سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
نماز کے مسائل
حدیث نمبر: 1536
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن صالح، حدثني الليث، حدثني يونس، عن ابن شهاب، اخبرني ابن المسيب، وابو سلمة بن عبد الرحمن، وابو بكر بن عبد الرحمن، وعبيد الله بن عبد الله، ان ابا هريرة قال: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الظهر او العصر، فسلم في ركعتين من إحداهما، فقال له ذو الشمالين بن عبد عمرو بن نضلة الخزاعي، وهو حليف بني زهرة: اقصرت ام نسيت يا رسول الله؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"لم انس، ولم تقصر". فقال ذو الشمالين: قد كان بعض ذلك يا رسول الله، فاقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم على الناس فقال:"اصدق ذو اليدين؟"قالوا: نعم يا رسول الله، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم "فاتم الصلاة، ولم يحدثني احد منهم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم سجد سجدتين وهو جالس في تلك الصلاة"، وذلك فيما نرى والله اعلم من اجل ان الناس يقنوا رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى استيقن.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ الْمُسَيَّبِ، وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الظُّهْرِ أَوْ الْعَصْرِ، فَسَلَّمَ فِي رَكْعَتَيْنِ مِنْ إِحْدَاهُمَا، فَقَالَ لَهُ ذُو الشِّمَالَيْنِ بْنُ عَبْدِ عَمْرِو بْنِ نَضْلَةَ الْخُزَاعِيُّ، وَهُوَ حَلِيفُ بَنِي زُهْرَةَ: أَقُصِرَتْ أَمْ نَسِيتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"لَمْ أَنْسَ، وَلَمْ تُقْصَرْ". فَقَالَ ذُو الشِّمَالَيْنِ: قَدْ كَانَ بَعْضُ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى النَّاسِ فَقَالَ:"أَصَدَقَ ذُو الْيَدَيْنِ؟"قَالُوا: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "فَأَتَمَّ الصَّلَاةَ، وَلَمْ يُحَدِّثْنِي أَحَدٌ مِنْهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ فِي تِلْكَ الصَّلَاةِ"، وَذَلِكَ فِيمَا نُرَى وَاللَّهُ أَعْلَمُ مِنْ أَجْلِ أَنَّ النَّاسَ يَقَّنُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى اسْتَيْقَنَ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر یا عصر کی نماز پڑھی اور ان میں سے کسی ایک نماز میں دو رکعت پر سلام پھیر دیا تو ذوالشمالین بن عبد بن عمرو بن نضلۃ خزاعی جو کہ بنوزہرہ کے حلیف تھے، نے کہا: اے اللہ کے رسول! نماز کم ہو گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز کم ہوئی ہے۔ ذوالشمالین نے عرض کیا: کچھ تو ہے اے اللہ کے رسول، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: کیا ذوالیدین صحیح کہتے ہیں؟ عرض کیا: جی ہاں، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور نماز پوری کی، اور کسی راوی نے مجھے نہیں بتایا کہ اسی حالت میں بیٹھے ہوئے اس نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سجدے کئے (یہ ان کے خیال میں واللہ اعلم) اس لئے کہ لوگوں نے آپ کو یقین دلایا اور آپ نے یقین کر لیا کہ نماز میں کمی رہ گئی (اور صرف دو رکعت پڑھی) ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف من أجل عبد الله بن صالح كاتب الليث، [مكتبه الشامله نمبر: 1538]»
اس حدیث کا حوالہ اوپر گذر چکا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف من أجل عبد الله بن صالح كاتب الليث
حدیث نمبر: 1537
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا سعيد بن عامر، عن شعبة، عن الحكم، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه "صلى الظهر خمسا، فقيل له فسجد سجدتين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ "صَلَّى الظُّهْرَ خَمْسًا، فَقِيلَ لَهُ فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی پانچ رکعت نماز پڑھی، آپ کو جب آگاه کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سجدے (سہو کے) کر لئے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1539]»
اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 404]، [مسلم 572]، [أبوداؤد 1019]، [ترمذي 392]، [نسائي 1253، 1254]، [ابن ماجه 1205]، [أبويعلی 5002]، [ابن حبان 2656]، [مسند الحميدي 96]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1535 سے 1537)
مذکورہ بالا تینوں احادیث سے ثابت ہوا کہ نبیوں سے بھی بھول چوک ہو سکتی ہے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز میں اگر اس گمان پر کہ نماز پوری ہو چکی ہے کوئی بات کر لے تو نماز کا نئے سرے سے لوٹانا واجب نہیں ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نہ نئے سرے سے نماز کو لوٹایا اور نہ لوگوں کو نماز لوٹانے کا حکم دیا۔
نیز سجدۂ سہو بھی ان احادیث سے ثابت ہوا، اب یہ کہ سلام پھیرنے سے پہلے سجدۂ سہو کرنا چاہئے یا سلام کے بعد، تو اس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔
یہ حدیث ذواليدین یا ذوالشمالین سے مشہور ہے جن کا نام خرباق تھا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
175. باب إِذَا كَانَ في الصَّلاَةِ نُقْصَانٌ:
175. نماز میں اگر کمی رہ جائے تو کیا کرنا چاہئے
حدیث نمبر: 1538
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن عبد المجيد، حدثنا مالك، عن ابن شهاب، عن عبد الرحمن بن هرمز الاعرج، عن ابن بحينة، قال:"صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتين ثم قام ولم يجلس، وقام الناس، فلما قضى الصلاة، نظرنا تسليمه فكبر، فسجد سجدتين وهو جالس قبل ان يسلم، ثم سلم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ الْأَعْرَجِ، عَنْ ابْنِ بُحَيْنَةَ، قَالَ:"صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ قَامَ وَلَمْ يَجْلِسْ، وَقَامَ النَّاسُ، فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ، نَظَرْنَا تَسْلِيمَهُ فَكَبَّرَ، فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ، ثُمَّ سَلَّمَ".
سیدنا عبدالله بن مالک ابن بحینہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہمیں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھائی اور کھڑے ہو گئے اور بیٹھے نہیں (یعنی تشہد نہیں کیا) اور مقتدی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہو گئے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پوری کر لی تو ہم سلام پھیرنے کے انتظار میں تھے کہ آپ نے تکبیر کہی اور سلام پھیرنے سے پہلے بیٹھے بیٹھے دو سجدے کئے پر سلام پھیرا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1540]»
یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 829، 830]، [مسلم 570]، [أبوداؤد 1034]، [أبويعلی 2639]، [ابن حبان 1938]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1539
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن الفضل، حدثنا حماد بن سلمة، عن يحيى بن سعيد، عن عبد الرحمن الاعرج، عن مالك ابن بحينة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم"قام في الركعتين من الظهر او العصر، فلم يرجع حتى فرغ من صلاته ثم سجد سجدتي الوهم، ثم سلم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ مَالِكِ ابْنِ بُحَيْنَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"قَامَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ مِنْ الظُّهْرِ أَوْ الْعَصْرِ، فَلَمْ يَرْجِعْ حَتَّى فَرَغَ مِنْ صَلَاتِهِ ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْ الْوَهْمِ، ثُمَّ سَلَّمَ".
