(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا سليمان هو: ابن المغيرة، عن حميد بن هلال، عن عبد الله بن الصامت، عن ابي ذر، قال: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاتيته حين قضى صلاته، فكنت اول من حيا بتحية الإسلام. قال: "عليك السلام ورحمة الله، ممن انت؟". قال: قلت: من غفار. قال: فاهوى بيده. قلت في نفسي: كره اني انتميت إلى غفار.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ هُوَ: ابْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَيْتُهُ حِينَ قَضَى صَلَاتَهُ، فَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ حَيَّا بِتَحِيَّةِ الْإِسْلَامِ. قَالَ: "عَلَيْكَ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، مِمَّنْ أَنْتَ؟". قَالَ: قُلْتُ: مِنْ غِفَارٍ. قَالَ: فَأَهْوَى بِيَدِهِ. قُلْتُ فِي نَفْسِي: كَرِهَ أَنِّي انْتَمَيْتُ إِلَى غِفَارٍ.
سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ نماز پڑھ چکے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں وہ پہلا شخص تھا جس نے اسلامی سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں کہا: ”علیک السلام ورحمۃ اللہ، تم کون سے قبیلے سے ہو؟“ میں نے کہا: غفار سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا (یا جھکا لیا)، میں نے اپنے دل میں کہا: شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غفار کی طرف میری نسبت اچھی نہیں لگی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2681]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2473]، [ابن حبان 7133]، [ابن أبى شيبه 17447]، [مشكل الآثار 6/2]
وضاحت: (تشریح حدیث 2674) مسلم شریف کی مفصل و طویل روایت ہے کہ میں نے کہا اور میں پہلا شخص تھا جس نے کہا: السلام علیک، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں وعلیک السلام ورحمۃ الله کہا۔ اس سے سلام کرنے اور جواب دینے کا طریقہ معلوم ہوا۔ ناپسندیدگی کا اظہار ہو سکتا ہے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کا گمان ہو، یا ہو سکتا ہے قومِ غفار کی شرارت یا حرام مہینے کو حلال سمجھنے کی وجہ سے ہو، جیسا کہ مسلم کی روایت کے شروع میں ہے، یا یہ نام ہی ناپسند ہو کیونکہ غفار کے معنی ہیں داغ دار چہرے والا۔ واللہ اعلم۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن كثير، حدثنا جعفر بن سليمان، عن عوف، عن ابي رجاء، عن عمران بن حصين، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: السلام عليكم، فرد عليه وقال: "عشر". ثم جاء رجل فسلم، فقال: السلام عليكم ورحمة الله، فرد عليه، فقال:"عشرون". ثم جاء رجل فسلم، فقال: السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، فرد عليه وقال:"ثلاثون".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ أَبِي رَجَاءٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، فَرَدَّ عَلَيْهِ وَقَالَ: "عَشْرٌ". ثُمَّ جَاءَ رَجُلٌ فَسَلَّمَ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، فَرَدَّ عَلَيْهِ، فَقَالَ:"عِشْرُونَ". ثُمَّ جَاءَ رَجُلٌ فَسَلَّمَ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، فَرَدَّ عَلَيْهِ وَقَالَ:"ثَلَاثُونَ".
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک صحابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: السلام علیکم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا اور فرمایا: ”دس۔“ پھر دوسرے صحابی آئے اور اس طرح سلام کیا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا بھی جواب دیا اور فرمایا: ”بیس۔“ پھر ایک اور صحابی حاضر ہوئے، سلام کیا اور کہا: السلام علیکم ورحمۃ الله و برکاتہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا اور فرمایا: ”تیس“(یعنی ان کے لئے تین کلموں پر تیس نیکیاں ہیں)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2682]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 5195]، [ترمذي 2690]، [طبراني 134/18، 280، ويشهد له ما فى صحيح ابن حبان 493]
وضاحت: (تشریح حدیث 2675) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صرف السلام علیکم کہنے پر دس نیکیاں، ورحمۃ اللہ کے اضافے پر بیس نیکیاں، اور برکاتہ کے اضافہ پر تیس نیکیاں ہیں، اور اسی طرح جواب دینے والے کے لئے نیکیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: « ﴿وَإِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوْا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا .....﴾[النساء: 86] » ترجمہ: ”جب تم سے سلام کیا جائے تو اس سے اچھا جواب دو، یا کم از کم جیسا کسی نے سلام کیا ویسا ہی جواب دو...“۔
سیدنا مہاجر بن قنفذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سلام کیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب کر رہے تھے تو آپ نے ان کے سلام کا جواب نہیں دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، تب سلام کا جواب دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح ورواية الحسن عن التابعين موصولة وإن عنعن. والحضين هو ابن المنذر، [مكتبه الشامله نمبر: 2683]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 17]، [نسائي 38]، [ابن ماجه 350، بسند ضعيف عن أبى هريرة]۔ نیز دیکھئے: [أحمد 80/5]، [ابن حبان 803]، [موارد الظمآن 189]، [طبراني 329/20، 780، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 2676) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پیشاب کرنے والے کو نہ سلام کرنا چاہیے اور نہ وہ ایسی حالت میں جواب دے، اور جواب دینے کے لئے وضو کرنا ضروری نہیں ہے۔ ابن ماجہ میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیمّم کیا پھر جواب دیا، لیکن وہ روایت بہت ضعیف ہے۔ «كما مر آنفا» ۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح ورواية الحسن عن التابعين موصولة وإن عنعن. والحضين هو ابن المنذر
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورتوں کے پاس (تنہائی میں) نہ جاؤ“، صحابہ نے عرض کیا: یا رسول! حمو کے سوا (یعنی حمو کو اس سے مستثنیٰ کر دیجئے)، فرمایا: ”حمو ہی تو موت ہے۔“ یحییٰ بن بسطام نے کہا: حمو سے مراد شوہر کے عزیز و اقارب بھائی وغیرہ ہیں یعنی عورت کے جیٹھ دیور وغیرہ)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2684]» اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5232]، [مسلم 2172]، [ترمذي 1171]، [ابن حبان 5588]۔ اسی طرح کی حدیث آگے (2817) نمبر پر آ رہی ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2677) اس حدیث کو شیخین نے الخلوة بالأجنبیہ کے باب میں ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اجنبی عورت کے ساتھ خلوت کرنا حرام ہے، اور اجنبی سے مراد ہر وہ شخص ہے جس کا اس عورت سے نکاح ہو سکتا ہو، اور حمو سے بھی مراد خاوند کے وہ رشتے دار ہیں جن کا نکاح اس عورت سے جائز ہو، جیسے شوہر کا بھائی، اس کا بھتیجا، بھانجا، چچازاد بھائی، ماموں زاد بھائی وغیرہ جن سے کسی جائز صورت میں اس عورت کا نکاح ہو سکتا ہو، لیکن وہ رشتے دار مراد نہیں ہیں جو محرم ہیں، جیسے خاوند کا باپ، اور خاوند کا بیٹا، ان کا تنہائی میں جانا جائز ہے کیونکہ بیٹے کی بہو ان پر حرام ہے: « ﴿وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ﴾[النساء: 23] » ۔ لیکن تمہارے بیٹوں کی بیویاں تمہارے اوپر حرام کی گئی ہیں۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ناگاه (اچانک) نظر پڑنے کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی نظر پھیر لو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2685]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2159]، [أبوداؤد 2148]، [ترمذي 2776]، [ابن حبان 5571]
وضاحت: (تشریح حدیث 2678) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر اجنبی عورت پر اچانک نظر پڑ جائے تو گناہ نہ ہوگا، لیکن اسی وقت نگاہ پھیر لینا واجب ہے۔ پھر اگر عمداً دیکھے گا تو گنہگار ہوگا۔ ایک حدیث میں ہے کہ پہلی نظر میں کچھ نہیں اور دوسری بار دیکھنا جائز نہیں۔ دیکھئے حدیث (2744)۔
(حديث مرفوع) اخبرنا احمد بن خالد، حدثنا محمد هو: ابن إسحاق، عن نافع، عن صفية بنت ابي عبيد، عن ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: سئل النبي صلى الله عليه وسلم عن ذيل المراة، فقال:"شبرا"، فقلت: يا رسول الله، إذن تبدو اقدامهن؟، قال: "فذراعا لا يزدن عليه". قال عبد الله: الناس يقولون: عن نافع، عن سليمان بن يسار.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ: ابْنُ إِسْحَاق، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَيْلِ الْمَرْأَةِ، فَقَالَ:"شِبْرًا"، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِذَنْ تَبْدُوَ أَقْدَامُهُنَّ؟، قَالَ: "فَذِرَاعًا لَا يَزِدْنَ عَلَيْهِ". قَالَ عَبْد اللَّهِ: النَّاسُ يَقُولُونَ: عَنْ نَافِعٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ.
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عورتوں کے دامن کے بارے میں پوچھا گیا (یعنی کتنا لٹکائیں)؟ فرمایا: ”ایک بالشت (بڑا رکھیں)۔“ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: یا رسول اللہ! پھر تو چلتے میں قدم کھل جائیں گے؟ فرمایا: ”پھر ایک ہاتھ لٹکا لیں اس سے زیادہ نہیں۔“ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: کہتے ہیں نافع نے سلیمان بن یسار سے روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه عنعنة ابن إسحاق ولكنه متابع عليه فيصح الإسناد والله أعلم، [مكتبه الشامله نمبر: 2686]» اس روایت کی سند ابن اسحاق کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن اس کی متابع موجود ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4117]، [ترمذي 1732]، [نسائي 5353]، [أبويعلی 6891]، [ابن حبان 5451]، [موارد الظمآن 1451]
وضاحت: (تشریح حدیث 2679) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورتوں کو اپنا دامن یا عباء نیچی رکھنی چاہیے تاکہ اس کے قدم پر بھی کسی کی نظر نہ پڑے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه عنعنة ابن إسحاق ولكنه متابع عليه فيصح الإسناد والله أعلم
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن منصور، حدثني ربعي بن حراش، عن امراته، عن اخت لحذيفة، قالت: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:"يا معشر النساء، اما لكن في الفضة ما تحلين به؟ اما إنه ليست منكن امراة تحلى الذهب فتظهره، إلا عذبت به".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنِي رِبْعِيُّ بْنُ حِرَاشٍ، عَنِ امْرَأَتِهِ، عَنْ أُخْتٍ لِحُذَيْفَةَ، قَالَتْ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:"يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ، أَمَا لَكُنَّ فِي الْفِضَّةِ مَا تَحَلَّيْنَ بِهِ؟ أَمَا إِنَّهُ لَيْسَتْ مِنْكُنَّ امْرَأَةٌ تَحَلَّى الذَّهَبَ فَتُظْهِرَهُ، إِلَّا عُذِّبَتْ بِهِ".
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کی بہن نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا تو فرمایا: ”اے عورتو! کیا تم چاندی کے زیور نہیں پہن سکتیں؟ دیکھو: تم میں سے جو عورت بھی سونے کا زیور پہن کر اس کو دکھلائے گی (یعنی اپنی زینت ظاہر کرے گی مردوں پر فخر و غرور اور بے غیرتی سے) تو وہ اس کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کی جائے گی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه امرأة ربعي بن حراش وهي مجهولة، [مكتبه الشامله نمبر: 2687]» اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ تمام روایات میں امراة مجہول عورت ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4237]، [نسائي 5152]، [أحمد 357/6]، [نسائي فى الكبرىٰ 9437]، [طبراني 624]۔ نیز دیکھئے: [المحلی لابن حزم 83/10]
وضاحت: (تشریح حدیث 2680) حدیث ضعیف ہے، اس لئے سونے کے زیور کے استعمال سے ممانعت کی دلیل نہیں بن سکتی۔ عورت کے لئے سونے و چاندی کے زیور پہننے کی اجازت ہے۔ رہا مسئلہ زیب و زینت دکھانے کا تو یہ سونے، چاندی اور کپڑے و میک اپ سب کو داخل ہے، اور کسی بھی مسلمان عورت کے لئے اپنی زینت کا اظہار کرنا جائز نہیں، جیسا کہ قرآن پاک میں ہے: « ﴿وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى .....﴾[الأحزاب: 33] » ترجمہ: ”اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم زمانۂ جاہلیت کی طرح اپنے بناؤ سنگھار کا اظہار نہ کرو .....“۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه امرأة ربعي بن حراش وهي مجهولة
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو عاصم، عن ثابت بن عمارة، عن غنيم بن قيس، عن ابي موسى: "ايما امراة استعطرت، ثم خرجت ليوجد ريحها، فهي زانية، وكل عين زان". وقال ابو عاصم: يرفعه بعض اصحابنا.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ عُمَارَةَ، عَنْ غُنَيْمِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى: "أَيُّمَا امْرَأَةٍ اسْتَعْطَرَتْ، ثُمَّ خَرَجَتْ لِيُوجَدَ رِيحُهَا، فَهِيَ زَانِيَةٌ، وَكُلُّ عَيْنٍ زَانٍ". وَقَالَ أَبُو عَاصِمٍ: يَرْفَعُهُ بَعْضُ أَصْحَابِنَا.
