(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا زكريا، عن الشعبي، قال: سمعت عبد الله بن عمرو، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا، عَنْ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ".
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2758]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 10]، [مسلم 40]، [ابن حبان 196]، [الحميدي 606]
وضاحت: (تشریح حدیث 2750) زبان کو ہاتھ پر اس لئے مقدم کیا گیا کہ یہ ہر وقت قینچی کی طرح چلتی ہے اور پہلے اسی کے وار ہوتے ہیں۔ ہاتھ کی نوبت بعد میں آتی ہے، جیسا کہ کہا گیا: «جراحات اللسان لها التيام . . . . . ولا يلتام ما جرح اللسان» یعنی نیزوں کے زخم بھر جاتے ہیں اور زبان کے زخم عرصہ تک نہیں بھر سکتے۔ اور «مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ» کی قید کا یہ مطلب نہیں کہ غیرمسلموں کو زبان یا ہاتھ سے ایذاء رسانی جائز ہے۔ ایک اور روایت میں ہے: «مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ» یعنی جس سے تمام انسان محفوظ رہیں، جس میں ہر انسان کے ساتھ صرف انسانی رشتے کی بنا پر نیک معاملہ و اخلاقِ حسنہ کی تعلیم دی گئی ہے۔ اسلام کا مأخذ سلم ہے جس کے معنی صلح جوئی، خیر خواہی، مصالحت کے ہیں۔ زبان سے ایذاء رسانی میں غیبت، گالی گلوچ، بدگوئی وغیرہ جملہ عادات داخل ہیں، اور ہاتھ کی ایذاء رسانی میں چوری، ڈکیتی، مار پیٹ، قتل و غارتگری وغیرہ ہیں، پس کامل انسان وہ ہے جو اپنی زبان پر اور اپنے ہاتھ پر پورا کنٹرول رکھے، اور کسی انسان کی ایذاء رسانی کے لئے اس کی زبان نہ کھلے، اس کا ہاتھ نہ اٹھے۔ (مولانا راز رحمہ اللہ)۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا الفضيل بن مرزوق، حدثنا عدي بن ثابت، عن ابي حازم، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"يا ايها الناس , إن الله طيب لا يقبل إلا الطيب إن الله امر المؤمنين بما امر به المرسلين , قال: يايها الرسل كلوا من الطيبات واعملوا صالحا إني بما تعملون عليم سورة المؤمنون آية 51، وقال: يايها الذين آمنوا كلوا من طيبات ما رزقناكم واشكروا لله إن كنتم إياه تعبدون سورة البقرة آية 172. قال: ثم ذكر الرجل يطيل السفر اشعث اغبر يمد يديه إلى السماء: يا رب! يا رب! ومطعمه حرام، وملبسه حرام، ومشربه حرام، وغذي بالحرام، فانى يستجاب لذلك؟".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ، حَدَّثَنَا عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"يَا أَيُّهَا النَّاسُ , إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا الطَّيِّبَ إِنَّ اللَّهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ , قَالَ: يَأَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ سورة المؤمنون آية 51، وَقَالَ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ سورة البقرة آية 172. قَالَ: ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ: يَا رَبِّ! يَا رَبِّ! وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ، وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ، وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ، وَغُذِّيَ بِالْحَرَامِ، فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ؟".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے لوگو! الله تعالیٰ پاک ہے اور پاک مال کو ہی قبول کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے مومنین کو بھی وہی حکم دیا ہے جو مرسلین کو دیا تھا، الله تعالیٰ نے فرمایا: اے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھے عمل کرو، میں تمہارے کاموں کو جانتا ہوں (المومنون 51/23)، نیز فرمایا: اے مومنو! کھاؤ پاک چیزیں جو ہم نے تم کو دی ہیں، اور الله کا شکر ادا کرو اگر تم خاص اسی کی عبادت کرتے ہو (البقره: 172/2)۔“ راوی نے کہا: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے آدمی کا ذکر کیا ”جو لمبے لمبے سفر کرتا ہے بکھرے بال گرد و غبار سے بھرا ہوا پھر آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتا ہے اور کہتا ہے: اے رب، اے رب، حالانکہ اس کا کھانا حرام، اس کا لباس حرام، اس کا پینا حرام، اور حرام غذا ہی اس کو دی جاتی ہے، پھر کیسے اس کی دعا قبول ہوگی؟“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح على شرط مسلم، [مكتبه الشامله نمبر: 2759]» اس حدیث کی سند صحیح على شرط مسلم ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1015]، [ترمذي 2992]، [عبدالرزاق 8839]
وضاحت: (تشریح حدیث 2751) یہ حدیث ایمان و اسلام کی اساسیات میں سے ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آدمی کو کھانا، کپڑا، گھر، مکان سب حلال کمائی سے کرنا چاہیے ورنہ اس کا عمل قابلِ قبول نہ ہوگا۔ اس حدیث میں الله تعالیٰ کی صفات ہیں کہ وہ ہر عیب سے اور برائی سے پاک ہے، اور وہ عرش پر ہے، اور اس کو نیک و بد سب جانتے ہیں، اور اسی کی طرف دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں، اور وہی دینے والا، دعا کو قبول کرنے والا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح على شرط مسلم
سیدنا بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کسی کو دنیا میں خادم اور سواری کافی ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح عبد الله بن مولة بينا أنه ثقة، [مكتبه الشامله نمبر: 2760]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أحمد 360/5]، [أبويعلی 2478]، [ابن حبان 668]
وضاحت: (تشریح حدیث 2752) یعنی دنیا کا متاع ایک خادم اور سواری ہو تو بس کافی ہے، اس سے زیادہ کے لئے انسان کو پریشان نہ ہونا چاہیے۔ [ترمذي شريف 1781] میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ تمہارے لئے مسافر کے زادِ راہ کے برابر متاع کافی ہے ..... إلخ۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح عبد الله بن مولة بينا أنه ثقة
سیدنا مرداس اسلمی رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھے (صالح) لوگ یکے بعد دیگرے گزرتے جائیں گے اور ان کے بعد جو کے بھوسے کے مانند لوگ باقی رہ جائیں گے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2761]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6434]، [ابن حبان 6852]، [الحاكم 401/4]، [معجم الصحابة لابن قانع 1086]
وضاحت: (تشریح حدیث 2753) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی صحیح ثابت ہوتی جا رہی ہے۔ اچھے لوگ اٹھتے چلے جا رہے ہیں۔ عصرِ حاضر میں کئی دہائیوں سے یہ منظر صاف نظر آ رہا ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کتنے روزے دار ایسے ہوتے ہیں جن کو روزے کا کوئی ثواب نہیں ملتا، وہ (بھوکے) پیاسے رہتے ہیں، اور کتنے رات میں عبادت کرنے والے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے قیام کا رت جگے (جاگنے) کے سوا کوئی فائدہ نہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2762]» اس روایت کی سند حسن ہے، لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن ماجه 1690]، [أبويعلی 6551]، [ابن حبان 3481]، [الموارد 654]
وضاحت: (تشریح حدیث 2754) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ روزہ اور تہجد اس کے شروط، حدود و قیود کے بغیر ادا کئے جائیں تو ان کا فائدہ کچھ نہیں سوائے اس کے کہ روزے دار پیاسا رہے اور تہجد گذار جاگتا رہے۔ روزے اور نماز کا صحیح ثواب حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ لغو، رفث، فسق و فجور، ریا و نمود سے پرہیز کیا جائے۔ حدیث میں ہے کہ جو شخص بری بات اور برا عمل نہ چھوڑے الله کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا: جب روزہ رکھو تو تمہاری زبان، تمہارے کان، تمہاری آنکھیں بھی روزہ رکھیں، اور تمہارے روزے کا دن اور بنا روزے کا دن ایک جیسا نہ ہو۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن ولكن الحديث صحيح
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن يزيد، حدثنا سعيد هو: ابن ابي ايوب، قال: حدثني كعب بن علقمة، عن عيسى بن هلال الصدفي، عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه ذكر الصلاة يوما، فقال: "من حافظ عليها، كانت له نورا، وبرهانا، ونجاة من النار يوم القيامة، ومن لم يحافظ عليها، لم تكن له نورا، ولا نجاة، ولا برهانا، وكان يوم القيامة مع قارون , وفرعون , وهامان , ابي بن خلف".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ هُوَ: ابْنُ أَبِي أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنِي كَعْبُ بْنُ عَلْقَمَةَ، عَنْ عِيسَى بْنِ هِلَالٍ الصَّدَفِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ ذَكَرَ الصَّلَاةَ يَوْمًا، فَقَالَ: "مَنْ حَافَظَ عَلَيْهَا، كَانَتْ لَهُ نُورًا، وَبُرْهَانًا، وَنَجَاةً مِنَ النَّارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ لَمْ يُحَافِظْ عَلَيْهَا، لَمْ تَكُنْ لَهُ نُورًا، وَلَا نَجَاةً، وَلَا بُرْهَانًا، وَكَانَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ قَارُونَ , وَفِرْعَوْنَ , وَهَامَانَ , أُبَيِّ بْنِ خَلَفٍ".