سیدنا مالک ابن بحینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر یا عصر کی نماز میں دو رکعت پر کھڑے ہو گئے اور پھر تشہد کے لئے لوٹے نہیں، یہاں تک کہ اپنی نماز سے فارغ ہو گئے، پھر دو سجدے کئے پھر سلام پھیرا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1541]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 830، 1224]، [مسلم 87، 570]، [أبوداؤد 1034]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1540
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، عن المسعودي، عن زياد بن علاقة، قال: صلى بنا المغيرة بن شعبة، فلما صلى ركعتين، قام ولم يجلس، فسبح به من خلفه، فاشار إليهم: ان قوموا، فلما فرغ من صلاته، "سلم وسجد سجدتي السهو وسلم وقال: هكذا صنع بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم". قال يزيد: يصححونه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ الْمَسْعُودِيِّ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ، قَالَ: صَلَّى بِنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ، فَلَمَّا صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، قَامَ وَلَمْ يَجْلِسْ، فَسَبَّحَ بِهِ مَنْ خَلْفَهُ، فَأَشَارَ إِلَيْهِمْ: أَنْ قُومُوا، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ صَلَاتِهِ، "سَلَّمَ وَسَجَدَ سَجْدَتَيْ السَّهْوِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: هَكَذَا صَنَعَ بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ". قَالَ يَزِيدُ: يُصَحِّحُونَهُ.
زیاد بن علاقہ نے کہا: سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں نماز پڑھائی تو دو رکعت پر بیٹھے نہیں کھڑے ہو گئے، نمازیوں نے سبحان اللہ کہا لیکن انہوں نے اشارہ کیا کہ وہ بھی کھڑے ہو جائیں، پھر جب نماز پوری کر لی تو سلام پھیرا اور دو سجدے کئے اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی ہمارے ساتھ کیا تھا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف يزيد بن هارون متأخر السماع من عبد الرحمن بن عبد الله بن عتبة المسعودي، [مكتبه الشامله نمبر: 1542]»
اس روایت کی سند میں کلام ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1036، 1037]، [ترمذي 365]، [أحمد 247/4، 253] و [عبدالرزاق 3483]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1537 سے 1540)
سہو کے معنی بھول چوک کے ہیں اور نماز میں جو بھول چوک ہو جائے تو نماز کے آخر میں سلام سے پہلے دو سجدے کرنے کو سجود السہو کہتے ہیں، امام دارمی رحمہ اللہ نے پچھلے تین ابواب میں تین قسم کی بھول چوک کے بارے میں احادیثِ صحیحہ ذکر کی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ نماز میں خواہ وہ فرض ہو یا نفل، امام ہو یا منفرد کمی، زیادتی، یا شک کی وجہ سے سجدۂ سہو کرنا واجب ہے، جب ان امورِ ثلاثہ میں سے کوئی ایک چیز پائی جائے۔
اب یہ سجدۂ سہو تسلیم سے پہلے ہے یا بعد میں، سو علماء کا اس میں اختلاف ہے۔
