفر! آپ تو صورت اور سیرت میں میرے مشابہہ ہیں، علی! آپ مجھ سے ہیں اور میں آپ سے ہوں، اور زید! آپ ہمارے بھائی اور ہمارے مولیٰ (آزاد کردہ غلام) ہیں، بچی اپنی خالہ کے پاس رہے گی کیونکہ خالہ بھی ماں کے مرتبہ میں ہوتی ہے۔“ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ اس سے نکاح کیوں نہیں کر لیتے؟ فرمایا: ”اس لئے کہ یہ میری رضاعی بھتیجی ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 931]
حكم دارالسلام: إسناده حسن، حجاج هو ابن محمد المصيصي الأعور
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 932]
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص کون ہے؟ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 933]
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص کون ہے؟ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں، اور اگر میں چاہوں تو تیسرے کا نام بھی بتا سکتا ہوں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 934]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، سويد بن سعيد الهروي فيه مقال، والصبي فيه ضعف يحتمل، وسويد وصبي قد توبعا
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ میں سونا اور بائیں ہاتھ میں ریشم پکڑا اور فرمایا کہ ”یہ دونوں چیزیں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 935]
حكم دارالسلام: صحيح لشوا وانظر رقم: 750 ذالك منقطع وهذا متصل، أبو أفلح روي عنه اثنان ، ووثقه العجلي ، وقال الذهبي: صدوق، وقال ابن حجر: مقبول
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر پر روانہ ہوئے، جب ہم حرہ میں اس سیراب کی ہوئی زمین پر پہنچے جو سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی ملکیت میں تھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے لئے وضو کا پانی لاؤ۔“ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم وضو کر چکے تو قبلہ رخ ہو کر کھڑے ہو گئے اور اللہ اکبر کہہ کر فرمایا: ”اے اللہ! ابراہیم جو آپ کے بندے اور آپ کے خلیل تھے، انہوں نے اہل مکہ کے لئے برکت کی دعا کی تھی، اور میں محمد آپ کا بندہ اور آپ کا رسول ہوں، میں آپ سے اہل مدینہ کے حق میں دعا مانگتا ہوں کہ اہل مدینہ کے مد اور صاع میں اہل مکہ کی نسبت دوگنی برکت عطا فرما۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 936]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: لوگوں پر ایک کاٹ کھانے والا زمانہ آنے والا ہے، حتی کہ جسے مالی کشادگی دی گئی ہے وہ بھی اپنے ہاتھوں کو کاٹ کھائے گا، حالانکہ اسے یہ حکم نہیں دیا گیا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ «﴿وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ﴾ [البقرة: 237] »”اپنے درمیان حاجت مندوں کو بھول نہ جانا۔“ اس زمانے میں شریروں کا مرتبہ بلند ہو جائے گا، نیک اور بہترین لوگوں کو ذلیل کیا جائے گا، اور مجبوروں کو اپنی پونجی فروخت کرنے پر مجبور کیا جائے گا، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے، نیز اس بیع سے بھی منع فرمایا ہے جس میں کسی نوعیت کا بھی دھوکہ ہو، اور پکنے سے قبل یا قبضہ سے قبل پھلوں کی بیع سے بھی منع فرمایا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 937]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف أبى عامر المزني، وجهالة الشيخ من بني تميم
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”بہترین عورت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ہیں اور بہترین عورت سیدہ مریم بنت عمران علیہا السلام ہیں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 938]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سونے کی انگوٹھی، ریشمی کپڑے پہننے، اور رکوع کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت سے منع فرمایا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 939]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن أبى ليلى و عبد الكريم، ويشبه أن يكون نهيه عن لبس الحمراء معناه النهي عن المعصفر
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تین طرح کے لوگ مرفوع القلم ہیں: (1) بچہ جب تک بالغ نہ ہو جائے، (2) سویا ہوا شخص جب تک بیدار نہ ہوجائے، (3) مصیبت زدہ شخص جب تک اس کی پریشانی دور نہ ہو جائے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 940]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، الحسن البصري لم يسمع من علي
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شادی شدہ بدکار کو لایا گیا، انہوں نے جمعرات کے دن اسے سو کوڑے مارے اور جمعہ کے دن اسے سنگسار کر دیا، کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ نے اس پر دو سزائیں جمع کیوں کیں؟ انہوں نے فرمایا: میں نے کوڑے قرآن کریم کی وجہ سے مارے، اور سنگسار سنت کی وجہ سے کیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 941]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، وفي خ: 6812، وهو مختصر بقصة رجم المرأة دون الجل
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس سعید بن قیس کی ایک شادی شدہ باندی کو لایا گیا جس نے بدکاری کی تھی، انہوں نے اسے سو کوڑے مارے اور پھر اسے سنگسار کر دیا اور فرمایا: میں نے کوڑے قرآن کریم کی وجہ سے مارے، اور سنگسار سنت کی وجہ سے کیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 942]
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وضو کرنے کے لئے پانی منگوایا، پانی سے ہاتھ تر کئے اور اپنے پاؤں کے اوپر والے حصے پر انہیں پھیر لیا، اور فرمایا کہ یہ اس شخص کا وضو ہے جو بےوضو نہ ہو۔ پھر فرمایا کہ اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مسح علی الخفین میں پاؤں کے اوپر والے حصے پر مسح کرتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں یہی رائے دیتا کہ پاؤں کا نچلا حصہ مسح کا زیادہ مستحق ہے، پھر آپ نے وضو کا بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر پی لیا اور فرمایا کہ کہاں ہیں وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ کسی صورت میں بھی کھڑے ہو کر پانی پینا جائز نہیں ہے؟ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 943]
حكم دارالسلام: حديث حسن، شريك - وإن كان سيء الحفظ - قد توبع
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک بڑا، رنگ سرخی مائل سفید اور داڑھی گھنی تھی، ہڈیوں کے جوڑ بہت مضبوط تھے، ہتھیلیاں اور پاؤں بھرے ہوئے تھے، سینے سے لے کر ناف تک بالوں کی ایک لمبی سی دھاری تھی، سر کے بال گھنے اور ہلکے گھنگھریالے تھے، چلتے وقت چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے تھے، ایسا محسوس ہوتا تھا گویا کسی گھاٹی سے اتر رہے ہیں، بہت زیادہ لمبے تھے اور نہ بہت زیادہ چھوٹے قد کے، میں نے ان سے پہلے یا ان کے بعد ان جیسا کوئی نہ دیکھا، صلی اللہ علیہ وسلم ۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 944]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وضو کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اعضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھویا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 945]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ لمبے تھے اور نہ بہت زیادہ چھوٹے، سر مبارک بڑا، بال ہلکے گھنگھریالے اور داڑھی گھنی تھی، ہتھیلیاں اور پاؤں بھرے ہوئے تھے، چہرہ مبارک میں سرخی کی آمیزش تھی، سینے سے لے کر ناف تک بالوں کی ایک لمبی سی دھاری تھی، ہڈیوں کے جوڑ بہت مضبوط تھے، چلتے وقت چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے تھے، ایسا محسوس ہوتا تھا گویا کہ کسی گھاٹی سے اتر رہے ہیں، میں نے ان سے پہلے یا ان کے بعد ان جیسا کوئی نہ دیکھا، صلی اللہ علیہ وسلم ۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 946]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، ابن جريج مدلس وقد عنعنه، وصالح بن سعيد روي عنه جمع، وذكره ابن حبان فى الثقات، وقد توبعا
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ لمبے تھے اور نہ بہت زیادہ چھوٹے، سر مبارک بڑا اور داڑھی گھنی تھی، ہتھیلیاں اور پاؤں بھرے ہوئے تھے، چہرہ مبارک میں سرخی کی آمیزش تھی، سینے سے لے کر ناف تک بالوں کی ایک لمبی سی دھاری تھی، ہڈیوں کے جوڑ بہت مضبوط تھے، چلتے وقت چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے تھے، ایسا محسوس ہوتا تھا گویا کہ کسی گھاٹی سے اتر رہے ہیں، میں نے ان سے پہلے یا ان کے بعد ان جیسا کوئی نہ دیکھا، صلی اللہ علیہ وسلم ۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 947]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب ہم لوگ مدینہ منورہ ہجرت کر کے آئے اور ہم نے یہاں کے پھل کھائے تو ہمیں پیٹ کی بیماری لاحق ہو گئی، جس سے بڑھتے بڑھتے ہم شدید قسم کے بخار میں مبتلا ہو گئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے حالات معلوم کرتے رہتے تھے، جب ہمیں معلوم ہوا کہ مشرکین مقام بدر کی طرف بڑھ رہے ہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی بدر کی طرف روانہ ہو گئے، جو کہ ایک کنوئیں کا نام تھا، ہم مشرکین سے پہلے وہاں پہنچ گئے، وہاں ہمیں دو آدمی ملے، ایک قریش کا اور دوسرا عقبہ بن ابی معیط کا غلام، قریشی تو ہمیں دیکھتے ہی بھاگ گیا اور عقبہ کے غلام کو ہم نے پکڑ لیا۔ ہم نے اس سے پوچھا کہ ان کے لشکر کی تعداد کتنی ہے؟ اس نے کہا: واللہ! ان کی تعداد بہت زیادہ اور ان کا سامان حرب بہت مضبوط ہے، جب اس نے یہ کہا تو مسلمانوں نے اسے مارنا شروع کر دیا، اور مارتے مارتے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس سے مشرکین مکہ کی تعداد پوچھی، اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی وہی جواب دیا جو پہلے دیا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ان کی صحیح تعداد معلوم کرنے کی پوری کوشش کی لیکن اس نے بتانے سے انکار کر دیا، بالآخر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ ”وہ لوگ روزانہ کتنے اونٹ ذبح کرتے ہیں؟“ اس نے جواب دیا: روزانہ دس اونٹ ذبح کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت فرمایا: ”ان کی تعداد ایک ہزار ہے، کیونکہ ایک اونٹ کم از کم سو آدمیوں کو کفایت کر جاتا ہے۔“ رات ہوئی تو ہلکی ہلکی بارش ہونے لگی، ہم بارش سے بچنے کے لئے درختوں اور ڈھالوں کے نیچے چلے گئے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی حالت میں ساری رات اپنے پروردگار سے یہ دعا کرتے رہے: «اَللّٰهُمَّ إِنَّكَ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْفِئَةَ لَا تُعْبَدْ»”اے اللہ! اگر یہ گروہ ختم ہو گیا تو آپ کی عبادت نہیں ہو سکے گی۔“ بہرحال! طلوع فجر کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نداء کروائی کہ اللہ کے بندو! نماز تیار ہے، لوگوں نے درختوں اور سائبانوں کو چھوڑا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور اس کے بعد جہاد کی ترغیب دینے لگے، پھر فرمایا کہ ”قریش کا لشکر اس پہاڑ کی سرخ ڈھلوان میں ہے۔“ جب لشکر قریش ہمارے قریب آگیا اور ہم نے بھی صف بندی کر لی، تو اچانک ان میں سے ایک آدمی سرخ اونٹ پر سوار ہو کر نکلا اور اپنے لشکر میں چکر لگانے لگا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”علی! حمزہ سے پکار کر کہو - جو کہ مشرکین مکہ کے سب سے زیادہ قریب تھے - یہ سرخ اونٹ والا کون ہے اور کیا کہہ رہا ہے؟“ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر لشکر قریش میں کوئی آدمی بھلائی کا حکم دے سکتا ہے تو وہ یہ سرخ اونٹ پر سوار ہی ہو سکتا ہے۔“ اتنی دیر میں سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ آگئے اور فرمانے لگے کہ یہ عتبہ بن ربیعہ ہے جو کہ لوگوں کو جنگ سے روک رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ اے میری قوم! میں ایسے لوگوں کو دیکھ رہا ہوں جو ڈھیلے پڑ چکے ہیں، اگر تم میں ذرا سی بھی صلاحیت ہو تو یہ تم تک کبھی نہیں پہنچ سکیں گے، اے میری قوم! آج کے دن میرے سر پر پٹی باندھ دو اور کہہ دو کہ عتبہ بن ربیعہ بزدل ہو گیا حالانکہ تم جانتے ہو کہ میں بزدل نہیں ہوں۔ ابوجہل نے جب یہ بات سنی تو کہنے لگا کہ یہ بات تم کہہ رہے ہو؟ واللہ! اگر یہ بات تمہارے علاوہ کسی اور نے کہی ہوتی تو میں اس سے کہتا کہ جا کر اپنے باپ کی شرمگاہ چوس (گالی دیتا)، تمہارے پھیپھڑوں نے تمہارے پیٹ میں رعب بھر دیا ہے، عتبہ کہنے لگا کہ او پیلے سرین والے! تو مجھے عار دلاتا ہے، آج تجھے پتہ چل جائے گا کہ ہم میں سے بزدل کون ہے؟ اس کے بعد جوش میں آکر عتبہ، اس کا بھائی شیبہ اور اس کا بیٹا ولید میدان جنگ میں نکل کر مبارز طلبی کرنے لگے، ان کے مقابلے میں چھ انصاری نوجوان نکلے، عتبہ کہنے لگا کہ ہم ان سے نہیں لڑنا چاہتے، ہمارے مقابلے میں ہمارے بنو عم نکلیں جن کا تعلق بنو عبدالمطلب سے ہو، یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی، سیدنا حمزہ اور سیدنا عبیدہ بن حارث بن مطلب رضی اللہ عنہم کو اٹھنے اور مقابلہ کرنے کا حکم دیا۔ اس مقابلے میں عتبہ، شیبہ اور ولید تینوں مارے گئے اور مسلمانوں میں سیدنا عبیدہ رضی اللہ عنہ زخمی ہوئے۔ اس طرح ہم نے ان کے ستر آدمی مارے اور ستر ہی کو قیدی بنا لیا، اسی اثناء میں ایک چھوٹے قد کا انصاری نو جوان عباس بن عبدالمطلب کو - جو بعد میں صحابی بنے - قیدی بنا کر لے آیا، عباس کہنے لگے: یا رسول اللہ! واللہ اس نے مجھے قیدی نہیں بنایا، مجھے تو اس شخص نے قید کیا ہے جس کے سر کے دونوں جانب بال نہ تھے، وہ بڑا خوبصورت چہرہ رکھتا تھا اور ایک چتکبرے گھوڑے پر سوار تھا، جو مجھے اب آپ لوگوں میں نظر نہیں آ رہا، اس پر انصاری نے کہا: یا رسول اللہ! انہیں میں نے ہی گرفتار کیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خاموشی کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ ”ایک معزز فرشتے کے ذریعے اللہ نے تمہاری مدد کی ہے۔“ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بنو عبدالمطلب میں سے ہم نے عباس، عقیل اور فوفل بن حارث کو گرفتار کیا تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 948]
شریح بن ہانی کہتے ہیں کہ میں نے موزوں پر مسح کے حوالے سے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کسی مرد صحابی کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ سوال تم سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھو کیونکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں بھی رہتے تھے، چنانچہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا، تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ جب سفر پر جائیں تو اپنے موزوں پر مسح کر لیا کریں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 949]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، م: 276، شريك النخعي قد توبع
سعید بن وہب اور زید بن یثیع کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے صحن کوفہ میں لوگوں کو قسم دے کر فرمایا کہ جس شخص نے غدیر خم کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا میرے حوالے سے کوئی ارشاد سنا ہو تو وہ کھڑا ہو جائے، اس پر سعید کی رائے کے مطابق بھی چھ آدمی کھڑے ہو گئے اور زید کی رائے کے مطابق بھی چھ آدمی کھڑے ہو گئے، اور ان سب نے اس بات کی گواہی دی کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غدیر خم کے موقع پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ”کیا اللہ کو مومنین پر کوئی حق نہیں ہے؟“ سب نے عرض کیا: کیوں نہیں! فرمایا: ”اے اللہ! جس کا میں مولیٰ ہوں، علی بھی اس کے مولیٰ ہیں، اے اللہ! جو علی سے دوستی کرے تو اس سے دوستی فرما، اور جو اس سے دشمنی کرے تو اس سے دشمنی فرما۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 950]
گزشتہ روایت ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے، جس کے آخر میں یہ اضافہ بھی ہے کہ ”جو علی کی مدد کرے تو اس کی مدد فرما، اور جو انہیں تنہا چھوڑ دے تو اسے تنہا فرما۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 951]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة عمرو ذي مر، وأبو إسحاق قد تغير
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حسن کی پیدائش ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: ”مجھے میرا بیٹا تو دکھاؤ، تم نے اس کا کیا نام رکھا ہے؟“ میں نے عرض کیا: حرب۔ فرمایا: ”نہیں، اس کا نام حسن ہے۔“ پھر جب حسین پیدا ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: ”مجھے میرا بیٹا تو دکھاؤ، تم نے اس کا کیا نام رکھا ہے؟“ میں نے پھر عرض کیا: حرب۔ فرمایا: ”نہیں، اس کا نام حسین ہے۔“ تیسرے بیٹے کی پیدائش پر بھی اسی طرح ہوا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام بدل کر محسن رکھ دیا، پھر فرمایا: ”میں نے ان بچوں کے نام حضرت ہارون علیہ السلام کے بچوں کے نام پر رکھے ہیں، جن کے نام شبر، شبیر اور مشبر تھے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 953]
حكم دارالسلام: ضعفه الشيخ الألباني فى الضعيفة : 3706، هانئ بن هانئ مجهول
ابوالطفیل کہتے ہیں کہ کسی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ہمیں کوئی ایسی بات بتائیے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصیت کے ساتھ آپ سے کی ہو؟ فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایسی کوئی خصوصی بات نہیں کی جو دوسرے لوگوں سے چھپائی ہو، البتہ میری اس تلوار کے نیام میں ایک چیز ہے، یہ کہہ کر انہوں نے اس میں سے ایک صحیفہ نکالا جس میں لکھا تھا کہ ”اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو غیر اللہ کے نام پر کسی جانور کو ذبح کرے، اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو کسی بدعتی کو ٹھکانہ دے، اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو اپنے والدین پر لعنت کرے، اور اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو زمین کے بیج چوری کرے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 954]
عبداللہ بن یسار کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ عمرو بن حریث سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے آئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: یوں تو آپ حسن کی بیمار پرسی کے لئے آئے ہیں اور اپنے دل میں جو کچھ چھپا رکھا ہے اس کا کیا ہوگا؟ عمرو نے کہا کہ آپ میرے رب نہیں ہیں کہ جس طرح چاہیں میرے دل میں تصرف کرنا شروع کر دیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لیکن اس کے باوجود ہم تم سے نصیحت کی بات کہنے سے نہیں رکیں گے، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو مسلمان اپنے کسی بھائی کی عیادت کے لیے جاتا ہے، اللہ اس کے لئے ستر ہزار فرشتے مقرر فرما دیتا ہے جو شام تک دن کے ہر لمحے میں اس کے لئے دعا مغفرت کرتے رہتے ہیں، اور اگر شام کو گیا ہو تو صبح تک رات کی ہر گھڑی اس کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 955]
حكم دارالسلام: حسن، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عبدالله بن يسار
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تین طرح کے لوگ مرفوع القلم ہیں: (1) سویا ہوا شخص، جب تک بیدار نہ ہوجائے، (2) مجنون، جب تک اس کی عقل نہ لوٹ آئے، (3) بچہ، جب تک بالغ نہ ہوجائے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 956]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، الحسن البصري لم يسمع من علي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے آخر میں یوں فرماتے تھے: «اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ وَأَعُوذُ بِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ وَلَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ.»”اے اللہ! میں تیری رضا کے ذریعے تیری ناراضگی سے پناہ مانگتا ہوں، تیری درگزر کے ذریعے تیری سزا سے، اور تیری ذات کے ذریعے تجھ سے پناہ مانگتا ہوں، میں تیری تعریف کا احاطہ نہیں کر سکتا، تو اسی طرح ہے جس طرح تو نے اپنی تعریف خود کی ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 957]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کہیں سے ہدیہ کے طور پر ایک ریشمی جوڑا آیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ میرے پاس بھیج دیا، میں نے اسے زیب تن کر لیا، لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور پر ناراضگی کے اثرات دیکھے تو میں نے اسے اپنی عورتوں میں دوپٹے کے طور پر تقسیم کر دیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 958]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وإسناده حسن، خ: 2614، م: 2071
ابوحسان کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ جب بھی کوئی حکم دیتے اور لوگ آکر کہتے کہ ہم نے اس اس طرح کر لیا تو وہ کہتے کہ اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا۔ ایک دن اشتر نامی ایک شخص نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ جو یہ جملہ کہتے ہیں، لوگوں میں بہت پھیل چکا ہے، کیا یہ کوئی ایسی چیز ہے جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو وصیت کی ہے؟ فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو چھوڑ کر خصوصیت کے ساتھ مجھے کوئی وصیت نہیں فرمائی، البتہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنا ہے وہ ایک صحیفہ میں لکھ کر اپنی تلوار کے میان میں رکھ لیا ہے۔ لوگوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے وہ صحیفہ دکھانے پر اصرار کیا، انہوں نے وہ نکالا تو اس میں لکھا تھا کہ ”جو شخص کوئی بدعت ایجاد کرے، یا کسی بدعتی کو ٹھکانہ دے اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، اس کا کوئی فرض یا نفل قبول نہ ہوگا۔“ نیز اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ ”سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو حرم قرار دیا تھا اور میں مدینہ منورہ کو حرم قرار دیتا ہوں، اس کے دونوں کونوں کے درمیان کی جگہ قابل احترام ہے، اس کی گھاس نہ کاٹی جائے، اس کے شکار کو نہ بھگایا جائے، اور یہاں کی گری پڑی چیز کو نہ اٹھایا جائے، البتہ وہ شخص اٹھا سکتا ہے جو مالک کو اس کا پتہ بتا دے، یہاں کا کوئی درخت نہ کاٹا جائے البتہ اگر کوئی آدمی اپنے جانور کو چارہ کھلائے تو بات جدا ہے، اور یہاں لڑائی کے لئے اسلحہ نہ اٹھایا جائے۔“ نیز اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ ”مسلمانوں کی جانیں آپس میں برابر ہیں، ان میں سے اگر کوئی ادنیٰ بھی کسی کو امان دے دے تو اس کی امان کا لحاظ کیا جائے، اور مسلمان اپنے علاوہ لوگوں پر ید واحد کی طرح ہیں، خبردار! کسی کافر کے بدلے میں کسی مسلمان کو قتل نہ کیا جائے، اور نہ ہی کسی ذمی کو اس وقت تک قتل کیا جائے جب تک کہ وہ معاہدے کی مدت میں ہو اور اس کی شرائط پر برقرار ہو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 959]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، أبو حسان الأعرج روايته عن على مرسلة
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع میں جاتے تو یہ دعا پڑھتے: «اَللّٰهُمَّ لَكَ رَكَعْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَلَكَ أَسْلَمْتُ أَنْتَ رَبِّي خَشَعَ سَمْعِي وَبَصَرِي وَمُخِّي وَعَظْمِي وَعَصَبِي وَمَا اسْتَقَلَّتْ بِهِ قَدَمِي لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ.»”اے اللہ! میں نے تیرے لئے رکوع کیا، تجھ پر ایمان لایا، تیرا تابع فرمان ہوا، تو ہی میرا رب ہے، میرے کان، آنکھیں، دماغ، ہڈیاں اور پٹھے تیرے سامنے جھکے ہوئے ہیں اور میرے قدم بھی اللہ رب العالمین کی خاطر جھکے ہوئے ہیں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 960]
عبدالرحمن بن ابی لیلی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے صحن کوفہ میں لوگوں کو قسم دے کر فرمایا کہ جس نے غدیر خم کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سنا ہو تو وہ کھڑا ہو جائے، کہ ”میں جس کا مولیٰ ہوں، علی بھی اس کے مولیٰ ہیں۔“ اس پر بارہ بدری صحابہ رضی اللہ عنہم کھڑے ہو گئے اور ان سب نے اس بات کی گواہی دی کہ ہم سب نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غدیر خم کے موقع پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ”کیا اللہ کو مومنین پر کوئی حق نہیں؟“ سب نے عرض کیا: کیوں نہیں! فرمایا: ”جس کا میں مولیٰ ہوں، علی بھی اس کے مولیٰ ہیں، اے اللہ! جو علی سے دوستی کرے تو اس سے دوستی فرما، اور جو اس سے دشمنی کرے تو اس سے دشمنی فرما۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 961]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد
طارق بن شہاب کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو منبر پر یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ واللہ! ہمارے پاس قرآن کریم کے علاوہ کوئی ایسی کتاب نہیں ہے جسے ہم پڑھتے ہوں، یا پھر یہ صحیفہ ہے جو تلوار سے لٹکا ہوا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیا تھا، اس میں زکوٰۃ کے حصص کی تفصیل درج ہے۔ مذکورہ صحیفہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اس تلوار سے لٹکا رہتا تھا جس کے حلقے لوہے کے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 962]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف شريك
مالک بن عمیر کہتے ہیں کہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا، اچانک صعصعہ بن صوحان آ گئے اور سلام کر کے کہنے لگے: امیر المومنین! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چیزوں سے آپ کو روکا تھا ہمیں بھی ان سے روکیے، انہوں نے فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ہمیں کدو کی تونبی، سبز مٹکے، لک کے برتن، لکڑی کو کھود کر بنائے گئے برتن کو استعمال کرنے سے منع فرمایا (کیونکہ ان میں شراب کشید کی جاتی تھی)، نیز ریشم، سرخ زین پوش، خالص ریشم اور سونے کے حلقوں سے منع فرمایا۔ پھر فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک ریشمی جوڑا عنایت فرمایا، میں وہ پہن کر باہر نکلا تاکہ لوگ دیکھ لیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جو جوڑا دیا تھا وہ میں نے پہن لیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے دیکھا تو اسے اتارنے کا حکم دیا اور اس کا ایک حصہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بھجوا دیا اور دوسرا حصہ پھاڑ کر اپنی عورتوں میں تقسیم کر دیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 963]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، على بن عاصم ضعيف، وقد توبع
عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے صحن کوفہ میں لوگوں کو قسم دے کر فرمایا: جس نے غدیر خم کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے میرے حوالے سے کوئی ارشاد سنا ہو تو وہ کھڑا ہو جائے، اور وہی کھڑا ہو جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو، اس پر بارہ آدمی کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کہ ہم نے خود دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا، اور ہم نے انہیں یہ فرماتے ہوئے سنا: ”اے اللہ! جو علی سے دوستی کرے تو اس سے دوستی فرما، اور جو اس سے دشمنی کرے تو اس سے دشمنی فرما، جو علی کی مدد کرے تو اس کی مدد فرما، اور جو اسے تنہا چھوڑے تو اسے تنہا فرما۔“ اس موقع پر تین آدمی ایسے بھی تھے جو کھڑے نہیں ہوئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے انہیں بد دعا دی اور وہ اس کا شکار ہو گئے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 964]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، دون قوله: وانصر من نصره واخذل من خذله وهذا إسناد ضعيف لجهالة الوليد بن عتبة وسماك بن عبيد
عبدالرحمن بن ابی لیلی کہتے ہیں کہ جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ مؤذن کو اذان دیتے ہوئے سنتے تو وہی کلمات دہراتے جو مؤذن کہتا، اور «اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰهِ» کے جواب میں «اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰهِ» کہنے کے بعد یہ بھی فرماتے کہ جو لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرتے ہیں وہ جھوٹے ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 965]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف عبدالرحمن بن إسحاق الواسطي، وأبو سعيد لم نتبينه
شریح بن ہانی کہتے ہیں کہ میں نے موزوں پر مسح کے حوالے سے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک سوال پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ سوال تم سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھو، انہیں اس مسئلے کا زیادہ علم ہوگا کیونکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں بھی رہتے تھے، چنانچہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا، تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مسافر کے لئے تین دن اور تین رات موزوں پر مسح کرنے کی اجازت ہے، اور مقیم کے لئے ایک دن اور ایک رات۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 966]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”اگر مجھے اپنی امت پر مشقت کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا، اور عشاء کی نماز تہائی رات تک مؤخر کرتا کیونکہ رات کی جب پہلی تہائی گذر جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ (اپنی شان کے مطابق) آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور طلوع فجر تک وہیں رہتے ہیں، اور ایک منادی نداء لگاتا رہتا ہے کہ ہے کوئی مانگنے والا، کہ اسے دیا جائے؟ ہے کوئی دعا کرنے والا، کہ اس کی دعا قبول کی جائے؟ ہے کوئی بیمار جو شفاء حاصل کرنا چاہتا ہو، کہ اسے شفاء مل جائے؟ ہے کوئی گناہگار جو اپنے گناہوں کی معافی مانگے، کہ اسے بخش دیا جائے؟“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 967]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عطاء المدني مولى أم صبية
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کسی شخص نے وتر کے متعلق پوچھا کہ آیا یہ فرض ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ وتر فرض نماز کی طرح قرآن کریم سے حتمی ثبوت نہیں رکھتے، لیکن ان کا وجوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی سنت سے ثابت ہے، اور انہوں نے اسے ہمیشہ ادا کیا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 969]
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وضو کرنے کے لئے پانی منگوایا اور فرمایا: کہاں ہیں وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ کسی صورت میں بھی کھڑے ہو کر پانی پینا جائز نہیں ہے؟ پھر انہوں نے وہ برتن لے کر کھڑے کھڑے اس کا پانی پی لیا، پھر ہلکا سا وضو کیا، جوتوں پر مسح کیا اور فرمایا: اس طاہر آدمی کا جو بےوضو نہ ہو، یہی وضو ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح کرتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 970]
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وضو کرتے ہوئے اعضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھویا اور وضو سے بچا ہوا پانی پی لیا، پھر فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 971]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم میں سے کسی شخص کو چھینک آئے تو اسے چاہئے کہ «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ» کہے، اس کے آس پاس جو لوگ ہوں وہ «يَرْحَمُكَ اللّٰهُ» کہیں، اور چھینکنے والا انہیں یہ جواب دے «يَهْدِيْكُمُ اللّٰهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ» ۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 972]
