(حديث مرفوع) حدثنا سليمان بن داود، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن الزهري، عن حميد بن عبد الرحمن، ان ابا سعيد، وابا هريرة اخبراه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم راى نخامة في جدار المسجد، فتناول رسول الله صلى الله عليه وسلم حصاة وحتها ثم قال: "إذا تنخم احدكم، فلا يتنخمن قبل وجهه، ولا عن يمينه، وليبصق عن يساره او تحت قدمه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ، وَأَبَا هُرَيْرَةَ أَخْبَرَاهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى نُخَامَةً فِي جِدَارِ الْمَسْجِدِ، فَتَنَاوَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَصَاةً وَحَتَّهَا ثُمَّ قَالَ: "إِذَا تَنَخَّمَ أَحَدُكُمْ، فَلَا يَتَنَخَّمَنَّ قِبَلَ وَجْهِهِ، وَلَا عَنْ يَمِينِهِ، وَلْيَبْصُقْ عَنْ يَسَارِهِ أَوْ تَحْتَ قَدَمِهِ".
سیدنا ابوسعید خدری اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد (نبوی) کی دیوار پر بلغم دیکھا تو آپ نے کنکری سے اسے کھرچ دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی (نماز میں) تھوکے تو اپنے سامنے اور دائیں جانب نہ تھوکے، بلکہ بائیں جانب یا قدم کے نیچے تھوکے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1438]» اس روایت کی سند بھی صحیح ہے بلکہ متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 408، 409]، [مسلم 548]، [نسائي 724]، [ابن ماجه 761]، [أبويعلی 975، 993]، [ابن حبان 2268]، [الحميدي 745، 746]
وضاحت: (تشریح احادیث 1432 سے 1436) تھوک، رینٹ، بلغم، کھنکار، طبی رطوبات ہیں، نزلہ و زکام وغیرہ میں انسان انہیں نکالنے اور صاف کرنے پر مجبور ہوتا ہے، اب اگر کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو تو ایسی صورت میں کیا کرے؟ قربان جایئے شریعتِ اسلامیہ مطہرہ پر کہ ہر چیز کو واضح کر دیا، کوئی بات پوشیدہ نہ رہی، ایسی صورت میں حکم یہ دیا کہ نمازی سامنے اور دائیں طرف نہ تھوکے بلکہ بائیں جانب یا پیر کے نیچے یا کپڑے کے ایک کنارے یا رومال پر تھوک کر اسے مل دے۔ دورِ حاضر میں اس کی بہترین صورت منادیل یا ٹشوز پیپر ہیں جن کو استعمال میں لانا نماز کی حالت میں درست ہے۔ اوّل اسلام میں مساجد خصوصاً مسجدِ نبوی کچی اور بلا فرش و جائے نماز کے تھی اس لئے حکم ہوا کہ اگر کسی نے مجبوری کے عالم میں تھوک ہی دیا ہے تو غلط کام کیا، اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے مٹی سے دفن کر دیا جائے یا کھرچ دیا جائے، خود خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بلغم یا تھوک مسجد یا دیوار پر دیکھا تو کھرچ دیا یا اشارہ فرمایا اور اسے کھرچ دیا گیا جیسا کہ مفصل طور پر مذکورہ بالا احادیث میں گذر چکا ہے۔ مساجد بیوت اللہ ہیں ان میں اللہ کی عبادت، ذکر و دعا ہوتی ہے اور وہ روئے زمین کی سب سے بہترین جگہ ہے، اس کا احترام یہ ہے کہ مساجد کو نجاست سے پاک و صاف رکھا جائے، بلکہ مسجد عطر و خوشبو سے اور صاف ستھرے فرش و سجادہ سے مزین ہونی چاہئے، اور ایسا کرنے والے کی بڑی فضیلت ہے۔ مذکورہ بالا احادیث میں سامنے نہ تھوکنے کی علت یہ ذکر کی گئی ہے کہ ”اللہ اس کے سامنے ہے“ اس سے مراد علماء و محدثین نے یہ لیا ہے کہ اللہ کی رحمت اس کے سامنے ہے اور اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ بذاتہ ہر نمازی کے سامنے موجود ہے جیسا کہ بعض صوفیہ، جہمیہ اور مبتدعہ کا عقیدہ ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ تو عرش پر ہے: « ﴿الرَّحْمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ﴾[طه: 5] » اس کا علم، اس کی رحمت، اس کی رؤیت اور سماعت سارے عالم اور ساری کائنات کو محیط ہے (وهو السميع العليم)۔ علمائے کرام نے اس کی اور بھی توجیہات ذکر کی ہیں، تفصیل کے لئے دیکھئے: فتح الباری و شرح النووی و دیگر شروح احادیث۔ اور دائیں طرف نہ تھوکنے کا حکم اس لئے ہے کہ دائیں طرف کاتب الحسنات فرشتہ ہوتا ہے، [كما فى رواية البخاري 416]، تفصیل کے لئے دیکھئے: [فتح الباري 663/1] ۔ ان تمام احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ مسجد میں تھوکنا، ناک سے رینٹ نکالنا، کھنکار ڈالنا گناہ اور بے ادبی ہے۔ مسجد کا ادب اور نمازیوں کے آرام و راحت کا خیال ضروری ہے، اور تھوکنا یا ناک سنکنا یا تو مسجد سے باہر کرے یا پھر اس طرح ٹشوز پیپر یا منادیل و رومال سے صفائی کرے کہ پاس بیٹھے ہوئے نمازیوں کو کراہت محسوس نہ ہو، اور نماز میں بھی یا نماز کے باہر بھی اس کا خیال رکھنا چاہیے کیونکہ بعض روایات میں إذا صلّی کا ذکر ہے اور بعض روایات میں عام حکم ہے کہ مسجد میں نہ تھوکے نا ہی ناک سنکے اور نہ ہی بلغم نکالے۔ «واللّٰه أعلم وعلمه أتم» ۔
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں مسجد (نبوی) میں سویا ہوا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور اپنے پائے مبارک سے مجھے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا: کیا میں تمہیں یہاں سوتے نہیں دیکھ رہا ہوں؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! میری آنکھ لگ گئی تھی۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 1439]» اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ابن حبان 6668]، [موارد الظمآن 1548]
(حديث مرفوع) حدثنا موسى بن خالد، عن ابي إسحاق الفزاري، عن عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر، قال: كنت ابيت في المسجد ولم يكن لي اهل، فرايت في المنام كانما انطلق بي إلى بئر فيها رجال معلقون، فقيل: انطلقوا به إلى ذات اليمين. فذكرت الرؤيا لحفصة، فقلت: قصيها على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقصتها عليه، فقال:"من راى هذه؟ قالت: ابن عمر. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"نعم الفتى او قال: نعم الرجل لو كان يصلي من الليل". قال: وكنت إذا نمت لم اقم حتى اصبح. قال: فكان ابن عمر يصلي الليل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق الْفَزَارِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كُنْتُ أَبِيتُ فِي الْمَسْجِدِ وَلَمْ يَكُنْ لِي أَهْلٌ، فَرَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ كَأَنَّمَا انْطُلِقَ بِي إِلَى بِئْرٍ فِيهَا رِجَالٌ مُعَلَّقُونَ، فَقِيلَ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى ذَاتِ الْيَمِينِ. فَذَكَرْتُ الرُّؤْيَا لِحَفْصَةَ، فَقُلْتُ: قُصِّيهَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَصَّتْهَا عَلَيْهِ، فَقَالَ:"مَنْ رَأَى هَذِهِ؟ قَالَتْ: ابْنُ عُمَرَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"نِعْمَ الْفَتَى أَوْ قَالَ: نِعْمَ الرَّجُلُ لَوْ كَانَ يُصَلِّي مِنْ اللَّيْلِ". قَالَ: وَكُنْتُ إِذَا نِمْتُ لَمْ أَقُمْ حَتَّى أُصْبِحَ. قَالَ: فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يُصَلِّي اللَّيْلَ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: میں مسجد نبوی میں سویا کرتا تھا کیونکہ بیوی بچے تھے نہیں، میں نے خواب میں دیکھا گویا کہ مجھے ایک کنویں کی طرف لے جایا گیا، جس میں آدمی لٹکے ہوئے تھے۔ کہا گیا: ان کو دائیں جانب لے جاؤ (یعنی جنتیوں کی طرف)، میں نے اس خواب کو (اپنی بہن) سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا اور درخواست کی کہ اس کو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کریں، لہٰذا انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کو بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کس نے یہ خواب دیکھا ہے؟“ عرض کیا: (میرے بھائی) ابن عمر نے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا ہی اچھا وہ نوجوان ہے“ یا یہ کہا: ”کیا ہی اچھا آدمی ہے، کاش وہ رات میں نماز پڑھے“، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: میں جب سو جاتا تو فجر سے پہلےنہیں اٹھتا تھا۔ راوی نے کہا: اس کے بعد سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما تہجد پڑھنے لگے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 1440]» اس روایت کی سند جید اور حدیث صحیح ہے، اور اس کے اطراف متعدد مقامات پر بخاری شریف میں موجود ہیں۔ دیکھئے: [بخاري 1121، 1122]، [مسلم 2479]، [ابن ماجه 3919]، [ابن حبان 7071، 7072]
وضاحت: (تشریح احادیث 1436 سے 1438) اس حدیث سے مسجد میں سونے کا جواز ثابت ہوا، نیز قیام اللیل (تہجد) کی فضیلت معلوم ہوئی اور یہ کہ تہجد عذابِ جہنم سے نجات کا سبب ہے، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی فضیلت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب و احترام معلوم ہوا، مارے ہیبت کے خود نہیں پوچھا بلکہ اپنی بہن سے درخواست کی کہ اس کی تعبیر پوچھیں۔ «رضي اللّٰه عنهم وأرضاهم.»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم کسی کو مسجد میں خرید و فروخت کرتے دیکھو تو کہو: الله تمہاری تجارت میں نفع نہ بخشے، اور جب کسی کو گم شدہ چیز ڈھونڈتے اور مسجد میں اس کا اعلان کرتے دیکھو تو کہو: الله کرے تیری چیز نہ ملے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1441]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 568]، [أبوداؤد 473]، [ابن ماجه 768]، [ابن حبان 1650]، [موارد الظمآن 313]
وضاحت: (تشریح حدیث 1438) مسلم شریف کی روایت میں ہے: مسجدیں اس لئے نہیں بنائی جاتی ہیں کہ اس میں خرید و فروخت یا گم شده چیزیں تلاش کی جائیں۔ معلوم ہوا کہ مسجد میں یہ افعال و اعمال درست نہیں ہیں اور جو شخص ایسا اعلان کرے تو اس کے لئے بددعا کے طور پر مذکورہ الفاظ کہنا جائز ہے۔
سفیان بن عیینہ نے عمرو بن دینار سے کہا: کیا تم نے سیدنا جابر بن عبدالله رضی اللہ عنہما سے سنا کہ ایک آدمی مسجد نبوی میں آیا جو تیر لئے ہوئے تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”ان کی نوکیں بند رکھو؟“ کہا: ہاں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1442]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 451]، [مسلم 2614]، [نسائي 717]، [أبويعلی 1833]، [ابن حبان 1647]، [الحميدي 1289]
وضاحت: (تشریح حدیث 1439) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ تیر وغیرہ لے کر مسجد میں نہیں چلنا چاہیے مبادا کسی کو لگ جائے، اسی پر قیاس کرتے ہوئے دیگر اسلحہ جات چاقو، چھری، تلوار، پستول، نیزے، بندوق کھلی ہوئی کوئی چیز لے کر مسجد میں نہیں جانا چاہیے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا الحكم بن نافع، انبانا شعيب، عن الزهري، اخبرني عبيد الله بن عبد الله، ان ابن عباس، وعائشة، قالا: لما نزل بالنبي صلى الله عليه وسلم، طفق يطرح خميصة له على وجهه، فإذا اغتم، كشفها عن وجهه، فقال وهو كذلك: "لعنة الله على اليهود والنصارى، اتخذوا قبور انبيائهم مساجد". يحذر مثل ما صنعوا.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، أَنْبأَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، وَعَائِشَةَ، قَالَا: لَمَّا نُزِلَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، طَفِقَ يَطْرَحُ خَمِيصَةً لَهُ عَلَى وَجْهِهِ، فَإِذَا اغْتَمَّ، كَشَفَهَا عَنْ وَجْهِهِ، فَقَالَ وَهُوَ كَذَلِكَ: "لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى، اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ". يُحَذِّرُ مِثْلَ مَا صَنَعُوا.