بعض نے کہا: سلام کے بعد سجدۂ سہو کر لے، اور بعض علماء نے ہر صورت میں سلام سے پہلے سجدۂ سہو کے لئے کہا، اور بہت سارے صحابہ، تابعین اور ائمہ کا یہی مسلک ہے۔
امام زہری رحمہ اللہ نے فرمایا: «آخر الأمرين السجود قبل السلام»، اور امام احمد رحمہ اللہ وغیرہم کا مسلک یہ ہے کہ جیسے جیسے احادیث میں وارد ہے ویسے ہی سجدۂ سہو کرے، اور اس کی تین صورتیں ہیں «حسب ما ذكره الامام الدارمي» ۔
1- پہلی صورت یہ ہے کہ نماز کی رکعتوں میں امام کو شک ہو جائے تین ہیں یا چار تو اقل پر یقین کرتے ہوئے ایک رکعت مغرب کی اور دو رکعت ظہر یا عصر کی اور پڑھے، اور سلام پھیرنے سے پہلے سجدۂ سہو کر لے جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے واضح ہوتا ہے، حدیث رقم (1540)۔
2- دوسری صورت نماز میں زیادتی کی ہے، یعنی رکعت سجدہ یا کوئی اور رکن بھول کر زیادہ ہو جائے تو نمازی اس غلطی کو دور کرنے کے لئے دو سجدے کر لے اور پھر سلام پھیرے۔
اور اگر نماز میں کچھ زیادتی ہوئی ہے اور نماز سے فراغت کے بعد بتایا گیا کہ رکعت، رکوع یا سجدہ زیادہ ہو گیا تو ایسی صورت میں فوراً سجدۂ سہو کر کے سلام پھیرے۔
3- تیسری صورت کمی کی ہے، اور اس کی دو حالتیں ہیں، اگر رکن نماز کا چھوٹ گیا تو تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ وہ رکن پھر سے ادا کرنا ہوگا اور بعد کی ساری نماز باطل ہوگی۔
مثلاً اگر بھول کر تکبیرِ تحریمہ نہیں کہی تو نماز باطل ہے، اگر نماز کے دیگر ارکان رکوع، سجده، قیام، وغیرہ رہ جائے تو اسے پورا کرنا ہوگا، جیسے چوتھی رکعت میں صرف ایک سجدہ کیا اور تشہد کے بعد سلام پھیر دیا اور تسلیم کے بعد بتایا گیا کہ آخری رکعت میں صرف ایک سجدہ ہوا ہے تو پہلے سجدہ کر لے پھر تشہد پڑھے اور پھر سجدۂ سہو کرے پھر سلام پھیرے۔
اور اگر یہ کمی نماز کے واجبات میں ہوئی ہے تو صرف سجدۂ سہو کافی ہے، جیسے کہ تشہدِ اوّل میں بھول کر نمازی کھڑا ہو جائے، اگر پوری طرح سے کھڑا نہیں ہوا تو سبحان اللہ کہنے پر تشہد کے لئے لوٹنا لازم ہے اور سجدۂ سہو کرے، اگر سیدھا کھڑا ہوگیا ہو تو نماز پوری کر لے اور سلام سے پہلے سجدۂ سہو کر لے اور پھر سلام پھیرے۔
یہ سجدۂ سہو کی چند حالتیں ہیں اس کی کامل معرفت کے لئے نماز کے ارکان اور واجبات کو جاننا بے حد ضروری ہے، اور تفصیل کے لئے نیل الاوطار اور المغنیٰ وغیرہ کا مراجعہ اشد ضروری ہے، قاری کی آسانی کے لئے نماز کے ارکان و واجبات یہاں درج کئے جاتے ہیں کیونکہ راقم کی نظر میں یہ مسئلہ بہت ہی اہم ہے اور نماز میں بھول چوک ہو جانے پر نماز کی صحت کا دارو مدار اسی پر ہے۔
ایک اور تنبیہ بے حد ضروری ہے کہ نماز میں اگر کوئی کمی رہ گئی ہو اور فصل زیادہ ہو جائے یعنی مسجد سے لوگ نکل جائیں اور وضو بھی ٹوٹ جائے تو ایسی صورت میں وہ پوری نماز لوٹانی پڑے گی، اس کی تکمیل اور سجدۂ سہو کافی نہیں ہوگا۔
ارکان صلاة چوده ہیں:
(1) قدرت ہو تو کھڑے ہونا، (2) تکبیرِ تحریمہ، (3) سورۂ فاتحہ کا پڑھنا، (4) رکوع، (5) قومہ میں ٹھیک سے کھڑا ہونا، (6) سجدہ سات اعضاء پر کرنا، (7) سجدے سے سر اٹھانا، (8) دونوں سجدوں کے درمیان اطمینان سے بیٹھنا، (9) تمام افعال میں اطمینان کا ہونا، (10) ترتیب کا ہونا، (11) آخری تشہد، (12) تشہد کے لئے بیٹھنا، (13) تشہد میں پڑھنا، (14) دونوں جانب سلام پھیرنا۔
واجبات صلاة آٹھ ہیں:
(1) تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ تمام تکبیرات، (2) امام اور منفرد کا «سمع اللّٰه لمن حمده» کہنا، (3) سب کا «ربنا لك الحمد» کہنا، (4) رکوع میں «سبحان ربي العظيم» کہنا، (5) سجدے میں «سبحان ربي الأعلى» کہنا، (6) دونوں سجدوں کے درمیان «رب اغفر لي» کہنا، (7) تشہدِ اوّل میں التحیات کہنا، (8) تشہدِ اوّل کے لئے بیٹھنا۔
مختصر یہ کہ اگر ارکانِ نماز میں سے کوئی رکن چھوٹا ہو تو وہ رکن ادا کرنا اور سجدۂ سہو لازم ہے، اور اگر واجبات میں سے کوئی واجب رہ جائے تو صرف سجدۂ سہو کافی ہوگا۔
واللہ اعلم۔
تفصیل کے لئے دیکھئے: [المغنىٰ 644/1]، [بداية المجتهد 239/1]، [نيل الأوطار 130/3] ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف يزيد بن هارون متأخر السماع من عبد الرحمن بن عبد الله بن عتبة المسعودي
176. باب النَّهْيِ عَنِ الْكَلاَمِ في الصَّلاَةِ:
176. نماز میں بات کرنے کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 1541
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو المغيرة، حدثنا الاوزاعي، عن يحيى، عن هلال بن ابي ميمونة، عن عطاء بن يسار، عن معاوية بن الحكم السلمي، قال: بينا انا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في الصلاة، إذ عطس رجل من القوم، فقلت: يرحمك الله، قال: فحدقني القوم بابصارهم، فقلت: واثكلاه! ما لكم تنظرون إلي؟ قال: فضرب القوم بايديهم على افخاذهم، فلما رايتهم يسكتونني قلت: ما لكم تسكتونني؟ لكني سكت. قال: فلما انصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم فبابي هو وامي، ما رايت معلما قبله ولا بعده احسن تعليما منه، والله ما ضربني، ولا كهرني، ولا سبني، ولكن قال:"إن صلاتنا هذه لا يصلح فيها شيء من كلام الناس، إنما هي التسبيح والتكبير وتلاوة القرآن".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السُّلَمِيِّ، قَالَ: بَيْنَا أَنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ، إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ، فَقُلْتُ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ، قَالَ: فَحَدَّقَنِي الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ، فَقُلْتُ: وَاثُكْلَاهُ! مَا لَكُمْ تَنْظُرُونَ إِلَيَّ؟ قَالَ: فَضَرَبَ الْقَوْمُ بِأَيْدِيهِمْ عَلَى أَفْخَاذِهِمْ، فَلَمَّا رَأَيْتُهُمْ يُسْكِتُونَنِي قُلْتُ: مَا لَكُمْ تُسْكِتُونَنِي؟ لَكِنِّي سَكَتُّ. قَالَ: فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبِأَبِي هُوَ وَأُمِّي، مَا رَأَيْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ أَحْسَنَ تَعْلِيمًا مِنْهُ، وَاللَّهِ مَا ضَرَبَنِي، وَلَا كَهَرَنِي، وَلَا سَبَّنِي، وَلَكِنْ قَالَ:"إِنَّ صَلَاتَنَا هَذِهِ لَا يَصْلُحُ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ كَلَامِ النَّاسِ، إِنَّمَا هِيَ التَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَتِلَاوَةُ الْقُرْآنِ".