حكم دارالسلام: حسن لغيره ، ابن أبى ليلي سيء الحفظ، لكن للحديث طريق أخرى عن على يحسن بها
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم میں سے کسی شخص کو چھینک آئے تو اسے چاہئے کہ «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ عَلَي كُلِّ حَالٍ» کہے، اس کے آس پاس جو لوگ ہوں وہ «يَرْحَمُكَ اللّٰهُ» کہیں، اور چھینکنے والا انہیں یہ جواب دے: «يَهْدِيْكُمُ اللّٰهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ» ۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 973]
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے، اور فرمایا کہ وتر کے متعلق سوال کرنے والا کہاں ہے؟ ہم میں سے جس شخص نے ایک رکعت پڑھ لی تھی، اس نے جلدی سے دوسری رکعت ملائی اور ہم سب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس اکٹھے ہو گئے، انہوں نے فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابتداءً رات کے پہلے حصے میں وتر پڑھتے تھے، پھر درمیان والے حصے میں پڑھنے لگے، پھر اس وقت مستقل پڑھنے لگے، اس وقت طلوع فجر ہونے والی تھی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 974]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف أبى إسرائيل
عبداللہ بن نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے آئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: عیادت کی نیت سے آئے ہو یا ملاقات کے لئے آئے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں تو عیادت کی نیت سے آیا ہوں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جب کوئی شخص صبح کے وقت اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے اس کی مشایعت کرتے ہیں، اور ان میں سے ہر ایک اس کے لئے شام تک بخشش کی دعائیں کرتا ہے، اور جنت میں اس کا ایک باغ مقرر ہو جاتا ہے، اور اگر شام کو عیادت کرے تب بھی ستر ہزار فرشتے اس کی مشایعت کرتے ہیں، اور ان میں سے ہر ایک اس کے لئے صبح تک بخشش کی دعائیں کرتا ہے، اور جنت میں اس کا ایک باغ مقرر ہو جاتا ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 975]
حكم دارالسلام: حسن، إلا أن الصحيح وقفه كما تقدم برقم: (612). وهذا إسناد ضعيف لجهالة عبدالله بن نافع الهاشمي
عبداللہ بن نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے آئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: عیادت کی نیت سے آئے ہو یا ملاقات کے لئے آئے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں تو عیادت کی نیت سے آیا ہوں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جب کوئی شخص صبح کے وقت اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے اس کی مشایعت کرتے ہیں، اور ان میں سے ہر ایک اس کے لئے شام تک بخشش کی دعائیں کرتا ہے اور جنت میں اس کا ایک باغ مقرر ہو جاتا ہے، اور اگر شام کو عیادت کرے تب بھی ستر ہزار فرشتے اس کی مشایعت کرتے ہیں، اور ان میں سے ہر ایک اس کے لئے صبح تک بخشش کی دعائیں کرتا ہے اور جنت میں اس کا ایک باغ مقرر ہو جاتا ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 976]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے خروج مذی کثرت کے ساتھ ہونے کا مرض لاحق تھا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حکم پوچھا تو فرمایا: ”منی میں تو غسل واجب ہے، اور مذی میں صرف وضو واجب ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 977]
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد
عامر کہتے ہیں کہ شراحہ نامی ایک عورت کا شوہر اس کے پاس موجود نہ تھا، وہ شام گیا ہوا تھا، یہ عورت امید سے ہو گئی، اس کا آقا اسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اس عورت نے بدکاری کی ہے، اس عورت نے بھی اعتراف کر لیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اسے پہلے پچاس کوڑے لگائے، پھر جمعہ کے دن اس پر حد رجم جاری فرمائی، اور اس کے لئے ناف تک ایک گڑھا کھدوایا، میں بھی اس وقت موجود تھا۔ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رجم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، اگر اس کا یہ جرم کسی گواہ کی شہادت سے ثابت ہوتا تو اسے پتھر مارنے کا آغاز وہی کرتا کیونکہ گواہ پہلے گواہی دیتا ہے اور اس کے بعد پتھر مارتا ہے، لیکن چونکہ اس کا یہ جرم اس کے اقرار سے ثابت ہوا ہے اس لئے اب میں اسے سب سے پہلے پتھر ماروں گا، چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس کا آغاز کیا، بعد میں لوگوں نے اسے پتھر مارنا شروع کئے، ان میں میں بھی شامل تھا اور واللہ! اس عورت کو اللہ کے پاس بھیجنے والوں میں میں بھی تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 978]
حكم دارالسلام: صحيح، وفي خ: 6812، وهو مختصر بقصة الرجم دون الجلد، وهذا إسناد ضعيف لضعف مجالد
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ کیا آدمی حج کے موقع پر قربانی کا جو جانور لے کر جارہا ہو - جسے ہدی کہتے ہیں - اس پر سوار ہو سکتا ہے؟ فرمایا: کوئی حرج نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جب پیدل چلنے والوں کے پاس سے گذر ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ہدی کے جانور پر سوار ہونے کا حکم دیتے، اور تم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے زیادہ افضل کسی چیز کی پیروی نہ کر سکو گے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 979]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة محمد بن عبيدالله
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سود خور، سود کھلانے والا، سودی معاملات لکھنے والا، سودی معاملات کے گواہ، حلالہ کرنے والا، حلالہ کروانے والا، زکوٰۃ روکنے والا، جسم گودنے والی اور جسم گدوانے والی پر لعنت فرمائی ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نوحہ کرنے سے منع فرماتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 980]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف الحارث الأعور
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سرخ رنگ کے پھول دار کپڑوں، ریشمی کپڑوں اور سونے کی انگوٹھی سے منع کیا گیا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 981]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک مرتبہ خوارج کا ذکر ہوا تو فرمایا کہ ان میں ایک آدمی ناقص الخلقت بھی ہوگا، اگر تم حد سے آگے نہ بڑھ جاتے تو میں تم سے وہ وعدہ بیان کرتا جو اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ان کے قتل کرنے والوں سے فرما رکھا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا: کیا آپ نے واقعی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں کوئی فرمان سنا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: ہاں! رب کعبہ کی قسم۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 982]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جب اہل نہروان سے قتال کیا تو ایک مخصوص آدمی کے متعلق حکم دیا کہ اسے تلاش کرو، لوگوں کو وہ مقتولین میں ایک گڑھے میں مل گیا، انہوں نے اسے باہر نکالا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: اگر تم حد سے آگے نہ بڑھ جاتے تو میں تم میں سے وہ وعدہ بیان کرتا جو اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ان کے قتل کرنے والوں سے فرما رکھا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا: کیا آپ نے واقعی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں کوئی فرمان سنا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: ہاں! رب کعبہ کی قسم۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 983]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن، وانظر ما قبله
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں نے تم سے گھوڑے اور غلام کی زکوٰۃ چھوڑ دی ہے اس لئے چاندی کی زکوٰۃ بہرحال تمہیں ادا کرنا ہوگی، جس کا نصاب یہ ہے کہ ہر چالیس پر ایک درہم واجب ہوگا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 984]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وإسناد ضعيف لضعف الحارث الأعور
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب تمہارے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کی جائے تو اس کے بارے وہ گمان کرو جو راہ راست پر ہو، جو اس کے مناسب ہو اور جو تقوی پر مبنی ہو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 985]
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف للانقطاع، أبو البختري لم يدرك عليا، بينهما أبو عبدالرحمن السلمي كما فى الحديث الذى بعد هذا
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب تمہارے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کی جائے تو اس کے بارے وہ گمان کرو جو راہ راست پر ہو، جو اس کے مناسب ہو اور جو تقوی پر مبنی ہو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 986]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب تمہارے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کی جائے تو اس کے بارے وہ گمان کرو جو راہ راست پر ہو، جو اس کے مناسب ہو اور جو تقوی پر مبنی ہو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 987]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک مرتبہ خوارج کا ذکر ہوا تو فرمایا کہ ان میں ایک آدمی ناقص الخلقت بھی ہو گا، اگر تم حد سے آگے نہ بڑھ جاؤ تو میں تم میں سے وہ وعدہ بیان کرتا جو اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ان کے قتل کرنے والوں سے فرما رکھا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا: کیا آپ نے واقعی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں کوئی فرمان سنا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: ہاں! رب کعبہ کی قسم۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 988]
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، ان کی خدمت میں ایک کرسی اور ایک برتن پیش کیا گیا، انہوں نے اپنی ہتھیلیوں کو تین مرتبہ دھویا، تین مرتبہ چہرہ دھویا، دونوں بازؤوں کو کہنیوں سمیت تین تین مرتبہ دھویا، اور دونوں ہتھیلیوں سے سر کا ایک مرتبہ مسح کیا، اور ٹخنوں سمیت دونوں پاؤں دھوئے، پھر فرمایا کہ جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو دیکھنا چاہتا ہے تو یہ ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 989]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نماز فجر کو صلاۃ وسطی سمجھتے تھے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”اس سے مراد نماز عصر ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 990]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، أبو إسحاق الترمذي - وهو إبراهيم بن أبى الليث نصر - ضعفوه بل كذبه بعضهم
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمانوں کی جانیں آپس میں برابر ہیں، ان میں سے اگر کوئی ادنیٰ بھی کسی کو امان دے دے تو اس کی امان کا لحاظ کیا جائے، اور مسلمان اپنے علاوہ لوگوں پر ید واحد کی طرح ہیں، خبردار! کسی کافر کے بدلے میں کسی مسلمان کو قتل نہ کیا جائے، اور نہ ہی کسی ذمی کو قتل کیا جائے گا جب تک کہ وہ معاہدے کی مدت میں ہو، اور اس کی شرائط پر برقرار ہو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 991]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، أبو حسان الأعرج روايته عن على مرسلة
یوسف بن مسعود کی دادی کہتی ہیں کہ ایک آدمی اپنے اونٹ پر ان کے پاس سے گذرا جو منی کے میدان میں ایام تشریق میں اپنا اونٹ دوڑا رہا ہے اور کہتا جارہا ہے کہ یہ تو کھانے پینے اور ذکر کے دن ہیں، میں نے لوگوں سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 992]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، يوسف بن مسعود روى عنه اثنان، وذكره ابن حبان فى الثقات، وقد توبع
قیس بن عباد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور اشتر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے پوچھا: کیا کوئی ایسی چیز ہے جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو وصیت کی ہو اور عام لوگوں کو اس میں شامل نہ کیا ہو؟ فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو چھوڑ کر خصوصیت کے ساتھ مجھے کوئی وصیت نہیں فرمائی، البتہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنا ہے وہ ایک صحیفہ میں لکھ کر اپنی تلوار کے میان میں رکھ لیا ہے۔ انہوں نے وہ نکالا تو اس میں لکھا تھا کہ ”مسلمانوں کی جانیں آپس میں برابر ہیں، ان میں سے اگر کوئی ادنی بھی کسی کو امان دے دے تو اس کی امان کا لحاظ کیا جائے، اور مسلمان اپنے علاوہ لوگوں پر ید واحد کی طرح ہیں، خبردار! کسی کافر کے بدلے میں کسی مسلمان کو قتل نہ کیا جائے اور نہ ہی کسی ذمی کو قتل کیا جائے گا جب تک کہ وہ معاہدے کی مدت میں ہو اور اس کی شرائط پر برقرار ہو۔“ نیز یہ کہ ”جو شخص کوئی بدعت ایجاد کرے یا کسی بدعتی کو ٹھکانہ دے تو اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 993]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ان (مشرکین) کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 994]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم میں سے کسی شخص کو چھینک آئے تو اسے چاہئے کہ «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ» کہے، اس کے آس پاس جو لوگ ہوں وہ «يَرْحَمُكَ اللّٰهُ» کہیں اور چھینکنے والا انہیں یہ جواب دے: «يَهْدِيْكُمُ اللّٰهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ» ۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 995]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، ابن أبى ليلى سيء الحفظ وقد توبع
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے شکایت کی کہ چکی چلا چلا کر ہاتھوں میں گٹے پڑ گئے ہیں، چنانچہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! فاطمہ آپ کے پاس چکی چلانے کی وجہ سے ہاتھوں میں پڑ جانے والے گٹوں کی شکایت لے کر آئی ہیں اور آپ سے ایک خادم کی درخواست کر رہی ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جو تم دونوں کے لئے خادم سے بہتر ہو؟“ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سوتے وقت تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، تینتیس مرتبہ الحمدللہ اور چونتیس مرتبہ اللہ اکبر پڑھنے کا حکم دیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 996]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح رکوع فرماتے تھے کہ اگر پانی سے بھرا ہوا کوئی پیالہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر رکھ دیا جاتا تو وہ نہ گرتا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 997]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة الشيخ الذى روى عنه أحمد، ولضعف سنان بن هارون
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وضو کیا تو اس میں ایک ہی کف سے تین مرتبہ کلی کی، اور تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا، تین مرتبہ چہرہ دھویا، پھر اس برتن میں ہاتھ ڈال کر سر کا مسح کیا اور پاؤں دھو لئے، پھر فرمایا کہ تمہاے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو یہی ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 998]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ آکر اجازت طلب کرنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”یہ پاکیزہ ہے اور پاکیزگی کا حامل ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 999]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میری طرف جھوٹی بات کی نسبت نہ کرو، کیونکہ جو شخص میری طرف کسی بات کی جھوٹی نسبت کرے گا، وہ جہنم میں داخل ہوگا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1000]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، والحديث متواتر ، خ: 106، م : (في المقدمة): 1
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ قربانی کے موقع پر آپ کے ساتھ موجود رہوں، اور یہ کہ ان اونٹوں کی کھالیں اور جھولیں بھی تقسیم کر دوں اور گوشت بھی تقسیم کر دوں، اور یہ بھی حکم دیا کہ قصاب کو ان میں سے کوئی چیز مزدوری کے طور پر نہ دوں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1002]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے رکوع کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت، سونے کی انگوٹھی، ریشی کپڑے اور عصفر سے رنگے ہوئے کپڑے پہننے سے منع فرمایا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1004]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وإسناده حسن، م: 480 و2078
نزال بن سبرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نماز ظہر کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک کوزے میں پانی لایا گیا، وہ مسجد کے صحن میں تھے، انہوں نے کھڑے کھڑے وہ پانی پی لیا اور فرمایا کہ کچھ لوگ اسے ناپسند سمجھتے ہیں حالانکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے جیسے تم نے مجھے کرتے ہوئے دیکھا ہے، پھر انہوں نے باقی پانی سے مسح کر لیا اور فرمایا: جو آدمی بےوضو نہ ہو بلکہ پہلے سے اس کا وضو موجود ہو، یہ اس شخص کا وضو ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1005]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”نماز کی کنجی طہارت ہے، نماز میں حلال چیزوں کو حرام کرنے والی چیز تکبیر تحریمہ ہے، اور انہیں حلال کرنے والی چیز سلام پھیرنا ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1006]
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا میں تمہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح وضو کر کے نہ دکھاؤں؟ پھر انہوں نے اپنے اعضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھویا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1007]
ابوعبدالملک کہتے ہیں کہ نماز فجر میں عبدخیر رحمہ اللہ ہماری امامت کرتے تھے، ایک دن ہمیں نماز فجر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پیچھے پڑھنے کا موقع ملا، سلام پھیر کر جب وہ کھڑے ہوئے تو ہم بھی کھڑے ہو گئے، یہاں تک کہ وہ چلتے ہوئے صحن مسجد میں آ گئے اور بیٹھ کر دیوار سے ٹیک لگا لی، پھر سر اٹھا کر اپنے غلام سے کہا: قنبر! ڈول اور طشت لاؤ، پھر فرمایا کہ پانی ڈالو، اس نے پانی ڈالنا شروع کیا، چنانچہ پہلے انہوں نے اپنی ہتھیلی کو تین مرتبہ دھویا، پھر دایاں ہاتھ برتن میں ڈالا اور پانی نکال کر کلی کی اور تین ہی مرتبہ ناک میں پانی ڈالا، پھر دونوں ہاتھ ڈال کر پانی نکالا، تین مرتبہ چہرہ دھویا، پھر دایاں ہاتھ ڈال کر پانی نکالا اور تین مرتبہ دائیں ہاتھ کو دھویا، پھر بائیں ہاتھ کو تین مرتبہ دھویا اور فرمایا کہ یہ ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1008]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے بکثرت مذی آتی تھی، چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی میرے نکاح میں تھیں اس لئے مجھے خود یہ مسئلہ پوچھتے ہوئے شرم آتی تھی، میں نے سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھیں، چنانچہ انہوں نے یہ مسئلہ پوچھا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا شخص اپنی شرمگاہ کو دھو کر وضو کر لیا کرے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1009]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، ورواية عروة بن الزبير عن على مرسلة، وانظر مابعده
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مذی کا حکم پوچھیں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا شخص وضو کر لیا کرے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1010]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قضاء حاجت کے بعد وضو کیے بغیر باہر تشریف لا کر قرآن کریم کی تلاوت شروع کر دیتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ گوشت بھی تناول فرما لیا کرتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنابت کے علاوہ کوئی چیز قرآن سے نہیں روکتی تھی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1011]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر اور عصر کے علاوہ ہر فرض نماز کے بعد دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1012]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میری رائے یہ تھی کہ مسح علی الخفین کے لئے موزوں کا وہ حصہ زیادہ موزوں ہے جو زمین کے ساتھ لگتا ہے بہ نسبت اس حصے کے جو پاؤں کے اوپر رہتا ہے، حتی کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اوپر کے حصے پر مسح کرتے ہوئے دیکھ لیا تو میں نے اپنی رائے کو ترک کر دیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1013]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، والأعمش كان مضطرباً فى حديث أبى إسحاق
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، انہوں نے پاؤں کے اوپر والے حصے کو دھویا اور فرمایا: اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پاؤں کا اوپر والا حصہ دھوتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میری رائے یہ تھی کہ پاؤں کا نچلا حصہ دھوئے جانے کا زیادہ حق دار ہے (کیونکہ وہ زمین کے ساتھ زیادہ لگتا ہے)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1014]
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے جس میں ہے کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، انہوں نے پاؤں کے اوپر والے حصے پر مسح کیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1015]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وضو کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اعضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھویا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1016]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کسی کے لئے - سوائے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے - اپنے والدین کو جمع کرتے ہوئے نہیں سنا۔ غزوہ احد کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے فرما رہے تھے: ”سعد! تیر پھینکو، تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1017]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر روانہ فرمایا اور ایک انصاری کو ان کا امیر مقرر کر دیا، اور لوگوں کو اس کی بات سننے اور اطاعت کرنے کا حکم دیا، جب وہ لوگ روانہ ہوئے تو راستے میں اس انصاری کو کسی بات پر غصہ آگیا، اس نے کہا کہ لکڑیاں اکٹھی کرو، اس کے بعد اس نے آگ منگوا کر لکڑیوں میں آگ لگا دی اور کہا: کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میری بات سننے اور اطاعت کرنے کا حکم نہیں دیا تھا؟ لوگوں نے کہا: کیوں نہیں، اس نے کہا: پھر اس آگ میں داخل ہو جاؤ۔ لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور کہنے لگے کہ آگ ہی سے تو بھاگ کر ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے وابستہ ہوئے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد اس کا غصہ بھی ٹھنڈا ہو گیا اور آگ بجھ گئی۔ جب وہ لوگ واپس آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا واقعہ بتایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم اس میں ایک مرتبہ داخل ہو جاتے تو پھر کبھی اس میں سے نکل نہ سکتے، یاد رکھو! اطاعت کا تعلق تو صرف نیکی کے کاموں سے ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1018]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درمیانی یا شہادت والی انگلی میں انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1019]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے تشریف لے گئے، دوسرے نمبر پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ چلے گئے، اور تیسرے نمبر پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ چلے گئے، اس کے بعد ہمیں امتحانات نے گھیر لیا، اللہ جسے چاہے گا اسے معاف فرما دے گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1020]
ایک آدمی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے گائے کی قربانی کے حوالے سے سوال کیا، انہوں نے فرمایا کہ ایک گائے سات آدمیوں کی طرف سے کفایت کر جاتی ہے، اس نے پوچھا کہ اگر اس کا سینگ ٹوٹا ہوا ہو تو؟ فرمایا: کوئی حرج نہیں، اس نے کہا کہ اگر وہ لنگڑی ہو؟ فرمایا: اگر قربان گاہ تک خود چل کر جا سکے تو اسے ذبح کر لو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ”جانور کے آنکھ اور کان اچھی طرح دیکھ لیں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1021]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر کے موقع پر سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ کے علاوہ ہم میں گھڑ سوار کوئی نہ تھا، اور ہمارے درمیان ہر شخص سو جاتا تھا سوائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جو ایک درخت کے نیچے نماز پڑھتے جاتے تھے اور روتے جاتے تھے یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1023]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس شخص پر بھی میں نے کوئی شرعی سزا نافذ کی ہو، اس کے متعلق مجھے اپنے دل میں کوئی کھٹک محسوس نہیں ہوتی، سوائے شراب کے کہ اگر اس کی سزا اسی کوڑے جاری کرنے کے بعد کوئی شخص مر جائے تو میں اس کی دیت ادا کرتا ہوں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کوئی حد مقرر نہیں فرمائی (کہ چالیس کوڑے مارے جائیں یا اسی)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1024]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ وضو کرتے ہوئے اعضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھویا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1025]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے بکثرت مذی آتی تھی، چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی میرے نکاح میں تھیں اس لئے مجھے خود یہ مسئلہ پوچھتے ہوئے شرم آتی تھی، میں نے ایک آدمی سے کہا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھیں، چنانچہ انہوں نے یہ مسئلہ پوچھا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا شخص اپنی شرمگاہ کو دھو کر وضو کر لیا کرے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1026]
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم فجر کی نماز پڑھ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر بیٹھ گئے، انہوں نے وضو کا پانی منگوایا، چنانچہ ایک ڈول میں پانی اور ایک طشت لایا گیا، پھر انہوں نے دائیں ہاتھ پر ڈول سے پانی بہایا اور اپنی ہتھیلی کو تین مرتبہ دھویا، پھر دایاں ہاتھ برتن میں ڈالا اور پانی نکال کر کلی کی اور تین ہی مرتبہ ناک میں پانی ڈالا، پھر تین مرتبہ چہرہ دھویا، تین تین مرتبہ دونوں بازؤوں کو دھویا، پھر دایاں ہاتھ ڈال کر پانی نکالا اور دونوں ہتھیلیوں سے ایک ہی مرتبہ سر کا مسح کر لیا، پھر تین تین مرتبہ دونوں پاؤں دھوئے اور فرمایا کہ یہ ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو، اسے خوب سمجھ لو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1027]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے جسم سے خروج مذی بکثرت ہوتا تھا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو فرمایا: ”جب مذی دیکھو تو اپنی شرمگاہ کو دھو لیا کرو اور نماز جیسا وضو کر لیا کرو، اور اگر منی خارج ہو تو غسل کر لیا کرو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1028]
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص کون ہے؟ وہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد اس امت میں سب سے بہترین شخص سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہیں، اس کے بعد اللہ جہاں چاہتا ہے اپنی محبت پیدا فرما دیتا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1030]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خالد الواسطي سماعه من عطاء بعد الاختلاط، لكن تابع عطاء حصين بن عبدالرحمن، وهو ثقة
سیدنا علی رضی اللہ عنہ جب اہل بصرہ سے فارغ ہوئے تو فرمایا: اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے، ان کے بعد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ تھے، اس کے بعد ہم نے ایسی چیزیں ایجاد کر لی ہیں جن میں اللہ جو چاہے گا سو کرے گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1031]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے، ان کے بعد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ تھے، اس کے بعد ہم نے ایسی چیزیں ایجاد کر لی ہیں جن میں اللہ جو چاہے گا سو کرے گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1032]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ (ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا) اتنی دیر میں سیدنا عمار رضی اللہ عنہ آ کر اجازت طلب کرنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں اجازت دے دو، خوش آمدید اس شخص کو جو پاکیزہ ہے اور پاکیزگی کا حامل ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1033]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھیں: اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کے قریب جائے اور اس سے مذی خارج ہو تو کیا حکم ہے؟ مجھے خود یہ مسئلہ پوچھتے ہوئے شرم آتی ہے، کیونکہ ان کی صاحبزادی میرے نکاح میں ہیں، چنانچہ انہوں نے یہ مسئلہ پوچھا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا شخص اپنی شرمگاہ کو دھو کر وضو کر لیا کرے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1035]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، ورواية عروة بن الزبير عن على مرسلة
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے دن مشرکین نے ہمیں نماز عصر پڑھنے کا موقع نہیں دیا حتی کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1036]
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: ہمارے پاس کتاب اللہ اور اس صحیفے کے علاوہ کچھ نہیں ہے، اس صحیفے میں یہ بھی لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عیر سے ثور تک مدینہ منورہ حرم ہے، جو شخص اس میں کوئی بدعت ایجاد کرے یا کسی بدعتی کو ٹھکانہ دے، اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، قیامت کے دن اللہ اس سے کوئی فرض یا نفلی عبادت قبول نہ کرے گا، اور تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ایک جیسی ہے، جو شخص کسی مسلمان کی پناہ کو توڑے اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، اور اس کا کوئی فرض یا نفل قبول نہیں ہوگا۔ اور غلام اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کو اپنا آقا کہنا شروع کر دے، اس پر بھی اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، قیامت کے دن اس کا بھی کوئی فرض یا نفل قبول نہیں کیا جائے گا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1037]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ہمیں چھوڑ کر قریش کے دوسرے خاندانوں کو کیوں پسند کرتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے پاس بھی کچھ ہے؟“ میں نے عرض کیا: جی ہاں! سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی۔ فرمایا: ”وہ تو میری رضاعی بھتیجی ہے۔“(دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ آپس میں رضاعی بھائی بھی تھے اور چچا بھتیجے بھی)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1038]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب تمہارے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کی جائے تو اس کے بارے وہ گمان کرو جو راہ راست پر ہو، جو اس کے مناسب ہو اور جو تقوی پر مبنی ہو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1039]
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص کون ہے؟ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1040]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قرآن کریم میں یہ جو فرمایا گیا ہے: «﴿إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ﴾ [الرعد: 7] »”آپ تو صرف ڈرانے والے ہیں، اور ہر قوم میں ایک ہادی آیا ہے۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کے متعلق فرمایا: ”ڈرانے والا اور رہنمائی کرنے والا بنو ہاشم کا ایک آدمی ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1041]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر کے دن جب جنگ شروع ہوئی تو ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پناہ میں آجاتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہماری نسبت دشمن سے زیادہ قریب تھے، اور اس دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے زیادہ سخت جنگ کی تھی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1042]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی انگوٹھی، ریشمی لباس یا عصفر سے رنگا ہوا کپڑا پہننے اور رکوع کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت سے منع کیا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1043]
حكم دارالسلام: إسناد حديث إسحاق بن عيسي صحيح، وإسناد عبدالرحمن بن مهدي فيه انقطاع، إبراهيم بن عبدالله بن حنين لم يسمع من علي، م: 2078
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سونے کی انگوٹھی، ریشمی لباس یا عصفر سے رنگا ہوا کپڑا پہننے اور رکوع کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت سے منع کیا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1044]
حكم دارالسلام: صحيح، وذكر حنين فيه غير محفوظ، وانظر ما قبله
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ مجھے دو غلاموں کو بیچنے کا حکم دیا، وہ دونوں آپس میں بھائی تھے، میں نے ان دونوں کو دو الگ الگ آدمیوں کے ہاتھ فروخت کر دیا اور آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”واپس جا کر ان دونوں کو واپس لو، اور اکٹھا ایک ہی آدمی کے ہاتھ ان دونوں کو فروخت کرو (تاکہ دونوں کو ایک دوسرے سے کچھ تو قرب اور انس رہے)۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1045]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وإسناده ضعيف لجهالة الرجل الراوي عن الحكم
ابوحیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، پہلے انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں کو دھو کر صاف کیا، پھر تین مرتبہ کلی کی، تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا، تین مرتبہ چہرہ دھویا، تین مرتبہ کہنیوں سمیت ہاتھ دھوئے، سر کا مسح کیا اور ٹخنوں سمیت دونوں پاؤں دھوئے، اور وضو کا بچا ہوا پانی لے کر کھڑے کھڑے پی گئے اور فرمایا کہ میں تمہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ وضو دکھانا چاہتا تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1046]
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے، البتہ اس کے آخر میں وضو کا پانی دونوں ہاتھوں سے لینے کا ذکر ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1047]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ یا کان کٹے ہوئے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1048]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سونے کی انگوٹھی، ریشمی لباس پہننے اور سرخ زین پوش سے منع فرمایا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1049]
ابوحیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو صحن میں پیشاب کرتے ہوئے دیکھا، پھر انہوں نے پانی منگوایا اور پہلے انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں کو دھو کر صاف کیا، پھر تین مرتبہ کلی کی، تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا، تین مرتبہ چہرہ دھویا، تین مرتبہ کہنیوں سمیت دونوں ہاتھ دھوئے، سر کا مسح کیا اور ٹخنوں سمیت دونوں پاؤں دھوئے، اور وضو کا بچا ہوا پانی لے کر کھڑے کھڑے پی گئے، اور فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے، اور میں تمہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ وضو دکھانا چاہتا تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1050]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک دن بر سر منبر خطبہ دیتے ہوئے اللہ کی حمد و ثناء بیان کی اور جو اللہ کو منظور ہوا وہ کہا، پھر فرمایا کہ اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے، ان کے بعد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ تھے، اس کے بعد ہم نے ایسی چیزیں ایجاد کر لی ہیں جن میں اللہ جو چاہے گا سو کرے گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1051]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے، ان کے بعد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1052]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف يونس بن خباب، لكن صح الأثر من طريق آخر عن المسيب، تقدم برقم: 926
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ لمبے تھے اور نہ بہت زیادہ چھوٹے، سر مبارک بڑا اور داڑھی گھنی تھی، ہتھیلیاں اور پاؤں بھرے ہوئے تھے، چہرہ مبارک میں سرخی کی آمیزش تھی، سینے سے لے کر ناف تک بالوں کی ایک لمبی سی دھاری تھی، ہڈیوں کے جوڑ بہت مضبوط تھے، چلتے وقت چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے تھے، ایسا محسوس ہوتا تھا گویا کہ کسی گھاٹی سے اتر رہے ہیں، میں نے ان سے پہلے یا ان کے بعد ان جیسا کوئی نہ دیکھا، صلی اللہ علیہ وسلم ۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1053]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، إسناد حديث وكيع عن المسعودي محتمل للتحسين، وأما عبدالله بن عمران الأنصاري فإنه فى عداد المجهولين، بينه وبين على رجل غير مسمى، كما ذكره ابن أبى حاتم وغيره
ابوجحیفہ سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو تمام لوگوں میں سب سے افضل سمجھتا تھا، . . . . . میں نے کہا: نہیں، واللہ اے امیر المومنین! میں نہیں سمجھتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں میں آپ سے افضل بھی کوئی ہوگا، انہوں نے فرمایا: کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدسب سے افضل شخص کون ہے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، انہوں نے فرمایا: وہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، اور میں تمہیں بتاؤں کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد اس امت میں سب سے بہترین شخص کون ہے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، انہوں نے فرمایا: وہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1054]
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ منبر پر کھڑے ہوئے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کر دیا گیا، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے اور ان کی سیرت پر چلتے ہوئے کام کرتے رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی اپنے پاس بلا لیا، پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے اور وہ ان دونوں حضرات کے طریقے اور سیرت پر چلتے ہوئے کام کرتے رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی اپنے پاس بلا لیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1055]
علی بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ردیف تھا، جب انہوں نے اپنا پاؤں رکاب میں رکھا تو بسم اللہ کہا، جب اس پر بیٹھ گئے تو یہ دعا پڑھی: «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ، سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ»”تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، پاک ہے وہ ذات جس نے اس جانور کو ہمارا تابع فرمان بنا دیا، ہم تو اسے اپنے تابع نہیں کر سکتے تھے، اور بیشک ہم اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔“ پھر تین مرتبہ الحمدللہ اور تین مرتبہ اللہ اکبر کہہ کر فرمایا: اے اللہ! آپ پاک ہیں، آپ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، میں نے اپنی جان پر ظلم کیا، پس مجھے معاف فرما دیجئے، پھر مسکرا دئیے۔ میں نے پوچھا کہ امیر المومنین! اس موقع پر مسکرانے کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا تھا جیسے میں نے کیا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسکرائے تھے، اور میں نے بھی ان سے اس کی وجہ پوچھی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ”جب بندہ یہ کہتا ہے کہ پروردگار! مجھے معاف فرما دے، تو پروردگار کو خوشی ہوتی ہے اور وہ کہتا ہے کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ میرے علاوہ اس کے گناہ کوئی معاف نہیں کر سکتا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1056]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، أبو إسحاق دلسه فحذف منه رجلين بينه وبين على بن ربيعة
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا میرے پاس سے گزر ہوا، میں اس وقت بیمار تھا اور یہ دعا کر رہا تھا کہ اے اللہ! اگر میری موت کا وقت قریب آگیا ہے تو مجھے اس بیماری سے راحت عطاء فرما اور مجھے اپنے پاس بلا لے، اگر اس میں دیر ہو تو شفاء عطا فرما دے، اور اگر یہ کوئی آزمائش ہو تو مجھے صبر عطاء فرما۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم کیا کہہ رہے ہو؟“ میں نے اپنی بات دہرا دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر ہاتھ پھیر کر دعا فرمائی: «اَللّٰهُمَّ اشْفِهِ أَوْ عَافِهِ»”اے اللہ! اسے عافیت اور شفاء عطاء فرما۔“ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد مجھے وہ تکلیف کبھی نہیں ہوئی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1057]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اپنے اہل خانہ کو بھی رات کو جاگنے کے لئے اٹھایا کرتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1058]
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تمام انبیاء علیہم السلام میں سب سے زیادہ بہترین طریقے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا ہے، ان کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کر دیا گیا، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے اور ان کی سیرت پر چلتے ہوئے کام کرتے رہے، پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے، اور وہ ان دونوں حضرات کے طریقے اور سیرت پر چلتے ہوئے کام کرتے رہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1059]
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو (دوران خطبہ یہ) کہتے ہوئے سنا کہ اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں، اور اگر میں چاہوں تو تیسرے آدمی کا نام بھی بتا سکتا ہوں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1060]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ قربانی کے جانور کی آنکھ اور کان اچھی طرح دیکھ لیں، اور ایسے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے جس کا کان آگے یا پیچھے سے کٹا ہوا ہو، یا اس میں سوراخ ہو، یا وہ پھٹ گیا ہو، یا جسم کے دیگر اعضاء کٹے ہوئے ہوں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1061]
حكم دارالسلام: حسن، أبو إسحاق لم يسمع هذا الحديث من شريح بن النعمان
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے یہ بات ذکر فرمائی تھی کہ ”تم سے بغض کوئی منافق ہی کر سکتا ہے، اور تم سے محبت کوئی مومن ہی کر سکتا ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1062]
حنش کنانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یمن میں ایک قوم نے شیر کو شکار کرنے کے لئے ایک گڑھا کھود کر اسے ڈھانپ رکھا تھا، شیر اس میں گر پڑا، اچانک ایک آدمی بھی اس گڑھے میں گر پڑا، اس کے پیچھے دوسرا، تیسرا حتی کہ چار آدمی گر پڑے۔ (اس گڑھے میں موجود شیر نے ان سب کو زخمی کر دیا، یہ دیکھ کر ایک آدمی نے جلدی سے نیزہ پکڑا اور شیر کو دے مارا، چنانچہ شیر ہلاک ہو گیا اور وہ چاروں آدمی بھی اپنے اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دنیا سے چل بسے)۔ مقتولین کے اولیاء اسلحہ نکال کر جنگ کے لئے ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے، اتنی دیر میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ آ پہنچے اور کہنے لگے: کیا تم چار آدمیوں کے بدلے دو سو آدمیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟ میں تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہوں، اگر تم اس پر راضی ہو گئے تو سمجھو کہ فیصلہ ہو گیا۔ فیصلہ یہ ہے کہ جو شخص پہلے گر کر گڑھے میں شیر کے ہاتھوں زخمی ہوا، اس کے ورثاء کو چوتھائی دیت دے دو، اور چوتھے کو مکمل دیت دے دو، دوسرے کو ایک تہائی اور تیسرے کو نصف دیت دے دو۔ ان لوگوں نے یہ فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا (کیونکہ ان کی سمجھ میں ہی نہیں آیا)۔ چنانچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہوں۔“ اتنی دیر میں ایک آدمی کہنے لگا: یا رسول اللہ! سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ہمارے درمیان یہ فیصلہ فرمایا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کو نافذ کر دیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1063]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنے رفیق ابوالہیاج کو مخاطب کر کے فرمایا: میں تمہیں اس کام کے لئے بھیج رہا ہوں، جس کام کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجا تھا، انہوں نے مجھے ہر قبر کو برابر کرنے اور ہر بت کو مٹا ڈالنے کا حکم دیا تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1064]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ کی نافرمانی میں کسی انسان کی اطاعت جائز نہیں ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1065]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ یا کان کٹے ہوئے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1066]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن ہم لوگ کسی جنازے کے ساتھ بقیع میں تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور بیٹھ گئے، ہم بھی ان کے گرد بیٹھ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین کو کرید رہے تھے، تھوڑی دیر بعد سر اٹھا کر فرمایا: ”تم میں سے ہر شخص کا ٹھکانہ - خواہ جنت ہو یا جہنم - اللہ کے علم میں موجود اور متعین ہے، اور یہ لکھا جا چکا ہے کہ وہ شقی ہے یا سعید؟“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: یا رسول اللہ! پھر ہم اپنی کتاب پر بھروسہ کر کے عمل کو چھوڑ نہ دیں؟ کیونکہ جو اہل سعادت میں سے ہو گا وہ سعادت حاصل کر لے گا، اور جو اہل شقاوت میں سے ہو گا وہ شقاوت پا لے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمل کرتے رہو کیونکہ ہر ایک کے لئے وہی اعمال آسان کئے جائیں گے جن کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہو گا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی: «﴿فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى، وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى، فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى﴾ [الليل: 5-7] »”جس شخص نے دیا، تقویٰ اختیار کیا اور اچھی بات کی تصدیق کی تو یقینا ہم آسان راستے کے اسباب پیدا کر دیں گے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1067]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کا ترغیبی حکم دیتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1069]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف جابر الجعفي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ جو شخص جھوٹا خواب بیان کرتا ہے، اسے قیامت کے دن جو کے دانے میں گرہ لگانے کا مکلف بنایا جائے گا (حکم دیا جائے گا)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1070]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبد الأعلى
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے بکثرت مذی آتی تھی، چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی میرے نکاح میں تھیں اس لئے مجھے خود یہ مسئلہ پوچھتے ہوئے شرم آتی تھی، میں نے سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھیں، چنانچہ انہوں نے یہ مسئلہ پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا شخص وضو کر لیا کرے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1071]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”نماز کی کنجی طہارت ہے، نماز میں حلال چیزوں کو حرام کرنے والی چیز تکبیر تحریمہ ہے، اور انہیں حلال کرنے والی چیز سلام پھیرنا ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1072]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عصر کی نماز کے بعد کوئی نماز نہ پڑھو، ہاں! اگر سورج صاف ستھرا دکھائی دے رہا ہو تو جائز ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1073]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب ابوطالب کی وفات ہو گئی تو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ کا بوڑھا چچا مر گیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جا کر انہیں کسی گڑھے میں چھپا دو، اور میرے پاس آنے سے پہلے کوئی دوسرا کام نہ کرنا۔“ چنانچہ جب میں انہیں کسی گڑھے میں اتار کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آیا تو مجھ سے فرمایا: ”جا کر غسل کرو، اور میرے پاس آنے سے پہلے کوئی دوسرا کام نہ کرنا۔“ چنانچہ میں غسل کر کے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اتنی دعائیں دیں کہ مجھے ان کے بدلے سرخ یا سیاہ اونٹ ملنے پر اتنی خوشی نہ ہوتی۔ راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جب بھی کسی میت کو غسل دیا تو خود بھی غسل کر لیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1074]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص جان بوجھ کر میری طرف کسی جھوٹی بات کی نسبت کرے، اسے جہنم میں اپنا ٹھکانہ تیار کر لینا چاہیے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1075]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبد الأعلى الثعلبي، لكن متن الحديث صحيح متواتر، خ: 106، م: (في المقدمة): 1
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عصر کی نماز کے بعد کوئی نماز نہ پڑھو، ہاں! اگر سورج صاف ستھرا دکھائی دے رہا ہو تو جائز ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1076]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دومۃ الجندل - جو شام اور مدینہ کے درمیان ایک علاقہ ہے - کے بادشاہ اکیدر نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک ریشمی جوڑا بطور ہدیہ کے بھیجا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مجھے عطاء کر کے فرمایا: ”اس کے دوپٹے بنا کر عورتوں میں تقسیم کر دو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1077]
عبداللہ بن سبع کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یہ داڑھی اس سر کے خون سے رنگین ہو کر رہے گی، وہ شقی جو مجھے قتل کرے گا نہ جانے کس چیز کا انتظار کر رہا ہے؟ لوگوں نے کہا: امیر المومنین! ہمیں اس کا نام پتہ بتائیے، ہم اس کی نسل تک مٹا دیں گے، فرمایا: واللہ! اس طرح تو تم میرے قاتل کے علاوہ کسی اور کو قتل کر دو گے، لوگوں نے عرض کیا کہ پھر ہم پر اپنا نائب ہی مقرر کر دیجئے، فرمایا: نہیں، میں تمہیں اسی کیفیت پر چھوڑ کر جاؤں گا جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑا تھا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ پھر آپ جب اپنے رب سے ملیں گے تو اسے کیا جواب دیں گے (کہ آپ نے کسے خلیفہ مقرر کیا؟)، فرمایا: میں عرض کروں گا کہ اے اللہ! جب تک آپ کی مشیت ہوئی، آپ نے مجھے ان میں چھوڑے رکھا، پھر آپ نے مجھے اپنے پاس بلا لیا تب بھی آپ ان میں موجود تھے، اب اگر آپ چاہیں تو ان میں اصلاح رکھیں اور اگر آپ چاہیں تو ان میں پھوٹ ڈال دیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1078]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عبدالله بن سبع
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا، اتنی دیر میں سیدنا عمار رضی اللہ عنہ آ کر اجازت طلب کرنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں اجازت دے دو، خوش آمدید اس شخص کو جو پاکیزہ ہے اور پاکیزگی کا حامل ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1079]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب تمہارے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کی جائے تو اس کے بارے وہ گمان کرو جو راہ راست پر ہو، جو اس کے مناسب ہو اور جو تقوی پر مبنی ہو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1080]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، إلا أنه مرسل، أبو البختري روايته عن على مرسلة، لكن السند الذى بعده موصول
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب تمہارے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کی جائے تو اس کے بارے وہ گمان کرو جو راہ راست پر ہو، جو اس کے مناسب ہو اور جو تقوی پر مبنی ہو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1082]
سیدنا حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے خط سے متعلق یہ روایت مختلف رواۃ سے مروی ہے جو اس جگہ کا نام کبھی روضہ خاخ بتاتے ہیں، بعض صرف خاخ بتاتے ہیں، اور بعض روضہ کذا و کذا کہتے ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1083]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس شخص پر بھی میں نے کوئی شرعی سزا نافذ کی ہو، اس کے متعلق مجھے اپنے دل میں کوئی کھٹک محسوس نہیں ہوتی، سوائے شرابی کے کہ اگر اس کی سزا اسی کوڑے جاری کرنے کے بعد کوئی شخص مر جائے تو میں اس کی دیت ادا کرتا ہوں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کوئی حد مقرر نہیں فرمائی (کہ چالیس کوڑے مارے جائیں یا اسی)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1084]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک آدمی کو اپنے مشرک والدین کے لئے دعا مغفرت کرتے ہوئے سنا تو میں نے کہا کہ کیا تم اپنے مشرک والدین کے لئے دعا مغفرت کر رہے ہو؟ اس نے کہا کہ کیا سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنے مشرک باپ کے لئے دعا مغفرت نہیں کرتے تھے؟ میں نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کی تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی: «﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ .....﴾ [التوبة: 113] »”پیغمبر اور اہل ایمان کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ مشرکین کے لئے دعا مغفرت کریں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1085]
سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا: جب میں تم سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی حدیث بیان کروں تو میرے نزدیک آسمان سے گر جانا ان کی طرف جھوٹی نسبت کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے، اور جب کسی اور کے حوالے سے کوئی بات کروں تو میں جنگجو آدمی ہوں اور جنگ تو نام ہی تدبیر اور چال کا ہے۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”قیامت کے قریب ایسی اقوام نکلیں گی جن کی عمر تھوڑی ہوگی اور عقل کے اعتبار سے وہ بیوقوف ہوں گے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں کریں گے، لیکن ایمان ان کے گلے سے آگے نہیں جائے گا، تم انہیں جہاں بھی پاؤ قتل کر دو، کیونکہ ان کا قتل کرنا قیامت کے دن باعث ثواب ہوگا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1086]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قرآن کریم میں یہ جو فرمایا گیا ہے: «﴿وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ﴾ [الواقعة: 82] »”تم نے اپنا حصہ یہ بنا رکھا ہے کہ تم تکذیب کرتے رہو“، اس کا مطلب یہ ہے کہ تم یہ کہتے ہو: فلاں فلاں ستارے کے طلوع و غروب سے بارش ہوئی ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1087]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالأعلى الثعلبي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ جو شخص جھوٹا خواب بیان کرتا ہے، اسے قیامت کے دن جو کے دانے میں گرہ لگانے کا مکلف بنایا جائے گا (حکم دیا جائے گا)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1088]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالأعلى
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ جو شخص جھوٹا خواب بیان کرتا ہے اسے جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لینا چاہئے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1089]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالأعلى
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ میت کے قرض کی ادائیگی اجراء و نفاذ وصیت سے پہلے ہو گی، جبکہ قرآن میں وصیت کا ذکر قرض سے پہلے ہے، اور یہ کہ اخیافی بھائی تو وارث ہوں گے لیکن علاتی بھائی وارث نہ ہوں گے۔ فائدہ: ماں شریک بھائی کو اخیافی، اور باپ شریک بھائی کو علاتی کہتے ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1091]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب تمہارے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کی جائے تو اس کے بارے وہ گمان کرو جو راہ راست پر ہو، جو اس کے مناسب ہو اور جو تقوی پر مبنی ہو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1092]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ابوطالب کا انتقال ہو گیا تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ کا بوڑھا اور گمراہ چچا مر گیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جا کر اسے کسی گڑھے میں چھپا دو، اور میرے پاس آنے سے پہلے کسی سے کوئی بات نہ کرنا۔“ چنانچہ میں گیا اور اسے ایک گڑھے میں چھپا دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد مجھے غسل کرنے کا حکم دیا اور مجھے اتنی دعائیں دیں کہ ان کے مقابلے میں کسی وسیع و عریض چیز کی میری نگاہوں میں کوئی حیثیت نہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1093]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے جنازہ دیکھ کر کھڑے ہو جاتے تھے تو ہم بھی کھڑے ہو جاتے تھے، پھر بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے رہنے لگے تو ہم بھی بیٹھنے لگے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1094]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ کی نافرمانی میں کسی انسان کی اطاعت جائز نہیں ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1095]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ کو قریش کی ایک خوبصورت ترین دوشیزہ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”وہ کون ہے؟“ میں نے عرض کیا: سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی، فرمایا: ”کیا تمہیں معلوم نہیں کہ وہ میری رضاعی بھتیجی ہے، اور اللہ تعالیٰ نے رضاعت کی وجہ سے بھی وہ تمام رشتے حرام قرار دئیے ہیں جو نسب کی وجہ سے حرام قرار دیئے ہیں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1096]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد، وهو ابن جدعان
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں نے تم سے گھوڑے اور غلام کی زکوٰۃ چھوڑ دی ہے اس لئے چاندی کی زکوٰۃ بہرحال تمہیں ادا کرنا ہو گی، جس کا نصاب یہ ہے کہ ہر چالیس پر ایک درہم واجب ہو گا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1097]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف الحارث الأعور
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے - میں یہ نہیں کہتا کہ تمہیں - سونے کی انگوٹھی اور عصفر سے رنگا ہوا کپڑا پہننے سے منع کیا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1098]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ہمیں چھوڑ کر قریش کے دوسرے خاندانوں کو کیوں پسند کرتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے پاس بھی کچھ ہے؟“ میں نے عرض کیا: جی ہاں! سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی، فرمایا: ”وہ تو میری رضاعی بھتیجی ہے۔“(در اصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ آپس میں رضاعی بھائی بھی تھے اور چچا بھتیجے بھی)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1099]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اونٹ ذبح کئے تو مجھے حکم دیا کہ ان اونٹوں کی کھالیں اور جھولیں بھی تقسیم کر دوں اور گوشت بھی تقسیم کر دوں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1100]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ قصاب کو ان میں سے کوئی چیز مزدوری کے طور پر نہ دوں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1101]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی انگوٹھی، ریشم اور سرخ زین پوش، اور جو کی نبیذ سے منع فرمایا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1102]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل خانہ کو بھی جگاتے اور تہہ بند کس لیتے۔ کسی نے راوی سے پوچھا کہ تہبند کس لینے سے کیا مراد ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ ازواج مطہرات سے جدا رہتے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1103]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اپنے اہل خانہ کو بھی رات جاگنے کے لئے اٹھایا کرتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1104]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل خانہ کو بھی جگاتے اور تہہ بند کس لیتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1105]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم فرمایا کہ قربانی کے جانوروں کی آنکھ اور کان اچھی طرح دیکھ لیں کہ کہیں ان میں کوئی عیب تو نہیں ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1106]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے تشریف لے گئے، دوسرے نمبر پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ چلے گئے، اور تیسرے نمبر پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ چلے گئے، اس کے بعد ہمیں امتحانات نے گھیر لیا، اب اللہ جو چاہے گا وہ ہوگا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1107]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں گھوڑوں پر گدھوں کو کدوانے سے (جفتی کروانے سے) منع فرمایا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1108]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، رواية سالم بن أبى الجعد عن على مرسلة
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہترین عورت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ہیں اور بہترین عورت سیدہ مریم بنت عمران علیہا السلام ہیں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1109]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک جنازے کے انتظار میں بیٹھے تھے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں ایک لکڑی تھی) جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین کو کرید رہے تھے، تھوڑی دیر بعد سر اٹھا کر فرمایا: ”تم میں سے ہر شخص کا ٹھکانہ - خواہ جنت ہو یا جہنم - اللہ کے علم میں موجود اور متعین ہے۔“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا ہم اسی پر بھروسہ نہ کر لیں؟ فرمایا: ”عمل کرتے رہو کیونکہ ہر ایک کے لئے وہی اعمال آسان کئے جائیں گے جن کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہوگا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی: «﴿فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى، وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى، فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى﴾ [الليل: 5-7] »”جس شخص نے دیا، تقویٰ اختیار کیا اور اچھی بات کی تصدیق کی تو یقینا ہم آسان راستے کے اسباب پیدا کر دیں گے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1110]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کیا کرو، اگر پورے عشرے میں نہ کر سکو تو آخری سات راتوں میں اس کی تلاش سے مغلوب نہ ہو جانا (آخری سات راتوں میں اسے ضرور تلاش کرنا)۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1111]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، سويد بن سعيد ضعيف، وعبدالحميد بن الحسن الهلالي مختلف فيه
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک چار چیزوں پر ایمان نہ لے آئے، اللہ پر ایمان لائے، اور یہ کہ اس نے مجھے برحق نبی بنا کر بھیجا ہے، مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان لائے، اور اچھی بری تقدیر پر ایمان رکھے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1112]
حكم دارالسلام: إسناده فيه رجل مبهم، وقد مضى برقم: (708) ..... عن ربعي بن حراش عن علي دون واسطة الرجل المبهم، وصحح إسناده أحمد شاكر
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی انگوٹھی، ریشم اور سرخ زین پوش سے منع فرمایا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1113]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل خانہ کو بھی جگاتے اور تہہ بند کس لیتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1114]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اپنے اہل خانہ کو بھی رات جاگنے کے لئے اٹھایا کرتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1115]
ہبیرہ بن یریم کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، انہوں نے اپنے ایک بیٹے کو بلایا جس کا نام عثمان تھا، اس کے بالوں کی مینڈھیاں بنی ہوئی تھیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1116]
عبدالرحمن بن ابی لیلی کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رات کے وقت مختلف امور پر بات چیت کیا کرتے تھے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی عجیب عادت تھی کہ وہ سردی کے موسم میں گرمی کے کپڑے اور گرمی کے موسم میں سردی کے کپڑے پہن لیا کرتے تھے، کسی نے میرے والد صاحب سے کہا کہ اگر آپ اس چیز کے متعلق سوال پوچھیں تو شاید وہ جواب دے دیں؟ چنانچہ والد صاحب کے سوال کرنے پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ غزوہ خیبر کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پاس ایک قاصد بھیجا، مجھے آشوب چشم کی بیماری لاحق تھی، اس لئے میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے تو آشوب چشم ہوا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر میری آنکھوں میں اپنا لعاب دہن ڈال دیا اور یہ دعا کی: «اَللّٰهُمَّ أَذْهِبْ عَنْهُ الْحَرَّ وَالْبَرْدَ»”اے اللہ! اس کی گرمی سردی دور فرما۔“ اس دن سے آج تک مجھے کبھی گرمی اور سردی کا احساس ہی نہیں ہوا۔ اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ”میں یہ جھنڈا اس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوگا اور خود اللہ اور اس کے رسول کی نگاہوں میں محبوب ہوگا، وہ بھاگنے والا نہ ہوگا۔“ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اس مقصد کے لئے اپنے آپ کو نمایاں کرنے لگے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ جھنڈا مجھے عنایت فرما دیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1117]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف ابن أبى ليلى شيخ وكيع، وهو محمد بن عبدالرحمن بن أبى ليلى
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا: تمہیں شرم یا غیرت نہیں آتی کہ تمہاری عورتیں گھروں سے باہر نکلیں، مجھے پتہ چلا ہے کہ تمہاری عورتیں بازاروں میں نکل کر طاقتور لوگوں کی بھیڑ میں گھس جاتی ہیں (ان کا جسم مردوں سے ٹکراتا ہے اور انہیں کچھ خبر نہیں ہوتی کہ ان کے جسم کا کون سا حصہ مرد کے جسم کے کون سے حصے سے ٹکراتا ہے)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1118]
شریح بن ہانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے موزوں پر مسح کے حوالے سے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک سوال پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ سوال تم سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھو، انہیں اس مسئلے کا زیادہ علم ہوگا کیونکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں بھی رہتے تھے، چنانچہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا، تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مسافر کے لئے تین دن اور تین رات موزوں پر مسح کرنے کی اجازت ہے، اور مقیم کے لئے ایک دن اور ایک رات۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1119]
امام شعبی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دس قسم کے لوگوں پر لعنت فرمائی ہے: سود خور، سود کھلانے والا، سودی معاملات لکھنے والا، سودی معاملات کے گواہ، حلالہ کرنے والا، حلالہ کروانے والا، زکوٰۃ روکنے والا، جسم گودنے والی، اور جسم گدوانے والی پر لعنت فرمائی ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نوحہ کرنے سے منع فرماتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1120]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف الحارث الأعور، وظاهر هذا الحديث الإرسال، وتقدم برقم: 980، أنه من حديث الشعبي عن الحارث عن على
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو شخص جنابت کی حالت میں غسل کرتے ہوئے ایک بال کے برابر بھی جگہ خالی چھوڑ دے جہاں پانی نہ پہنچا ہو، اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ جہنم میں ایسا ایسا معاملہ کریں گے۔“ بس اسی وقت سے میں نے اپنے بالوں کے ساتھ دشمنی پال لی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1121]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف مرفوعاً، عطاء بن السائب اختلط بأخرة، وعامة من رفع عنه هذا الحديث، فإنما رواه عنه بعد اختلاطه
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک بڑا، رنگ سرخی مائل سفید اور داڑھی گھنی تھی، ہڈیوں کے جوڑ بہت مضبوط تھے، ہتھیلیاں اور پاؤں بھرے ہوئے تھے، سینے سے لے کر ناف تک بالوں کی ایک لمبی سی دھاری تھی، سر کے بال گھنے اور ہلکے گھنگھریالے تھے، چلتے وقت چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے تھے، ایسا محسوس ہوتا تھا گویا کہ کسی گھاٹی سے اتر رہے ہیں، بہت زیادہ لمبے تھے اور نہ بہت زیادہ چھوٹے قد کے، میں نے ان سے پہلے یا ان کے بعد ان جیسا کوئی نہ دیکھا، صلی اللہ علیہ وسلم ۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1122]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں مستقل قرآن پڑھاتے رہتے تھے الا یہ کہ جنبی ہو جاتے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1123]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، ابن أبى ليلى- وهو محمد بن عبدالرحمن - قد توبع
ابوبردہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اپنے والد کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے، انہوں نے آ کر ہمیں سلام کیا اور میرے والد صاحب کو لوگوں کا کوئی معاملہ سپرد فرمایا، اور فرمانے لگے کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا: ”اللہ سے ہدایت کی دعا مانگا کرو، اور ہدایت سے ہدایت الطریق مراد لے لیا کرو، اور اللہ سے درستگی اور سداد کی دعا کیا کرو، اور آپ اس سے تیر کی درستگی مراد لے لیا کرو۔“ نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے شہادت یا درمیان والی انگلی میں انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا ہے، راوی کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے تھے اس لئے انگلیوں کا اشارہ میں صحیح طور پر سمجھ نہ سکا، پھر انہوں نے فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سرخ دھاری دار اور ریشمی کپڑوں سے منع فرمایا ہے، ہم نے پوچھا: امیر المومنین! ”میثرہ“(یہ لفظ حدیث میں استعمال ہوا ہے) سے کیا مراد ہے؟ یہ کیا چیز ہوتی ہے؟ فرمایا: عورتیں اپنے شوہروں کی سواری کے کجاوے پر رکھنے کے لئے ایک چیز بناتی تھیں (جسے زین پوش کہا جاتا ہے) اس سے وہ مراد ہے، پھر ہم نے پوچھا کہ ”قسیہ“ سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے فرمایا: شام کے وہ کپڑے جن میں اترج جیسے نقش و نگار بنے ہوتے تھے۔ ابوبردہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب میں نے کتان کے بنے ہوئے کپڑے دیکھے تو میں سمجھ گیا کہ یہ وہی ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1124]
میسرہ رحمہ اللہ اور زاذان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر پانی پیا، اور فرمایا: اگر میں نے کھڑے ہو کر پانی پیا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کیا ہے، اور اگر بیٹھ کر پیا ہے تو انہیں اس طرح بھی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1125]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، خالد بن عبدالله الواسطي روي عن عطاء بعد الاختلاط ، لكن توبع
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسافر کے لئے تین دن اور تین رات، اور مقیم کے لئے ایک دن اور ایک رات مسح کی اجازت دی ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1126]
ابوجحیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا: جب میں تم سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی حدیث بیان کروں تو میرے نزدیک آسمان سے گر جانا ان کی طرف جھوٹی نسبت کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے، اور جنگ تو نام ہی تدبیر اور چال کا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1127]
زاذان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر پانی پیا، لوگ ان کی طرف تعجب سے دیکھنے لگے، انہوں نے فرمایا: مجھے کیوں گھور گھور کر دیکھ رہے ہو؟ اگر میں نے کھڑے ہو کر پانی پیا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کیا ہے، اور اگر بیٹھ کر پیا ہے تو انہیں اس طرح بھی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1128]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جسم مبارک کی رگ سے زائد خون نکلوایا اور یہ کام کرنے والے کو - جسے حجام کہا جاتا تھا - اس کی مزدوری دے دی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1129]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبد الأعلى الثعلبي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جسم مبارک کی رگ سے زائد خون نکلوایا، اور مجھے حکم دیا کہ یہ کام کرنے والے کو - جسے حجام کہا جاتا تھا - اس کی مزدوری دے دوں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1130]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، وانظر ما قبله
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے ان دو بچوں کے متعلق پوچھا جو زمانہ جاہلیت میں فوت ہوگئے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ دونوں جہنم میں ہیں۔“ پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چہرے پر اس کے نا خوشگوار اثرات دیکھے تو فرمایا: ”اگر تم ان دونوں کا ٹھکانہ دیکھ لیتیں تو تمہیں بھی ان سے نفرت ہوجاتی۔“ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! پھر میرے ان بچوں کا کیا ہوگا جو آپ سے ہوئے ہیں؟ فرمایا: ”وہ جنت میں ہیں“، پھر فرمایا کہ ”مومنین اور ان کی اولاد جنت میں ہوگی، اور مشرکین اور ان کی اولاد جہنم میں ہوگی۔“ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: «﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ﴾ [الطور: 21] »”وہ لوگ جو ایمان لائے اور اس ایمان لانے میں ان کی اولاد نے بھی ان کی پیروی کی، ہم انہیں ان کی اولاد سے ملا دیں گے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1131]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم خندق کے کنارے پر بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1132]
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فجر کی نماز پڑھ کر رحبہ کے پاس بیٹھ گئے، پھر اپنے غلام سے وضو کا پانی لانے کے لئے فرمایا، وہ ایک برتن لایا جس میں پانی تھا اور ایک طشت، انہوں نے دائیں ہاتھ سے برتن پکڑا اور بائیں ہاتھ پر پانی انڈیلنے لگے، پھر دونوں ہتھیلیوں کو دھویا (پھر دائیں ہاتھ سے اسی طرح کیا)، تین مرتبہ اس طرح کرنے کے بعد داہنا ہاتھ برتن میں داخل کر کے کلی کی، ناک میں پانی ڈالا اور بائیں ہاتھ سے ناک صاف کی، تین مرتبہ اس طرح کرنے کے بعد داہنا ہاتھ برتن میں داخل کر کے تین مرتبہ چہرہ دھویا، پھر تین مرتبہ داہنا ہاتھ کہنی سمیت دھویا، پھر بایاں ہاتھ تین مرتبہ کہنی سمیت دھویا، پھر داہنا ہاتھ برتن میں اچھی طرح ڈبو کر باہر نکالا اور اس پر جو پانی لگ گیا تھا بائیں ہاتھ پر مل کر دونوں ہاتھوں سے ایک مرتبہ سر کا مسح کیا، پھر دائیں ہاتھ سے دائیں پاؤں پر تین مرتبہ پانی بہایا اور بائیں ہاتھ سے اسے مل کر دھویا، پھر بائیں ہاتھ سے بائیں پاؤں پر تین مرتبہ پانی بہایا اور بائیں ہاتھ سے اسے مل کر دھویا، تین مرتبہ اسی طرح کیا، پھر داہنا ہاتھ برتن میں ڈال کر چلو بھر پانی نکالا اور اسے پی کر فرمایا: یہ ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو، جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ وضو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ یہی ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1133]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1134]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ بھوک کی شدت سے تنگ آ کر میں اپنے گھر سے نکلا، میں ایک عورت کے پاس سے گذرا جس نے کچھ گارا اکٹھا کر رکھا تھا، میں سمجھ گیا کہ یہ اسے پانی سے تر بتر کرنا چاہتی ہے، میں نے اس کے پاس آ کر اس سے یہ معاہدہ کیا کہ ایک ڈول کھینچنے کے بدلے تم مجھے ایک کھجور دوگی، چنانچہ میں نے سولہ ڈول کھینچے یہاں تک کہ میرے ہاتھ تھک گئے، پھر میں نے پانی کے پاس آ کر پانی پیا، اس کے بعد اس عورت کے پاس آ کر اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلا دیا اور اس نے گن کر سولہ کھجوریں میرے ہاتھ پر رکھ دیں، میں وہ کھجوریں لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور انہیں یہ سارا واقعہ بتایا، اور کچھ کھجوریں میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کھلا دیں اور کچھ خود کھا لیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1135]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، مجاهد بن جبر لم يسمع عليا
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنے لگوائے، فراغت کے بعد پچھنے لگانے والے سے اس کی مزدوری پوچھی، اس نے دو صاع بتائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ایک صاع کم کر دیا اور مجھے ایک صاع اس کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1136]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف أبى جناب
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک خادمہ سے بدکاری کا گناہ سرزد ہو گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس پر حد جاری کرنے کا حکم دیا، میں نے دیکھا کہ اس کا تو خون ہی بند نہیں ہو رہا، میں نے آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ذکر کی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اس کا خون بند ہو جائے تب اس پر حد جاری کر دینا، یاد رکھو! اپنے غلاموں اور باندیوں پر بھی حد جاری کیا کرو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1137]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبد الأعلى الثعلبي
مروان بن حکم سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں مکہ اور مدینہ کے درمیان سیدنا عثمان غنی اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما کے ساتھ موجود تھا، سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ حج تمتع یعنی حج اور عمرہ کو ایک ہی سفر میں جمع کرنے سے منع فرماتے تھے، یہ دیکھ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے دونوں کا احرام باندھ لیا، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ کیا آپ کے علم میں نہیں ہے کہ میں نے اس کی ممانعت کا حکم جاری کر دیا ہے، اور آپ پھر بھی اس طرح کر رہے ہیں؟ فرمایا: لیکن کسی کی بات کے آگے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو نہیں چھوڑ سکتا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1139]
میسرہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے دیکھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر پانی پیا، میں نے ان سے کہا کہ آپ کھڑے ہو کر پانی پی رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: اگر میں نے کھڑے ہو کر پانی پیا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کیا ہے، اور اگر بیٹھ کر پیا ہے تو انہیں اس طرح بھی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1140]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ آٹا پیس پیس کر ہاتھوں میں نشان پڑگئے ہیں، اس دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کہیں سے کچھ قیدی آئے، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو پتہ چلا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک خادم کی درخواست لے کر حاضر ہوئیں، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہ ملے، تو وہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتا کر واپس آگئیں۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے آنے کی اطلاع دی، چنانچہ رات کو جب ہم اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، ہم نے کھڑا ہونا چاہا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی جگہ رہو“، یہ کہہ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس بیٹھ گئے - حتی کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کی ٹھنڈک محسوس کی - اور فرمایا: ”کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جو تمہارے لئے خادم سے بہتر ہو؟ جب تم اپنے بستر پر لیٹا کرو تو تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، تینتیس مرتبہ الحمدللہ اور چونتیس مرتبہ اللہ اکبر کہہ لیا کرو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1141]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سیاہ فام خادمہ سے بدکاری کا گناہ سرزد ہو گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس پر حد جاری کرنے کا حکم دیا، میں نے دیکھا کہ اس کا تو خون ہی بند نہیں ہو رہا، میں نے آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ذکر کی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اس کا خون بند ہو جائے تب اس پر حد جاری کر دینا، یاد رکھو! اپنے غلاموں اور باندیوں پر بھی حد جاری کیا کرو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1142]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبد الأعلى الثعلبي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ (جب سفر پر روانہ ہوتے تو) چلتے رہتے تھے یہاں تک کہ جب سورج غروب ہو جاتا اور اندھیرا چھا جاتا تو وہ اتر کر مغرب کی نماز اس کے آخر وقت میں ادا کرتے، اور اس کے فورا بعد ہی عشاء کی نماز اس کے اول وقت میں ادا کر لیتے، اور فرماتے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1143]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے یمن کی طرف بھیجا تو میں اس وقت نوخیز تھا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں نو عمر ہوں اور مجھے فیصلہ کرنے کا قطعا کوئی علم نہیں ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر اپنا ہاتھ مار کر فرمایا: ”اللہ تمہاری زبان کو صحیح راستے پر چلائے گا اور تمہارے دل کو مضبوط رکھے گا۔“ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد کبھی بھی دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرنے میں مجھے کوئی شک نہیں ہوا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1145]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة الواسطة بين أبى البختري و بين علي
سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہما مقام عسفان میں اکٹھے ہو گئے، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ حج تمتع سے روکتے تھے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کام کو کیا ہو، اس سے روکنے میں آپ کا کیا مقصد ہے؟ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ مسئلہ رہنے ہی دیجئے۔ (کیونکہ میں نے اس کا حکم نہیں دیا، صرف مشورہ کے طور پر یہ بات کہی ہے)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1146]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کسی کے لئے - سوائے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے - اپنے والدین کو جمع کرتے ہوئے نہیں سنا، غزوہ احد کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے فرما رہے تھے کہ ”سعد! تیر پھینکو، تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1147]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بچے کے پیشاب پر پانی کے چھینٹے مارنا بھی کافی ہے، اور بچی کا پیشاب جس چیز پر لگ جائے اسے دھویا جائے گا۔“ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ حکم اس وقت تک ہے جب انہوں نے کھانا پینا شروع نہ کیا ہو، اور جب وہ کھانا پینا شروع کر دیں تو دونوں کا پیشاب جس چیز کو لگ جائے اسے دھونا ہی پڑے گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1148]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شیرخوار بچے کے متعلق ارشاد فرمایا: ”بچے کے پیشاب پر پانی کے چھینٹے مارنا بھی کافی ہے، اور بچی کا پیشاب جس چیز پر لگ جائے اسے دھویا جائے گا۔“ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ حکم اس وقت تک ہے جب تک انہوں نے کھانا پینا شروع نہ کیا ہو، اور جب وہ کھانا پینا شروع کر دیں تو دونوں کا پیشاب جس چیز کو لگ جائے اسے دھونا ہی پڑے گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1149]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ان (مشرکین) کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1150]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ان (مشرکین) کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1151]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے ابتدائی، درمیانے اور آخری ہر حصے میں وتر پڑھ لیا کرتے تھے، تاہم آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصے میں اس کی پابندی فرمانے لگے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1152]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اپنے اہل خانہ کو بھی رات جاگنے کے لئے اٹھایا کرتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1153]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کہیں سے ہدیہ کے طور پر ایک ریشمی جوڑا آیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ میرے پاس بھیج دیا، میں اسے پہن کر باہر نکلا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو چیز میں اپنے لئے ناپسند سمجھتا ہوں، تمہارے لئے بھی اسے پسند نہیں کر سکتا۔“ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر میں نے اسے اپنی عورتوں یعنی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور اس کی پھوپھی میں تقسیم کر دیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1154]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اہل صفہ میں سے ایک صاحب کا انتقال ہو گیا، کسی شخص نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! انہوں نے ترکہ میں ایک دینار اور ایک درہم چھوڑے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ جہنم کے دو انگارے ہیں جن سے داغا جائے گا، تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ خود پڑھ لو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1155]
حكم دارالسلام: إسناد ضعيف لجهالة عتيبة و بريد بن أصرم
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نصف یا اس سے زیادہ سینگ یا کان کٹے ہوئے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1157]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نصف یا اس سے زیادہ سینگ یا کان کٹے ہوئے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1158]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی انگوٹھی، ریشم اور سرخ زین پوش سے منع فرمایا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1159]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا، اتنی دیر میں سیدنا عمار رضی اللہ عنہ آ کر اجازت طلب کرنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”انہیں اجازت دے دو، خوش آمدید اس شخص کو جو پاکیزہ ہے، اور پاکیزگی کا حامل ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1160]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر کے موقع پر ہم نے دیکھا ہے کہ ہمارے درمیان ہر شخص سو جاتا تھا، سوائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جو ایک درخت کے نیچے نماز پڑھتے جاتے تھے اور روتے جاتے تھے یہاں تک کہ صبح ہو گئی، اور غزوہ بدر کے دن سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کے علاوہ ہم میں کوئی گھڑ سوار نہ تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1161]
مالک بن عمیر کہتے ہیں کہ ایک دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں زید بن صوحان آ گئے اور سلام کر کے کہنے لگے: امیر المومنین! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چیزوں سے آپ لوگوں کو روکا تھا ہمیں بھی ان سے روکیے، انہوں نے فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کدو کی تونبی، سبز مٹکے، لک کے برتن، لکڑی کو کھود کر بنائے گئے برتن کو استعمال کرنے اور جو کی نبیذ سے منع فرمایا (کیونکہ ان میں شراب کشید کی جاتی تھی)، نیز ریشم، سرخ زین پوش، خالص ریشم اور سونے کے حلقوں سے منع فرمایا۔ پھر فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک ریشمی جوڑا عنایت فرمایا، میں وہ پہن کر باہر نکلا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر وہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا یا ان کی پھوپھی کو بھجوا دیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1162]
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے منبر پر لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا: لوگو! میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”نماز حدث کے علاوہ کسی اور چیز سے نہیں ٹوٹتی“، اور میں تم سے اس چیز کو بیان کرنے میں شرم نہیں کروں گا جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شرم محسوس نہیں فرمائی، حدث کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی ہوا نکل جائے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1164]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف حبان بن على و جهالة حصين المزني
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اہل صفہ میں سے ایک صاحب کا انتقال ہو گیا، کسی شخص نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! انہوں نے ترکہ میں ایک دینار اور ایک درہم چھوڑے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ جہنم کے دو انگارے ہیں جن سے داغا جائے گا، تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ خود پڑھ لو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1165]
حكم دارالسلام: إسناد ضعيف لجهالة عتيبة و بريد بن أصرم
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص کسی مریض کی عیادت کے لئے جاتا ہے گویا وہ جنت کے باغات میں چلتا ہے، جب وہ بیمار کے پاس بیٹھتا ہے تو اللہ کی رحمت کے سمندر میں غوطے کھاتا ہے، اور جب وہاں سے واپس روانہ ہوتا ہے تو اس کے لئے ستر ہزار فرشتے مقرر کر دیئے جاتے ہیں جو اس دن اس کے لئے بخشش کی دعا مانگتے رہتے ہیں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1166]
حكم دارالسلام: حسن، والصحيح وقفه، و هذا إسناد ضعيف لجهالة الرجل من الانصار
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے جنازہ دیکھ کر کھڑے ہو جاتے تھے تو ہم بھی کھڑے ہو جاتے تھے، پھر بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی بیٹھے رہنے لگے تو ہم بھی بیٹھنے لگے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1167]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ دعا پڑھا کرو: «اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْهُدَى وَالسَّدَادَ»”اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت اور سداد کا سوال کرتا ہوں“، اور ہدایت کا لفظ بولتے وقت راستے کی رہنمائی کو ذہن میں رکھا کرو، اور سداد کا لفظ بولتے وقت تیر کی درستگی کو ذہن میں رکھا کرو۔“ نیز سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشم، سرخ زین پوش اور سبابہ یا وسطی میں انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1168]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی کا تذکرہ کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ میری رضاعی بھتیجی ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1169]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم لوگ ایک جنازے میں شریک تھے، اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کون شخص مدینہ منورہ جائے گا کہ وہاں جا کر کوئی بت ایسا نہ چھوڑے جسے اس نے توڑ نہ دیا ہو، کوئی قبر ایسی نہ چھوڑے جسے برابر نہ کر دے، اور کوئی تصویر ایسی نہ دیکھے جس پر گارا اور کیچڑ نہ مل دے؟“ ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میں یہ کام کروں گا، چنانچہ وہ آدمی روانہ ہو گیا، لیکن جب مدینہ منورہ پہنچا تو وہ اہل مدینہ سے مرعوب ہو کر واپس لوٹ آیا۔ یہ دیکھ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں جاتا ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی، چنانچہ جب وہ واپس آئے تو عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے جہاں بھی کسی نوعیت کا بت پایا اسے توڑ دیا، جو قبر بھی نظر آئی اسے برابر کر دیا، اور جو تصویر بھی دکھائی دی اس پر کیچڑ ڈال دیا۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب جو شخص ان کاموں میں سے کوئی کام دوبارہ کرے گا گویا وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کردہ وحی کا انکار کرتا ہے۔“ نیز یہ بھی فرمایا کہ ”اے علی! تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے، یا شیخی خورے مت بننا، صرف خیر ہی کے تاجر بننا، کیونکہ یہ وہی لوگ ہیں جن پر صرف عمل کے ذریعے ہی سبقت لے جانا ممکن ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1170]
حكم دارالسلام: إسناد ضعيف لجهالة أبي المورع، وقصة طمس الصورة و تسوية القبر المشرف مضت باءسناد صحيح، برقم : 741
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کہیں سے ہدیہ کے طور پر ایک ریشمی جوڑا آیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ میرے پاس بھیج دیا، میں اسے پہن کر باہر نکلا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم غصہ میں آگئے حتی کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور پر ناراضگی کے اثرات دیکھے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تمہیں یہ پہننے کے لئے نہیں دیا تھا۔“ پھر مجھے حکم دیا تو میں نے اسے اپنی عورتوں میں تقسیم کر دیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1171]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اس گھر میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے جس میں کوئی جنبی ہو، یا تصویر، یا کتا ہو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1172]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، دون ذكر الجنب، وهذا إسناد ضعيف لعلل
نزال بن سبرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کے سامنے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ظہر کی نماز پڑھی، پھر مسجد کے صحن میں بیٹھ گئے تاکہ لوگوں کے مسائل حل کریں، جب نماز عصر کا وقت آیا تو انہوں نے چلو بھر کر پانی لیا اور اپنے ہاتھوں، بازؤوں، چہرے، سر اور پاؤں پر پانی کا گیلا ہاتھ پھیرا، پھر کھڑے کھڑے وہ پانی پی لیا اور فرمایا کہ کچھ لوگ کھڑے ہو کر پانی پینے کو ناپسند سمجھتے ہیں، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح کیا ہے جیسے میں نے کیا ہے، اور جو آدمی بےوضو نہ ہو بلکہ پہلے سے اس کا وضو موجود ہو، یہ اس شخص کا وضو ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1173]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ انہیں مدینہ منورہ بھیجا اور تمام قبریں برابر کرنے کا حکم دیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1175]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة آبي محمد الهذلي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری آدمی کو بھیجا اور اسے حکم دیا کہ ”ہر قبر برابر کر دو، اور ہر بت پر گارا مل دو۔“ اس نے کہا: یا رسول اللہ! میں اپنی قوم کے گھروں میں داخل نہیں ہونا چاہتا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجا، جب میں واپس آیا تو فرمایا کہ ”تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے یا شیخی خورے مت بننا، صرف خیر ہی کے تاجر بننا، کیونکہ یہ وہی لوگ ہیں جن پر صرف عمل کے ذریعے ہی سبقت لے جانا ممکن ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1176]
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس کرسی لائی گئی، میں نے انہیں اس پر بیٹھے ہوئے دیکھا، پھر ایک برتن لایا گیا، انہوں نے اپنے ہاتھوں کو تین مرتبہ دھویا، پھر ایک ہی پانی سے تین مرتبہ کلی کی، ناک میں پانی ڈالا، تین مرتبہ چہرہ دھویا، دونوں بازوؤں کو کہنیوں سمیت تین تین مرتبہ دھویا، پھر دوبارہ اپنے ہاتھوں کو برتن میں ڈالا اور دونوں ہتھیلیوں سے سر کا ایک مرتبہ آگے سے پیچھے کی طرف مسح کیا، اور ٹخنوں سمیت دونوں پاؤں تین تین مرتبہ دھوئے، پھر فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح وضو کیا کرتے تھے، جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ وضو دیکھنا چاہے تو وہ یہی ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1178]
ابوالوضی کہتے ہیں کہ جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ اہل نہروان کے ساتھ جنگ میں مشغول تھے تو میں وہاں موجود تھا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مقتولین میں ایک ایسا آدمی تلاش کرو جس کا ہاتھ ناقص اور نامکمل ہو، لوگوں نے اسے لاشوں میں تلاش کیا لیکن وہ نہیں ملا، اور لوگ کہنے لگے کہ ہمیں نہیں مل رہا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: دوبارہ جا کر تلاش کرو، واللہ! نہ میں تم سے جھوٹ بول رہا ہوں اور نہ مجھ سے جھوٹ بولا گیا۔ کئی مرتبہ اسی طرح ہوا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہر مرتبہ لوگوں کو تلاش کرنے کے لئے دوبارہ بھیجتے رہے، اور ہر مرتبہ قسم کھا کر یہ فرماتے رہے کہ نہ میں تم سے جھوٹ بول رہا ہوں اور نہ مجھ سے جھوٹ بولا گیا۔ آخری مرتبہ جب لوگوں نے اسے تلاش کیا تو وہ انہیں مقتولین کی لاشوں کے نیچے مٹی میں پڑا ہوا مل گیا، انہوں نے اسے نکالا اور لا کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ ابوالوضی کہتے ہیں کہ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا میں اب بھی اسے اپنی نگاہوں کے سامنے دیکھ رہا ہوں، وہ ایک حبشی تھا جس کے ہاتھ پر عورت کی چھاتی جیسا نشان بنا ہوا تھا، اور اس چھاتی پر اسی طرح بال تھے جیسے کسی جنگلی چوہے کی دم پر ہوتے ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1179]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کدو کی تونبی اور لک سے بنے ہوئے برتن کو استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1180]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازے کے انتظار میں بیٹھے تھے، (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں ایک لکڑی تھی) جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین کو کرید رہے تھے، تھوڑی دیر بعد سر اٹھا کر فرمایا: ”تم میں سے ہر شخص کا ٹھکانہ - خواہ جنت ہو یا جہنم - اللہ کے علم میں موجود اور متعین ہے۔“ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا ہم اسی پر بھروسہ نہ کر لیں؟ فرمایا: ”عمل کرتے رہو کیونکہ ہر ایک کے لئے وہی اعمال آسان کئے جائیں گے جن کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہو گا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی: «﴿فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى، وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى، فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى﴾ [الليل: 5-7] »”جس شخص نے دیا، تقویٰ اختیار کیا، اور اچھی بات کی تصدیق کی تو یقینا ہم اسے آسان راستے کے لیے سہولت دیں گے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1181]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے بکثرت مذی آتی تھی، چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی میرے نکاح میں تھیں، اس لئے مجھے خود یہ مسئلہ پوچھتے ہوئے شرم آتی تھی، میں نے سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھیں، چنانچہ انہوں نے یہ مسئلہ پوچھا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا شخص وضو کر لیا کرے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1182]
حسن رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک دیوانی عورت کو رجم کرنے کا ارادہ کیا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”تین طرح کے لوگ مرفوع القلم ہیں: (1) سویا ہوا شخص، جب تک بیدار نہ ہو جائے، (2) بچہ، جب تک بالغ نہ ہو جائے، (3) مجنون، جب تک اس کی عقل لوٹ نہ آئے۔“ چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی سزا معطل کر دی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1183]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره ، والحسن البصري لم يسمع من عمر ولا من علي
حضین کہتے ہیں کہ کوفہ سے کچھ لوگ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور انہوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو ولید کی شراب نوشی کے حوالے سے کچھ خبریں بتائیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھی ان سے اس حوالے سے گفتگو کی تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ آپ کا چچا زاد بھائی آپ کے حوالے ہے، آپ اس پر سزا جاری فرمائیے، انہوں نے سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ حسن! کھڑے ہو کر اسے کوڑے مارو، انہوں نے کہا کہ آپ یہ کام نہیں کر سکتے، کسی اور کو اس کا حکم دیجئے، فرمایا: اصل میں تم کمزور اور عاجز ہوگئے ہو، اس لئے عبداللہ بن جعفر! تم کھڑے ہو کر اس پر سزا جاری کرو۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کوڑے مارتے جاتے تھے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ گنتے جاتے تھے، جب چالیس کوڑے ہوئے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بس کرو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شرابی کو چالیس کوڑے مارے تھے، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی چالیس کوڑے مارے تھے، لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسی مارے تھے، اور دونوں ہی سنت ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1184]
امام شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ شراحہ ہمدانیہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ مجھ سے بدکاری کا ارتکاب ہو گیا ہے اس لئے مجھے سزا دیجئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہو سکتا ہے تو نے خواب میں اس طرح کرتے ہوئے دیکھا ہو، شاید تجھے زبردستی اس کام پر مجبور کیا گیا ہو؟ لیکن وہ ہر بات کے جواب میں ”نہیں“ کہتی رہی، چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جمعرات کے دن اسے کوڑے مارے، اور جمعہ کے دن اس پر حد رجم جاری فرمائی، اور فرمایا کہ میں نے کتاب اللہ کی روشنی میں اسے کوڑے مارے ہیں اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں اسے رجم کیا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1185]
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، وفي خ : 6812، وهو مختصر بقصة الرجم دون الجلد
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت اپنے پاس رکھنے سے منع فرماتے ہوئے سنا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1186]
نعیم بن دجاجہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا آپ ہی نے یہ بات فرمائی ہے کہ لوگوں پر سو سال نہیں گذریں گے کہ زمین پر کوئی آنکھ ایسی باقی نہ بچے گی جس کی پلکیں جھپکتی ہوں، یعنی سب لوگ مرجائیں گے؟ آپ سے اس میں خطا ہوئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات فرمائی تھی وہ یہ ہے کہ ”آج جو لوگ زندہ ہیں سو سال گذرنے پر ان میں سے کسی کی آنکھ ایسی نہ رہے گی کہ جس کی پلکیں جھپکتی ہوں“، یعنی قیامت مراد نہیں ہے، واللہ! اس امت کو سو سال کے بعد تو سہولیات ملیں گی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1187]
ابوالوضی کہتے ہیں کہ جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ اہل نہروان کے ساتھ جنگ میں مشغول تھے تو میں وہاں موجود تھا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مقتولین میں ایک ایسا آدمی تلاش کرو جس کا ہاتھ ناقص اور نامکمل ہو، لوگوں نے اسے لاشوں میں تلاش کیا لیکن وہ نہیں ملا، اور لوگ کہنے لگے کہ ہمیں نہیں مل رہا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: دوبارہ جا کر تلاش کرو، واللہ! نہ میں تم سے جھوٹ بول رہا ہوں اور نہ مجھ سے جھوٹ بولا گیا۔ آخری مرتبہ جب لوگوں نے اسے تلاش کیا تو وہ انہیں مقتولین کی لاشوں کے نیچے مٹی میں پڑا ہوا مل گیا، انہوں نے اسے نکالا اور لا کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ ابوالوضی کہتے ہیں کہ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا میں اب بھی اسے اپنی نگاہوں کے سامنے دیکھ رہا ہوں، وہ ایک حبشی تھا جس کے ہاتھ پر عورت کی چھاتی جیسا نشان بنا ہوا تھا اور اس چھاتی پر اسی طرح کے بال تھے جیسے کسی جنگلی چوہے کی دم پر ہوتے ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1188]
ابوالوضی کہتے ہیں کہ ہم کوفہ کے ارادے سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ روانہ ہوئے، جب ہم حروراء نامی جگہ سے دو یا تین راتوں کے فاصلے کے برابر رہ گئے تو ہم سے بہت سارے لوگ جدا ہو کر چلے گئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ہم نے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے فرمایا کہ تم گھبراؤ مت، عنقریب یہ لوگ واپس لوٹ آئیں گے۔ اس کے بعد راوی نے مکمل حدیث ذکر کی اور آخر میں کہا کہ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور فرمایا کہ میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بتایا تھا کہ ان لوگوں کا قائد ایک ایسا آدمی ہوگا جس کا ہاتھ نامکمل ہوگا، اور اس کے ہاتھ پر عورت کی چھاتی جیسی گھنڈی بھی ہوگی جس پر اس طرح کے بال ہوں گے جیسے جنگلی چوہے کی دم ہوتی ہے، تم مقتولین میں اس کی لاش تلاش کرو۔ لوگوں نے اس کی تلاش شروع کی لیکن نہ مل سکی، ہم نے آ کر عرض کر دیا کہ ہمیں تو اس کی لاش نہیں مل رہی، تین مرتبہ اسی طرح ہوا، پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ خود بنفس نفیس اسے تلاش کرنے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمانے لگے: اسے پلٹو، اسے پلٹو، اتنی دیر میں کوفہ کا ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ یہ رہا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اسے دیکھ کر اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور فرمایا: تم میں سے کسی کو یہ معلوم نہیں ہے کہ اس کا باپ کون ہے؟ لوگ کہنے لگے کہ اس کا نام مالک ہے، اس کا نام مالک ہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یہ کس کا بیٹا ہے؟ (تو اس کا کوئی جواب نہ مل سکا)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1189]
امام شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ (شراحہ ہمدانیہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ مجھ سے بدکاری کا ارتکاب ہو گیا ہے اس لئے سزا دیجئے)، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہو سکتا ہے تجھے زبردستی اس کام پر مجبور کیا گیا ہو؟ شاید وہ تمہارا شوہر ہی ہو، لیکن وہ ہر بات کے جواب میں ”نہیں“ کہتی رہی، چنانچہ وضع حمل کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اسے کوڑے مارے، اور اس پر حد رجم جاری فرمائی۔ کسی شخص نے ان سے پوچھا کہ آپ نے اسے کوڑے بھی مارے اور رجم بھی کیا؟ انہوں نے فرمایا کہ میں نے کتاب اللہ کی روشنی میں اسے کوڑے مارے ہیں، اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں اسے رجم کیا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1190]
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، وفي خ : 6812، وهو مختصر بقصة الرجم دون الجلد
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سب سے پہلا نماز پڑھنے والا آدمی میں ہی ہوں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1191]
حكم دارالسلام: إسناد ضعيف ، سلمة بن كهيل متروك الحديث وحبة العرني ضعيف
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سب سے پہلا نماز پڑھنے والا آدمی میں ہی ہوں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1192]
ابوعبید کہتے ہیں کہ عید الفطر اور عید الاضحی دونوں موقعوں پر مجھے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ شریک ہونے کا موقع ملا ہے، انہوں نے خطبہ سے پہلے بغیر اذان اور اقامت کے نماز پڑھائی، پھر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: لوگو! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کا گوشت تین دن کے بعد کھانے سے منع فرمایا ہے، لہذا تین دن کے بعد اسے مت کھایا کرو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1193]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عصر کی نماز کے بعد کوئی نماز نہ پڑھو، ہاں! اگر سورج صاف ستھرا دکھائی دے رہا ہو تو جائز ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1194]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سحری سے سحری تک روزہ ملاتے تھے (غروب آفتاب کے وقت افطار نہ فرماتے تھے)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1195]
حكم دارالسلام: حسن لغيره ، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبد الاعلي الثعلبي
محمد بن علی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ کچھ لوگ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے مقرر کردہ کچھ گورنروں کی شکایت لے کر آئے، مجھ سے والد صاحب نے کہا کہ یہ خط سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس لے جاؤ اور ان سے کہو کہ لوگ آپ کے گورنروں کی شکایت لے کر آئے ہیں، زکوٰۃ کی وصولی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام اس خط میں درج ہیں، آپ اپنے گورنروں کو حکم جاری کر دیجئے کہ لوگوں سے اسی کے مطابق زکوٰۃ وصول کریں، چنانچہ میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کے سامنے ساری بات دہرا دی۔ راوی کہتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا غیر مناسب انداز میں تذکرہ کرنا چاہتا تو اس دن کے حوالے سے کرتا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1196]
ابوالوضی کہتے ہیں کہ ہم کوفہ کے ارادے سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ روانہ ہوئے، پھر انہوں نے حدیث نمبر (1189) ذکر کی اور اس کے آخر میں یہ بھی کہا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یاد رکھو! میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بتا رکھا ہے کہ ”جنات میں تین بھائی ہیں، یہ ان میں سب سے بڑا ہے، دوسرے کے پاس بھی جم غفیر ہے، اور تیسرا کمزور ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1197]
حكم دارالسلام: إسناده حسن ، هو مكرر 1189. وقوله : «أما ان خليلي.....» لم يرد إلا فى هذا الحديث
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ فجر کی نماز پڑھ کر ہم ان کے پاس ہی بیٹھ گئے، انہوں نے وضو کا پانی منگوایا، تین مرتبہ اپنے ہاتھوں کو دھویا، پھر ایک ہی کف سے دو مرتبہ کلی کی، تین مرتبہ چہرہ دھویا، دونوں بازؤوں کو کہنیوں سمیت تین تین مرتبہ دھویا، اور ٹخنوں سمیت دونوں پاؤں تین تین مرتبہ دھوئے، اور فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح وضو کیا کرتے تھے، اسے خوب سمجھ لو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1198]
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، وہ فجر کی نماز پڑھ چکے تھے، انہوں نے وضو کا پانی منگوایا، تین مرتبہ اپنے ہاتھوں کو دھویا، پھر ایک ہی کف سے تین مرتبہ کلی کی، تین مرتبہ چہرہ دھویا، دونوں بازؤوں کو کہنیوں سمیت تین تین مرتبہ دھویا، اور فرمایا کہ جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ وضو معلوم کرنا چاہتا ہے تو وہ یہی ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1199]
حكم دارالسلام: صحيح ، ابو بحر البكراوي - وان كان فيه ضعف- قد توبع
ابومعمر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ موجود تھے، وہاں سے ایک جنازہ گذرا، لوگ اسے دیکھ کر کھڑے ہو گئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تمہیں یہ مسئلہ کس نے بتایا ہے؟ لوگوں نے سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا نام لیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح صرف ایک مرتبہ کیا تھا اور وہ بھی اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اہل کتاب کی مشابہت اختیار فرمایا کرتے تھے، لیکن جب اس کی ممانعت کر دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رک گئے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1200]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر کے مال غنیمت سے مجھے ایک عمر رسیدہ اونٹنی حاصل ہوئی تھی اور ایک ایسی ہی اونٹنی مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی، ایک دن میں نے ان دونوں کو ایک انصاری کے گھر کے دروازے پر بٹھایا، میرا ارادہ تھا کہ ان پر اذخر نامی گھاس کو لاد کر بازار لے جاؤں گا اور اسے بیچ دوں گا، میرے ساتھ بنو قینقاع کا ایک سنار بھی تھا، جس سے میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ولیمے میں کام لینا چاہتا تھا۔ ادھر اس انصاری کے گھر میں سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ شراب پی رہے تھے (کیونکہ اس وقت تک شراب کی حرمت کا حکم نازل نہیں ہوا تھا)، اونٹنیوں کو دیکھ کر وہ اپنی تلوار لے کر ان پر پل پڑے، ان کے کوہان کاٹ ڈالے اور ان کی کوکھیں پھاڑ ڈالیں اور جگر نکال لئے اور انہیں اندر لے گئے، میں نے جب یہ منظر دیکھا تو میں بہت پریشان ہوا، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری بات بتائی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ نکلے، سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی ساتھ تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور ان سے خوب ناراضگی کا اظہار کیا، سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ نے آنکھیں اٹھا کر دیکھا اور فرمایا کہ تم سب میرے باپ کے غلام ہی تو ہو، یہ دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم الٹے پاؤں واپس چلے آئے، اور یہ واقعہ حرمت شراب کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1201]
عاصم بن ضمرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ کسی شخص نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دن کے وقت کس طرح نوافل پڑھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کل سولہ رکعتیں پڑھتے تھے، فجر کی نماز پڑھ کر تھوڑی دیر انتظار فرماتے، جب سورج مشرق سے اس مقدار میں نکل آتا جتنا عصر کی نماز کے بعد مغرب کی طرف ہوتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر دو رکعت نماز پڑھتے، پھر تھوڑی دیر انتظار فرماتے، اور جب سورج مشرق سے اتنی مقدار میں نکل آتا جتنا ظہر کی نماز کے بعد مغرب کی طرف ہوتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر چار رکعت نماز پڑھتے، پھر سورج ڈھلنے کے بعد چار رکعتیں ظہر سے پہلے، دو رکعتیں ظہر کے بعد اور چار رکعتیں عصر سے پہلے پڑھتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1203]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کے زمانے میں ہی نکاح متعہ اور پالتو گدھوں کے گوشت کی ممانعت فرما دی تھی، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا تھا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1204]
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وضو کرتے ہوئے اعضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھویا، اور وضو سے بچا ہوا پانی پی لیا، پھر فرمایا کہ جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ وضو دیکھنا چا ہے وہ اسے دیکھ لے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1205]
عبداللہ بن ملیل رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جتنے بھی انبیاء کرام علیہم السلام تشریف لائے ہیں، ان میں سے ہر ایک کو سات نقباء، وزراء، نجباء دیئے گئے، جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خصوصیت کے ساتھ چودہ وزراء، نقباء، نجباء دیئے گئے جن میں سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما بھی ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1206]
قیس بن عباد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، وہ جب بھی لوگوں کے کسی مجمع کو دیکھتے، یا کسی ٹیلے پر چڑھتے، یا کسی وادی میں اترتے تو فرماتے: «سُبْحَانَ اللّٰهِ، صَدَقَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهُ.» میں نے بنو یشکر کے ایک آدمی سے کہا کہ آؤ، ذرا امیر المومنین سے یہ بات پوچھتے ہیں کہ «صَدَقَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهُ» سے ان کی کیا مراد ہوتی ہے؟ چنانچہ ہم دونوں ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: امیر المومنین! ہم دیکھتے ہیں کہ جب آپ کسی مجمع کو دیکھیں، کسی وادی میں اتریں، یا کسی ٹیلے پر چڑھیں تو آپ «صَدَقَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهُ» کہتے ہیں، کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حوالے سے آپ کو کچھ بتا رکھا ہے؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ہمارا سوال سن کر اعراض فرمایا، لیکن ہم نے بہت اصرار کیا، جب انہوں نے ہمارا اصرار دیکھا تو فرمایا کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کوئی بات بتائی ہے تو وہ لوگوں کو بھی بتائی ہے، لیکن لوگ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پیچھے پڑ گئے یہاں تک کہ انہیں شہید کر کے ہی دم لیا، اب میرے علاوہ دوسرے لوگوں کا حال بھی کچھ بہتر نہ تھا اور کام بھی، پھر میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ مجھے خلافت کا حق بھی پہنچتا ہے اس لئے میں اس سواری پر سوار ہو گیا، اب اللہ جانتا ہے کہ ہم نے صحیح کیا یا غلط؟ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1207]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف على بن زيد و هو ابن جدعان
عاصم بن ضمرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دن کے وقت کس طرح نوافل پڑھتے تھے؟ فرمایا: پورے دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نوافل کی سولہ رکعتیں ہوتی تھیں لیکن ان پر دوام کرنے والے بہت کم ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1208]
حبیب بن ابی ثابت نے گزشتہ حدیث بیان کر کے فرمایا: اے ابواسحاق! مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ آپ کی اس حدیث کے عوض مجھے یہ مسجد سونے سے بھر کر دے دی جائے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1208M]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ قربانی کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود رہوں، اور یہ کہ ان اونٹوں کی کھالیں اور جھولیں بھی تقسیم کر دوں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1209]
امام شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ شراحہ ہمدانیہ بچے کی امید سے ہو گئی، حالانکہ اس کا شوہر موجود نہیں تھا، چنانچہ اس کا آقا اسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس لے کر آیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہو سکتا ہے وہ تمہارا شوہر ہی ہو، شاید تجھے زبردستی اس کام پر مجبور کیا گیا ہو؟ لیکن وہ ہر بات کے جواب میں ”نہیں“ کہتی رہی، چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جمعرات کے دن اسے کوڑے مارے، اور جمعہ کے دن اس پر حد رجم جاری فرمائی، اور میں دونوں موقعوں پر موجود تھا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ناف تک اس کے لئے گڑھا کھودنے کا حکم دیا، اور فرمایا کہ رجم سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور آیت رجم کا نزول بھی ہوا تھا، بعد میں یمامہ کے وہ لوگ جو آیت رجم اور قرآن کی دیگر آیات پڑھتے تھے، وہ ہلاک ہو گئے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1210]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف مجالد، وفي الخبر الفاظ منكرة، وانظر : 716
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: ”جب تمہارے پاس دو فریق آئیں تو صرف کسی ایک کی بات سن کر فیصلہ نہ کرنا، بلکہ دونوں کی بات سننا، تم دیکھو گے کہ تم کس طرح فیصلہ کرتے ہو۔“ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں مسلسل عہدہ قضاء پر فائز رہا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1211]
حكم دارالسلام: حسن لغيره ، وهذا إسناد ضعيف لضعف حنش
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”بہترین عورت سیدہ مریم بنت عمران علیہا السلام ہیں، اور بہترین عورت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ہیں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1212]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص اس بات کو پسند کرتا ہو کہ اس کی عمر لمبی ہو، اس کے رزق میں کشادگی ہو اور اسے بری موت سے محفوظ رکھا جائے، اسے چاہئے کہ اللہ سے ڈرے اور صلہ رحمی کرے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1213]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے اہل قرآن! وتر پڑھا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ طاق ہے، اور طاق عدد کو پسند کرتا ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1214]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے ابتدائی، درمیانے اور آخری ہر حصے میں وتر پڑھ لیا کرتے تھے، تاہم آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصے میں اس کی پابندی فرمانے لگے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1215]
حنش کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سورج گرہن ہوا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نماز کسوف پڑھانے کے لئے کھڑے ہوئے، انہوں نے سورہ یٓس یا اس جیسی کوئی سورت تلاوت فرمائی، پھر سورت کے بقدر رکوع کیا، پھر سر اٹھا کر «سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہا اور سورت کی تلاوت کے بقدر کھڑے رہے اور دعا کرتے رہے، پھر تکبیر کہہ کر دوبارہ اتنا ہی طویل رکوع کیا جو سورت کی تلاوت کے بقدر تھا، پھر «سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہہ کر مزید اتنی ہی دیر کھڑے رہے، اس طرح انہوں نے چار رکوع کئے، پھر سجدہ کیا اور دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوئے اور پہلی رکعت کی طرح یہ دوسری رکعت بھی پڑھی، پھر بیٹھ کر دعا کرتے رہے یہاں تک کہ سورج گرہن ختم ہو گیا، پھر فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک مرتبہ اسی طرح کیا تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1216]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف حنش ، وفي مسلم : (908) عن ابن عباس قال : صلى رسول الله حين كسفت الشمس ، ثمان ركعات م فى اربع سجدات، وعن على مثل ذلك
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم (فجر اور عصر کے علاوہ) ہر فرض نماز کے بعد دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1217]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے ابتدائی، درمیانے اور آخری ہر حصے میں وتر پڑھ لیا کرتے تھے، تاہم آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصے میں اس کی پابندی فرمانے لگے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1218]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب کوئی شخص نماز کے بعد اپنی جائے نماز پر بیٹھا رہتا ہے تو فرشتے اس پر صلوٰۃ پڑھتے رہتے ہیں، اور فرشتوں کی صلوٰۃ یہ دعا ہے کہ اے اللہ! اسے معاف فرما دے، اے اللہ! اس پر رحم فرما دے۔ اسی طرح اگر وہ بیٹھ کر اگلی نماز کا انتظار کرتا رہے تو فرشتے اس پر بھی صلوٰۃ پڑھتے ہیں، اور ان کی صلوٰۃ یہی دعا ہے کہ اے اللہ! اسے معاف فرما دے، اے اللہ! اس پر رحم فرما دے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1219]
حكم دارالسلام: حسن لغيره ، عطاء بن السائب قد اختلط
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وتر فرض نماز کی طرح قرآن کریم سے حتمی ثبوت نہیں رکھتے، لیکن ان کا وجوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1220]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ان (مشرکین) کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1221]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ ”میت کے قرض کی ادائیگی اجراء و نفاذ وصیت سے پہلے ہو گی“، جبکہ قرآن میں وصیت کا ذکر قرض سے پہلے ہے، اور یہ کہ ”اخیافی بھائی تو وارث ہوں گے لیکن علاتی بھائی وارث نہ ہوں گے“، انسان کا حقیقی بھائی تو اس کا وارث ہوگا لیکن صرف باپ شریک بھائی وارث نہ ہوگا۔ فائدہ: ماں شریک بھائی کو اخیافی اور باپ شریک بھائی کو علاتی کہتے ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1222]
نزال بن سبرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نماز ظہر کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک کوزے میں پانی لایا گیا، وہ مسجد کے صحن میں تھے، انہوں نے کھڑے کھڑے وہ پانی پی لیا اور فرمایا کہ کچھ لوگ اسے ناپسند سمجھتے ہیں حالانکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے جیسے تم نے مجھے کرتے ہوئے دیکھا ہے، پھر انہوں نے باقی پانی سے مسح کر لیا اور فرمایا: جو آدمی بےوضو نہ ہو بلکہ پہلے سے اس کا وضو موجود ہو، یہ اس شخص کا وضو ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1223]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک مرتبہ خوارج کا ذکر ہوا تو فرمایا کہ ان میں ایک آدمی ناقص الخلقت بھی ہوگا، اگر تم حد سے آگے نہ بڑھ جاتے تو میں تم میں سے وہ وعدہ بیان کرتا جو اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ان کے قتل کرنے والوں سے فرما رکھا ہے، راوی کہتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا: کیا آپ نے واقعی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں کوئی فرمان سنا ہے؟ تو انہوں نے تین مرتبہ فرمایا: ہاں! رب کعبہ کی قسم۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1224]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے اہل قرآن! وتر پڑھا کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ طاق ہے اور طاق عدد کو پسند کرتا ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1225]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر اور عصر کے علاوہ ہر فرض نماز کے بعد دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1226]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم (فجر اور عصر کے علاوہ) ہر فرض نماز کے بعد دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1227]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے اہل قرآن! وتر پڑھا کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ طاق ہے اور طاق عدد کو پسند کرتا ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1228]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رات کو جب ہم اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، اور میرے اور فاطمہ کے درمیان قدم مبارک رکھ کر ہمیں بستر پر لیٹنے کے بعد یہ کلمات پڑھنے کے لئے سکھائے: ”تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، تینتیس مرتبہ الحمدللہ اور چونتیس مرتبہ اللہ اکبر۔“ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر میں نے ان کلمات کو کبھی ترک نہیں کیا، کسی نے پوچھا: صفین کی رات میں بھی نہیں؟ فرمایا: ہاں!۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1229]
حضین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ولید بن عقبہ نے لوگوں کو فجر کی نماز میں دو کی بجائے چار رکعتیں پڑھا دیں، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر کہا کہ شاید میں نے نماز کی رکعتوں میں اضافہ کردیا ہے؟ یہ معاملہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش ہوا تو انہوں نے ولید پر شراب نوشی کی سزا جاری کرنے کا حکم دے دیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ حسن! کھڑے ہو کر اسے کوڑے مارو، انہوں نے کہا کہ آپ یہ کام نہیں کر سکتے، کسی اور کو اس کا حکم دیجئے، فرمایا: اصل میں تم کمزور اور عاجز ہوگئے ہو، اس لئے عبداللہ بن جعفر! تم کھڑے ہو کر اس پر سزا جاری کرو۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کوڑے مارتے جاتے تھے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ گنتے جاتے تھے، جب چالیس کوڑے ہوئے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بس کرو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شرابی کو چالیس کوڑے مارے تھے، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی چالیس کوڑے مارے تھے، لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسی مارے تھے، اور دونوں ہی سنت ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1230]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک خادمہ سے بدکاری کا گناہ سرزد ہو گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس پر حد جاری کرنے کا حکم دیا، میں نے دیکھا کہ اس کا تو خون ہی بند نہیں ہو رہا، میں نے آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ذکر کی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اس کا خون بند ہو جائے تو اس پر حد جاری کر دینا، اور یاد رکھو! اپنے غلاموں اور باندیوں پر بھی حد جاری کیا کرو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1231]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبد الأعلي الثعلبي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وتر فرض نماز کی طرح قرآن کریم سے حتمی ثبوت نہیں رکھتے، لیکن ان کا وجوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے، اس لئے اہل قرآن! وتر پڑھا کرو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1232]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں نے تم سے گھوڑے اور غلام کی زکوٰۃ چھوڑ دی ہے اس لئے چاندی کی زکوٰۃ بہرحال تمہیں ادا کرنا ہوگی، جس کا نصاب یہ ہے کہ ہر چالیس پر ایک درہم واجب ہوگا، ایک سو نوے درہم تک کچھ واجب نہ ہوگا، لیکن جب ان کی تعداد دو سو تک پہنچ جائے تو اس پر پانچ درہم واجب ہوں گے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1233]
حكم دارالسلام: صحيح، أبو عوانة وإن روي عن أبي إسحاق بعد تغير، لكن قد تابعه غير واحد
عاصم بن ضمرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ کسی شخص نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح نوافل پڑھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ پوری رات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نوافل کی سولہ رکعتیں ہوتی تھیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1234]
حكم دارالسلام: إسناده قوي ، غير أن قوله فيه : «من الليل» خطأ، والصحيح «من النهار» انظر رقم : 650 و 1642
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسری نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیہ بھیجا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرما لیا، اسی طرح قیصر نے ہدیہ بھیجا تو وہ بھی قبول فرما لیا، اور دیگر بادشاہوں نے بھیجا تو وہ بھی قبول فرما لیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1235]
حكم دارالسلام: اسناده ضعيف لضعف ثوير بن أبي فاختة، وأخذ الهدية من المشركين لقصد تأنيسهم وتأليفهم على الاسلام ثابت عنه
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء قبرستان جانے سے، مخصوص برتنوں کے استعمال سے، اور تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت اپنے پاس رکھنے سے منع فرما دیا تھا، اس کے بعد فرمایا کہ ”میں نے پہلے تمہیں قبرستان جانے سے روکا تھا، اب اجازت دیتا ہوں اس لئے قبرستان جایا کرو کیونکہ اس سے آخرت کی یاد آتی ہے، میں نے تمہیں مخصوص برتن استعمال کرنے سے بھی روکا تھا، اب انہیں پینے کے لئے استعمال کر لیا کرو لیکن نشہ آور چیزوں سے بچتے رہو، اور میں نے تمہیں تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنے سے بھی منع کیا تھا، اب تہیں اجازت ہے کہ جب تک چاہو رکھو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1236]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد ولجهالة ربيعة بن النابغة وأبيه
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے جسم سے خروج مذی بکثرت ہوتا تھا، مجھے خود سے یہ مسئلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے ہوئے شرم آتی تھی کہ ان کی صاحبزادی میرے نکاح میں تھیں، چنانچہ میں نے سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ سے کہا، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا، تو انہوں نے فرمایا کہ ”یہ تو مرد کا پانی ہے اور ہر طاقتور مرد کا پانی ہوتا ہے، اس لئے جب مذی دیکھو تو اپنی شرمگاہ کو دھو لیا کرو اور نماز جیسا وضو کر لیا کرو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1238]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنے رفیق حیان کو مخاطب کر کے فرمایا: میں تمہیں اس کام لئے بھیج رہا ہوں، جس کام کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجا تھا، کوئی قبر برابر کئے بغیر نہ چھوڑنا، اور کوئی تصویر مٹائے بغیر نہ چھوڑنا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1239]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره ، وهذا اسناد ضعيف لضعف أشعث بن سوار و حنش
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو زمین بارش کے پانی سے سیراب ہوتی ہو اس میں عشر واجب ہے، اور جو زمین ڈول یا رہٹ سے سیراب ہوتی ہو اس میں نصف عشر واجب ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1240]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وإسناد هذا مرفوعاً ضعيف لضعف محمد بن سالم الهمداني
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرائض کے علاوہ رات کو سولہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1241]
حكم دارالسلام: إسناده قوي ، غير أن قوله فيه : «من الليل» خطأ، وانظر مابعده
عاصم بن ضمرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دن کے وقت کس طرح نوافل پڑھتے تھے؟ فرمایا: تم اس طرح پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتے، ہم نے عرض کیا: آپ بتا دیجئے، ہم اپنی طاقت اور استطاعت کے بقدر اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے، فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرائض کے علاوہ دن کو سولہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1242]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں نے تم سے گھوڑے اور غلام کی زکوٰۃ چھوڑ دی ہے، اس لئے چاندی کی زکوٰۃ بہرحال تمہیں ادا کرنا ہوگی، جس کا نصاب یہ ہے کہ ہر چالیس پر ایک درہم واجب ہوگا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1243]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا اسناد ضعيف لضعف الحارث الأعور
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: ”علی! میں تمہارے لئے وہی پسند کرتا ہوں جو اپنے لئے پسند کرتا ہوں، اور تمہارے لئے وہی چیز ناپسند کرتا ہوں جو اپنے لئے ناپسند کرتا ہوں، رکوع یا سجدے کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت نہ کیا کرو، بالوں کی مینڈھیاں بنا کر نماز نہ پڑھو کیونکہ یہ شیطان کا طریقہ ہے، دو سجدوں کے درمیان اپنی سرین پر مت بیٹھو، کنکریوں کے ساتھ دوران نماز مت کھیلو، سجدے میں اپنے بازو زمین پر مت بچھاؤ، امام کو لقمہ مت دو، سونے کی انگوٹھی مت پہنو، ریشمی لباس مت پہنو، اور سرخ زین پوش پر مت سوار ہوا کرو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1244]
حكم دارالسلام: هذا اسناد ضعيف لضعف الحارث الأعور، ثم هو منقطع، أبو اسحاق لم يسمعه من الحارث
شریح بن ہانی کہتے ہیں کہ میں نے موزوں پر مسح کے حوالے سے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک سوال پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ سوال تم سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھو، انہیں اس مسئلے کا زیادہ علم ہوگا کیونکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں بھی رہتے تھے، چنانچہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا، تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مسافر کے لئے تین دن اور تین رات موزوں پر مسح کرنے کی اجازت ہے، اور مقیم کے لئے ایک دن اور ایک رات۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1245]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے دن ہم نے عصر کی نماز مغرب اور عشاء کے درمیان پڑھی، جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1246]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جبرئیل میرے پاس آئے لیکن گھر میں داخل نہیں ہوئے“، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ”اندر کیوں نہیں آئے؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں کوئی تصویر ہو یا پیشاب ہو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1247]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جداً، الحسن بن ذكوان ليس بالقوي، وعمرو بن خالد القرشي متروك
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: ”علی! اپنی ران کسی کے سامنے ظاہر نہ کرو، اور کسی زندہ یا مردہ شخص کی ران پر نگاہ مت ڈالو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1249]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، و هذا اسناد ضعيف لانقطاعه، حبيب بن أبي ثابت مدلس و قد عنعن، وهو لم يسمع من عاصم بن ضمرة شياً
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آٹا پیس پیس کر تمہارے ہاتھوں میں نشان پڑگئے ہیں، اگر تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر ان سے ایک خادم کی درخواست کرتیں (تو شاید کچھ بہتر ہو جاتا)، انہوں نے کہا کہ آپ بھی میرے ساتھ چلیں، چنانچہ میں ان کے ساتھ چلا گیا اور ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے درخواست پیش کر دی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جو تمہارے لئے خادم سے بہتر ہو؟ جب تم اپنے بستر پر لیٹا کرو تو تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، تینتیس مرتبہ الحمدللہ اور چونتیس مرتبہ اللہ اکبر کہہ لیا کرو، کہنے کو تو یہ سو ہوں گے لیکن میزان عمل میں ایک ہزار کے برابر ہوں گے۔“ چنانچہ اس دن کے بعد سے میں نے انہیں کبھی ترک نہیں کیا، ایک سائل نے پوچھا کہ جنگ صفین کی رات بھی نہیں؟ فرمایا: ہاں! جنگ صفین کی رات بھی نہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1250]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب کوئی شخص نماز کے بعد اپنی جائے نماز پر بیٹھا رہتا ہے تو فرشتے اس پر صلوٰۃ پڑھتے رہتے ہیں، اور فرشتوں کی صلوٰۃ یہ دعا ہے کہ اے اللہ! اسے معاف فرما دے، اے اللہ! اس پر رحم فرما دے، اسی طرح اگر وہ بیٹھ کر اگلی نماز کا انتظار کرتا رہے تو فرشتے اس پر بھی صلوٰۃ پڑھتے ہیں، اور ان کی صلوٰۃ یہی دعا ہے کہ اے اللہ! اسے معاف فرما دے، اے اللہ اس پر رحم فرما دے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1251]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز اس وقت پڑھتے تھے جب سورج مشرق سے اتنا نکل آتا جتنا عصر کے وقت مغرب سے قریب ہوتا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1252]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص ظہرغنی کی موجودگی میں کسی سے سوال کرتا ہے تو وہ اپنے پیٹ میں جہنم کے انگاروں کی تعداد بڑھاتا ہے۔“ لوگوں نے پوچھا کہ ظہرغنی سے کیا مراد ہے؟ تو فرمایا: ”رات کا کھانا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1253]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جداً، حسن بن ذكوان ضعيف، وهو لم يسمع من حبيب بن أبى ثابت، بينهما عمرو بن خالد القرشي المتهم بالكذب
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس درندے کو کھانے سے منع فرمایا ہے جو کچلی والے دانتوں سے شکار کرتا ہو، اور ہر وہ پرندہ جو اپنے پنجوں سے شکار کرتا ہو، نیز مردار کی قیمت کھانے سے، پالتو گدھوں کے گوشت سے، فاحشہ عورت کی کمائی سے، سانڈ کو جفتی پر دے کر اس سے حاصل ہونے والی کمائی سے، اور سرخ زین پوشوں سے منع فرمایا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1254]
طارق بن زیاد کہتے ہیں کہ ہم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خوارج سے جنگ کے لئے نکلے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان سے قتال کیا، اور فرمایا: دیکھو! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”عنقریب ایک ایسی قوم کا خروج ہوگا جو بات تو صحیح کرے گی لیکن وہ ان کے حلق سے آگے نہیں بڑھے گی، وہ لوگ حق سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، ان کی علامت یہ ہوگی کہ ان میں ایک شخص کا ہاتھ ناتمام ہوگا، اس کے ہاتھ (ہتھیلی) میں کالے بال ہوں گے۔“ اب اگر ایسا ہی ہے تو تم نے ایک بدترین آدمی کے وجود سے دنیا کو پاک کر دیا، اور اگر ایسا نہ ہوا تو تم نے ایک بہترین آدمی کو قتل کر دیا، یہ سن کر ہم رونے لگے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اسے تلاش کرو، چنانچہ ہم نے اسے تلاش کیا تو ہمیں ناقص ہاتھ والا ایک آدمی مل گیا، جسے دیکھ کر ہم سجدے میں گر پڑے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی ہمارے ساتھ ہی سربسجود ہو گئے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1255]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة طارق بن زياد الكوفي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے تشریف لے گئے، دوسرے نمبر پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ چلے گئے، اور تیسرے نمبر پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ چلے گئے، اس کے بعد ہمیں امتحانات نے گھیر لیا، اب اللہ جو چاہے گا سو کرے گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1256]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، و هذا إسناد ضعيف لضعف شريك و جهالة عمر و بن سفيان الثقفي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو غزوہ بدر کے موقع پر بتایا گیا کہ آپ میں سے ایک کے ساتھ حضرت جبرئیل علیہ السلام اور دوسرے کے ساتھ حضرت میکائیل علیہ السلام ہیں اور حضرت اسرافیل علیہ السلام بھی - جو ایک عظیم فرشتہ ہیں - میدان کار زار میں موجود ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1257]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھی ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1258]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے تشریف لے گئے، دوسرے نمبر پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ چلے گئے، اور تیسرے نمبر پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ چلے گئے، اس کے بعد ہمیں امتحانات نے گھیر لیا، اب اللہ جو چاہے گا سو کرے گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1259]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے ابتدائی، درمیانے اور آخری ہر حصے میں وتر پڑھ لیا کرتے تھے، تاہم آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصے میں اس کی پابندی فرمانے لگے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1260]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ رکعت نفل پڑھتے تھے اور دن میں بارہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1261]
حكم دارالسلام: سعيد بن خثيم وفضيل بن مرزوق صدوقان يهمان، وقد روي عن ابي اسحاق باسانيد اصح من هذا، فذكروا تطوع النبي صلي الله عليه وسلم بالنهار ست عشرة ركعة
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وتر فرض نماز کی طرح یقینی نہیں ہیں (قرآن سے اس کا ثبوت نہیں)، البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چونکہ وتر پڑھے ہیں اس لئے اے اہل قرآن! تم بھی وتر پڑھا کرو، کیونکہ اللہ بھی وتر ہے اور طاق عدد ہی کو پسند کرتا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1262]
حكم دارالسلام: حديث قوي، عبدالله بن صندل و سويد بن سعيد قد توبعا
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مجھ سے پہلے ہر نبی کو سات رفقاء، نجباء اور وزراء دیئے گئے ہیں جبکہ مجھے چودہ دیئے گئے ہیں۔“ سیدنا حمزہ، سیدنا جعفر، سیدنا علی، سیدنا حسن، سیدنا حسین، سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمر فاروق، سیدنا مقداد، سیدنا عبداللہ بن مسعود، سیدنا ابوذر غفاری، سیدنا حذیفہ، سیدنا سلمان، سیدنا عمار اور سیدنا بلال رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1263]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف كثير النّواء و عبدالله بن مليل
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، انہوں نے نعلین پر مسح کیا اور فرمایا: اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پاؤں کا اوپر والا حصہ دھوتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میری رائے یہ تھی کہ پاؤں کا نچلا حصہ دھوئے جانے کا زیادہ حق دار ہے (کیونکہ وہ زمین کے ساتھ زیادہ لگتا ہے)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1264]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انسان کے مال پر اس وقت تک زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی جب تک اس پر پورا سال نہ گذر جائے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1265]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، شريك - وإن كان سي الحفظ - متابع
عاصم بن ضمرہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ شیعوں کا یہ خیال ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ دوبارہ واپس آئیں گے؟ فرمایا: یہ کذاب لوگ جھوٹ بولتے ہیں، اگر ہمیں اس بات کا یقین ہوتا تو ان کی بیویاں دوسرے شوہروں سے نکاح نہ کرتیں اور ہم ان کی میراث تقسیم نہ کرتے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1266]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف شريك
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں نے تم سے گھوڑے اور غلام کی زکوٰۃ چھوڑ دی ہے، اس لئے ان میں زکوٰۃ نہیں ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1267]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس شخص نے قرآن پڑھا اور وہ اس پر غالب آگیا تو قیامت کے دن اس کے اہل خانہ میں سے دس ایسے افراد کے حق میں اس کی سفارش قبول کی جائے گی جن کے لئے جہنم واجب ہو چکی ہو گی۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1268]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جداً لضعف عمرو بن عثمان الرقي و حفص ابي عمر القاري، ولجهالة كثير بن زاذان
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں نے تم سے گھوڑے اور غلام کی زکوٰۃ چھوڑ دی ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1269]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں کوئی تصویر یا کتا ہو۔ اس وقت گھر میں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کا ایک چھوٹا سا کتا تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1270]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جداً، عمرو بن خالد متهم بالكذب، و حسن بن ذكوان ضعيف
قیس بن عباد کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ایک سفر کے دوران پوچھا کہ یہ تو بتایئے، کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اس سفر کی وصیت کی تھی یا یہ آپ کی رائے پر مبنی ہے؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اس سوال سے تمہارا کیا مقصد ہے؟ میں نے عرض کیا کہ صرف دین، فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کی کوئی وصیت نہیں کی تھی، یہ تو ایک رائے ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1271]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک نیزہ تھا، ہم جب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی غزوے کے لئے نکلتے تو وہ اس نیزے کو بھی اپنے ساتھ لے کر جاتے تھے، وہ اسے گاڑ دیتے، لوگ وہاں سے گذرتے تو انہیں اٹھا کر پکڑا دیتے، میں نے یہ دیکھ کر اپنے دل میں سوچا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ساری صورت حال ضرور بتاؤں گا، (چنانچہ جب میں نے ذکر کیا تو) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم ایسا کرنے لگے تو کوئی گمشدہ چیز اس کے مالک تک پہنچانے کے لئے نہیں اٹھائی جائے گی۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1272]
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وضو کرتے ہوئے اعضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھویا اور وضو سے بچا ہوا پانی پی لیا، پھر فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1273]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مجھ سے پہلے ہر نبی کو سات رفقاء، نجباء اور وزراء دیئے گئے ہیں جبکہ مجھے چودہ دیئے گئے ہیں، جن میں ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عبداللہ بن مسعود اور عمار رضوان اللہ علیہم اجمعین شامل ہیں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1274]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا تھا کہ ”قربانی کے جانور کے کان اور آنکھ اچھی طرح دیکھ لیں، کانے جانور کی قربانی نہ کریں، مقابلہ، مدابرہ، شرقاء یا خرقاء کی قربانی نہ کریں۔“ راوی کہتے ہیں کہ میں نے ابواسحاق سے پوچھا: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عضباء کا ذکر بھی کیا تھا یا نہیں؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ پھر میں نے پوچھا کہ مقابلہ سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: وہ جانور جس کے کان کا ایک کنارہ کٹا ہوا ہو، پھر میں نے پوچھا کہ مدابرہ سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: وہ جانور جس کا کان پیچھے سے کٹا ہوا ہو، میں نے شرقاء کا معنی پوچھا تو فرمایا: جس کا کان چیرا ہوا ہو، میں نے خرقاء کا معنی پوچھا تو انہوں بتایا: وہ جانور جس کا کان پھٹ گیا ہو۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1275]
حكم دارالسلام: حسن، وهذا إسناد ضعيف، زهير سمع من أبي أسحاق بعد تغيره
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت اپنے پاس رکھنے سے منع فرمایا تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1276]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، سفيان بن حسين ثقة فى غير الزهري باتفاقهم
شریح بن ہانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے موزوں پر مسح کے حوالے سے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک سوال پوچھا، تو انہوں نے فرمایا کہ یہ سوال تم سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھو، انہیں اس مسئلے کا زیادہ علم ہوگا کیونکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں بھی رہتے تھے، چنانچہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا، تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مسافر کے لئے تین دن اور تین رات موزوں پر مسح کرنے کی اجازت ہے، اور مقیم کے لئے ایک دن اور ایک رات۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1277]
حكم دارالسلام: صحيح، م : 276، الحجاج مدلس، وقد توبع
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس شخص نے قرآن پڑھا اور وہ اس پر غالب آگیا تو قیامت کے دن اس کے اہل خانہ میں سے دس ایسے افراد کے حق میں اس کی سفارش قبول کی جائے گی جن کے لئے جہنم واجب ہو چکی ہو گی۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1278]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جداً لضعف حفص بن سليمان القاري، و جهالة كثير بن زاذان
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ مجھے اپنی طرف سے دو مینڈھوں کی قربانی کرنے کا حکم دیا، چنانچہ میں آخر دم تک ان کی طرف سے قربانی کرتا رہوں گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1279]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبي الحسناء و ضعف شريك
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے قاضی بنا کر بھیجا اور ارشاد فرمایا: ”جب تمہارے پاس دو فریق آئیں تو صرف کسی ایک کی بات سن کر فیصلہ نہ کرنا بلکہ دونوں کی بات سننا، تم دیکھو گے کہ تم کس طرح فیصلہ کرتے ہو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1280]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا اسناد ضعيف لضعف شريك و حنش
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے یمن کی طرف بھیجا تو میں اس وقت نوخیز تھا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں نو عمر ہوں اور مجھے فیصلہ کرنے کا قطعا کوئی علم نہیں ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر اپنا ہاتھ مار کر فرمایا: ”اللہ تمہاری زبان کو صحیح راستے پر چلائے گا اور تمہارے دل کو مضبوط رکھے گا، جب تمہارے پاس دو فریق آئیں تو دوسرے فریق کی بات سنے بغیر پہلے کے حق میں فیصلہ نہ کرنا، اس طرح تمہارے لئے فیصلہ کرنا آسان ہوجائے گا۔“ وہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں مسلسل قاضی بنتا رہا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1281]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنے رفیق حیان کو مخاطب کر کے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ میں تمہیں اس کام کے لئے بھیج رہا ہوں جس کام کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجا تھا؟ انہوں نے مجھے ہر قبر کو برابر کرنے اور ہر بت کو مٹا ڈالنے کا حکم دیا تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1284]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف الاشعث بن سوار و حنش الكناني
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: ”جب تمہارے پاس دو فریق آئیں تو صرف کسی ایک کی بات سن کر فیصلہ نہ کرنا بلکہ دونوں کی بات سننا، تم دیکھو گے کہ تم کس طرح فیصلہ کرتے ہو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1285]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، و هذا إسناد ضعيف لضعف حنش
حنش کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو دو مینڈھے ذبح کرتے ہوئے دیکھا، میں نے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ مجھے اپنی طرف سے قربانی کرنے کا حکم دیا، (چنانچہ میں آخر دم تک ان کی طرف سے قربانی کرتا رہوں گا)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1286]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة ابي الحسناء و ضعف شريك
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مشرکین سے اعلان براءت کے لئے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پیچھے بھیجا تو انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں تو کوئی فصیح و بلیغ آدمی نہیں ہوں، اور نہ ہی کوئی خطیب ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہے کہ یا تم چلے جاؤ یا میں چلا جاؤں۔“ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اگر یہی ضروری ہے تو پھر میں ہی چلا جاتا ہوں، فرمایا: ”تم جاؤ، اللہ تعالیٰ تمہاری زبان کو جما دے گا اور تمہارے دل کو صحیح راہ پر رکھے گا۔“ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ ان کے منہ پر رکھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1287]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ احد کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1288]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، خ : 4533، م : 627 ، جابر الجعفي قد توبع عند غير المولف
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دس قسم کے لوگوں پر لعنت فرمائی ہے، سود خور، سود کھلانے والا، سودی معاملات لکھنے والا، سودی معاملات کے گواہ، حلالہ کرنے والا، حلالہ کروانے والا، زکوٰۃ روکنے والا، جسم گودنے والی اور جسم گدوانے والی پر لعنت فرمائی ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نوحہ کرنے سے منع فرماتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1289]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا اسناد ضعيف لضعف جابر الجعفي والحارث الأعور
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رات کو ایک مخصوص وقت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا، جس سے اللہ مجھے خوب فائدہ پہنچاتا تھا، ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس گھر میں فرشتے داخل نہیں ہوتے جہاں کوئی کتا، کوئی جنبی یا کوئی تصویر اور مورتی ہو، میں نے دیکھا تو چارپائی کے نیچے کتے کا ایک پلہ نطر آیا جو حسن کا تھا، میں نے اسے باہر نکال دیا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1290]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے درمیان والی انگلی میں انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1291]
حكم دارالسلام: حسن لغيره ، و هذا إسناد ضعيف لضعف جابر الجعفي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میری طرف جھوٹی بات کی نسبت نہ کرو، کیونکہ جو شخص میری طرف کسی بات کی جھوٹی نسبت کرے گا، وہ جہنم میں داخل ہوگا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1292]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح ، والحديث متواتر، خ : 106، م : (في المقدمة) : 1
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ یا کان کٹے ہوئے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1293]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ یا کان کٹے ہوئے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1204]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے آخر میں یوں فرماتے تھے: «اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ وَمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ»”اے اللہ! میں تیری رضا کے ذریعے تیری ناراضگی سے پناہ مانگتا ہوں، تیری درگزر کے ذریعے تیری سزا سے، اور تیری ذات کے ذریعے تجھ سے پناہ مانگتا ہوں، میں تیری تعریف کا احاطہ نہیں کر سکتا، تو اسی طرح ہے جس طرح تو نے اپنی تعریف خود کی ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1295]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر پر روانہ ہونے کا ارادہ فرماتے تو یہ دعا پڑھتے: «اَللّٰهُمَّ بِكَ أَصُولُ وَبِكَ أَحُولُ وَبِكَ أَسِيرُ»”اے اللہ! میں آپ ہی کے نام کی برکت سے حملہ کرتا ہوں، آپ ہی کے نام کی برکت سے حرکت کرتا ہوں، اور آپ ہی کے نام کی برکت سے چلتا ہوں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1296]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب سورہ براءۃ کی ابتدائی دس آیات نازل ہوئیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بلایا اور انہیں اہل مکہ کی طرف بھیجا تاکہ وہ انہیں یہ پڑھ کر سنا دیں، ان کے جانے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور فرمایا: ”سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پیچھے جاؤ، وہ تمہیں جہاں بھی ملیں ان سے وہ خط لے کر تم اہل مکہ کے پاس جاؤ اور انہیں وہ خط پڑھ کر سناؤ۔“ چنانچہ میں نے مقام جحفہ میں انہیں جا لیا اور ان سے وہ خط وصول کر لیا۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس پہنچے تو عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میرے بارے میں کوئی حکم نازل ہوا ہے؟ فرمایا: ”نہیں! اصل بات یہ ہے کہ میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے تھے اور انہوں نے یہ کہا تھا کہ یہ پیغام آپ خود پہنچائیں یا آپ کے خاندان کا کوئی فرد، (اس لئے مجبورا مجھے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اس خدمت پر مامور کرنا پڑا)۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1297]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف محمد بن جابر و حنش بن المعتمر، ومتنه منكر، والصواب ماأخرجه البخاري برقم : 4656
حارث بن سوید رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ کسی شخص نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عام لوگوں کو چھوڑ کر خصوصیت کے ساتھ آپ سے کوئی بات بیان فرمائی ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے لوگوں کو چھوڑ کر خصوصیت سے ہمیں کوئی بات نہیں بتائی، البتہ میری تلوار کے اس نیام میں جو کچھ ہے وہی ہے، پھر انہوں نے اس میں سے ایک صحیفہ نکالا جس میں اونٹوں کی عمریں درج تھیں اور لکھا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عیر سے ثور تک مدینہ منورہ حرم ہے، جو شخص اس میں کوئی بدعت ایجاد کرے یا کسی بدعتی کو ٹھکانہ دے، اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، قیامت کے دن اللہ اس سے کوئی فرض یا نفلی عبادت قبول نہ کرے گا۔ اور جو غلام اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کو اپنا آقا کہنا شروع کر دے، اس پر بھی اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، قیامت کے دن اللہ اس کا بھی کوئی فرض یا نفل قبول نہیں کرے گا، اور تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ایک جیسی ہے، ایک عام آدمی بھی اگر کسی کو امان دے دے تو اس کا لحاظ کیا جائے گا، جو شخص کسی مسلمان کی ذمہ داری کو پامال کرتا ہے اس پر اللہ کی، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے اور قیامت کے دن اس کا بھی کوئی فرض یا نفل قبول نہیں ہوگا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1298]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے گا کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1299]
یوسف بن مازن کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ امیر المومنین! ہمارے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک بیان کیجئے، فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ لمبے قد کے نہ تھے، درمیانے قد سے تھوڑے اونچے تھے، لیکن جب لوگوں کے ساتھ آ رہے ہوتے تو سب سے اونچے محسوس ہوتے، سفید کھلتا ہوا رنگ تھا، سر مبارک بڑا تھا، روشن کشادہ پیشانی تھی، پلکوں کے بال لمبے تھے، ہتھیلیاں اور پاؤں مبارک بھرے ہوئے تھے، جب چلتے تو پاؤں اٹھا کر چلتے، ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کسی گھاٹی میں اتر رہے ہوں، پسینہ کے قطرات روئے انور پر موتیوں کی مانند محسوس ہوتے تھے، میں نے ان جیسا نہ ان سے پہلے دیکھا اور نہ ان کے بعد، میرے ماں باپ ان پر قربان ہوں، صلی اللہ علیہ وسلم ۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1300]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، يوسف بن مازن لم يدرك علياً ، وخالد بن خالد مجهول
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ خانہ کعبہ پر بہت سے بت پڑے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے بیٹھنے کے لئے فرمایا اور خود میرے کندھوں پر چڑھ گئے، میں نے کھڑا ہونا چاہا لیکن نہ ہو سکا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے لے کر کھڑے ہو گئے اور میں بتوں کو توڑنے لگا، اس وقت مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اگر میں چاہوں تو افق کو چھو لوں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1302]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبي مريم الثقفي و ضعف نعيم بن حكيم
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ایک قوم ایسی آئے گی جو اسلام سے ایسے نکل جائے گی جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، یہ لوگ قرآن تو پڑھتے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اتر سکے گا، اس شخص کے لئے خوشخبری ہے جو انہیں قتل کرے یا ان کے ہاتھوں جام شہادت نوش کر لے، ان کی علامت وہ آدمی ہے جس کا ہاتھ نامکمل ہوگا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1303]
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، م : 1066 ، وهذا إسناد ضعيف كسابقه
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ولید بن عقبہ کی بیوی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ولید مجھے مارتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”اس سے جا کر کہنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پناہ دی ہے۔“ کچھ ہی عرصے بعد وہ دوبارہ آگئی اور کہنے لگی کہ اب تو اس نے مجھے اور زیادہ مارنا پیٹنا شروع کر دیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑے کا ایک کونہ پکڑ کر اسے دیا اور فرمایا: ”اسے جا کر کہنا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ دی ہے۔“ لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد وہ واپس آگئی اور کہنے لگی کہ یا رسول اللہ! اس نے مجھے اور زیادہ مارنا شروع کر دیا ہے، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور فرمایا: ”الہی! ولید سے سمجھ لے، اس نے دو مرتبہ میری نافرمانی کی ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1304]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم خندق کے کسی کنارے پر بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1306]
ابوالطفیل کہتے ہیں کہ کسی شخص نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ہمیں کوئی ایسی بات بتایئے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصیت کے ساتھ آپ سے بیان کی ہو؟ فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایسی کوئی خصوصی بات نہیں کی جو دوسرے لوگوں سے چھپائی ہو، البتہ میری تلوار کی نیام میں جو کچھ ہے وہ ہے، یہ کہہ کر انہوں نے ایک صحیفہ نکالا جس میں لکھا تھا کہ ”اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو غیر اللہ کے نام پر کسی جانور کو ذبح کرے، اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو کسی بدعت کو ٹھکانہ دے، اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو اپنے والدین پر لعنت کرے، اور اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو زمین کے بیج بدل دے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1307]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! ان (مشرکین) کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1308]
ایک آدمی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے گائے کی قربانی کے حوالے سے سوال کیا، انہوں نے فرمایا کہ ایک گائے سات آدمیوں کی طرف سے کفایت کر جاتی ہے، اس نے پوچھا کہ اگر اس کا سینگ ٹوٹا ہوا ہو تو؟ فرمایا: کوئی حرج نہیں، اس نے کہا کہ اگر وہ لنگڑی ہو؟ فرمایا: اگر قربان گاہ تک خود چل کر جا سکے تو اسے ذبح کر لو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ”جانور کے آنکھ اور کان اچھی طرح دیکھ لیں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1309]
حنش کنانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یمن میں ایک قوم نے شیر کو شکار کرنے کے لئے ایک گڑھا کھود کر اسے ڈھانپ رکھا تھا، شیر اس میں گر پڑا، اچانک ایک آدمی بھی اس گڑھے میں گر پڑا، اس کے پیچھے دوسرا، تیسرا حتی کہ چار آدمی گر پڑے (اس گڑھے میں موجود شیر نے ان سب کو زخمی کر دیا، یہ دیکھ کر ایک آدمی نے جلدی سے نیزہ پکڑا اور شیر کو دے مارا، چنانچہ شیر ہلاک ہو گیا اور وہ چاروں آدمی بھی اپنے اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دنیا سے چل بسے)۔ مقتولین کے اولیاء اسلحہ نکال کر جنگ کے لئے ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ گئے، اتنی دیر میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ آ پہنچے اور کہنے لگے: کیا تم چار آدمیوں کے بدلے دو سو آدمیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟ میں تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہوں، اگر تم اس پر راضی ہو گئے تو سمجھو کہ فیصلہ ہو گیا، فیصلہ یہ ہے کہ جو شخص پہلے گر کر گڑھے میں شیر کے ہاتھوں زخمی ہوا، اس کے ورثاء کو چوتھائی دیت دے دو، اور چوتھے کو مکمل دیت دے دو، دوسرے کو ایک تہائی اور تیسرے کو نصف دیت دے دو، ان لوگوں نے یہ فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا (کیونکہ ان کی سمجھ میں ہی نہیں آیا)۔ چنانچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہوں“، اتنی دیر میں ایک آدمی کہنے لگا: یا رسول اللہ! سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ہمارے درمیان یہ فیصلہ فرمایا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کو نافذ کر دیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1310]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خم کے موقع پر یہ فرمایا تھا کہ ”جس کا میں مولیٰ ہوں علی بھی اس کے مولیٰ ہیں۔“ بعد میں لوگوں نے اس پر یہ اضافہ کر لیا کہ اے اللہ! جس کا یہ دوست ہو تو اس کا دوست بن جا، اور جس کا یہ دشمن ہو تو اس کا دشمن بن جا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1311]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف نعيم بن حكيم ولجهالة أبى مريم
ایک آدمی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے گائے کی قربانی کے حوالے سے سوال کیا، انہوں نے فرمایا کہ ایک گائے سات آدمیوں کی طرف سے کفایت کر جاتی ہے، اس نے پوچھا کہ اگر اس کا سینگ ٹوٹا ہوا ہو تو؟ فرمایا: کوئی حرج نہیں، اس نے کہا کہ اگر وہ لنگڑی ہو؟ فرمایا: اگر قربان گاہ تک خود چل کر جا سکے تو اسے ذبح کر لو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ”جانور کے آنکھ اور کان اچھی طرح دیکھ لیں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1312]
ابن اعبد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا: ابن اعبد! تمہیں معلوم ہے کہ کھانے کا کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا: آپ ہی بتائیے کہ اس کا حق کیا ہے؟ فرمایا: کھانے کا حق یہ ہے کہ اس کے آغاز میں یوں کہو: «بِسْمِ اللّٰهِ اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيْمَا رَزَقْتَنَا»”اللہ کے نام سے شروع کر رہا ہوں، اے اللہ! تو نے ہمیں جو عطاء فرما رکھا ہے اس میں برکت پیدا فرما۔“ پھر مجھ سے فرمایا کہ کھانے سے فراغت کے بعد اس کا شکر کیا ہے، تمہیں معلوم ہے؟ میں نے عرض کیا: آپ ہی بتایئے کہ اس کا شکر کیا ہے؟ فرمایا: تم یوں کہو: «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا»”اس اللہ کا شکر جس نے ہمیں کھلایا اور پلایا۔“ پھر فرمایا کہ کیا میں تمہیں اپنی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ایک بات نہ بتاؤں؟ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی بھی تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہوں میں تمام بچوں سے زیادہ قابل عزت بھی تھیں، اور میری رفیقہ حیات بھی تھیں، انہوں نے اتنی چکی چلائی کہ ان کے ہاتھوں میں اس کے نشان پڑ گئے، اور اتنے مشکیزے ڈھوئے کہ ان کی گردن پر اس کے نشان پڑ گئے، گھر کو اتنا سنوارا کہ اپنے کپڑے غبار آلود ہو گئے، ہانڈی کے نیچے اتنی آگ جلائی کہ کپڑے بیکار ہو گئے جس سے انہیں جسمانی طور پر شدید اذیت ہوئی۔ اتفاقا انہی دنوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی یا خادم آئے ہوئے تھے، میں نے ان سے کہا کہ جا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک خادم کی درخواست کرو تاکہ اس گرمی سے تو بچ جاؤ، چنانچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، انہوں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک یا کئی خادم موجود ہیں، لیکن وہ اپنی درخواست پیش نہ کر سکیں اور واپس آگئیں۔ اس کے بعد راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور آخر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ذکر کیا کہ ”کیا میں تمہیں خادم سے بہتر چیز نہ بتاؤں؟ جب تم اپنے بستر پر لیٹو تو تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، تینتیس مرتبہ الحمدللہ اور چونتیس مرتبہ اللہ اکبر پڑھ لیا کرو۔“ اس پر انہوں نے چادر سے اپنا سر نکال کر کہا کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے راضی ہوں، پھر راوی نے مکمل حدیث ذکر کی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1313]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة ابن أعبد، وأسمه علي
عبیدہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہم صلوۃ وسطی فجر کی نماز کو سمجھتے تھے، پھر ایک دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی کہ انہوں نے غزوہ احزاب کے موقع پر جنگ شروع کی تو مشرکین نے ہمیں نماز عصر پڑھنے سے روک دیا، اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! ان کے پیٹوں اور قبروں کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔“ اس دن ہمیں پتہ چلا کہ صلوۃ وسطی سے مراد نماز عصر ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1314]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ریشمی جوڑا میرے پاس بھیج دیا، میں نے اسے زیب تن کر لیا، لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور پر ناراضگی کے اثرات دیکھے تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اسے اپنی عورتوں میں تقسیم کر دیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1315]
نزال بن سبرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کے سامنے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ظہر کی نماز پڑھی، پھر مسجد کے صحن میں بیٹھ گئے تاکہ لوگوں کے مسائل حل کریں، جب نماز عصر کا وقت آیا تو ان کے پاس پانی کا ایک برتن لایا گیا، انہوں نے چلو بھر کر پانی لیا اور اپنے ہاتھوں، بازؤوں، چہرے، سر اور پاؤں پر پانی کا گیلا ہاتھ پھیرا، پھر کھڑے کھڑے وہ پانی پی لیا اور فرمایا کہ کچھ لوگ کھڑے ہو کر پانی پینے کو ناپسند سمجھتے ہیں، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح کیا ہے جیسے میں نے کیا ہے، اور جو آدمی بےوضو نہ ہو بلکہ پہلے سے اس کا وضو موجود ہو، یہ اس شخص کا وضو ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1316]
امام شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ شراحہ ہمدانیہ سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہو سکتا ہے تجھے زبردستی اس کام پر مجبور کیا گیا ہو؟ شاید وہ تمہارا شوہر ہی ہو؟ لیکن وہ ہر بات کے جواب میں ”نہیں“ کہتی رہی، چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وضع حمل کے بعد اسے کوڑے مارے، اور پھر اس پر حد رجم جاری فرمائی، کسی نے پوچھا کہ آپ نے اسے دونوں سزائیں کیوں دیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے کتاب اللہ کی روشنی میں اسے کوڑے مارے ہیں اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں اسے رجم کیا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1317]
حكم دارالسلام: صحيح وفي خ : 6812، وهو مختصر بقصة الرجم دون الجلد
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم میں سب سے بہترین وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1318]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالرحمن بن إسحاق و جهالة النعمان بن سعد
ابووائل کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ امیر المومنین! میں بدل کتابت ادا کرنے سے عاجز آ گیا ہوں، آپ میری مدد فرمائیے، انہوں نے فرمایا: کیا میں تمہیں وہ کلمات نہ سکھا دوں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سکھائے تھے؟ اگر تم پر جبل صیر کے برابر بھی دینار قرض ہوگا تو اللہ اسے ادا کروا دے گا، اس نے کہا: کیوں نہیں، فرمایا: یہ دعا پڑھتے رہا کرو: «اَللّٰهُمَّ اكْفِنِي بِحَلَالِكَ عَنْ حَرَامِكَ وَأَغْنِنِي بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ»”اے اللہ! آپ اپنے حلال کے ذریعے حرام سے میری کفایت فرمائیے اور اپنی مہربانی سے مجھے اپنے علاوہ ہر ایک سے بےنیاز فرما دیجئے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1319]
حكم دارالسلام: إسناد ضعيف لضعف عبدالرحمن ابن إسحاق الواسطي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کرتے ہوئے فرمایا: «اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِي فِي بُكُورِهَا»”اے اللہ! میری امت کے صبح کے اوقات میں برکت عطاء فرما۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1320]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالرحمن بن إسحاق الواسطي و جهالة النعمان بن سعد
ابوبردہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اپنے والد کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے، انہوں نے آ کر ہمیں سلام کیا اور میرے والد صاحب کو لوگوں کا کوئی معاملہ سپرد فرمایا، اور فرمانے لگے کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا: ”اللہ سے ہدایت کی دعا مانگا کرو اور ہدایت سے ہدایت الطریق مراد لے لیا کرو، اور اللہ سے درستگی اور سداد کی دعا کیا کرو اور اس سے تیر کی درستگی مراد لیا کرو۔“ نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے شہادت یا درمیان والی انگلی میں انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے تھے اس لئے انگلیوں کا اشارہ میں صحیح طور پر سمجھ نہ سکا، پھر انہوں نے فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سرخ دھاری دار اور ریشمی کپڑوں سے منع فرمایا ہے، ہم نے پوچھا: امیر المومنین! «مِيثَرَة»(یہ لفظ حدیث میں استعمال ہوا ہے) سے کیا مراد ہے؟ یہ کیا چیز ہوتی ہے؟ فرمایا: عورتیں اپنے شوہروں کی سواری کے کجاوے پر رکھنے کے لئے ایک چیز بناتی تھیں (جسے زین پوش کہا جاتا ہے) اس سے وہ مراد ہے، پھر ہم نے پوچھا کہ «قِسِّيَّة» سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے فرمایا: شام کے وہ کپڑے جن میں اترج جیسے نقش و نگار بنے ہوتے تھے۔ ابوبردہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب میں نے کتان کے بنے ہوئے کپڑے دیکھے تو میں سمجھ گیا کہ یہ وہی ہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1321]
نعمان بن سعد کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: امیر المومنین! رمضان کے بعد آپ مجھے کس مہینے کے روزے رکھنے کی تاکید کرتے ہیں؟ فرمایا کہ میں نے صرف ایک آدمی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا سوال کرتے ہوئے سنا تھا، اس کے بعد یہ واحد آدمی ہے جس سے میں یہ سوال سن رہا ہوں، اس کے جواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”اگر تم رمضان کے بعد کسی مہینے کے روزے رکھنا چاہتے ہو تو ماہ محرم کے روزے رکھو، کیونکہ یہ اللہ کا مہینہ ہے، اس میں ایک دن ایسا ہے جس میں اللہ نے ایک قوم کی توبہ قبول کی تھی اور اللہ ایک قوم کی توبہ قبول کرے گا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1322]
حكم دارالسلام: إسناد ضعيف لضعف عبدالرحمن بن إسحاق الواسطي و جهالة النعمان بن سعد. وفي مسلم : 1163، عن ابي هريرة مرفوعاً : «افضل الصيام بعد رمضان شهر الله المحرم.»
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کرتے ہوئے فرمایا: «اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِي فِي بُكُوْرِهَا»”اے اللہ! میری امت کے صبح کے اوقات میں برکت عطاء فرما۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1323]
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ نماز پڑھ چکے تھے، انہوں نے پانی منگوایا، ہم سوچنے لگے کہ نماز پڑھنے کے بعد اب یہ پانی کا کیا کریں گے؟ ان کا مقصد صرف ہمیں تعلیم دینا تھا، چنانچہ ان کے پاس ایک طشت اور برتن لایا گیا، انہوں نے وہ برتن اٹھایا اور اپنے ہاتھوں پر پانی ڈالا، اور تین مرتبہ انہیں دھویا، پھر اسے برتن میں ڈالا، تین مرتبہ کلی کی، ناک میں پانی ڈالا، تین مرتبہ ناک صاف کی اور تین مرتبہ چہرہ دھویا، دونوں بازوؤں کو کہنیوں سمیت تین تین مرتبہ دھویا، پھر دوبارہ اپنے ہاتھوں کو برتن میں ڈالا اور دونوں ہتھیلیوں سے سر کا ایک مرتبہ مسح کیا، اور ٹخنوں سمیت دونوں پاؤں تین تین مرتبہ دھوئے، پھر فرمایا کہ جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ وضو معلوم کرنا چاہتا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح وضو کیا کرتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1324]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ قربانی کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود رہوں، اور یہ کہ ان اونٹوں کی کھالیں اور جھولیں بھی تقسیم کر دوں اور گوشت بھی تقسیم کر دوں، اور یہ بھی حکم دیا کہ قصاب کو ان میں سے کوئی چیز مزدوری کے طور پر نہ دوں، اور فرمایا کہ اسے ہم اپنے پاس سے مزدوری دیتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1325]
گزشتہ حدیث ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے لیکن اس کے آخر میں یہ نہیں ہے کہ اس کی مزدوری ہم اپنے پاس سے دیتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1326]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ان (مشرکین) کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں نماز عصر نہیں پڑھنے دی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1327]
ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک عورت لائی گئی جس نے بدکاری کی تھی، جرم ثابت ہو جانے پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے رجم کرنے کا حکم دے دیا، لوگ اسے رجم کرنے کے لئے لے کر جا رہے تھے کہ راستے میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ مل گئے، انہوں نے اس کے متعلق دریافت کیا تو لوگوں نے بتایا کہ اس نے بدکاری کی ہے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا ہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس عورت کو ان کے ہاتھوں سے چھڑا لیا اور ان لوگوں کو واپس بھیج دیا، وہ لوگ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے پوچھا کہ تم لوگ واپس کیوں آ گئے؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے واپس بھیجا ہے، فرمایا: علی رضی اللہ عنہ نے یہ کام یوں ہی نہیں کیا ہوگا، انہیں ضرور اس کے متعلق کچھ علم ہوگا، چنانچہ انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو کچھ ناراض سے محسوس ہو رہے تھے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے لوگوں کو واپس بھیجنے کی وجہ دریافت فرمائی، تو انہوں نے کہا کہ کیا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ ”تین طرح کے لوگ مرفوع القلم ہوتے ہیں: سویا ہوا شخص جب تک بیدار نہ ہو جائے، بچہ جب تک بالغ نہ ہو جائے، اور دیوانہ جب تک اس کی عقل واپس نہ آجائے؟“ فرمایا: کیوں نہیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ عورت فلاں قبیلے کی دیوانی عورت ہے، ہو سکتا ہے کہ جس شخص نے اس سے بدکاری کی ہے، اس وقت یہ اپنے ہوش میں نہ ہو اور دیوانی ہو، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بھائی! مجھے تو نہیں پتہ، انہوں نے کہا کہ پھر مجھے بھی نہیں پتہ، تاہم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پھر اس پر حد رجم جاری نہیں فرمائی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1328]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، هذا إسناد منقطع، أبو ظبيان لم يدرك عمر
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کرتے ہوئے فرمایا: «اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِي فِي بُكُوْرِهَا»”اے اللہ! میری امت کے صبح کے اوقات میں برکت عطاء فرما۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1329]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالرحمن بن إسحاق و لجهالة النعمان بن سعد
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت سے منع کیا ہے، اور فرمایا ہے کہ ”جب تم رکوع میں جاؤ تو اللہ کی عظمت بیان کیا کرو، اور جب سجدہ میں جاؤ تو اس سے دعا کیا کرو، امید ہے کہ تمہاری دعا قبول ہوگی۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1330]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کرتے ہوئے فرمایا: «اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِي فِي بُكُوْرِهَا»”اے اللہ! میری امت کے صبح کے اوقات میں برکت عطاء فرما۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1331]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک مرتبہ خوارج کا ذکر ہوا تو فرمایا کہ ان میں ایک آدمی ناقص الخلقت بھی ہوگا، اگر تم حد سے آگے نہ بڑھ جاتے تو میں تم سے وہ وعدہ بیان کرتا جو اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ان کے قتل کرنے والوں سے فرما رکھا ہے، راوی کہتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے واقعی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں کوئی فرمان سنا ہے؟ تو انہوں نے تین مرتبہ فرمایا: ہاں! رب کعبہ کی قسم۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1332]
نعمان بن سعد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے اس آیت کی تلاوت کی: «﴿يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِينَ إِلَى الرَّحْمَنِ وَفْدًا﴾ [مريم: 85] »”قیامت کا دن وہ ہوگا جس میں ہم متقیوں کو رحمن کی بارگاہ میں ایک وفد کی صورت میں جمع کریں گے۔“ اور فرمایا کہ واللہ! انہیں پاؤں کے بل چلا کر جمع نہیں کیا جائے گا، بلکہ انہیں ایسی اونٹنیوں پر سوار کیا جائے گا جن کی مثل اس سے قبل مخلوق نے نہ دیکھی ہو گی، ان پر سونے کے کجاوے ہوں گے اور وہ اس پر سوار ہوں گے یہاں تک کہ جنت کے دروازے کھٹکھٹائیں گے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1333]
حكم دارالسلام: إسناد ضعيف لضعف عبدالرحمن بن إسحاق الواسطي و لجهالة النعمان بن سعد
عکرمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ مزدلفہ سے واپس ہوا تو میں نے انہیں مسلسل تلبیہ پڑھتے ہوئے سنا تاآنکہ انہوں نے جمرہ عقبہ کی رمی کر لی، میں نے ان سے اس حوالے سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ میں اپنے والد صاحب کے ساتھ مزدلفہ سے واپس ہوا تھا تو میں نے انہیں بھی جمرہ عقبہ کی رمی تک مسلسل تلبیہ پڑھتے ہوئے سنا تھا، اور انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مزدلفہ سے واپس ہوا تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جمرہ عقبہ کی رمی تک مسلسل تلبیہ پڑھتے ہوئے سنا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1334]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! رمضان کے علاوہ مجھے کوئی ایسا مہینہ بتائیے جس کے میں روزے رکھ سکوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم رمضان کے بعد کسی مہینے کے روزے رکھنا چاہتے ہو تو ماہ محرم کے روزے رکھو، کیونکہ یہ اللہ کا مہینہ ہے، اس میں ایک دن ایسا ہے جس میں اللہ نے ایک قوم کی توبہ قبول کی تھی، اور اللہ ایک قوم کی توبہ قبول کرے گا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1335]
حكم دارالسلام: إسناد ضعيف لضعف عبدالرحمن بن إسحاق و لجهالة النعمان بن سعد
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ قریش کے کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور کہنے لگے کہ ہم آپ کے پڑوسی اور آپ کے حلیف ہیں، ہمارے کچھ غلام آپ کے پاس آگئے ہیں، انہیں دین سے رغبت ہے اور نہ ہی اس کی سمجھ بوجھ سے کوئی دلچسپی ہے، اصل میں وہ ہماری جائیداد اور مال و دولت اپنے قبضہ میں کر کے فرار ہوگئے ہیں، اس لئے آپ انہیں ہمارے حوالے کر دیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ”آپ کی کیا رائے ہے؟“ انہوں نے عرض کیا کہ ان کی یہ بات تو صحیح ہے کہ یہ آپ کے پڑوسی ہیں، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رخ انور کا رنگ بدل گیا، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ان کی رائے پوچھی، تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ یہ آپ کے پڑوسی اور حلیف تو واقعۃ ہیں، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ تبدیل ہو گیا (کیونکہ فی الجملہ اس سے مشرکین کی بات کی تائید ہوتی تھی)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1336]
نعمان بن سعد کہتے ہیں کہ ایک شخص نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا میں رکوع اور سجدہ میں قرأت کر سکتا ہوں؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”مجھے رکوع اور سجدے کی حالت میں تلاوت قرآن سے منع کیا گیا ہے، جب تم رکوع کرو تو اللہ کی عظمت بیان کیا کرو، اور جب سجدہ کرو تو خوب توجہ سے دعا مانگو، امید ہے کہ تمہاری دعا قبول ہوگی۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1337]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالرحمن بن إسحاق، و لجهالة النعمان بن سعد
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جنت میں ایسے بالاخانے بھی ہیں جن کا اندرونی حصہ باہر سے ہی نظر آتا ہے، اور بیرونی حصہ اندر سے نظر آتا ہے۔“ ایک دیہاتی نے پوچھا: یا رسول اللہ! یہ کس کے لئے ہیں؟ فرمایا: ”اس شخص کے لئے جو اچھی بات کرے، ضرورت مندوں کو کھانا کھلائے، اور جب لوگ رات کو سو رہے ہوں تو صرف رضاء الٰہی کے لئے نماز تہجد ادا کرے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1338]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کرتے ہوئے فرمایا: «اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِي فِي بُكُوْرِهَا»”اے اللہ! میری امت کے صبح کے اوقات میں برکت عطاء فرما۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1339]
عبداللہ بن سبع کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: اس ذات کی قسم جو دانے کو پھاڑتی اور جاندار کو پیدا کرتی ہے! یہ داڑھی اس سر کے خون سے رنگین ہو کر رہے گی۔ لوگوں نے کہا: امیر المومنین! ہمیں اس کا نام پتہ بتائیے، ہم اس کی نسل تک مٹا دیں گے، فرمایا: میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں، کہیں میرے قاتل کے علاوہ کسی اور کو قتل نہ کر دینا، لوگوں نے عرض کیا کہ جب آپ کو یہ بات معلوم ہے تو پھر ہم پر اپنا نائب ہی مقرر کر دیجئے، فرمایا: نہیں، میں تمہیں اسی کیفیت پر چھوڑ کر جاؤں گا جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑا تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1340]
حكم دارالسلام: إسناد ضعيف لجهالة عبد الله بن سبع و لا نقطاع بين سلمة بن كهيل و بين عبد الله بن سبع
ابوعبدالرحمن سلمی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: لوگو! اپنے غلاموں، باندیوں پر بھی حدود جاری کیا کرو، خواہ وہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ، کیونکہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک باندی سے بدکاری کا ارتکاب ہو گیا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس پر سزا جاری کرنے کا حکم دیا، جب میں اس پر حد جاری کرنے لگا تو پتہ چلا کہ ابھی اس کے نفاس کا زمانہ تازہ ہے، مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں کوڑے لگنے سے یہ مر ہی نہ جائے، چنانچہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سارا معاملہ ذکر کر دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اچھا کیا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1341]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے یمن کی طرف بھیجا تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ مجھے ایک ایسی قوم کی طرف فیصلہ کرنے کے لئے بھیج رہے ہیں جو مجھ سے بڑی عمر کے ہیں، فرمایا: ”اللہ تمہاری زبان کو صحیح راستے پر چلائے گا، اور تمہارے دل کو مضبوط رکھے گا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1342]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جنت میں ایک بازار ہوگا لیکن اس میں خرید و فروخت نہ ہوگی، اس میں صرف مردوں اور عورتوں کی صورتیں ہوں گی، جس آدمی کو جو صورت پسند ہوگی وہ اس میں داخل ہو جائے گا، نیز جنت میں حور عین کا ایک مجمع لگتا ہے جہاں وہ - کہ ان جیسا حسین خلائق عالم نے نہ دیکھا ہوگا - اپنی آوازیں بلند کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ہم ہمیشہ رہنے والی ہیں، ہم کبھی فناء نہ ہوں گی، ہم ہمیشہ راضی رہنے والی ہیں، ہم کبھی ناراض نہ ہوں گی، ہم ناز و نعم میں پلی ہوئی ہیں اس لئے ہم تنگی میں نہیں رہیں گی، اس شخص کے لئے خوشخبری ہے جو ہمارا ہے اور جس کے ہم ہیں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1343]
حكم دارالسلام: إسناد ضعيف لضعف عبدالرحمن بن إسحاق، و لجهالة النعمان بن سعد
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وضو کرتے ہوئے اعضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھویا، سر کا مسح کیا اور وضو سے بچا ہوا پانی پی لیا، پھر فرمایا کہ جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ وضو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ یہ دیکھ لے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1345]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ایک قوم ایسی آئے گی جو اسلام سے ایسے نکل جائے گی جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، یہ لوگ قرآن تو پڑھتے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اتر سکے گا، ان سے قتال کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1346]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، روي يوسف بن أبي اسحاق عن أبيه فأدخل بينه و بين سويد بن غفلة أبا قيس الأودي
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر کے دن ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پناہ میں آجاتے تھے، اس دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ہم میں سے کوئی بھی دشمن کے اتنا قریب نہ تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1347]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں وقوف کیا اور فرمایا: ”یہ وقوف کی جگہ ہے اور پورا عرفہ ہی وقوف کی جگہ ہے۔“ پھر غروب شمس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے، اپنے پیچھے سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کو بٹھا لیا اور اپنی سواری کی رفتار تیز کر دی، لوگ دائیں بائیں بھاگنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے: ”لوگو! سکون اور اطمینان اختیار کرو۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ پہنچے تو مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھی پڑھیں، اور رات بھر وہیں رہے، صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبل قزح پر تشریف لائے، وہاں وقوف کیا اور فرمایا کہ ”یہ وقوف کی جگہ ہے اور پورا مزدلفہ ہی وقوف کی جگہ ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے ہوئے وادی محسر پہنچے، وہاں ایک لمحے کے لئے رکے پھر اپنی اونٹنی کو سرپٹ دوڑا دیا تاآنکہ اس وادی سے نکل گئے (کیونکہ یہ عذاب کی جگہ تھی)۔ پھر سواری روک کر اپنے پیچھے سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کو بٹھا لیا، اور چلتے چلتے منیٰ پہنچ کر جمرہ عقبہ آئے اور اسے کنکریاں ماریں، پھر قربان گاہ تشریف لائے اور فرمایا کہ ”یہ قربان گاہ ہے اور منیٰ پورا ہی قربان گاہ ہے۔“ اتنی دیر میں بنو خثعم کی ایک نوجوان عورت کوئی مسئلہ پوچھنے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میرے والد بہت بوڑھے ہیں، وہ تقریبا ختم ہو چکے ہیں لیکن ان پر حج بھی فرض ہے، کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! تم اپنے والد کی طرف سے حج کر سکتی ہو۔“ یہ کہتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کی گردن موڑ دی (کیونکہ وہ اس عورت کو دیکھنے لگے تھے)۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر پوچھا: یا رسول اللہ! آپ نے اس کی گردن کس حکمت کی بنا پر موڑی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے دیکھا کہ دونوں نوجوان ہیں، مجھے ان کے بارے شیطان سے امن نہ ہوا، اس لئے دونوں کا رخ پھیر دیا۔“ بہرحال! تھوڑی دیر بعد ایک اور آدمی آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! میں نے قربانی کرنے سے پہلے بال کٹوا لئے، اب کیا کروں؟ فرمایا: ”اب قربانی کر لو، کوئی حرج نہیں۔“ ایک اور شخص نے آ کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے حلق سے پہلے طواف زیارت کر لیا، فرمایا: ”کوئی بات نہیں، اب حلق یا قصر کر لو۔“ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم طواف زیارت کے لئے حرم شریف پہنچے، طواف کیا، زمزم پیا، اور فرمایا: ”بنو عبدالمطلب! حاجیوں کو پانی پلانے کی ذمہ داری پوری کرتے رہو، اگر لوگ تم پر غالب نہ آجاتے تو میں بھی اس میں سے ڈول کھینچ کھینچ کر نکالتا۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1348]
ابوعبدالرحمن سلمی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور ہم چہل قدمی کرتے ہوئے چلتے رہے، حتی کہ فرات کے کنارے جا کر بیٹھ گئے، تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے ہر شخص کا شقی یا سعید ہونا اللہ کے علم میں موجود اور متعین ہے۔“ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا: یا رسول اللہ! پھر ہم عمل کیوں کریں؟ فرمایا: ”عمل کرتے رہو کیونکہ ہر ایک کے لئے وہی اعمال آسان کئے جائیں گے جن کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہوگا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی: «﴿فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى o وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى o فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى o وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَى o وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى o فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى﴾ [الليل: 5-10] »”جس شخص نے دیا، تقویٰ اختیار کیا، اور اچھی بات کی تصدیق کی تو ہم اس کے لئے آسانی کے اسباب پیدا کر دیں گے، اور جو شخص بخل اختیار کرے، اپنے آپ کو مستغنی ظاہر کرے، اور اچھی بات کی تکذیب کرے، تو ہم اس کے لئے تنگی کے اسباب پیدا کر دیں گے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1349]
ابوحیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو صحن میں پیشاب کرتے ہوئے دیکھا، پھر انہوں نے پانی منگوایا اور پہلے انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں کو دھو کر صاف کیا، پھر تین مرتبہ کلی کی، تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا، تین مرتبہ چہرہ دھویا، تین مرتبہ کہنیوں سمیت دونوں ہاتھ دھوئے، سر کا مسح کیا اور ٹخنوں سمیت دونوں پاؤں دھوئے، اور وضو کا بچا ہوا پانی لے کر کھڑے کھڑے پی گئے، اور فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے جیسے تم نے مجھے کرتے ہوئے دیکھا ہے، اور میں تمہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ وضو دکھانا چاہتا تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1350]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ وضو کرتے ہوئے اعضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھویا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1351]
ابوحیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، انہوں نے پہلے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو صاف کیا، پھر تین مرتبہ چہرہ اور تین مرتبہ دونوں بازو دھوئے، سر کا مسح کیا، پھر ٹخنوں تک دونوں پاؤں دھوئے، پھر کھڑے ہو کر وضو سے بچا ہوا پانی پی لیا، اور فرمایا: میں تمہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ وضو دکھانا چاہتا تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1352]
ابومطر بصری - جنہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو پایا تھا - سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے تین درہم کا ایک کپڑا خریدا، جب اسے پہنا تو یہ دعا پڑھی: «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِي رَزَقَنِي مِنْ الرِّيَاشِ مَا أَتَجَمَّلُ بِهِ فِي النَّاسِ وَأُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي»”اس اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے یہ لباس عطاء فرمایا، جس سے میں لوگوں میں خوبصورت لگتا ہوں، اور اپنا ستر چھپاتا ہوں۔“ پھر فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ دعا پڑھتے ہوئے سنا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1353]
حكم دارالسلام: إسناد ضعيف لضعف المختار بن نافع، ولجهالة أبي مطر البصري
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو دیکھنا چاہتا ہے وہ میری طرف دیکھے، پھر انہوں نے وضو کرتے ہوئے اعضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھویا، سر کا مسح کیا اور وضو سے بچا ہوا پانی پی لیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1354]
ابومطر بصری جنہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو پایا تھا، سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے تین درہم کا ایک کپڑا خریدا، جب اسے پہنا تو یہ دعا پڑھی: «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِي رَزَقَنِي مِنْ الرِّيَاشِ مَا أَتَجَمَّلُ بِهِ فِي النَّاسِ وَأُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي»”اس اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے یہ لباس عطاء فرمایا، جس سے میں لوگوں میں خوبصورت لگتا ہوں، اور اپنا ستر چھپاتا ہوں۔“ پھر فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ دعا پڑھتے ہوئے سنا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1355]
حكم دارالسلام: إسناد ضعيف لضعف المختار بن نافع، ولجهالة أبي مطر البصري
ابومطر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ زوال کے وقت مسجد میں باب الرحبہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسا وضو کر کے دکھائیے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام قنبر کو بلا کر فرمایا: ایک کٹورے میں پانی لے کر آؤ، پھر انہوں نے اپنے ہاتھوں اور چہرے کو تین مرتبہ دھویا، تین مرتبہ کلی کی اور اپنی ایک انگلی منہ میں ڈالی، ناک میں تین مرتبہ پانی ڈالا، تین مرتبہ بازوؤں کو دھویا، ایک مرتبہ سر کا مسح کیا، چہرہ کی طرف سے اندر کے حصے کا اور سر کی طرف سے باہر کے حصے کا، اور تین مرتبہ ٹخنوں سمیت پاؤں دھوئے، اس وقت ان کی داڑھی سینے پر لٹک رہی تھی، پھر انہوں نے وضو کے بعد ایک گھونٹ پانی پیا اور فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے متعلق سوال کرنے والا کہاں ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح وضو فرماتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1356]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کسی کے لئے - سوائے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے - اپنے والدین کو جمع کرتے ہوئے نہیں سنا، غزوہ احد کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے فرما رہے تھے: ”سعد تیر پھینکو، تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1357]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ہمیں چھوڑ کر قریش کے دوسرے خاندانوں کو کیوں پسند کرتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے پاس بھی کچھ ہے؟“ میں نے عرض کیا: جی ہاں! سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی۔ فرمایا: ”وہ تو میری رضاعی بھتیجی ہے۔“(دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ آپس میں رضاعی بھائی بھی تھے اور چچا بھتیجے بھی)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1358]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بطور ہدیہ کے ایک خچر پیش کیا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سوار ہوئے، کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے پوچھا: اگر ہم بھی یہ جانور حاصل کرنا چاہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم گھوڑوں پر گدھوں کو کدوانا چاہتے ہو؟ یہ وہ لوگ کرتے ہیں جو جاہل ہیں۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1359]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره ، عبد الله بن لهيعة سي الحفظ لكنه توبع
ابوحیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا میں تمہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح وضو کر کے نہ دکھاؤں؟ ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں، انہوں نے فرمایا: پھر میرے پاس ایک طشت اور پانی کا ایک برتن لے کر آؤ، چنانچہ پہلے انہوں نے تین مرتبہ اپنے دونوں ہاتھوں کو دھویا، پھر تین مرتبہ کلی کی، تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا، تین مرتبہ چہرہ دھویا، تین مرتبہ کہنیوں سمیت ہاتھ دھوئے، سر کا مسح کیا، اور تین مرتبہ ٹخنوں سمیت دونوں پاؤں دھوئے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1360]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مجھے چار چیزیں ایسی دی گئی ہیں، جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں، مجھے زمین کے خزانے دیئے گئے ہیں، میرا نام احمد رکھا گیا ہے، مٹی کو میرے لئے پانی کی طرح پاک کرنے والا قرار دیا گیا ہے اور میری امت کو بہترین امت کا خطاب دیا گیا ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1361]
حكم دارالسلام: إسناده حسن ، و تقدم برقم : 763 الا انه ذكر هناك فى الحديث خامسة، وهى قوله : «نصرت بالرعب»
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: اے امیر المومنین! کیا آپ نے نہیں سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تین طرح کے لوگ مرفوع القلم ہیں: (1) سویا ہوا شخص جب تک بیدار نہ ہو جائے، (2) بچہ جب تک بالغ نہ ہو جائے، (3) مجنون جب تک اس کی عقل لوٹ نہ آئے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1362]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا اِسناد منقطع، ابو ظبيان لم يدرك عمر
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ ”کیا میں تمہیں ایسے کلمات نہ سکھا دوں کہ جب تم انہیں زبان سے ادا کر لو تو تمہارے گناہ معاف کر دیئے جائیں حالانکہ تمہارے گناہ معاف ہو چکے، یہ کلمات کہہ لیا کرو: «لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ سُبْحَانَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ.»”اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، وہ حلیم و کریم ہے، اللہ ہر عیب اور نقص سے پاک ہے، وہ عرش عظیم کا رب ہے، تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کو پالنے والا ہے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1363]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دس قسم کے لوگوں پر لعنت فرمائی ہے: سود خور، سود کھلانے والا، سودی معاملات لکھنے والا، سودی معاملات کے گواہ، حلالہ کرنے والا، حلالہ کروانے والا، زکوٰۃ روکنے والا، جسم گودنے والی اور جسم گدوانے والی پر لعنت فرمائی ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نوحہ کرنے سے منع فرماتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1364]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا اِسناد ضعيف لضعف الحارث الأعور
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص دنیا میں کسی گناہ کا ارتکاب کر بیٹھے اور اسے اس کی سزا بھی مل جائے تو اللہ تعالیٰ اس سے بہت عادل ہے کہ اپنے بندے کو دوبارہ سزا دے، اور جو شخص دنیا میں کوئی گناہ کر بیٹھے اور اللہ اس کی پردہ پوشی کرتے ہوئے اسے معاف فرما دے تو اللہ تعالیٰ اس سے بہت کریم ہے کہ جس چیز کو وہ معاف کر چکا ہو اس کا معاملہ دوبارہ کھولے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1365]
نزال بن سبرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھی، پھر وہ اپنی نشست پر تشریف لے گئے جہاں وہ باب الرحبہ کے قریب بیٹھتے تھے، وہ بیٹھے تو ہم بھی ان کے ارد گرد بیٹھ گئے، جب عصر کی نماز کا وقت آیا تو ان کے پاس ایک برتن لایا گیا، انہوں نے اس سے ایک چلو بھرا، کلی کی، ناک میں پانی ڈالا، چہرے اور ہاتھوں پر پھیرا، سر اور پاؤں پر پھیرا، اور کھڑے ہو کر بچا ہوا پانی پی لیا، اور فرمایا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ کچھ لوگ کھڑے ہو کر پانی پینے کو مکروہ سمجھتے ہیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے جیسے میں نے کیا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1366]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مجھ پر ایسا وقت بھی گذرا ہے کہ بھوک کی شدت سے میں اپنے پیٹ پر پتھر باندھتا تھا، اور آج میرے مال کی صرف زکوٰۃ چالیس ہزار دینار بنتی ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1367]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لا نقطاعه، محمد بن كعب القرظي لم يسمع من علي، و شريك النخعي سي الحفظ
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”علی! پہلی نظر کسی نا محرم پر پڑنے کے بعد اس پر دوسری نظر نہ ڈالنا، کیونکہ پہلی نظر تو تمہیں معاف ہوگی، دوسری نہیں ہوگی۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1369]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا اِسناد ضعيف ، محمد بن اسحاق مدلس وقد عنعن
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حسن کی پیدائش ہوئی تو ان کا نام حمزہ رکھا گیا، اور جب حسین کی پیدائش ہوئی تو ان کا نام ان کے چچا کے نام پر جعفر رکھا گیا، بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور فرمایا: ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ ان دونوں کے نام بدل دوں۔“ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام علی الترتیب حسن اور حسین رکھ دیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1370]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عبدالمطلب کو دعوت پر جمع فرمایا، ان میں سے کچھ لوگ تو ایسے تھے کہ پورا پورا بکری کا بچہ کھا جاتے اور سولہ رطل کے برابر پانی پی جاتے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کی دعوت میں صرف ایک مد (آسانی کے لئے ایک کلو فرض کر لیں) کھانا تیار کروایا، ان لوگوں نے کھانا شروع کیا تو اتنے سے کھانے میں وہ سب لوگ سیر ہوگئے اور کھانا ویسے ہی بچا رہا، محسوس ہوتا تھا کہ اسے کسی نے چھوا تک نہیں ہے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑا سا پانی منگوایا، وہ ان سب نے سیراب ہو کر پیا لیکن پانی اسی طرح بچا رہا اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اسے کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ ان تمام مراحل سے فراغت پا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا: ”اے بنو عبدالمطلب! مجھے خصوصیت کے ساتھ تمہاری طرف اور عمومیت کے ساتھ پوری انسانیت کی طرف مبعوث کیا گیا ہے، اور تم نے کھانے کا یہ معجزہ تو دیکھ ہی لیا ہے، اب تم میں سے کون مجھ سے اس بات پر بیعت کرتا ہے کہ وہ میرا بھائی اور میرا ساتھی بنے؟“ اس پر کوئی بھی کھڑا نہ ہوا، یہ دیکھ کر - کہ اگرچہ میں سب سے چھوٹا ہوں - میں کھڑا ہو گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بیٹھ جانے کا حکم دیا اور تین مرتبہ اپنی بات کو دہرایا، اور تینوں مرتبہ اسی طرح ہوا کہ میں کھڑا ہو جاتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بیٹھنے کا حکم دے دیتے، یہاں تک کہ تیسری مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ پر مارا (بیعت فرما لیا)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1371]
نزال بن سبرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وضو کا بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر پیا اور فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1372]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اے علی! جنت میں تمہارے لئے ایک خزانہ رکھا گیا ہے اور تم اس کے دو سینگوں والے ہو (مکمل مالک ہو)، اس لئے اگر کسی نا محرم پر نظر پڑ جائے تو دوبارہ اس پر نظر مت ڈالو، کیونکہ پہلی نظر تو تمہیں معاف ہو جائے گی لیکن دوسری معاف نہیں ہوگی۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1373]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، محمد بن اسحاق مدلس وقد عنعن
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی شروع کی تو اپنے دست مبارک سے تیس اونٹ ذبح کئے اور مجھے حکم دیا تو باقی کے اونٹ میں نے ذبح کئے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان اونٹوں کی کھالیں اور جھولیں بھی تقسیم کر دو اور گوشت بھی تقسیم کر دو، اور یہ کہ قصاب کو ان میں سے کوئی چیز مزدوری کے طور پر نہ دو۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1374]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، محمد بن اسحاق مدلس وقد عنعنه، بينه و بين ابن ابي نجيح فيه رجل مبهم كما فى رواية برقم : 2359 ثم هو مخالف لما فى صحيح مسلم : 1218 من حديث جابر : ... فنحر ثلاثاً و ستين بيده ثم اعطي علياً، فنحر ما غبر.
عاصم بن ضمرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دن کے وقت کس طرح نوافل پڑھتے تھے؟ فرمایا: تم اس طرح پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتے، ہم نے عرض کیا: آپ بتا دیجئے، ہم اپنی طاقت اور استطاعت کے بقدر اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے، فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھ کر تھوڑی دیر انتظار فرماتے، جب سورج مشرق سے اس مقدار میں نکل آتا جتنا عصر کی نماز کے بعد مغرب کی طرف ہوتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر دو رکعت نماز پڑھتے۔ پھر تھوڑی دیر انتظار فرماتے اور جب سورج مشرق سے اتنی مقدار میں نکل آتا جتنا ظہر کی نماز کے بعد مغرب کی طرف ہوتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر چار رکعت نماز پڑھتے، پھر سورج ڈھلنے کے بعد چار رکعتیں ظہر سے پہلے، دو رکعتیں ظہر کے بعد اور چار رکعتیں عصر سے پہلے پڑھتے تھے، اور ہر دو رکعتوں میں ملائکہ مقربین، انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کی پیروی کرنے والے مسلمانوں اور مومنین کے لئے سلام کے کلمات کہتے (تشہد پڑھتے)۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1375]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”تمہارے معاملہ میں وہی ہوگا جیسا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوا، یہودیوں نے ان سے بغض کیا یہاں تک کہ ان کی والدہ پر گناہ کا بہتان باندھا، اور عیسائیوں نے ان سے اتنی محبت کی کہ انہیں اس مقام پر پہنچا دیا جو ان کا مقام و مرتبہ نہ تھا۔“ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے متعلق دو قسم کے لوگ ہلاک ہوں گے، ایک وہ محبت میں حد سے آگے بڑھ جانے والے جو مجھے اس مقام پر فائز کر دیں گے جو میرا مقام نہیں ہے، اور دوسرے وہ بغض رکھنے والے جو میری عداوت میں آ کر مجھ پر ایسے بہتان باندھیں گے جن کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1376]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف الحكم بن عبدالمك القرشي، ولجهالة ربيعة بن ناجذ
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلا کر فرمایا: ”تمہارے معاملہ میں وہی ہوگا جیسا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوا، یہودیوں نے ان سے بغض کیا یہاں تک کہ ان کی والدہ پر گناہ کا بہتان باندھا، اور عیسائیوں نے ان سے اتنی محبت کی کہ انہیں اس مقام پر پہنچا دیا جو ان کا مقام و مرتبہ نہ تھا۔“ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے متعلق دو قسم کے لوگ ہلاک ہوں گے، ایک وہ محبت میں حد سے آگے بڑھ جانے والے جو مجھے اس مقام پر فائز کر دیں گے جو میرا مقام نہیں ہے، اور دوسرے وہ بغض رکھنے والے جو میری عداوت میں آ کر مجھ پر ایسے بہتان باندھیں جن کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ خبردار! میں نبی نہیں ہوں اور نہ ہی مجھ پر وحی آتی ہے، میں تو حسب استطاعت صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل پیرا ہوں، اس لئے اللہ کی اطاعت کے حوالے سے میں تمہیں جو حکم دوں - خواہ وہ تمہیں اچھا لگے یا برا - اس میں تم پر میری اطاعت کرنا میرا حق بنتا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1377]
کلیب کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا تو انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت سوائے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی اور نہ تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ کر فرمایا: ”اے ابن ابی طالب! تمہارا اس وقت کیا حال ہوگا جب ایسی ایسی قوم سے تمہارا پالا پڑے گا؟“ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں، فرمایا: ”ایک قوم ہوگی جو مشرق سے نکلے گی، وہ لوگ قرآن تو پڑھتے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلق سے آگے نہ جا سکے گا، وہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، ان میں ایک آدمی ایسا بھی ہوگا جس کا ہاتھ ناقص ہوگا، اور اس کے ہاتھ ایک حبشی عورت کی چھاتی کی طرح محسوس ہوں گے۔“[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1378]
کلیب کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، ایک آدمی ان کے پاس آیا جس پر سفر کے کپڑے تھے، اس نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے - جو کہ لوگوں سے گفتگو فرما رہے تھے - اندر آنے کی اجازت لی، سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس سے منہ پھیرنے کے بعد فرمانے لگے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت سوائے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی اور نہ تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ کر فرمایا: ”اے ابن ابی طالب! تمہارا اس وقت کیا حال ہوگا جب ایسی ایسی قوم سے تمہارا پالا پڑے گا؟“ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں، دو مرتبہ اسی طرح ہوا، پھر فرمایا: ”ایک قوم ہوگی جو مشرق سے نکلے گی، وہ لوگ قرآن تو پڑھتے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلق سے آگے نہ جا سکے گا، وہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، ان میں ایک آدمی ایسا بھی ہوگا جس کا ہاتھ ناقص ہوگا، اور اس کے ہاتھ ایک حبشی عورت کی چھاتی کی طرح محسوس ہوں گے۔“ . . . . . اس کے بعد انہوں نے مکمل حدیث ذکر کی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1379]
عبدخیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ وضو سکھایا، چنانچہ سب سے پہلے انہوں نے اپنے ہاتھوں کو دھویا، کلی کی، ناک میں پانی ڈالا، تین مرتبہ چہرہ دھویا، دونوں بازوؤں کو کہنیوں سمیت تین تین مرتبہ دھویا، پھر دوبارہ اپنے ہاتھوں کو برتن میں ڈالا اور اپنے ہاتھ کو اس کے نیچے ڈبو دیا، پھر اسے باہر نکال کر دوسرے ہاتھ پر مل لیا اور دونوں ہتھیلیوں سے سر کا ایک مرتبہ مسح کیا، اور ٹخنوں سمیت دونوں پاؤں تین تین مرتبہ دھوئے، پھر ہتھیلی سے چلو بنا کر تھوڑا سا پانی لیا اور اسے پی گئے، اور فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح وضو کیا کرتے تھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 1380]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وإسناده ضعيف لضعف سفيان بن وكيع وقد توبع، و عمرو ذومر مجهول وتابعه هنا ابوحية الوادعي