سیدہ عائشہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے، دونوں نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے (یعنی مرض وفات میں) تو آپ اپنے چہرۂ مبارک پر ایک چادر ڈال لیتے تھے، اور جب دم گھٹنے لگتا تو منہ کھولتے اور اسی حالت میں فرماتے تھے: ”یہود و نصاری پر اللہ کی لعنت ہو، انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجد بنا لیا۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ڈرا رہے تھے ایسا کرنے سے جیسا کہ انہوں نے کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1443]» اس حدیث کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 435، 436]، [مسلم 531]، [نسائي 702]، [ابن حبان 6619]
وضاحت: (تشریح حدیث 1440) یعنی وہاں پر عبادت کرنا شروع کر دیا جیسے کہ مسجدوں میں عبادت کرتے ہیں یا اس طرح سجدہ کیا اور روشنی و آرائش کی جیسے مسجدوں کی کرتے ہیں۔ (علامہ وحیدالزماں رحمہ اللہ)۔ اس حدیث کی شرح میں مولانا محمد داؤد راز صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بہت مفید کلام نقل کیا ہے، افاده کے پیشِ نظر ذکر کیا جا تا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امّت کو اس لئے ڈرایا کہ کہیں وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو مسجد نہ بنا لیں، ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری قبر پر میلہ نہ لگانا۔ “ ایک دفعہ فرمایا: ”یا اللہ! میری قبر کو بت نہ بنا دینا کہ لوگ اسے پوجیں۔ “ یہود اور نصاریٰ ہر دو کے یہاں قبر پرستی عام تھی اور آج بھی ہے۔ حافظ ابن القیم «إغاثة اللهفان» میں فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص موجودہ عام مسلمانوں کا حدیثِ نبوی اور آثارِ صحابہ و تابعین سے موازنہ کرے تو وہ دیکھے گا کہ آج مسلمانوں کے ایک جمِ غفیر نے بھی کس طرح حدیثِ نبوی کی مخالفت کرنے کی ٹھان لی ہے۔ مثلاً (1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبورِ انبیاء پر بھی نماز پڑھنے سے منع فرمایا، مگر مسلمان شوق سے کتنی ہی قبور پر نماز پڑھتے ہیں۔ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر مساجد کی عمارات بنانے سے سختی کے ساتھ روکا ہے، مگر آج ان پر بڑی بڑی عمارات بنا کر ان کا نام خانقاه، مزار شریف اور درگاہ وغیرہ رکھا جاتا ہے۔ (3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر چراغاں سے منع فرمایا، مگر قبر پرست مسلمان قبروں پر خوب خوب چراغاں کرتے اور اس کام کے لئے کتنی ہی جائیدادیں وقف کرتے ہیں۔ (4) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر زائد مٹی ڈالنے سے منع فرمایا، مگر یہ لوگ مٹی کے بجائے چونا اور اینٹ سے ان کو پختہ بناتے ہیں۔ (5) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر کتبے لکھنے سے منع فرمایا، مگر یہ لوگ شاندار عمارتیں بنا کر آیاتِ قرآنی قبروں پر (نام کے ساتھ) لکھتے ہیں گویا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم کے مخالف اور دین کی ہدایت کے باغی بنے ہوئے ہیں۔ صاحب مجالس الابرار لکھتے ہیں کہ یہ فرقہ ضالہ غلو (حد سے بڑھنا) میں یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ بیت الله شریف کی طرح قبروں کے آداب اور ارکان و مناسک مقرر کر ڈالے ہیں جو اسلام کی جگہ کھلی ہوئی بت پرستی ہے، پھر تعجب یہ ہے کہ ایسے لوگ اپنے آپ کو حنفی سنی کہلاتے ہیں حالانکہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ہرگز ہرگز ایسے امور کے لئے نہیں فرمایا۔ الله تعالیٰ ایسے مسلمانوں کو نیک سمجھ عطا کرے۔ آمین
ابوثمامہ حناط نے کہا: مجھ کو سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ نے بلاط پر پا لیا (مسجد جاتے ہوئے) اور میں انگلیوں میں انگلیاں داخل کئے ہوئے تھا، تو انہوں نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”جب تم میں سے کوئی وضو کر کے مسجد میں نماز کے قصد سے نکلے تو تشبیک نہ کرے (گویا کہ وہ نماز کے اندر ہے)۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل أبي ثمامة الحناط، [مكتبه الشامله نمبر: 1444]» یہ حدیث حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 562]، [ترمذي 386]، [ابن حبان 2039]، [موارد الظمآن 315، 316]
