(حديث مرفوع) حدثنا وهب بن جرير، حدثنا هشام، عن يحيى، عن ابي قلابة، عن ثابت بن الضحاك: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: "لعن المؤمن كقتله، ومن قتل نفسه بشيء في الدنيا، عذب به يوم القيامة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاكِ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: "لَعْنُ الْمُؤْمِنِ كَقَتْلِهِ، وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِشَيْءٍ فِي الدُّنْيَا، عُذِّبَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
سیدنا ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مؤمن پر لعنت کرنا قتل کے مترادف ہے اور جس شخص نے دنیا میں کسی چیز سے خودکشی کر لی اسے اسی چیز سے قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2406]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1363]، [مسلم 110]، [أبويعلي 1525]، [ابن حبان 4366]، [الحميدي 873]
(حديث مرفوع) حدثنا يعلى بن عبيد , حدثنا الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من قتل نفسه بحديدة فحديدته في يده يتوجا بها في بطنه في نار جهنم خالدا مخلدا فيها ابدا، ومن قتل نفسه بسم فسمه في يده يتحساه في نار جهنم خالدا مخلدا فيها ابدا، ومن تردى من جبل فقتل نفسه، فهو يتردى في نار جهنم خالدا مخلدا فيها ابدا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِحَدِيدَةٍ فَحَدِيدَتُهُ فِي يَدِهِ يَتَوَجَّأُ بِهَا فِي بَطْنِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا، وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِسَمٍّ فَسُمُّهُ فِي يَدِهِ يَتَحَسَّاهُ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا، وَمَنْ تَرَدَّى مِنْ جَبَلٍ فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَهُوَ يَتَرَدَّى فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے لوہے سے خودکشی کی اس کا وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا جس کو وہ اپنے پیٹ میں بھونکتا رہے گا، اور ہمیشہ جہنم کی آگ میں رہے گا، اور جو شخص زہر کھا کر خودکشی کرے تو اس کا وہ زہر اس کے ہاتھ میں ہوگا جس کو جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیش پیتا رہے گا، اور جو شخص پہاڑ سے گرا کر اپنے کو مار ڈالے وہ ہمیشہ گرا کرے گا جہنم کی آگ میں، صدا اس کا یہی حال رہے گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2407]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5778]، [مسلم 109]، [ترمذي 2043]، [ابن ماجه 3460]، [ابن حبان 5986]
وضاحت: (تشریح احادیث 2397 سے 2399) خودکشی کرنا کسی بھی صورت سے ہو بدترین جرم ہے، جس کی سزا حدیث ہٰذا میں بیان کی گئی ہے۔ کتنے مرد عورت دنیا کے جھگڑوں اور پریشانیوں سے گھبرا کر اس جرم کا ارتکاب کر ڈالتے ہیں، جو بہت بڑی غلطی اور اللہ کی رحمت سے مایوسی ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس سے بچائے، آمین۔ امام نووی رحمہ اللہ نے کہا: خودکشی کرنے والے کا ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہنا، اس بارے میں کئی قول ہیں: ایک یہ کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو خودکشی کو حلال جان کر ایسے کاموں سے اپنی جان دیوے وہ تو کافر ہے، وہ ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہے گا، دوسرے یہ کہ اگر خودکشی کرنے والا مسلمان ہے اور ذرہ برابر بھی اس کے دل میں ایمان ہے تو اس سے مراد بہت مدت تک جہنم میں رہنا ہے (اس کے بعد «مَنْ كَانَ فِيْ قَلْبِهِ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ مِنَ الْإِيْمَانِ» کی دلیل سے جہنم سے مدتِ مدید کے بعد نکال لیا جائے گا) اور یہ اللہ تعالیٰ کا کرم و احسان ہے جس کا خاتمہ اسلام پر ہو وہ ہمیشہ جہنم میں نہ رہے گا۔ (والله اعلم)۔
(حديث مرفوع) حدثنا معاذ بن هانئ، حدثنا محمد بن مسلم، حدثنا عمرو بن دينار، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: قتل رجل رجلا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم "فجعل النبي صلى الله عليه وسلم ديته اثني عشر الفا فذلك قوله: يحلفون بالله ما قالوا ولقد قالوا كلمة الكفر وكفروا بعد إسلامهم وهموا بما لم ينالوا وما نقموا إلا ان اغناهم الله ورسوله من فضله سورة التوبة آية 74 باخذهم الدية".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هَانِئٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قالَ: قَتَلَ رَجُلٌ رَجُلًا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دِيَتَهُ اثْنَيْ عَشَرَ أَلْفًا فَذَلِكَ قَوْلُهُ: يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ مَا قَالُوا وَلَقَدْ قَالُوا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُوا بَعْدَ إِسْلامِهِمْ وَهَمُّوا بِمَا لَمْ يَنَالُوا وَمَا نَقَمُوا إِلا أَنْ أَغْنَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ مِنْ فَضْلِهِ سورة التوبة آية 74 بِأَخْذِهِمُ الدِّيَةَ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص نے ایک آدمی کو مار ڈالا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دیت بارہ ہزار درہم مقرر کی، یہ اس لئے کہ آیتِ شریفہ میں ہے ترجمہ یعنی: یہ اللہ کی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ انہوں نے (8ہ) نہیں کہا حالانکہ کفر کا کلمہ یقیناً ان کی زبان سے نکل چکا ہے اور یہ اپنے اسلام کے بعد کافر ہو گئے ہیں اور انہوں نے اس کام کا قصد بھی کیا جو پورا نہ کر سکے اور وہ کافر غصہ نہیں ہوئے مگر اس بات سے کہ اللہ اور رسول نے ان کو مال دار کر دیا اپنے فضل سے (التوبه: 74/9) یعنی دیت لے کر۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 2408]» اس حدیث کی سند میں بہت کلام ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4546]، [ترمذي1388]، [نسائي 4807]، [ابن ماجه 2629]۔ نیز دیکھئے: [المحلی لابن حزم 393/10]
وضاحت: (تشریح حدیث 2399) اس حدیث اور آیت کا پس منظر یہ ہے: ایک شخص تھا جو اس سے پہلے منافق تھا، اس کا مولی مارا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیت دلائی تو وہ مال دار ہو گیا، پھر اس نے نفاق سے توبہ کی اور سچا مومن ہوا، تب منافق اس پر غصہ ہوئے، اس پر یہ آیت: « ﴿يَحْلِفُونَ بِاللّٰهِ .....﴾ » نازل ہوئی۔ اس حدیث میں بارہ ہزار سے مراد بارہ ہزار درہم (چاندی کے سکے) ہیں اور ان کا وزن چوالیس کلوگرام ہوتا ہے۔ دیت میں اصلاً تو سو اونٹ ہیں جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے، اگر کسی کے پاس اونٹ نہ ہوں تو دیت نقدی کی صورت میں بھی دی جا سکتی ہے، وہ مروجہ سکہ خواہ دینار یا درہم، کاغذی کرنسی، سو اونٹ ہیں۔ یہ حدیث صحیح ہے، نیز ابوداؤد میں مسند او مرسلاً سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ والے پر دیت مقرر کی سو اونٹ، اور گائے والوں پر سو گائے، اور بکری والوں پر دو ہزار بکریاں، اور کپڑے والوں پر دو سو جوڑے ......۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جب خلیفہ ہوئے تو انہوں نے سونے والے پر ہزار دینار دیت مقرر کی، اور چاندی والوں پر ہزار درہم ......۔ اور مؤطا میں ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سونے والوں پر ہزار دینار، چاندی والوں پر بارہ ہزار درہم مقرر کئے، موجودہ دور میں سعودی عرب کے قوانین میں ایک آدمی کی دیت ایک لاکھ بیس ہزار سعودی ریال ہے جو تقریباً سو اونٹ کے مساوی ہے، اور یہی صحیح ہے، (واللہ اعلم)۔
