سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ لوگ مسجدوں پر فخر نہ کریں گے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1448]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 449]، [نسائي 688]، [ابن ماجه 739]، [أبويعلی 2798]، [ابن حبان 1613]، [الموارد 307]
وضاحت: (تشریح حدیث 1445) حدیث کا مطلب یہ ہے کہ قربِ قیامت لوگ ایک دوسرے پر فخر کریں گے کہ میری مسجد بلند، عمده، مزین اور نقش و نگار والی ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ضرورت سے زیادہ مسجدوں کی آرائش و زیبائش اور روشنی کرنا ممنوع ہے۔ مسجد کی اصل آرائش مسجدوں کو آباد رکھنا، ان میں نماز ادا کرنا، تلاوت کرنا اور درس و دروس وغیرہ کا اہتمام کرنا ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا شعبة، عن الحكم بن عتيبة، قال: سمعت ابا جحيفة يقول:"خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى البطحاء بالهاجرة، فصلى الظهر ركعتين، والعصر ركعتين، وبين يديه عنزة، وإن الظعن لتمر بين يديه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا جُحَيْفَةَ يَقُولُ:"خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْبَطْحَاءِ بِالْهَاجِرَةِ، فَصَلَّى الظُّهْرَ رَكْعَتَيْنِ، وَالْعَصْرَ رَكْعَتَيْنِ، وَبَيْنَ يَدَيْهِ عَنَزَةٌ، وَإِنَّ الظُّعُنَ لَتَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْهِ".
سیدنا ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر کے وقت (وادی) بطحاء میں تشریف لائے اور ظہر و عصر کی دو دو رکعت نماز پڑھی (یعنی جمع تقدیم کے ساتھ)، اور آپ کے سامنے برچھی کا سترہ تھا، اور عورتوں کی سواریاں آپ کے سامنے سے گزر رہیں تھیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1449]» یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 495]، [مسلم 503]، [أبوداؤد 688]، [نسائي 469]، [أبويعلی 887]، [ابن حبان 1268]، [الحميدي 916]
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے برچھی (چھڑی) گاڑ دی جاتی اور آپ اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھ لیتے (یعنی فضا میں آپ برچھی یا چھڑی کو سترہ بنا کر نماز پڑھتے تھے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1450]» یہ حدیث بھی صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 494]، [مسلم 501]، [أبوداؤد 687]، [ابن ماجه 1305]، [ابن حبان 2377]
وضاحت: (تشریح احادیث 1446 سے 1448) ان احادیث سے سترہ لگا کر نماز پڑھنا ثابت ہوا اور یہ بھی کہ سترے کے آگے سے کوئی گذرے تو نماز خراب نہیں ہوگی جس کا بیان آگے آرہا ہے۔ بعض علماء وفقہاء نے بنا سترہ نماز پڑھنے سے منع کیا ہے۔
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی نماز پڑھ رہا ہو تو اپنے سامنے سے کسی کو گزرنے نہ دے، اگر وہ اصرار کرے تو سختی سے روکے کیونکہ وہ شیطان ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1451]» یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 509]، [مسلم 505]، [أبوداؤد 697]، [نسائي 756]، [ابن حبان 2377]
وضاحت: (تشریح حدیث 1448) حدیث میں ہے «فَلْيُقَاتِلْهُ» یعنی گذرنے پر اصرار کرے تو اس سے قتال کرے۔ اس حدیث سے نمازی کے سامنے سے گزرنے کی ممانعت معلوم ہوئی، اور اگر اصرار کرے تو سختی سے روک دے، اور ایسے شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شیطان سے تشبیہہ دی کیونکہ شیطان کا کام بھی نماز میں وسوسے ڈالنا، تشویش پیدا کرنا ہے، اور گذرنے والا بھی یہی کام انجام دے رہا ہے تو گویا وہ بھی شیطان ہے۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ آدمی سترے سے قریب رہے کیونکہ قریب نہ ہوگا تو گذرنے والے کو کس طرح روکے گا۔ والله اعلم۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری (اونٹ وغیرہ) کا سترہ بنا کر نماز پڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1452]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 430، 507]، [مسلم 502]، [أبوداؤد 692]، [ترمذي 352]، [أبويعلی 2632]، [صحيح ابن حبان 3378]
وضاحت: (تشریح حدیث 1449) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اونٹ، گھوڑے یا گدھے جیسی سواری کی آڑ میں نماز پڑھنا جائز ہے، لیکن ان کے باڑوں اور تھانوں میں نماز پڑھنا درست نہیں، مبادا بھڑک جائے اور نمازی کو نقصان پہنچا دے۔ والله اعلم
سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تھے اور وہ آپ کے اور قبلہ کے درمیان گھر کے بستر پر ایسے لیٹی ہوتیں جیسے (نماز کے لئے) جنازہ رکھا جاتا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1453]» اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 383]، [مسلم 512]، [ابن ماجه 956]، [أبويعلی 4490]، [ابن حبان 2341]
وضاحت: (تشریح حدیث 1450) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اگر اپنی بیوی سامنے لیٹی رہے تو نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، بس بیوی کی طرف دھیان نہ جائے، نیز اس حدیث سے گھر میں نماز پڑھنا بھی ثابت ہوا۔ اور بستر اگر پاک ہے تو اس پر بھی نماز پڑھنا ثابت ہوا۔ واللہ اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث متفق عليه
(حديث موقوف) اخبرنا ابو الوليد، وحجاج، قالا: حدثنا شعبة، اخبرني حميد بن هلال، قال: سمعت عبد الله بن الصامت، عن ابي ذر، انه قال: "يقطع صلاة الرجل إذا لم يكن بين يديه كآخرة الرحل: الحمار والكلب الاسود، والمراة". قال: قلت: فما بال الاسود من الاحمر من الاصفر، فقال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم كما سالتني، فقال: "الاسود شيطان"..(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، وَحَجَّاجٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنِي حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، أَنَّهُ قَالَ: "يَقْطَعُ صَلَاةَ الرَّجُلِ إِذَا لَمْ يَكُنْ بَيْنَ يَدَيْهِ كَآخِرَةِ الرَّحْلِ: الْحِمَارُ وَالْكَلْبُ الْأَسْوَدُ، وَالْمَرْأَةُ". قَالَ: قُلْتُ: فَمَا بَالُ الْأَسْوَدِ مِنْ الْأَحْمَرِ مِنْ الْأَصْفَرِ، فَقَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا سَأَلْتَنِي، فَقَالَ: "الْأَسْوَدُ شَيْطَانٌ"..
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی کے سامنے کوئی چیز پالان کی پچھلی لکڑی کے برابر نہ ہو تو اس کی نماز گدھے، کالے کتے یا عورت کے گزر جانے سے ٹوٹ جاتی ہے۔“ راوی نے کہا: میں نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: سرخ اور زرد کتا ہو تو کیسا ہے؟ کہا: جس طرح تم نے پوچھا ہے، میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیونکہ کالا کتا شیطان ہوتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1454]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 510]، [أبوداؤد 702]، [ترمذي 338]، [ابن حبان 2383، 2384]
وضاحت: (تشریح حدیث 1451) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سامنے اگر سترہ نہ ہو اور گدھا، کالا کتا، یا عورت گذر جائے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ بعض علماء نے کہا: نماز میں خلل آ جاتا ہے، اور اگر سترہ موجود ہے اور اس کے آگے سے ان میں سے کوئی گذر جائے تو نماز میں کوئی خلل نہیں آئے گا۔ تفصیل آگے آ رہی ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا ابن عيينة، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس، قال: جئت انا والفضل يعني: على اتان، والنبي صلى الله عليه وسلم يصلي بمنى او بعرفة، فمررت على بعض الصف فنزلت عنها وتركتها ترعى، ودخلت في الصف".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: جِئْتُ أَنَا وَالْفَضْلُ يَعْنِي: عَلَى أَتَانٍ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِمِنًى أَوْ بِعَرَفَةَ، فَمَرَرْتُ عَلَى بَعْضِ الصَّفِّ فَنَزَلْتُ عَنْهَا وَتَرَكْتُهَا تَرْعَى، وَدَخَلْتُ فِي الصَّفِّ".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: میں اور فضل (ان کے بھائی) گدھی پر بیٹھ کر آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ یا عرفات میں نماز پڑھا رہے تھے، میں صف کے درمیان سے گزرا، گدھی سے اترا اور اسے چرتے ہوئے چھوڑ دیا، اور صف میں جا کر مل گیا۔ (بخاری کی روایت میں ہے: مجھے اس پر کسی نے ٹوکا نہیں)۔
وضاحت: (تشریح حدیث 1452) باب ہے کسی کے گذرنے سے نماز نہیں ٹوٹتی، اور امام دارمی رحمہ اللہ نے مذکورہ بالا حدیث ذکر کی ہے جس میں ہے کہ گدھی اور خود سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ صف کے درمیان سے گذرے لیکن کسی نے ٹوکا نہیں، مطلب یہ ہوا کہ گدھے سامنے سے گزرنے سے نماز نہیں ٹوٹتی۔ لیکن اس حدیث سے اس پر استدلال کہ کسی کے بھی سامنے سے گذرنے سے نماز نہیں ٹوٹتی صحیح نہیں، کیونکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اپنی گدھی کے ساتھ صف کے درمیان سے گزرے تھے اور امام کا سترہ مقتدی کا بھی سترہ ہوتا ہے۔ پچھلی حدیث میں یہ جو ذکر آیا کہ گدھا، کالا کتا اور عورت کے سامنے سے گذرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے تو اس سلسلے میں صاحب التحفہ مبارکپوری رحمۃ الله علیہ نے لکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ان تینوں مذکورہ بالا اجناس کے نمازی کے سامنے سے گذرنے سے نماز میں نقص آ جاتا ہے اس لئے کہ آدمی کا دل اس سے متاثر ہو جاتا ہے، نماز مطلقاً باطل یا فاسد ہو جائے ایسا نہیں ہے، جمہور علمائے سلف و خلف کا یہی فتویٰ ہے۔ واللہ اعلم۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن حسان، انبانا ابن عيينة، عن سالم ابي النضر، عن بسر بن سعيد، قال: ارسلني ابو جهيم الانصاري إلى زيد بن خالد الجهني اساله ما سمع من النبي صلى الله عليه وسلم في الذي يمر بين يدي المصلي، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: "لان يقوم احدكم اربعين، خير له من ان يمر بين يدي المصلي". قال: فلا ادري سنة او شهرا او يوما.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، أَنْبأَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ سَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: أَرْسَلَنِي أَبُو جُهَيْمٍ الْأَنْصَارِيُّ إِلَى زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ أَسْأَلُهُ مَا سَمِعَ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الَّذِي يَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْ الْمُصَلِّي، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَأَنْ يَقُومَ أَحَدُكُمْ أَرْبَعِينَ، خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْ الْمُصَلِّي". قَالَ: فَلَا أَدْرِي سَنَةً أَوْ شَهْرًا أَوْ يَوْمًا.