وضاحت: (تشریح حدیث 1441) اشتباک یا تشبیک انگلیوں میں انگلیاں داخل کرنے کو اور انگلیاں چٹخانے کو کہتے ہیں۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل أبي ثمامة الحناط
سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم وضو کر کے مسجد جانے کا ارادہ کرو تو انگلیوں میں تشبیک نہ کرو کیونکہ تم نماز میں ہو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل ابن عجلان والحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1445]» حوالہ اوپر گذر چکا ہے۔ نیز دیکھئے: [ابن حبان 2149]، [موارد الظمآن 316] اور یہ حدیث صحیح ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل ابن عجلان والحديث صحيح
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی شخص (گھر میں) وضو کرے پھر نماز کے لئے نکلے تو وہ نماز ہی میں ہے یہاں تک کہ اپنے گھر میں واپس آ جائے، تو تم اس طرح نہ کرو، یعنی وہ انگلیوں میں تشبیک نہ کرے، انگلیاں نہ چٹخائے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1446]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 386]، [ابن خزيمه 446]، [ابن حبان 2149]، [مواردالظمآن 314]
وضاحت: (تشریح احادیث 1442 سے 1444) ان احادیث سے گھر سے وضو کر کے نکلنے کی فضیلت ثابت ہوتی ہے گویا کہ وہ شخص نماز میں ہی ہے، ایک اور حدیث میں ہے: مسجد جاتے اور آتے ہوئے ایسے شخص کے لئے ہر ہر قدم پر نیکیاں ہیں، نیز ان احادیث میں انگلیاں چٹخانے اور تشبیک کی ممانعت ہے، ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو انگلیوں سے اس طرح کھیلتے دیکھا تو ان کو کھلوا دیا۔ کیونکہ یہ عبث کام ہے جو وضو کے بعد مسجد یا مسجد سے باہر کہیں نہیں کرنا چاہیے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، انبانا محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا تزال الملائكة تصلي على العبد ما دام في مصلاه الذي يصلي فيه، ما لم يقم او يحدث، تقول: اللهم اغفر له، اللهم ارحمه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَزَالُ الْمَلَائِكَةُ تُصَلِّي عَلَى الْعَبْدِ مَا دَامَ فِي مُصَلَّاهُ الَّذِي يُصَلِّي فِيهِ، مَا لَمْ يَقُمْ أَوْ يُحْدِثْ، تَقُولُ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ، اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندے کے لئے فرشتے اس وقت تک دعا کرتے رہتے ہیں جب تک وہ اپنی اس جگہ میں بیٹھا رہے جس پر نماز پڑھی ہے، اور اس جگہ سے نہ کھڑا ہو نہ وضو توڑے، فرشتے کہتے ہیں: اے اللہ اس کی مغفرت فرما دے، اے اللہ اس پر رحم فرما۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1447]» اس روایت کی سند حسن ہے، لیکن حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 445]، [مسلم 649]، [أبوداؤد 469]، [ترمذي 330]، [نسائي 732]، [ابن حبان 1753]
وضاحت: (تشریح حدیث 1444) اس حدیث سے نماز کے بعد اپنی جگہ بیٹھ کر ذکر، دعاء، تلاوت کرنے کی فضیلت ثابت ہوئی اور ایسے شخص کے لئے فرشتے بھی رحمت و مغفرت کی دعا کرتے ہیں جو بہت ممکن ہے کہ قبول ہو جائے، اور جس کی بخشش ہو جائے اس پر رحمتوں کا نزول ہو، اس سے بڑھ کر کون خوش قسمت ہوگا۔ لیکن آج کل کچھ نمازی حضرات امام کے سلام پھیرنے کے بعد جلد از جلد مسجد سے نکل بھاگنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے جب تک تم نماز کا انتظار کرو گے گویا کہ تم نماز ہی کی حالت میں ہو، اس میں نماز کے انتظار میں بیٹھے رہنے کی فضیلت کا بیان ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن ولكن الحديث متفق عليه