سیدنا عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ یمن کو لکھا: ”سونے والوں پر دیت ایک ہزار دینار ہے۔“(یعنی جن کے پاس سونا ہو)
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 2409]» اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ابن حبان 6559]، [موارد الظمآن 793]۔ نیز دیکھئے: [نيل الأوطار 162/7، 164]
(حديث مرفوع) اخبرنا الحكم بن موسى، حدثنا يحيى بن حمزة، عن سليمان بن داود، قال: حدثني الزهري، عن ابي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم، عن ابيه، عن جده: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كتب إلى اهل اليمن: "بسم الله الرحمن الرحيم: من محمد النبي صلى الله عليه وسلم إلى شرحبيل بن عبد كلال، والحارث بن عبد كلال، ونعيم بن عبد كلال قيل ذي رعين ومعافر، وهمدان فكان في كتابه: وإن في النفس الدية: مائة من الإبل".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إِلَى أَهْلِ الْيَمَنِ: "بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ: مِنْ مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى شُرَحْبِيلَ بْنِ عَبْدِ كُلَالٍ، وَالْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ كُلَالٍ، وَنُعَيْمِ بْنِ عَبْدِ كُلَالٍ قِيَلِ ذِي رُعَيْنٍ وَمُعَافِرَ، وَهَمَدَانَ فَكَانَ فِي كِتَابِهِ: وَإِنَّ فِي النَّفْسِ الدِّيَةَ: مِائَةٌ مِنَ الْإِبِلِ".
سیدنا عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ یمن کو جو مکتوب بھیجا اس میں لکھا تھا کہ: ”بسم الله الرحمٰن الرحیم، یہ خط ہے محمد اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے شرحبیل بن عبدکلال، حارث بن عبدکلال، نعیم بن عبدکلال، قیل ذی رعین و معافر اور ہمدان کے لئے کہ ایک جان کے قتل کی دیت سو اونٹ ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 2410]» اس روایت کی سند ضعیف ہے لیکن ابوداؤد میں اس کا صحیح شاہد موجود ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4541]، [ابن ماجه 2630]، [ابن حبان 6011]، [الموارد 1526]
وضاحت: (تشریح احادیث 2400 سے 2402) اس حدیث سے حدیث کی کتابت کا ثبوت ملا، خط کے شروع میں بسم اللہ لکھنا بھی سنّت ہے، (786) لکھنا جائز نہیں۔ نیز یہ کہ قتل کی دیت سو اونٹ ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا الحكم بن موسى، حدثنا يحيى بن حمزة، عن سليمان بن داود، حدثني الزهري، عن ابي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم، عن ابيه، عن جده: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كتب إلى اهل اليمن، وكان في كتابه: "وفي الانف إذا اوعب جدعه الدية، وفي اللسان الدية، وفي الشفتين الدية، وفي البيضتين الدية، وفي الذكر الدية، وفي الصلب الدية، وفي العينين الدية، وفي الرجل الواحدة نصف الدية، وفي المامومة ثلث الدية، وفي الجائفة ثلث الدية، وفي المنقلة خمس عشرة من الإبل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ، حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إِلَى أَهْلِ الْيَمَنِ، وَكَانَ فِي كِتَابِهِ: "وَفِي الْأَنْفِ إِذَا أُوعِبَ جَدْعُهُ الدِّيَةُ، وَفِي اللِّسَانِ الدِّيَةُ، وَفِي الشَّفَتَيْنِ الدِّيَةُ، وَفِي الْبَيْضَتَيْنِ الدِّيَةُ، وَفِي الذَّكَرِ الدِّيَةُ، وَفِي الصُّلْبِ الدِّيَةُ، وَفِي الْعَيْنَيْنِ الدِّيَةُ، وَفِي الرِّجْلِ الْوَاحِدَةِ نِصْفُ الدِّيَةِ، وَفِي الْمَأْمُومَةِ ثُلُثُ الدِّيَةِ، وَفِي الْجَائِفَةِ ثُلُثُ الدِّيَةِ، وَفِي الْمُنَقِّلَةِ خَمْسَ عَشَرَةَ مِنَ الْإِبِلِ".
ابوبکر بن عمرو بن حزم نے اپنے باپ کے حوالے سے اپنے دادا (سیدنا عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ یمن کو لکھا جس میں تحریر تھا: ”اور ناک میں پوری دیت ہے جب کہ اسے جڑ سے کاٹ دے، اور زبان، ہونٹ، خصیتین، ذکر (عضو مخصوص) میں پوری دیت اور پشت، دونوں آنکھوں میں بھی پوری دیت ہے، ایک پیر کی آدھی دیت ہے، دماغ کے زخم اور پیٹ کے زخم میں ایک تہائی دیت ہے، اور وہ زخم جس سے ہڈی ٹوٹ جائے اس میں پندرہ اونٹ کی دیت ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 2411]» اس روایت کی سند ضعیف ہے لیکن کئی طرق سے مروی ہے۔ دیکھئے: [ابن حبان 6559]، [موارد الظمآن 793]
وضاحت: (تشریح حدیث 2402) ابوداؤد وغیرہ میں ہے: اور ہاتھ پاؤں کی ہر انگلی کے عوض دس اونٹ کی دیت ہے، دانت کی دیت پانچ اونٹ، اور ایسے زخم جن سے ہڈی نظر آنے لگے اس میں پانچ اونٹ دیت ہے، اور آدمی کو عورت کے بدلے قتل کیا جائے، اور سونے والے ایک ہزار دینار دیت دیں۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل خطا کی دیت پانچ قسم میں قرار دی۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف حجاج وهو: ابن أرطأة، [مكتبه الشامله نمبر: 2412]» حجاج بن ارطاة کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے، اور زید بن جبیر میں بھی علماء نے کلام کیا ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4545]، [ترمذي 1386]، [نسائي فى الكبريٰ 7005]، [ابن ماجه 2631]، [أحمد 450/1]، [دارقطني 173/3]۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: [نيل الأوطار 237/7]
وضاحت: (تشریح حدیث 2403) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث دیت میں ادا کئے جانے والے اونٹوں کی عمر کے تعین میں اصل ہے، اور ائمہ اربعہ نے ضعف کے باوجود اس کو لیا ہے، اور انہوں نے کہا ہے: کسی قتلِ خطا کی دیت پانچ طرح سے وصول کی جائے گی، واضح رہے کہ قتل کی تین قسمیں ہیں: (1) قتلِ عمد، (2) شبہ العمد، (3) قتلِ خطا۔ قتلِ عمد یہ ہے کہ کوئی عاقل و بالغ مکلّف آدمی کسی بھی آلۂ قتل (چھری، تلوار، بندوق وغیرہ) سے کسی معصوم الدم آدمی کو قتل کرے، اس میں قصاص ہے۔ شبہ العمد یہ ہے کہ کوئی مذکورہ بالا صفات کا آدمی کسی کو ایسی چیز سے مارے جس سے عموماً موت واقع نہ ہوتی ہو، جیسے لاٹھی، چھری، پتھر، کوڑا وغیرہ، اس میں دیت واجب ہے۔ قتلِ خطا یہ ہے کہ کوئی انسان شکار کے لئے تیر یا گولی چلائے اور وہ کسی معصوم الدم آدمی کو لگ جائے اور اس کی موت ہو جائے، اس صورت میں بھی دیت واجب ہے۔ اس کی تفصیل آیتِ کریمہ: « ﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَنْ يَقْتُلَ ......﴾[النساء: 92] » میں ملاحظہ فرمائیں۔ «أَخْمَاسًا» کا مطلب ہے: یعنی پانچ قسم کے اونٹ دیت میں دینے قرار دیئے، جیسا کہ سنن اربعہ میں ہے: بیس اونٹ تین سال کے، بیس اونٹ چار سال کے، بیس اونٹ دو سال کے، بیس اونٹنی جن کی عمر ایک سال، اور بیس اونٹ نر جن کی عمر ایک سال ہو۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف حجاج وهو: ابن أرطأة
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يزيد الرفاعي، حدثنا معاذ بن هشام، عن ابيه، عن قتادة، عن ابي نضرة، عن عمران بن حصين: "ان عبدا لاناس فقراء، قطع يد غلام لاناس اغنياء. فاتى اهله النبي صلى الله عليه وسلم، فقالوا: يا رسول الله، إنه لاناس فقراء؟ فلم يجعل عليه النبي صلى الله عليه وسلم شيئا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الرِّفَاعِيُّ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ: "أَنَّ عَبْدًا لِأُنَاسٍ فُقَرَاءَ، قَطَعَ يَدَ غُلَامٍ لِأُنَاسٍ أَغْنِيَاءَ. فَأَتَى أَهْلُهُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ لِأُنَاسٍ فُقَرَاءَ؟ فَلَمْ يَجْعَلْ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا".