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: جو عورت عطر لگا کر باہر نکلے کہ لوگ اس کی خوشبو سونگھیں تو وہ زانیہ ہے، اور ہر آنکھ زنا کرنے والی ہے۔ ابوعاصم نے کہا: ہمارے بعض مشائخ نے اس کو مرفوعاً روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح مرسلا وهو صحيح موصولا أيضا، [مكتبه الشامله نمبر: 2688]» مذکورہ بالا حدیث کی سند مرسل ہے لیکن دیگر کتبِ حدیث میں مرفوعاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند سے مروی ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2786]، [نسائي 5141]، [ابن حبان 4424]، [موارد الظمآن 1474]، اور اس میں ہے «كل عين زانية بدل زاني» اور «زانية» ہی صحیح ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2681) عورت کا خوشبو لگا کر باہر نکلنا حرام ہے۔ چاہے وہ پرفیوم ہو، سینٹ ہو یا اور کوئی خوشبو، بلکہ نسائی شریف (5130) میں ہے کہ جو عورت خوشبو لگا لے اور اسے مسجد میں آنا ہو تو غسل کر لے غسلِ جنابت کی طرح، اور ایسی عورت کے لئے بڑی توہین اور گناہ کی وعید سنائی کہ وہ زانیہ عورت کی طرح سے ہے۔ لہٰذا عورتوں کو سینٹ وغیرہ لگا کر گھر سے باہر نکلنے سے بچنا چاہیے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح مرسلا وهو صحيح موصولا أيضا
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، عن سفيان، عن منصور، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، قال: "لعن الله الواشمات،، والمتنمصات، والمتفلجات للحسن المغيرات خلق الله"، فبلغ ذلك امراة من بني اسد يقال لها: ام يعقوب، فجاءت فقالت: بلغني انك لعنت كيت وكيت؟، فقال: وما لي لا العن من لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو في كتاب الله؟، فقالت: لقد قرات ما بين اللوحين، فما وجدت فيه ما تقول. قال: لئن كنت قراتيه، لقد وجدتيه، اما قرات وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا واتقوا الله إن الله شديد العقاب سورة الحشر آية 7؟، فقالت: بلى. قال: فإنه قد نهى عنه، فقالت: فإني ارى اهلك يفعلونه؟. قال: فادخلي فانظري. فدخلت فنظرت، فلم تر من حاجتها شيئا، فقال: لو كانت كذلك ما جامعتها.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: "لَعَنَ اللَّهُ الْوَاشِمَاتِ،، وَالْمُتَنَمِّصَاتِ، وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّهِ"، فَبَلَغَ ذَلِكَ امْرَأَةً مِنْ بَنِي أَسَدٍ يُقَالُ لَهَا: أُمُّ يَعْقُوبَ، فَجَاءَتْ فَقَالَتْ: بَلَغَنِي أَنَّكَ لَعَنْتَ كَيْتَ وَكَيْتَ؟، فَقَالَ: وَمَا لِي لَا أَلْعَنُ مَنْ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ فِي كِتَابِ اللَّهِ؟، فَقَالَتْ: لَقَدْ قَرَأْتُ مَا بَيْنَ اللَّوْحَيْنِ، فَمَا وَجَدْتُ فِيهِ مَا تَقُولُ. قَالَ: لَئِنْ كُنْتِ قَرَأْتِيهِ، لَقَدْ وَجَدْتِيهِ، أَمَا قَرَأْتِ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ سورة الحشر آية 7؟، فَقَالَتْ: بَلَى. قَالَ: فَإِنَّهُ قَدْ نَهَى عَنْهُ، فَقَالَتْ: فَإِنِّي أَرَى أَهْلَكَ يَفْعَلُونَهُ؟. قَالَ: فَادْخُلِي فَانْظُرِي. فَدَخَلَتْ فَنَظَرَتْ، فَلَمْ تَرَ مِنْ حَاجَتِهَا شَيْئًا، فَقَالَ: لَوْ كَانَتْ كَذَلِكَ مَا جَامَعْتُهَا.