سیدنا معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ دفعتاً ایک شخص نے چھینک دیا تو میں نے «يرحمك الله» کہہ دیا، اب لوگ مجھے گھورنے لگے، میں نے کہا: (گھبرا کر اپنے لئے بدعا کی)، تجھے تیری ماں روئے، کیا ہے تم لوگ مجھے گھور رہے ہو، میں نے یہ کہا تو لوگ اپنی رانوں پر ہاتھ مار کر چپ کرنے لگے، جب میں نے یہ دیکھا کہ وہ مجھے خاموش کرنا چاہتے ہیں تو کہا کہ مجھے کیوں خاموش کر رہے ہو، پھر میں چپ ہو گیا، اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے، تو میرے ماں باپ آپ پر قربان، میں نے آپ سے پہلے یا آپ کے بعد کوئی ایسا معلم نہیں دیکھا جو آپ سے بہتر تعلیم دے، قسم اللہ کی نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مارا، نہ ڈانٹا، نہ برا کہا، صرف یہ کہا کہ ہماری یہ جو نماز ہے اس میں بات کرنا درست نہیں، وہ تو صرف تسبیح تکبیر اور تلاوت کا نام ہے۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1543]»
یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 537]، [أبوداؤد 930]، [نسائي 1217]، [شرح السنة 726، وغيرهم]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
حدیث نمبر: 1542
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا صدقة، انبانا ابن علية، ويحيى بن سعيد , عن حجاج الصواف، عن يحيى، عن هلال، عن عطاء، عن معاوية، بنحوه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا صَدَقَةُ، أَنْبأَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ هِلَالٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ، بِنَحْوِهِ.
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث کی طرح مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1544]»
تخریج اوپر گذر چکی ہے۔ نیز دیکھئے: [مسند أحمد 447/5]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1540 سے 1542)
شروع اسلام میں نمازی حالتِ نماز میں بات چیت کر لیا کرتے تھے لیکن جب یہ آیت شریفہ: « ﴿وَقُومُوا لِلّٰهِ قَانِتِينَ﴾ » نازل ہوئی تو بات چیت کرنے سے روک دیا گیا۔
اب جو کوئی کلمہ جو نماز میں نہ ہو، خارج از صلاة ہو، تو ایسی بات کہنے سے نماز باطل ہو جائے گی، بعض علماء نے کہا کہ نمازی چھینک آنے پر اگر الحمد للہ کہے تو جائز ہے کیونکہ یہ تحمید اور نماز میں سے ہے، لیکن یرحمک اللہ نہ کہے کیونکہ چھینک والے کے لئے دعا ہے جو نماز سے خارج ہے، اس لئے یرحمک اللہ کہنے سے نماز باطل ہو جائے گی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز میں صرف تسبیح، تکبیر اور تلاوتِ کلام ہے اور اسی کا نام نماز ہے۔

اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حسنِ اخلاق و طریقِ تعلیم اور حلم و بردباری ثابت ہوتی ہے «(فداه أبى و أمي عليه الصلاة والسلام)» ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
177. باب قَتْلِ الْحَيَّةِ وَالْعَقْرَبِ في الصَّلاَةِ:
177. نماز میں سانپ بچھو مار ڈالنے کا بیان
حدیث نمبر: 1543
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، انبانا هشام، عن يحيى، عن ضمضم، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم "امر بقتل الاسودين في الصلاة". قال يحيى: والاسودين: الحية والعقرب.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبأَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ ضَمْضَمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "أَمَرَ بِقَتْلِ الْأَسْوَدَيْنِ فِي الصَّلَاةِ". قَالَ يَحْيَى: وَالْأَسْوَدَيْنِ: الْحَيَّةُ وَالْعَقْرَبُ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں دو کالی چیزوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا، راوی الحدیث یحییٰ بن سعید نے کہا: «أسودان» سے مراد: سانپ اور بچھو ہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1545]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 921]، [ترمذي 390]، [نسائي 1201]، [ابن ماجه 1245]، [ابن حبان 2351]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1542)
دو کالوں کو نماز میں بھی مار ڈالنے کا حکم اس لئے دیا کہ کالا سانپ اور کالا بچھو زیا دہ زہر والا ہوتا ہے۔
ان کا مارنا بہت ضروری ہے ورنہ ایذا پہنچائے گا، اس لئے قتل الموذی قبل الايذاء، نیز یہ کہ سانپ اور بچھو کے مارنے سے نماز نہیں ٹوٹتی بشرطیکہ اور کوئی فعل ایسا نہ کرے جو نماز کو باطل کردے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
178. باب قَصْرِ الصَّلاَةِ في السَّفَرِ:
178. سفر میں قصر نماز پڑھنے کا بیان
حدیث نمبر: 1544
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو عاصم، عن ابن جريج، عن ابن ابي عمار، عن عبد الله بن بابيه، عن يعلى بن امية قال: قلت لعمر بن الخطاب: قال الله تعالى: فليس عليكم جناح ان تقصروا من الصلاة إن خفتم سورة النساء آية 101، فقد امن الناس. قال: عجبت مما عجبت منه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "صدقة تصدق الله بها عليكم، فاقبلوها".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي عَمَّارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَابَيْهِ، عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ قَالَ: قُلْتُ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ: قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ إِنْ خِفْتُمْ سورة النساء آية 101، فَقَدْ أَمِنَ النَّاسُ. قَالَ: عَجِبْتُ مِمَّا عَجِبْتَ مِنْهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "صَدَقَةٌ تَصَدَّقَ اللَّهُ بِهَا عَلَيْكُمْ، فَاقْبَلُوهَا".
یعلی بن امیہ نے کہا: میں نے سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ الله تعالیٰ نے فرمایا ہے: «أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ ...» [نساء: 101/4] یعنی اگر تمہیں کافروں کے ستانے کا ڈر ہو تو کوئی حرج نہیں کہ تم نماز قصر پڑھو۔ اب تو امن قائم ہو گیا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے اس پر تعجب ہوا تھا جس پر تمہیں تعجب ہے (لیکن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اللہ کا صدقہ ہے جو اس نے تم کو دیا ہے، لہٰذا اس کو قبول کرو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1546]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 686]، [أبوداؤد 1199]، [ترمذي 3034]، [نسائي 1432]، [ابن ماجه 1065]، [أبويعلی 181]، [ابن حبان 2739]، [ابن الجارود 146، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1543)
یعنی ہر چند کہ قصر صرف خوف کے وقت میں مشروع ہوا، لیکن الله تعالیٰ نے اپنی عنایت اور فضل سے بندوں پر آسانی کے واسطے ہر سفر میں قصر درست قرار دیا، اب تم کو قصر کرنا ضروری ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1545
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، عن الاوزاعي، عن الزهري، عن سالم، عن ابيه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم "صلى بمنى ركعتين"، وابو بكر ركعتين، وعمر ركعتين، وعثمان ركعتين، صدرا من إمارته، ثم اتمها بعد ذلك.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "صَلَّى بِمِنًى رَكْعَتَيْنِ"، وَأَبُو بَكْرٍ رَكْعَتَيْنِ، وَعُمَرُ رَكْعَتَيْنِ، وَعُثْمَانُ رَكْعَتَيْنِ، صَدْرًا مِنْ إِمَارَتِهِ، ثُمَّ أَتَمَّهَا بَعْدَ ذَلِكَ.
سالم نے اپنے والد (سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ منیٰ میں (ظہر عصر قصر کر کے) دو دو رکعت قصر پڑھی، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی ان کے دور خلافت کے شروع میں دو ہی رکعت پڑھی تھی لیکن بعد میں آپ اسے پوری پڑھنے لگے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1547]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1082، 1655]، [مسلم 690]، [أبويعلی 2794]، [ابن حبان 2743]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1544)
منیٰ میں رباعی نماز کو دو رکعت قصر پڑھنا ہی صحیح ہے اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے اس فعل پر بہت سے صحابہ نے نکیر کی تھی، اور ان کے اتمام صلاة کی کئی وجوہات بیان کی گئی ہیں۔
دیکھئے: [شرح بخاري مولانا راز رحمه الله 1655] ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    29    30    31    32    33    34    35    36    37    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.