(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا ابن عيينة، عن الزهري، عن ابي الاحوص، عن ابي ذر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا قام احدكم إلى الصلاة، فإن الرحمة تواجهه، فلا يمسح الحصا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا قَامَ أَحَدُكُمْ إِلَى الصَّلَاةِ، فَإِنَّ الرَّحْمَةَ تُوَاجِهُهُ، فَلَا يَمسْحِ الْحَصَا".
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی نماز کو کھڑا ہوتا ہے تو رحمت الٰہی اس کے سامنے ہوتی ہے، لہٰذا وہ کنکری نہ ہٹائے۔“
وضاحت: (تشریح احادیث 1424 سے 1426) ان احادیث سے نماز میں سجدے کی جگہ کو بار بار صاف کرنے کی ممانعت ہے، اگر بہت ہی ضروری ہو اور سجدہ کرنا مشکل ہو تو صرف ایک بار ایسا کرنے کی اجازت ہے، اور یہ اس لئے کہ یکسو ہو کر نماز پڑھے، نمازی کا ذہن ادھر ادھر نہیں بھٹکنا چاہیے اس لئے نماز میں ادھر ادھر التفات و توجہ کرنے، کپڑے سمیٹنے اور بال سدھارنے سے منع کیا گیا ہے۔ مؤمنین کی صفت یہ ہے کہ وہ اپنی نماز میں خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں اور یکسو ہو کر نماز پڑھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی تو فیق بخشے۔ آمین۔
(حديث مرفوع) اخبرنا يحيى بن حسان، حدثنا هشيم، حدثنا سيار، قال: سمعت يزيد الفقير يقول: سمعت جابر بن عبد الله، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "اعطيت خمسا لم يعطهن نبي قبلي: كان النبي يبعث إلى قومه خاصة، وبعثت إلى الناس كافة، واحلت لي المغانم، وحرمت على من كان قبلي، وجعلت لي الارض طيبة مسجدا وطهورا، ويرعب منا عدونا مسيرة شهر، واعطيت الشفاعة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا سَيَّارٌ، قَالَ: سَمِعْتُ يَزِيدَ الْفَقِيرَ يَقُولُ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أُعْطِيتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ نَبِيٌّ قَبْلِي: كَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً، وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً، وَأُحِلَّتْ لِيَ الْمَغَانِمُ، وَحُرِّمَتْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلِي، وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ طَيِّبَةً مَسْجِدًا وَطَهُورًا، وَيَرْعَبُ مِنَّا عَدُوُّنَا مَسِيرَةَ شَهْرٍ، وَأُعْطِيتُ الشَّفَاعَةَ".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے پانچ چیزیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔ نبی خاص اپنی اپنی قوم کے لئے مبعوث ہوتے تھے اور مجھے تمام انسانوں کے لئے عام طور پر نبی بنا کر بھیجا گیا ہے۔ میرے لئے غنیمت کا مال حلال کیا گیا ہے جو مجھ سے پہلے نبیوں پر حرام تھا۔ اور تمام زمین میرے لئے پاک سجدہ گاہ اور طاہر بنا دی گئی۔ اور ہمارے دشمنوں کے (دلوں میں) ایک مہینے کی مسافت تک رعب ڈال دیا گیا (یعنی اتنی دور تک دشمن ہم سے ڈرتا ہے)۔ اور مجھے شفاعت عطا کی گئی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1429]» اس حدیث کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ روایت ہے۔ دیکھئے: [بخاري 335]، [مسلم 521]، [نسائي 430]، [ابن حبان 6398 وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 1426) اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پانچ خصوصیات بیان کی گئی ہیں جن کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سارے انبیاء میں ممتاز ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رعب اس قدر ڈال دیا تھا کہ بڑے بڑے بادشاہ دور دراز بیٹھے ہوئے محض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سن کر کانپ جایا کرتے تھے۔ کسریٰ پرویز نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامۂ مبارک چاک کیا، اللہ تعالیٰ نے تھوڑے ہی دنوں بعد اس کے بیٹے شیرویہ کے ہاتھ سے اس کا پیٹ چاک کرا دیا اور اس کی حکومت درہم برہم اور تہہ و بالا ہوگئی۔ اب بھی دشمنانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی حشر ہوتا ہے کہ وہ ذلت کی موت مرتے ہیں۔ (مولانا داؤد راز رحمہ اللہ)