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ نے لعنت کی گودنے والیوں پر اور گودوانے والیوں پر، بال اکھاڑنے والیوں پر، اور دانتوں میں شگاف خوبصورتی کے لئے کشادہ کروانے والیوں پر، اللہ کی خلقت کو بدلنے والیوں پر، یہ حدیث بنی اسد کی ایک عورت کو پہنچی جس کو ام یعقوب کہا جاتا تھا، وہ (سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس) آئی اور کہا کہ میں نے سنا ہے کہ تم نے ایسا ایسا کہا ہے؟ انہوں نے کہا: تجھے کیا ہوا کہ میں لعنت نہ کروں اس پر جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی، اور یہ بات تو اللہ تعالیٰ کی کتاب میں بھی موجود ہے۔ وہ بولی: میں نے تو پورا قرآن پاک پڑھا ہے لیکن جو تم کہتے ہو اس میں نہیں پایا؟ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر تم نے (غور سے) قرآن پڑھا ہوتا تو اس میں ضرور پاتی، کیا تم نے پڑھا نہیں: ”جو حکم رسول تمہیں دیں اس پر عمل کرو اور جس سے تم کو منع کر دیں اس سے رک جاؤ......“(حشر: 7/59)، کہا: ہاں یہ تو پڑھا ہے، سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کیا ہے۔ اس خاتون نے کہا: میں دیکھتی ہوں کہ تمہاری گھر والی تو ایسا کرتی ہے، کہا: جاؤ دیکھ لو، چنانچہ وہ گھر میں داخل ہوئی اور اس نے غور سے دیکھا لیکن ایسی کوئی بات نہیں دیکھی۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میری بیوی ایسی خلاف ورزی کرتی تو میں اس سے جماع ہی نہ کرتا۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2682) یعنی میری بیوی اگر ایسا کام کرتی جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے تو میں اسے رکھتا ہی نہیں بلکہ طلاق دے کر بھگا دیتا۔ سبحان اللہ! صحابہ کرام سنّت کے کیسے شیدائی اور پیروکار تھے۔ (رضی اللہ عنہم وارضاہم)۔ اس حدیث سے بدن کو گودوانے، چہرے اور بھنوؤں کے بال اکھاڑنے، دانتوں میں کشادگی کروانے، اور اللہ کی بنائی ہوئی صورت و شکل کو بگاڑنے کی ممانعت اور ایسی عورت پر لعنت کی گئی ہے، جو ان کاموں کو کرائے۔ نیز معلوم ہوا کہ جس طرح قرآن پاک کی پیروی ضروری ہے اسی طرح حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی عمل ضروری ہے۔ صرف قرآن کریم پر ایمان و عمل کافی نہیں۔ اور جو قرآن و حدیث کی پیروی نہ کرے اس کے ساتھ رہن سہن بھی درست نہیں۔
(حديث مرفوع) اخبرنا عثمان بن محمد، حدثنا زيد بن الحباب، حدثني يحيى بن ايوب الحضرمي، اخبرني عياش بن عباس الحميري، عن ابي الحصين الحجري، عن ابي عامر، قال: سمعت ابا ريحانة صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم"ينهى عن عشر خصال: مكامعة الرجل الرجل في شعار واحد ليس بينهما شيء. ومكامعة المراة المراة في شعار واحد ليس بينهما شيء. والنتف، والوشم، والنهبة، وركوب النمور، واتخاذ الديباج هاهنا على العاتقين، وفي اسفل الثياب". قال عبد الله: ابو عامر. شيخ لهم، والمكامعة: المضاجعة.