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فقیروں کے غلام نے مالداروں کے غلام کا ہاتھ کاٹ ڈالا، اس کے مالک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، لوگوں نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ غلام فقیروں کا ہے (یعنی جو دیت ادا نہیں کر سکتے) اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر کچھ بھی (دیت) مقرر نہ کی۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل محمد بن يزيد الرفاعي وأبو نضرة هو: المنذر بن مالك بن قطة، [مكتبه الشامله نمبر: 2413]» اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4590]، [نسائي 4765]، [البيهقي 105/8]، [الطبراني 512، 208/18 باسناد صحيح]
وضاحت: (تشریح حدیث 2404) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جانی اگر غیرمستطیع ہو تو اس سے دیت معاف کر دی جائے گی، اور بیت المال سے دیت ادا کرنی ہوگی۔ ابوداؤد وغیرہ میں غلام نہیں بلکہ عام لڑکے کا ذکر ہے جس کا کان کاٹ دیا تھا۔ المنتقی میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے دادا نے کہا کہ عاقلہ یعنی (دیت ادا کرنے والے) فقیر ہوں تو ان پر ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے اور اس صورت میں قاتل سے بھی مواخذہ نہیں ہوگا۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل محمد بن يزيد الرفاعي وأبو نضرة هو: المنذر بن مالك بن قطة
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انگلیاں سب برابر ہیں۔“ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: (ہر انگلی پر) دس ہیں۔ فرمایا: ”ہاں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده جيد مسروق بن أوس، [مكتبه الشامله نمبر: 2414]» اس روایت کی سند جید قابلِ احتجاج ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4557]، [نسائي 4860]، [ابن ماجه 2654]، [أبويعلی 7334]، [ابن حبان 6013]، [الموارد 1527]
وضاحت: (تشریح حدیث 2405) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہاتھ اور پیر کی سب انگلیوں کی دیت دس دس اونٹ ہے، ہر انگلی پر دیت کا دسواں حصہ، اگر کوئی کسی کی دسوں انگلیاں کاٹ دے تو پوری دیت لازم ہوگی۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے کہ ہاتھ کی انگلیاں اور پاؤں کی انگلیاں سب برابر ہیں، اور ہر انگلی میں دس اونٹ ہیں، جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد مسروق بن أوس
(حديث مرفوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا شعبة، عن قتادة، عن عكرمة، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "هذا وهذا سواء , وقال: بخنصره وإبهامه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "هَذَا وَهَذَا سَوَاء , وَقَالَ: بِخِنْصِرِهِ وَإِبْهَامِهِ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اور یہ (سب) برابر ہیں“ اور چھنگلیا اور انگوٹھے کی طرف اشارہ کیا۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2406) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چھوٹی انگلیاں، چھنگلیا اور انگوٹھا دیت میں سب برابر ہیں، حالانکہ انگوٹھے میں دو ہی جوڑ ہوتے ہیں، اور بڑی انگلیوں کے مقابلہ میں چھنگلیا چھوٹی ہوتی ہے، اور انگوٹھا چھنگلی کے مقابلے میں زیادہ سود مند ہوتا ہے، لیکن دیت دس اونٹ ہی ہونگے۔