بسر بن سعید نے کہا: ابوجہیم انصاری نے مجھے سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے یہ پوچھنے کے لئے بھیجا کہ جو آدمی نمازی کے سامنے سے گزرے، اس بارے میں انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا سنا ہے؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی چالیس تک کھڑا رہے تو بہتر ہے اس کے لئے نمازی کے سامنے گزرنے سے۔“ سفیان بن عیینہ نے کہا: مجھے یاد نہیں کہ چالیس سال کہا یا چالیس مہینے یا دن کہا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1456]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 510]، [مسلم 507] و [ابن ماجه 944]، روایت بخاری و مسلم میں مرسل اور مرسل الیہ کے نام اس روایت کے بالعکس ہیں جیسا کہ آگے آرہا ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن عبد المجيد، حدثنا مالك، عن ابي النضر مولى عمر بن عبيد الله بن معمر، ان بسر بن سعيد اخبره، ان زيد بن خالد الجهني ارسله إلى ابي جهيم يساله: ماذا سمع من رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول في المار بين يدي المصلي. فقال ابو جهيم: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لو يعلم المار بين يدي المصلي ماذا عليه في ذلك، لكان ان يقف اربعين خيرا له من ان يمر بين يديه". قال ابو النضر: لا ادري: اربعين يوما، او شهرا، او سنة.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْمَرٍ، أَنَّ بُسْرَ بْنَ سَعِيدٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ خَالِدٍ الْجُهَنِيَّ أَرْسَلَهُ إِلَى أَبِي جُهَيْمٍ يَسْأَلُهُ: مَاذَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ فِي الْمَارِّ بَيْنَ يَدَيْ الْمُصَلِّي. فَقَالَ أَبُو جُهَيْمٍ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَوْ يَعْلَمُ الْمَارُّ بَيْنَ يَدَيْ الْمُصَلِّي مَاذَا عَلَيْهِ فِي ذَلِكَ، لَكَانَ أَنْ يَقِفَ أَرْبَعِينَ خَيْرًا لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ". قَالَ أَبُو النَّضْرِ: لَا أَدْرِي: أَرْبَعِينَ يَوْمًا، أَوْ شَهْرًا، أَوْ سَنَةً.
بسر بن سعید نے خبر دی کہ زید بن خالد جہنی نے انہیں سیدنا ابوجہیم (عبداللہ) انصاری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ان سے یہ بات پوچھنے کے لئے بھیجا کہ انہوں نے نماز پڑھنے والے کے سامنے سے گزرنے والے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا فرماتے ہوئے سنا ہے؟ سیدنا ابوجہیم رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والا یہ جان لے کہ اس میں اس پر کتنا بڑا گناہ ہے تو اس کے سامنے سے گزرنے پر چالیس تک وہیں کھڑے رہنے کو ترجیح دے۔“ ابوالنضر نے کہا: مجھے یاد نہیں کہ بسر بن سعید نے چالیس دن کہا یا مہینہ یا سال۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1457]» اس حدیث کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 510]، [مسلم 507]، [أبوداؤد 703]، [ترمذي 336]، [نسائي 755]، [ابن ماجه 945]، [ابن حبان 2366]، [الحميدي 836]
وضاحت: (تشریح احادیث 1453 سے 1455) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ نمازی کے سامنے سے گذرنا بہت بڑا گناہ ہے اور اس کی سزا اگر گزرنے والے کو معلوم ہوجائے تو کم سے کم چالیس گھنٹے بھی کھڑا رہنا پڑے تو یہ بڑی کڑی سزا ہے، اس لئے نماز پڑھنے والے کے سامنے سے نہیں گذرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں اختلاف ہے کہ کتنی دور تک سے نہیں گذرنا چاہیے، قرینِ قیاس یہ ہے کہ سجدہ کی جگہ یا تین ہاتھ کے اندر سے نہیں گذرنا چاہیے، لیکن حدیث مطلق ہے اس لئے نہ گذرنا ہی بہتر ہے۔ واللہ اعلم۔