(حديث مرفوع) اخبرنا الحكم بن نافع، انبانا شعيب، عن الزهري، اخبرني عبيد الله بن عبد الله، ان ابن عباس، وعائشة، قالا: لما نزل بالنبي صلى الله عليه وسلم، طفق يطرح خميصة له على وجهه، فإذا اغتم، كشفها عن وجهه، فقال وهو كذلك: "لعنة الله على اليهود والنصارى، اتخذوا قبور انبيائهم مساجد". يحذر مثل ما صنعوا.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، أَنْبأَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، وَعَائِشَةَ، قَالَا: لَمَّا نُزِلَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، طَفِقَ يَطْرَحُ خَمِيصَةً لَهُ عَلَى وَجْهِهِ، فَإِذَا اغْتَمَّ، كَشَفَهَا عَنْ وَجْهِهِ، فَقَالَ وَهُوَ كَذَلِكَ: "لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى، اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ". يُحَذِّرُ مِثْلَ مَا صَنَعُوا.
سیدہ عائشہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے، دونوں نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے (یعنی مرض وفات میں) تو آپ اپنے چہرۂ مبارک پر ایک چادر ڈال لیتے تھے، اور جب دم گھٹنے لگتا تو منہ کھولتے اور اسی حالت میں فرماتے تھے: ”یہود و نصاری پر اللہ کی لعنت ہو، انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجد بنا لیا۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ڈرا رہے تھے ایسا کرنے سے جیسا کہ انہوں نے کیا۔
وضاحت: (تشریح حدیث 1440) یعنی وہاں پر عبادت کرنا شروع کر دیا جیسے کہ مسجدوں میں عبادت کرتے ہیں یا اس طرح سجدہ کیا اور روشنی و آرائش کی جیسے مسجدوں کی کرتے ہیں۔ (علامہ وحیدالزماں رحمہ اللہ)۔ اس حدیث کی شرح میں مولانا محمد داؤد راز صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بہت مفید کلام نقل کیا ہے، افاده کے پیشِ نظر ذکر کیا جا تا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امّت کو اس لئے ڈرایا کہ کہیں وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو مسجد نہ بنا لیں، ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری قبر پر میلہ نہ لگانا۔ “ ایک دفعہ فرمایا: ”یا اللہ! میری قبر کو بت نہ بنا دینا کہ لوگ اسے پوجیں۔ “ یہود اور نصاریٰ ہر دو کے یہاں قبر پرستی عام تھی اور آج بھی ہے۔ حافظ ابن القیم «إغاثة اللهفان» میں فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص موجودہ عام مسلمانوں کا حدیثِ نبوی اور آثارِ صحابہ و تابعین سے موازنہ کرے تو وہ دیکھے گا کہ آج مسلمانوں کے ایک جمِ غفیر نے بھی کس طرح حدیثِ نبوی کی مخالفت کرنے کی ٹھان لی ہے۔ مثلاً (1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبورِ انبیاء پر بھی نماز پڑھنے سے منع فرمایا، مگر مسلمان شوق سے کتنی ہی قبور پر نماز پڑھتے ہیں۔ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر مساجد کی عمارات بنانے سے سختی کے ساتھ روکا ہے، مگر آج ان پر بڑی بڑی عمارات بنا کر ان کا نام خانقاه، مزار شریف اور درگاہ وغیرہ رکھا جاتا ہے۔ (3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر چراغاں سے منع فرمایا، مگر قبر پرست مسلمان قبروں پر خوب خوب چراغاں کرتے اور اس کام کے لئے کتنی ہی جائیدادیں وقف کرتے ہیں۔ (4) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر زائد مٹی ڈالنے سے منع فرمایا، مگر یہ لوگ مٹی کے بجائے چونا اور اینٹ سے ان کو پختہ بناتے ہیں۔ (5) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر کتبے لکھنے سے منع فرمایا، مگر یہ لوگ شاندار عمارتیں بنا کر آیاتِ قرآنی قبروں پر (نام کے ساتھ) لکھتے ہیں گویا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم کے مخالف اور دین کی ہدایت کے باغی بنے ہوئے ہیں۔ صاحب مجالس الابرار لکھتے ہیں کہ یہ فرقہ ضالہ غلو (حد سے بڑھنا) میں یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ بیت الله شریف کی طرح قبروں کے آداب اور ارکان و مناسک مقرر کر ڈالے ہیں جو اسلام کی جگہ کھلی ہوئی بت پرستی ہے، پھر تعجب یہ ہے کہ ایسے لوگ اپنے آپ کو حنفی سنی کہلاتے ہیں حالانکہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ہرگز ہرگز ایسے امور کے لئے نہیں فرمایا۔ الله تعالیٰ ایسے مسلمانوں کو نیک سمجھ عطا کرے۔ آمین
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1443]» اس حدیث کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 435، 436]، [مسلم 531]، [نسائي 702]، [ابن حبان 6619]