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن منصور، حدثنا عبد العزيز بن محمد، انبانا سالته عنه، قال: اخبرني عمرو بن يحيى، عن ابيه، عن ابي سعيد الخدري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "الارض كلها مسجد إلا المقبرة والحمام". قيل لابي محمد: تجزئ الصلاة في المقبرة؟ قال: إذا لم تكن على القبر فنعم، وقال: الحديث اكثرهم ارسلوه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَنْبأَنَا سَأَلْتُهُ عَنْهُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْأَرْضُ كُلُّهَا مَسْجِدٌ إِلَّا الْمَقْبَرَةَ وَالْحَمَّامَ". قِيلَ لِأَبِي مُحَمَّدٍ: تُجْزِئُ الصَّلَاةُ فِي الْمَقْبَرَةِ؟ قَالَ: إِذَا لَمْ تَكُنْ عَلَى الْقَبْرِ فَنَعَمْ، وَقَالَ: الْحَدِيثُ أَكْثَرُهُمْ أَرْسَلُوهُ.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمام زمین سجده گاه (مسجد) ہے سوائے مقبرے اور حمام کے۔“(یعنی مقبرے اور حمام میں نماز پڑھنا جائز نہیں)۔ امام دارمی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: اگر کوئی مقبرے میں نماز پڑھ لے تو کیا اس کی نماز ہو جائے گی؟ جواب دیا: اگر ایسی جگہ نماز پڑھ لی جہاں قبر نہیں تھی تو نماز ہو جائے گی، اور فرمایا: اکثر رواۃ نے اس حدیث کو مرسل روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1430]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 492]، [ترمذي 317]، [ابن ماجه 745]، [ابن حبان 1700]، [الموارد 336]
وضاحت: (تشریح حدیث 1427) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جب تک نجاست کا یقین نہ ہو زمین کا ہر حصہ پاک ہے، اس پر نماز بھی پڑھی جا سکتی ہے اور تیمّم بھی کیا جا سکتا ہے، اور اس سے وہ اماکن وجگہیں مستثنیٰ ہیں جن کا ذکر صریح طور پر احادیث میں آیا ہے، جیسے مقبره، حمام، اونٹ کے باڑے اور بیت اللہ الحرام کی چھت وغیرہ، بحالتِ مجبوری قبرستان کی ایسی مسجد ہو جو قبروں پر نہ بنائی گئی ہو اس میں نماز پڑھنا امام دارمی رحمہ اللہ کے قول کے مطابق درست ہے۔ واللہ اعلم۔
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن منهال، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا هشام بن حسان، عن محمد، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا حضرت الصلاة فلم تجدوا إلا مرابض الغنم، واعطان الإبل، فصلوا في مرابض الغنم، ولا تصلوا في اعطان الإبل".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهِ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا حَضَرَتْ الصَّلَاةُ فَلَمْ تَجِدُوا إِلَّا مَرَابِضَ الْغَنَمِ، وَأَعْطَانَ الْإِبِلِ، فَصَلُّوا فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ، وَلَا تُصَلُّوا فِي أَعْطَانِ الْإِبِلِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب نماز کا وقت ہو جائے اور تمہیں بکریوں اور اونٹ کے باڑے (ان کے بیٹھنے کی جگہ) کے علاوہ اور کوئی جگہ نہ ملے تو بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ لو اور اونٹ کے باڑے میں نماز نہ پڑھو۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1431]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 348، 349]، [ابن ماجه 768]، [ابن حبان 1700]، [موارد الظمآن 336]
وضاحت: (تشریح حدیث 1428) احکامِ شریعت حکمت و منفعت سے لبریز ہیں۔ مذکورہ بالا حدیث میں جگہ نہ ملنے پر بکریوں کے باڑے میں نماز کی اجازت دی گئی اور اونٹ کے باڑے میں نماز پڑھنے کی ممانعت ہے، اور یہ اس لئے کہ بکریوں سے ضرر کا اندیشہ نہیں اس کے برعکس اونٹ اگر بھڑک جائے تو چوٹ کیا جان تک جانے کا اندیشہ ہے، اور قرآن پاک میں بھی اصول بیان کر دیا گیا: « ﴿وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ﴾[البقرة: 195] »”اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو۔ “ قربان جائیں ایسی شریعت حقہ پر جس کا ہر امر اور ہر نہی حکمت سے پُر ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو عاصم، عن عبد الحميد بن جعفر، حدثني ابي، عن محمود بن لبيد، ان عثمان لما اراد ان يبني المسجد كره الناس ذلك، فقال عثمان: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: "من بنى لله مسجدا، بنى الله له في الجنة مثله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ، أَنَّ عُثْمَانَ لَمَّا أَرَادَ أَنْ يَبْنِيَ الْمَسْجِدَ كَرِهَ النَّاسُ ذَلِكَ، فَقَالَ عُثْمَانُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "مَنْ بَنَى لِلَّهِ مَسْجِدًا، بَنَى اللَّهُ لَهُ فِي الْجَنَّةِ مِثْلَهُ".
محمود بن لبید سے مروی ہے کہ جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے مسجد بنانے کا ارادہ فرمایا تو لوگوں نے اسے ناپسند کیا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جو شخص اللہ کے لئے ایک مسجد بنائے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ویسا ہی ایک گھر جنت میں بنا دے گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1432]» یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 450]، [مسلم 533]، [ترمذي 318]، [ابن ماجه 736]، [ابن حبان 1609]
وضاحت: (تشریح حدیث 1429) اس حدیث سے مسجد بنانے والے کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ جو شخص اللہ کی رضا کے لئے مسجد بنائے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ویسا ہی ایک گھر جنّت میں بنائے گا۔ امیر المؤمنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے 30ھ میں مسجدِ نبوی کی تعمیر و توسیع کا کام شروع کیا تو کچھ لوگوں نے اسے پسند نہیں کیا، اس پر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ مرفوع حدیث پیش کی اور علی وجہ البصیرۃ مسجدِ نبوی میں توسیع کی، اور ویسے ہی گھر سے مراد یہ ہے کہ جیسے مسجد کو دنیا کے گھروں پر فضیلت ہوتی ہے ویسے ہی اس گھر کو جنّت کے اور گھروں پر فضیلت ہوگی، مقصود یہ نہیں ہے کہ مسجد کے برابر ہی جنّت میں گھر بنے۔ (علامہ وحیدالزماں رحمہ اللہ)۔
سیدنا ابوقتادہ السلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں آئے تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت (تحیۃ المسجد) پڑھ لے۔“
وضاحت: (تشریح حدیث 1430) مذکورہ بالا حدیث کا حکم عام ہے یعنی مسجد میں داخل ہونے والا کسی بھی وقت میں داخل ہو چاہے طلوع و غروبِ آفتاب کا وقت ہو یا زوال کا، حکم ہے کہ بنا دو رکعت پڑھے مسجد میں نہ بیٹھے، حتیٰ کہ امام اگر خطبہ بھی دے رہا ہے تو بھی ہلکی دو رکعت پڑھ کر ہی بیٹھنا چاہیے، جیسا کہ حدیث نمبر (1590) میں صراحت موجود ہے۔ عصرِ حاضر میں بعض لوگ مسجد میں آتے ہی پہلے بیٹھ جاتے ہیں پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھتے ہیں، حالانکہ یہ مسلم کی روایت: «فَلَا يَجْلِسْ حَتَّىٰ يَرْكَعَ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَّجْلِسَ» کی صریح مخالفت ہے، اور فرمانِ الٰہی ہے: « ﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾[النور: 63] » جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آ پڑے یا ان کو درد ناک عذاب نہ آ جائے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اتباعِ سنّت کی توفیق بخشے۔ آمین
ابوحمید اور ابواسید انصاری رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی آدمی مسجد میں داخل ہو تو پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجے پھر یہ کہے: «اَللّٰهُمَّ افْتَحْ لِيْ أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ»”اے اللہ میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے“، اور جب مسجد سے باہر نکلے تو یہ کہے: «اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ»”اے اللہ میں تجھ سے تیرا فضل مانگتا ہوں“ یعنی رزق اور دنیا کی دیگر نعمتیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1434]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 713 بدون ذكر التسليم على النبي]، [أبوداؤد 465]، [نسائي 728]، [ابن ماجه 772]، [ابن حبان 2048]، بعض روایات میں ابوحمید او ابواسید آیا ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 1431) مسجد میں داخل ہوتے وقت «السَّلَامُ عَلَى النَّبِىْ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَكَاتُهُ، اَللّٰهُمَّ افْتَحْ لِيْ أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ.» کہنا چاہیے اور نکلتے وقت «السَّلَامُ عَلَى النَّبِىْ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَكَاتُهُ، اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْئَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ.» کہنا چاہیے جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔ «أَعُوْذُ بِاللّٰهِ الْعَظِيْمِ وَبِوَجْهِهِ الْكَرِيْمِ وَسُلْطَانِهِ الْقَدِيْمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ.» بھی دخولِ مسجد کے وقت کہنا ثابت ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 466] ۔
(حديث مرفوع) حدثنا هاشم بن القاسم، حدثنا شعبة، قال: قلت لقتادة: اسمعت انسا، يقول عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "البزاق في المسجد خطيئة؟"قال: نعم، وكفارتها دفنها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: قُلْتُ لِقَتَادَةَ: أَسَمِعْتَ أَنَسًا، يَقُولُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "الْبُزَاقُ فِي الْمَسْجِدِ خَطِيئَةٌ؟"قَالَ: نَعَمْ، وَكَفَّارَتُهَا دَفْنُهَا".
شعبہ نے کہا: میں نے قتادہ سے پوچھا: کیا تم نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہوئے سنا کہ مسجد میں تھوکنا گناہ ہے؟ قتادہ نے کہا: ہاں، اور (یہ بھی سنا کہ) اس کا کفارہ اس کو دفن کر دینا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1435]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 415]، [مسلم 552]، [أبوداؤد 475]، [نسائي 722]، [أبويعلی 2850]، بخاری وغیرہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ تھوک کو دفن کر دینا ہے“ (چھپا دینا یا زائل کر دینا ہے)۔
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، انبانا حميد، عن انس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:"إن العبد إذا صلى، فإنما يناجي ربه او ربه بينه وبين القبلة، فإذا بزق احدكم، فليبصق عن يساره او تحت قدمه، او يقول هكذا"، وبزق في ثوبه ودلك بعضه ببعض.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبأَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:"إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا صَلَّى، فَإِنَّمَا يُنَاجِي رَبَّهُ أَوْ رَبُّهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ، فَإِذَا بَزَقَ أَحَدُكُمْ، فَلْيَبْصُقْ عَنْ يَسَارِهِ أَوْ تَحْتَ قَدَمِهِ، أَوْ يَقُولُ هَكَذَا"، وَبَزَقَ فِي ثَوْبِهِ وَدَلَكَ بَعْضَهُ بِبَعْضٍ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندہ جب کھڑے ہو کر نماز پڑھتا ہے تو وہ اپنے رب سے سرگوشی (مناجات) کرتا ہے“ یا یہ کہا کہ ”اس کے اور قبلہ کے درمیان اس کا رب ہوتا ہے، پس جب تم میں سے کوئی شخص تھوکنے پر مجبور ہو تو اپنے بائیں طرف تھوکے یا اپنے قدم کے نیچے یا اس طرح کرے“ اور آپ نے اپنے کپڑے میں تھوکا اور کنارے پکڑ کر اسے مسل دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1436]» اس حدیث کی سند صحیح اور حدیث دوسری سند سے متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 413، 416، 417]، [مسلم 551]، [أبويعلی 2884]، [ابن حبان 2267]، [الحميدي 1253]، بخاری شریف میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر کے ایک کنارے پر تھوکا اور اسے مسل دیا۔
(حديث مرفوع) اخبرنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن نافع، عن ابن عمر، قال: بينا النبي صلى الله عليه وسلم يخطب، إذ راى نخامة في قبلة المسجد، فتغيظ على اهل المسجد، وقال:"إن الله قبل احدكم إذا كان في صلاته، فلا يبزقن او قال: لا يتنخعن"، ثم امر بها فحك مكانها، وامر بها فلطخت. قال حماد: لا اعلمه إلا قال: بزعفران.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: بَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ، إِذْ رَأَى نُخَامَةً فِي قِبْلَةِ الْمَسْجِدِ، فَتَغَيَّظَ عَلَى أَهْلِ الْمَسْجِدِ، وَقَالَ:"إِنَّ اللَّهَ قِبَلَ أَحَدِكُمْ إِذَا كَانَ فِي صَلَاتِهِ، فَلَا يَبْزُقَنَّ أَوْ قَالَ: لَا يَتَنَخَّعَنَّ"، ثُمَّ أَمَرَ بِهَا فَحُكَّ مَكَانُهَا، وَأَمَرَ بِهَا فَلُطِخَتْ. قَالَ حَمَّادٌ: لَا أَعْلَمُهُ إِلَّا قَالَ: بِزَعْفَرَانٍ.
سیدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے کہ اسی اثناء میں مسجد کے قبلہ کی طرف (دیوار پر) بلغم کو دیکھا تو آپ کو حاضرین مسجد پر غصہ آ گیا اور آپ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی نماز میں ہوتا ہے تو الله جل جلالہ اس کے سامنے ہوتا ہے“(خطابی وغیرہ نے کہا اللہ کی رحمت یا اللہ کا قبلہ سامنے ہوتا ہے)”اس لئے وہ ہرگز اپنے سامنے نہ تھوکے“ یا کہا ”ناک کا رینٹ نہ ڈالے“، پھر آپ نے حکم دیا اور اس جگہ کو کھرچ دیا گیا یا حکم دیا پس اسے پوت دیا گیا۔ حماد نے کہا: مجھے اس کے سوا علم نہیں کہ کہا زعفران سے پوت دیا گیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1437]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 417]، [مسلم 547/51]، [أبوداؤد 479]، [نسائي 725]، [ابن ماجه 763]، [الموطأ 4]، [أحمد 32/2، 141]