سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورتوں کے پاس (تنہائی میں) نہ جاؤ“، صحابہ نے عرض کیا: یا رسول! حمو کے سوا (یعنی حمو کو اس سے مستثنیٰ کر دیجئے)، فرمایا: ”حمو ہی تو موت ہے۔“ یحییٰ بن بسطام نے کہا: حمو سے مراد شوہر کے عزیز و اقارب بھائی وغیرہ ہیں یعنی عورت کے جیٹھ دیور وغیرہ)۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2677) اس حدیث کو شیخین نے الخلوة بالأجنبیہ کے باب میں ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اجنبی عورت کے ساتھ خلوت کرنا حرام ہے، اور اجنبی سے مراد ہر وہ شخص ہے جس کا اس عورت سے نکاح ہو سکتا ہو، اور حمو سے بھی مراد خاوند کے وہ رشتے دار ہیں جن کا نکاح اس عورت سے جائز ہو، جیسے شوہر کا بھائی، اس کا بھتیجا، بھانجا، چچازاد بھائی، ماموں زاد بھائی وغیرہ جن سے کسی جائز صورت میں اس عورت کا نکاح ہو سکتا ہو، لیکن وہ رشتے دار مراد نہیں ہیں جو محرم ہیں، جیسے خاوند کا باپ، اور خاوند کا بیٹا، ان کا تنہائی میں جانا جائز ہے کیونکہ بیٹے کی بہو ان پر حرام ہے: « ﴿وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ﴾[النساء: 23] » ۔ لیکن تمہارے بیٹوں کی بیویاں تمہارے اوپر حرام کی گئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2684]» اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5232]، [مسلم 2172]، [ترمذي 1171]، [ابن حبان 5588]۔ اسی طرح کی حدیث آگے (2817) نمبر پر آ رہی ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه