سنن دارمي
من كتاب الصللاة
نماز کے مسائل
176. باب النَّهْيِ عَنِ الْكَلاَمِ في الصَّلاَةِ:
نماز میں بات کرنے کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 1541
حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السُّلَمِيِّ، قَالَ: بَيْنَا أَنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ، إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ، فَقُلْتُ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ، قَالَ: فَحَدَّقَنِي الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ، فَقُلْتُ: وَاثُكْلَاهُ! مَا لَكُمْ تَنْظُرُونَ إِلَيَّ؟ قَالَ: فَضَرَبَ الْقَوْمُ بِأَيْدِيهِمْ عَلَى أَفْخَاذِهِمْ، فَلَمَّا رَأَيْتُهُمْ يُسْكِتُونَنِي قُلْتُ: مَا لَكُمْ تُسْكِتُونَنِي؟ لَكِنِّي سَكَتُّ. قَالَ: فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبِأَبِي هُوَ وَأُمِّي، مَا رَأَيْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ أَحْسَنَ تَعْلِيمًا مِنْهُ، وَاللَّهِ مَا ضَرَبَنِي، وَلَا كَهَرَنِي، وَلَا سَبَّنِي، وَلَكِنْ قَالَ:"إِنَّ صَلَاتَنَا هَذِهِ لَا يَصْلُحُ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ كَلَامِ النَّاسِ، إِنَّمَا هِيَ التَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَتِلَاوَةُ الْقُرْآنِ".
سیدنا معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ دفعتاً ایک شخص نے چھینک دیا تو میں نے «يرحمك الله» کہہ دیا، اب لوگ مجھے گھورنے لگے، میں نے کہا: (گھبرا کر اپنے لئے بدعا کی)، تجھے تیری ماں روئے، کیا ہے تم لوگ مجھے گھور رہے ہو، میں نے یہ کہا تو لوگ اپنی رانوں پر ہاتھ مار کر چپ کرنے لگے، جب میں نے یہ دیکھا کہ وہ مجھے خاموش کرنا چاہتے ہیں تو کہا کہ مجھے کیوں خاموش کر رہے ہو، پھر میں چپ ہو گیا، اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے، تو میرے ماں باپ آپ پر قربان، میں نے آپ سے پہلے یا آپ کے بعد کوئی ایسا معلم نہیں دیکھا جو آپ سے بہتر تعلیم دے، قسم اللہ کی نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مارا، نہ ڈانٹا، نہ برا کہا، صرف یہ کہا کہ ”ہماری یہ جو نماز ہے اس میں بات کرنا درست نہیں، وہ تو صرف تسبیح تکبیر اور تلاوت کا نام ہے۔“
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1543]»
یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 537]، [أبوداؤد 930]، [نسائي 1217]، [شرح السنة 726، وغيرهم]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: