سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر

سنن دارمي
نماز کے مسائل
129. باب لاَ يَقْطَعُ الصَّلاَةَ شَيْءٌ:
129. نماز کسی کے گزرنے سے نہیں ٹوٹتی
حدیث نمبر: 1453
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا ابن عيينة، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس، قال: جئت انا والفضل يعني: على اتان، والنبي صلى الله عليه وسلم يصلي بمنى او بعرفة، فمررت على بعض الصف فنزلت عنها وتركتها ترعى، ودخلت في الصف".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: جِئْتُ أَنَا وَالْفَضْلُ يَعْنِي: عَلَى أَتَانٍ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِمِنًى أَوْ بِعَرَفَةَ، فَمَرَرْتُ عَلَى بَعْضِ الصَّفِّ فَنَزَلْتُ عَنْهَا وَتَرَكْتُهَا تَرْعَى، وَدَخَلْتُ فِي الصَّفِّ".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: میں اور فضل (ان کے بھائی) گدھی پر بیٹھ کر آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ یا عرفات میں نماز پڑھا رہے تھے، میں صف کے درمیان سے گزرا، گدھی سے اترا اور اسے چرتے ہوئے چھوڑ دیا، اور صف میں جا کر مل گیا۔ (بخاری کی روایت میں ہے: مجھے اس پر کسی نے ٹوکا نہیں)۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 1452)
باب ہے کسی کے گذرنے سے نماز نہیں ٹوٹتی، اور امام دارمی رحمہ اللہ نے مذکورہ بالا حدیث ذکر کی ہے جس میں ہے کہ گدھی اور خود سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ صف کے درمیان سے گذرے لیکن کسی نے ٹوکا نہیں، مطلب یہ ہوا کہ گدھے سامنے سے گزرنے سے نماز نہیں ٹوٹتی۔
لیکن اس حدیث سے اس پر استدلال کہ کسی کے بھی سامنے سے گذرنے سے نماز نہیں ٹوٹتی صحیح نہیں، کیونکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اپنی گدھی کے ساتھ صف کے درمیان سے گزرے تھے اور امام کا سترہ مقتدی کا بھی سترہ ہوتا ہے۔
پچھلی حدیث میں یہ جو ذکر آیا کہ گدھا، کالا کتا اور عورت کے سامنے سے گذرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے تو اس سلسلے میں صاحب التحفہ مبارکپوری رحمۃ الله علیہ نے لکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ان تینوں مذکورہ بالا اجناس کے نمازی کے سامنے سے گذرنے سے نماز میں نقص آ جاتا ہے اس لئے کہ آدمی کا دل اس سے متاثر ہو جاتا ہے، نماز مطلقاً باطل یا فاسد ہو جائے ایسا نہیں ہے، جمہور علمائے سلف و خلف کا یہی فتویٰ ہے۔
واللہ اعلم۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1455]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 76]، [مسلم 504]، [أبوداؤد 715]، [ترمذي 337]، [نسائي 751]، [ابن ماجه 947]، [أبويعلی 2382]، [ابن حبان 2151]، [الحميدي 481]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.