(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، عن سفيان، عن منصور، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، قال: "لعن الله الواشمات،، والمتنمصات، والمتفلجات للحسن المغيرات خلق الله"، فبلغ ذلك امراة من بني اسد يقال لها: ام يعقوب، فجاءت فقالت: بلغني انك لعنت كيت وكيت؟، فقال: وما لي لا العن من لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو في كتاب الله؟، فقالت: لقد قرات ما بين اللوحين، فما وجدت فيه ما تقول. قال: لئن كنت قراتيه، لقد وجدتيه، اما قرات وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا واتقوا الله إن الله شديد العقاب سورة الحشر آية 7؟، فقالت: بلى. قال: فإنه قد نهى عنه، فقالت: فإني ارى اهلك يفعلونه؟. قال: فادخلي فانظري. فدخلت فنظرت، فلم تر من حاجتها شيئا، فقال: لو كانت كذلك ما جامعتها.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: "لَعَنَ اللَّهُ الْوَاشِمَاتِ،، وَالْمُتَنَمِّصَاتِ، وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّهِ"، فَبَلَغَ ذَلِكَ امْرَأَةً مِنْ بَنِي أَسَدٍ يُقَالُ لَهَا: أُمُّ يَعْقُوبَ، فَجَاءَتْ فَقَالَتْ: بَلَغَنِي أَنَّكَ لَعَنْتَ كَيْتَ وَكَيْتَ؟، فَقَالَ: وَمَا لِي لَا أَلْعَنُ مَنْ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ فِي كِتَابِ اللَّهِ؟، فَقَالَتْ: لَقَدْ قَرَأْتُ مَا بَيْنَ اللَّوْحَيْنِ، فَمَا وَجَدْتُ فِيهِ مَا تَقُولُ. قَالَ: لَئِنْ كُنْتِ قَرَأْتِيهِ، لَقَدْ وَجَدْتِيهِ، أَمَا قَرَأْتِ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ سورة الحشر آية 7؟، فَقَالَتْ: بَلَى. قَالَ: فَإِنَّهُ قَدْ نَهَى عَنْهُ، فَقَالَتْ: فَإِنِّي أَرَى أَهْلَكَ يَفْعَلُونَهُ؟. قَالَ: فَادْخُلِي فَانْظُرِي. فَدَخَلَتْ فَنَظَرَتْ، فَلَمْ تَرَ مِنْ حَاجَتِهَا شَيْئًا، فَقَالَ: لَوْ كَانَتْ كَذَلِكَ مَا جَامَعْتُهَا.
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ نے لعنت کی گودنے والیوں پر اور گودوانے والیوں پر، بال اکھاڑنے والیوں پر، اور دانتوں میں شگاف خوبصورتی کے لئے کشادہ کروانے والیوں پر، اللہ کی خلقت کو بدلنے والیوں پر، یہ حدیث بنی اسد کی ایک عورت کو پہنچی جس کو ام یعقوب کہا جاتا تھا، وہ (سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس) آئی اور کہا کہ میں نے سنا ہے کہ تم نے ایسا ایسا کہا ہے؟ انہوں نے کہا: تجھے کیا ہوا کہ میں لعنت نہ کروں اس پر جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی، اور یہ بات تو اللہ تعالیٰ کی کتاب میں بھی موجود ہے۔ وہ بولی: میں نے تو پورا قرآن پاک پڑھا ہے لیکن جو تم کہتے ہو اس میں نہیں پایا؟ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر تم نے (غور سے) قرآن پڑھا ہوتا تو اس میں ضرور پاتی، کیا تم نے پڑھا نہیں: ”جو حکم رسول تمہیں دیں اس پر عمل کرو اور جس سے تم کو منع کر دیں اس سے رک جاؤ......“(حشر: 7/59)، کہا: ہاں یہ تو پڑھا ہے، سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کیا ہے۔ اس خاتون نے کہا: میں دیکھتی ہوں کہ تمہاری گھر والی تو ایسا کرتی ہے، کہا: جاؤ دیکھ لو، چنانچہ وہ گھر میں داخل ہوئی اور اس نے غور سے دیکھا لیکن ایسی کوئی بات نہیں دیکھی۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میری بیوی ایسی خلاف ورزی کرتی تو میں اس سے جماع ہی نہ کرتا۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2682) یعنی میری بیوی اگر ایسا کام کرتی جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے تو میں اسے رکھتا ہی نہیں بلکہ طلاق دے کر بھگا دیتا۔ سبحان اللہ! صحابہ کرام سنّت کے کیسے شیدائی اور پیروکار تھے۔ (رضی اللہ عنہم وارضاہم)۔ اس حدیث سے بدن کو گودوانے، چہرے اور بھنوؤں کے بال اکھاڑنے، دانتوں میں کشادگی کروانے، اور اللہ کی بنائی ہوئی صورت و شکل کو بگاڑنے کی ممانعت اور ایسی عورت پر لعنت کی گئی ہے، جو ان کاموں کو کرائے۔ نیز معلوم ہوا کہ جس طرح قرآن پاک کی پیروی ضروری ہے اسی طرح حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی عمل ضروری ہے۔ صرف قرآن کریم پر ایمان و عمل کافی نہیں۔ اور جو قرآن و حدیث کی پیروی نہ کرے اس کے ساتھ رہن سہن بھی درست نہیں۔