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن نماز کا ذکر کیا تو فرمایا: ”جو شخص اس (نماز) کی پابندی کرے گا اس کے لئے قیامت کے دن (نماز) نور و برہان اور جہنم سے نجات کا سبب ہوگی، اور جو ان نمازوں کی پابندی نہ کرے گا اس کے لئے وہ نہ نور ہوگی نہ برہان نہ نجات بلکہ وہ قیامت کے دن قارون، فرعون، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔“(جو بدترین انسان اور جہنمی تھے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2763]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن حبان 1467]، [موارد الظمآن 254]، [مجمع الزوائد 1634]
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز (تہجد) کی ترغیب دیتے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چاہے ایک رکعت ہی رات میں پڑھو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف جدا من أجل حسين بن عبد الله بن عبيد الله. ولكن الحديث صحيح لغيره، [مكتبه الشامله نمبر: 2764]» اس روایت کی یہ سند ضعیف ہے، لیکن حدیث صحیح لغیرہ ہے۔ دیکھئے: [مجمع الزوائد 3565، بتحقيق حسين دراني]
وضاحت: (تشریح احادیث 2755 سے 2757) اس حدیث سے تہجد یا قیام اللیل کی اہمیت معلوم ہوئی۔ نیز یہ کہ وتر ایک رکعت بھی پڑھنا درست ہے، جیسا کہ دوسری صحیح حدیث میں ہے: صبح ہوجانے کا ڈر ہو تو ایک رکعت پڑھ لو، اس لئے یہ کہنا کہ ایک رکعت کوئی نماز نہیں، درست نہیں ہے۔ ایک مرتبہ ناچیز نے خواب دیکھا کہ سماحۃ الشیخ ابن باز رحمہ اللہ تہجد کی تأکید کر رہے ہیں، خواب ان سے عرض کیا تو فرمایا: قیام اللیل واجب تو نہیں ہے لیکن رات میں نماز ضرور پڑھنی چاہیے، چاہے دو رکعت ہی کیوں نہ ہو۔ والله اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف جدا من أجل حسين بن عبد الله بن عبيد الله. ولكن الحديث صحيح لغيره
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا إسرائيل، حدثنا ابو إسحاق، عن عبيد بن عمرو ابي المغيرة، عن حذيفة، قال: كان في لساني ذرب على اهلي، ولم يكن يعدهم إلى غيرهم، فسالت النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: "اين انت من الاستغفار؟ إني لاستغفر الله كل يوم مائة مرة". قال قال ابو إسحاق: فحدثت ابا بردة , وابا بكر ابني ابي موسى، قالا: قال النبي صلى الله عليه وسلم: "استغفر الله كل يوم مائة مرة استغفر الله واتوب إليه"..(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عَمْرٍو أَبِي الْمُغِيرَةِ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: كَانَ فِي لِسَانِي ذَرَبٌ عَلَى أَهْلِي، وَلَمْ يَكُنْ يَعْدُهُمْ إِلَى غَيْرِهِمْ، فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "أَيْنَ أَنْتَ مِنَ الِاسْتِغْفَارِ؟ إِنِّي لَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ كُلَّ يَوْمٍ مِائَةَ مَرَّةٍ". قَالَ قَالَ أَبُو إِسْحَاق: فَحَدَّثْتُ أَبَا بُرْدَةَ , وَأَبَا بَكْرٍ ابْنَيْ أَبِي مُوسَى، قَالَا: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ كُلَّ يَوْمٍ مِائَةَ مَرَّةٍ أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ"..
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میری زبان گھر والوں کیلئے بے لگام تھی (جو زبان پر آتا بک دیتے) لیکن ان کے علاوہ کسی اور سے بد کلامی نہ کرتے تھے۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے اس بارے میں (ندامت سے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم استغفار سے کہاں ہو؟ یعنی استغفار کیوں نہیں کرتے؟ میں تو خود الله تعالیٰ سے ہر دن سو بار مغفرت طلب کرتا ہوں۔“ ابواسحاق نے کہا: میں نے سیدنا ابوبردہ اور سیدنا ابوبکر ابنی ابی موسیٰ رضی اللہ عنہما سے یہ حدیث بیان کی تو دونوں نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں ہر دن اللہ سے سو مرتبہ مغفرت طلب کرتا ہوں اور کہتا ہوں: «استغفر اللّٰھ و أتوب إليه» ۔“
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2765]» اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [ابن حبان 926]، [موارد الظمآن 2458]، [ابن السني فى عمل اليوم 362]، [منحة المعبود للطيالسي 251/1، 1239]، دوسرا جملہ [بخاري شريف 6307] میں بھی ہے اور اس میں ستر بار کا ذکر ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2757) استغفار: مغفرت طلب کرنے کو کہتے ہیں۔ توبہ و استغفار ہر شخص کو ہمیشہ کرتے رہنا چاہیے۔ یہ ہمارے پیغمبر سید الانبیاء و المرسلین ہیں جن کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف، جو بخشے بخشائے، پھر بھی ستر بار اور سو سو بار استغفار کرتے تھے۔ الله تعالیٰ کا بھی فرمان ہے: « ﴿اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ﴾[نوح: 10] » ایک جگہ فرمایا: « ﴿وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ﴾[الأنفال: 33] » ترجمہ: ”اور اللہ تعالیٰ ایسا نہ کرے گا کہ انہیں آپ کے ہوتے ہوئے عذاب دے، اور الله تعالیٰ انہیں اس حال میں بھی عذاب نہ دے گا کہ وہ استغفار کرتے ہوں۔ “ یعنی جو لوگ استغفار کرتے رہیں عذاب میں مبتلا نہ ہوں گے۔
(حديث قدسي) حدثنا حدثنا الحكم بن المبارك، عن سلم بن قتيبة، عن سهيل القطعي، عن ثابت، عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قرا: هو اهل التقوى واهل المغفرة سورة المدثر آية 56. قال:"قال ربكم: انا اهل ان اتقى، فمن اتقاني فانا اهل ان اغفر له".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ سَلْمِ بْنِ قُتَيْبَةَ، عَنْ سُهَيْلٍ الْقُطَعِيِّ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَرَأَ: هُوَ أَهْلُ التَّقْوَى وَأَهْلُ الْمَغْفِرَةِ سورة المدثر آية 56. قَالَ:"قَالَ رَبُّكُمْ: أَنَا أَهْلٌ أَنْ أُتَّقَى، فَمَنْ اتَّقَانِي فَأَنَا أَهْلٌ أَنْ أَغْفِرَ لَهُ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: «﴿هُوَ أَهْلُ التَّقْوَىٰ وَأَهْلُ الْمَغْفِرَةِ﴾»(مدثر: 56/74) پھر فرمایا: ”تمہارے رب نے فرمایا: میں اس لائق ہوں کہ مجھ سے ڈرا جائے اور جو مجھ سے ڈرے تو میں اس قابل ہوں کہ اس کو بخش دوں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف سهيل بن أبي حزم، [مكتبه الشامله نمبر: 2766]» سہیل بن ابی حزم کی وجہ سے اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ابن ماجه 4299]، [أبويعلی 3317]
وضاحت: (تشریح حدیث 2758) گرچہ یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن الله تعالیٰ کا تقویٰ جس نے اختیار کیا، رب ذوالجلال سے جو ڈرا، اس کو اللہ تعالیٰ یقیناً بخش دے گا۔ الله تعالیٰ ہمیں خشیتِ الٰہی اور تقویٰ عطا فرمائے، آمین۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف سهيل بن أبي حزم
(حديث مرفوع) حدثنا عثمان بن محمد، قال: حدثنا معتمر، عن كهمس بن الحسن، عن ابي السليل، عن ابي ذر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إني لاعلم آية لو اخذ بها الناس بها لكفتهم: فإذا بلغن اجلهن فامسكوهن بمعروف او فارقوهن بمعروف واشهدوا ذوي عدل منكم واقيموا الشهادة لله ذلكم يوعظ به من كان يؤمن بالله واليوم الآخر ومن يتق الله يجعل له مخرجا سورة الطلاق آية 2".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، عَنْ كَهْمَسِ بْنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي السَّلِيلِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنِّي لَأَعْلَمُ آيَةً لَوْ أَخَذَ بِهَا النَّاسُ بِهَا لَكَفَتْهُمْ: فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّهِ ذَلِكُمْ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا سورة الطلاق آية 2".
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے ایک ایسی آیت معلوم ہے اگر لوگ اس پر عمل کر لیں تو وہی ان کیلئے کافی ہے: «﴿وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا﴾»(الطلاق: 2/65) یعنی جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے الله تعالیٰ اس کیلئے چھٹکارے کی شکل نکال دیتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 2767]» اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ابن حبان 6668]، [موارد الظمآن 1547]، [كتابت الزهد لأحمد ص: 146]۔ بعض نسخ میں مذکورہ آیت کا یہ آخری جملہ ہی مذکور ہے، اور بعض نسخ میں پوری آیت مذکور ہے۔ پوری آیت کا ترجمہ یہ ہے: ”پس جب یہ عورتیں اپنی عدت پوری کرنے کے قریب پہنچ جائیں تو انہیں یا تو قاعدے کے مطابق اپنے نکاح میں رہنے دو، یا دستور کے مطابق انہیں الگ کر دو، اور آپس میں دو عادل شخصوں کو گواہ کر لو، اور الله کی رضا مندی کے لئے ٹھیک ٹھیک گواہی دو، یہی ہے جس کی نصیحت اسے کی جاتی ہے جو الله پر اور قیامت کے دن پر یقین رکھتا ہو اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لئے چھٹکارے کی شکل نکال دیتا ہے۔“
وضاحت: (تشریح حدیث 2759) تقویٰ یہ ہے کہ انسان کا الله تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمانِ کامل ہو، اللہ اور رسول کی اطاعت و فرماں برداری میں وہ اچھے کام کرے اور برے کاموں سے بچا رہے۔ تقویٰ کا حکم اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں جگہ جگہ دیا ہے: « ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ﴾[الأحزاب: 70] » اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وقتاً فوقتاً تقویٰ کی وصیت کرتے رہتے تھے اور فرماتے: «أُوْصِيْكُمْ بِتَقْوَى اللّٰهِ» ۔ تقویٰ کے بہت سے فوائد ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ الله تعالیٰ متقی کو ہر ہم و غم اور مصیبت و پریشانی سے نجات دیتا ہے، رزق میں کشادگی عطا فرماتا ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا آیت سے واضح ہے۔ سورۂ طلاق میں ہی دوسری آیت میں ہے: « ﴿وَمَنْ يَتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا﴾[الطلاق: 4] » جو اللہ تعالیٰ سے ڈرے الله تعالیٰ اپنے حکم سے اس کے معاملات کو آسان و درست فرما دیتا ہے۔ الله تعالیٰ ہم سب کو متقی اور پرہیزگار بنائے، آمین۔