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ الْحَضْرَمِيُّ، أَخْبَرَنِي عَيَّاشُ بْنُ عَبَّاسٍ الْحِمْيَرِيُّ، عَنْ أَبِي الْحُصَيْنِ الْحَجْرِيِّ، عَنْ أَبِي عَامِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا رَيْحَانَةَ صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يَنْهَى عَنْ عَشْرِ خِصَالٍ: مُكَامَعَةِ الرَّجُلِ الرَّجُلَ فِي شِعَارٍ وَاحِدٍ لَيْسَ بَيْنَهُمَا شَيْءٌ. وَمُكَامَعَةِ الْمَرْأَةِ الْمَرْأَةَ فِي شِعَارٍ وَاحِدٍ لَيْسَ بَيْنَهُمَا شَيْءٌ. وَالنَّتْفِ، وَالْوَشْمِ، وَالنُّهْبَةِ، وَرُكُوبِ النُّمُورِ، وَاتِّخَاذِ الدِّيبَاجِ هَاهُنَا عَلَى الْعَاتِقَيْنِ، وَفِي أَسْفَلِ الثِّيَابِ". قَالَ عَبْد اللَّهِ: أَبُو عَامِرٍ. شَيْخٌ لَهُمْ، وَالْمُكَامَعَةُ: الْمُضَاجَعَةُ.
ابوعامر نے کہا: میں نے صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوریحانہ شمعون بن زید رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس باتوں سے منع فرماتے تھے: ”دو مردوں کے ایک ساتھ بغیر لباس کے (ننگے) سونے سے، اور دو عورتوں کے ایک ساتھ بغیر لباس کے سونے سے، بال اکھاڑنے سے (یعنی زینت کے لئے سر یا داڑھی کے سفید یا پلکوں کے بال اکھاڑنے سے)، اور نیلا گودنے سے، لوٹنے سے (یعنی پرایا مال لوٹنے، ڈاکہ زنی سے)، اور چیتوں کی سواری کر نے سے، یا ریشمی کپڑا کندھوں پر ڈالنے سے، یا کپڑوں کے نیچے ریشم لگانے سے۔“ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: ابوعامر (الحجری) ان کے شیخ ہیں اور مکامعہ کے معنی ہیں مضاجعہ (یعنی ایک ساتھ لیٹنا)۔
تخریج الحدیث: «إسناده فيه أبو عامر الحجري وباقي رجاله ثقات. وأبو الحصين الحجري هو: الهيثم بن شفي الرعيني، [مكتبه الشامله نمبر: 2690]» اس حدیث کی سند میں ابوعامر الحجری الازدی المعافری جن کا نام عبداللہ بن جابر ہے جو حجر الأزد قبیلہ سے تھے اور مقبول ہیں، باقی رجال الحدیث ثقہ ہیں۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4049] و [نسائي 5126] و [ابن ماجه 3655، مختصرًا] و [أحمد 134/4] و [ابن أبى شيبه 5295]
وضاحت: (تشریح حدیث 2683) اس حدیث میں بال اکھاڑنے، گودنے، گودوانے، لوٹ مار، ڈاکہ زنی سے منع کیا گیا ہے، اور چیتوں کی سواری کرنے، مردوں کے لیے ریشم و حریر کے رول رکھنے یا اس کے گوٹہ کناری لگانے سے بھی منع کیا گیا ہے، کیونکہ یہ دنیا دار متکبرین و گھمنڈی لوگوں کے افعال ہیں۔ اسی طرح مرد کا مرد کے ساتھ اور عورت کا عورت کے ساتھ ایک چادر میں برہنہ سونا منع ہے، یہ بہت ہی برا فعلِ قبیح ہے، جو حرام کاری کی طرف لے جاتا ہے، اور یہ تمام افعال و اعمال حرام ہیں ان سے بچنا چاہیے۔ والله اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده فيه أبو عامر الحجري وباقي رجاله ثقات. وأبو الحصين الحجري هو: الهيثم بن شفي الرعيني