(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا زكريا، عن الشعبي، قال: سمعت عبد الله بن عمرو، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا، عَنْ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ".
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔“
وضاحت: (تشریح حدیث 2750) زبان کو ہاتھ پر اس لئے مقدم کیا گیا کہ یہ ہر وقت قینچی کی طرح چلتی ہے اور پہلے اسی کے وار ہوتے ہیں۔ ہاتھ کی نوبت بعد میں آتی ہے، جیسا کہ کہا گیا: «جراحات اللسان لها التيام . . . . . ولا يلتام ما جرح اللسان» یعنی نیزوں کے زخم بھر جاتے ہیں اور زبان کے زخم عرصہ تک نہیں بھر سکتے۔ اور «مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ» کی قید کا یہ مطلب نہیں کہ غیرمسلموں کو زبان یا ہاتھ سے ایذاء رسانی جائز ہے۔ ایک اور روایت میں ہے: «مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ» یعنی جس سے تمام انسان محفوظ رہیں، جس میں ہر انسان کے ساتھ صرف انسانی رشتے کی بنا پر نیک معاملہ و اخلاقِ حسنہ کی تعلیم دی گئی ہے۔ اسلام کا مأخذ سلم ہے جس کے معنی صلح جوئی، خیر خواہی، مصالحت کے ہیں۔ زبان سے ایذاء رسانی میں غیبت، گالی گلوچ، بدگوئی وغیرہ جملہ عادات داخل ہیں، اور ہاتھ کی ایذاء رسانی میں چوری، ڈکیتی، مار پیٹ، قتل و غارتگری وغیرہ ہیں، پس کامل انسان وہ ہے جو اپنی زبان پر اور اپنے ہاتھ پر پورا کنٹرول رکھے، اور کسی انسان کی ایذاء رسانی کے لئے اس کی زبان نہ کھلے، اس کا ہاتھ نہ اٹھے۔ (مولانا راز رحمہ اللہ)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2758]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 10]، [مسلم 40]، [ابن حبان 196]، [الحميدي 606]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه