سنن دارمي
من كتاب الاستئذان
کتاب الاستئذان کے بارے میں
11. باب في رَدِّ السَّلاَمِ:
سلام کا جواب دینے کا بیان
حدیث نمبر: 2675
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ هُوَ: ابْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَيْتُهُ حِينَ قَضَى صَلَاتَهُ، فَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ حَيَّا بِتَحِيَّةِ الْإِسْلَامِ. قَالَ: "عَلَيْكَ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، مِمَّنْ أَنْتَ؟". قَالَ: قُلْتُ: مِنْ غِفَارٍ. قَالَ: فَأَهْوَى بِيَدِهِ. قُلْتُ فِي نَفْسِي: كَرِهَ أَنِّي انْتَمَيْتُ إِلَى غِفَارٍ.
سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ نماز پڑھ چکے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں وہ پہلا شخص تھا جس نے اسلامی سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں کہا: ”علیک السلام ورحمۃ اللہ، تم کون سے قبیلے سے ہو؟“ میں نے کہا: غفار سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا (یا جھکا لیا)، میں نے اپنے دل میں کہا: شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غفار کی طرف میری نسبت اچھی نہیں لگی۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2681]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2473]، [ابن حبان 7133]، [ابن أبى شيبه 17447]، [مشكل الآثار 6/2]
وضاحت: (تشریح حدیث 2674)
مسلم شریف کی مفصل و طویل روایت ہے کہ میں نے کہا اور میں پہلا شخص تھا جس نے کہا: السلام علیک، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں وعلیک السلام ورحمۃ الله کہا۔
اس سے سلام کرنے اور جواب دینے کا طریقہ معلوم ہوا۔
ناپسندیدگی کا اظہار ہو سکتا ہے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کا گمان ہو، یا ہو سکتا ہے قومِ غفار کی شرارت یا حرام مہینے کو حلال سمجھنے کی وجہ سے ہو، جیسا کہ مسلم کی روایت کے شروع میں ہے، یا یہ نام ہی ناپسند ہو کیونکہ غفار کے معنی ہیں داغ دار چہرے والا۔
واللہ اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح