سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ لوگ «الماء من الماء» کا جو فتویٰ دیتے ہیں، یہ رخصت تھی جو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اول اسلام میں مرحمت فرمائی تھی، پھر بعد میں آپ نے غسل کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 787]» یہ حدیث و سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداود 215]، [ترمذي 110]، [ابن ماجه 609]۔ نیز دیکھئے پچھلی حدیث کے حوالہ جات۔
وضاحت: (تشریح حدیث 782) خلاصۂ کلام یہ کہ احتلام کی صورت میں اور جماع کرتے وقت صرف عضو مخصوص داخل کرنے سے ہی غسل واجب ہو جاتا ہے، جیسا کہ اگلے باب میں آرہا ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا هشام، عن قتادة، عن الحسن، عن ابي رافع، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "إذا جلس بين شعبها الاربع، ثم جهدها، فقد وجب الغسل".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِذَا جَلَسَ بَيْنَ شُعَبِهَا الْأَرْبَعِ، ثُمَّ جَهَدَهَا، فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مرد عورت کی چاروں شاخوں کے درمیان بیٹھے، پھر جماع کرے، تو اس پر غسل واجب ہوگیا۔“(یعنی چار زانو پر بیٹھ کر جماع کے لئے کوشش کرے تو غسل واجب ہو گیا)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 788]» یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 291]، [مسلم 348]، [صحيح ابن حبان 1174]
وضاحت: (تشریح حدیث 783) یہ حدیث پانی نکلنے پر غسل واجب ہونے والی حدیث کی ناسخ ہے اور اسی پرتمام علماء کا اتفاق ہے کہ جب آدمی جماع کرے، چاہے منی نکلے یا نہ نکلے، اس پر غسل واجب ہوگیا۔
سعید بن المسیّب نے کہا میری خالہ (خولہ بنت حکیم السلمیہ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عورت کے بارے میں دریافت کیا جب اسے احتلام ہو جائے (یعنی وہ کیا کرے)، تو آپ نے اسے غسل کرنے کا حکم دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 789]» سعيد بن المسیب اس سوال کے وقت موجود نہ تھے، یہ اس روایت کی علت ہے، لیکن دوسری کتب میں بسند صحیح بھی مروی ہے۔ دیکھئے: [مسند الامام أحمد 409/6]، [نسائي 198]، [ابن ماجه 603]، [المعجم الكبير 240/24، 610، 613]، [حلية الأولياء 206/5]
وضاحت: (تشریح حدیث 784) یعنی احتلام ہو جانے پر جس طرح مرد پر غسل واجب ہے عورت بھی غسل کرے گی۔
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن صالح، حدثني الليث، حدثني عقيل، عن ابن شهاب، حدثني عروة بن الزبير، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم رضي الله عنها، انها اخبرته ان ام سليم ام بني ابي طلحة رضي الله عنه دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إن الله لا يستحيي من الحق، ارايت المراة ترى في النوم ما يرى الرجل، اتغتسل؟، قال:"نعم"، فقالت عائشة: فقلت: اف لك، اترى المراة ذلك؟ فالتفت إليها رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: "تربت يمينك، فمن اين يكون الشبه؟".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّ أُمَّ سُلَيْمٍ أُمَّ بَنِي أَبِي طَلْحَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ دَخَلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي مِنْ الْحَقِّ، أَرَأَيْتَ الْمَرْأَةَ تَرَى فِي النَّوْمِ مَا يَرَى الرَّجُلُ، أَتَغْتَسِلُ؟، قَالَ:"نَعَمْ"، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ: أُفٍّ لَكِ، أَتَرَى الْمَرْأَةُ ذَلِكَ؟ فَالْتَفَتَ إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "تَرِبَتْ يَمِينُكِ، فَمِنْ أَيْنَ يَكُونُ الشَّبَهُ؟".
عروہ بن زبیر سے مروی ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا زوجۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بتایا: بنو ابوطلحۃ کی ماں سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس داخل ہوئیں، عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ حق بات سے نہیں شرماتا ہے، عورت مرد کی طرح سوتے میں تری دیکھے تو غسل کرے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، غسل کرے گی“، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: تف ہے تمہارے اوپر، کیا عورت کو احتلام ہوتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”مٹی لگے تمہارے ہاتھ کو، پھر کہاں سے مشابہت ہوتی ہے؟“ «تربت يمينك»: یہ عربی محاورہ ہے جو عموماً بددعا کے لئے استعال ہوتا ہے، مطلب ہے تم پر محتاجی و فقیری آئے، لیکن یہاں بددعا مقصد نہیں بلکہ تعجب کے لئے ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح كاتب الليث ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 790]» یہ روایت سنداً ضعیف ہے، لیکن متن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 282]، [مسلم 314]، [أبوداؤد 236، 237]، [ترمذي 113]، [نسائي 196]، [ابن ماجه 600]، [مسند أحمد 121/3]، [مسند ابي يعلی 4395] و [صحيح ابن حبان 1166]
وضاحت: (تشریح حدیث 785) یعنی مرد و عورت دونوں کی منی سے بچے کی مشابہت ہوتی ہے، کبھی باپ کے ساتھ اور کبھی ماں کے ساتھ، اور جب یہ معلوم ہوا کہ عورت کی بھی منی ہوتی ہے تو اسے مرد کی طرح احتلام بھی ہو سکتا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح كاتب الليث ولكن الحديث صحيح
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن كثير، عن الاوزاعي، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة، عن انس رضي الله عنه، قال: دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم ام سليم وعنده ام سلمة، فقالت: المراة ترى في منامها ما يرى الرجل؟، فقالت ام سلمة: تربت يداك يا ام سليم فضحت النساء، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "منتصرا لام سليم بل انت تربت يداك، إن خيركن التي تسال عما يعنيها، إذا رات الماء فلتغتسل"، قالت ام سلمة: وللنساء ماء؟، قال:"نعم، فانى يشبههن الولد؟ إنما هن شقائق الرجال".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: دَخَلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمُّ سُلَيْمٍ وَعِنْدَهُ أُمُّ سَلَمَةَ، فَقَالَتْ: الْمَرْأَةُ تَرَى فِي مَنَامِهَا مَا يَرَى الرَّجُلُ؟، فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: تَرِبَتْ يَدَاكِ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ فَضَحْتِ النِّسَاءَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مُنْتَصِرًا لِأُمِّ سُلَيْمٍ بَلْ أَنْتِ تَرِبَتْ يَدَاكِ، إِنَّ خَيْرَكُنَّ الَّتِي تَسْأَلُ عَمَّا يَعْنِيهَا، إِذَا رَأَتْ الْمَاءَ فَلْتَغْتَسِلْ"، قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: وَلِلنِّسَاءِ مَاءٌ؟، قَالَ:"نَعَمْ، فَأَنَّى يُشْبِهُهُنَّ الْوَلَدُ؟ إِنَّمَا هُنَّ شَقَائِقُ الرِّجَالِ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی تھیں کہ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا داخل ہوئیں اور پوچھا: اگر عورت خواب میں وہ دیکھے جو مرد یکھتا ہے (یعنی احتلام ہوجائے) تو کیا کرے؟ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں، تم نے تو عورتوں کو رسوا کر دیا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کی طرف داری کرتے ہوئے فرمایا: ”بلکہ (اے بیوی) تمہارے ہی ہاتھ خاک آلود ہوں، تم عورتوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی ضرورت کے مطابق مسئلہ پوچھے۔“ پھر فرمایا: ”جب عورت تری (پانی) دیکھے تو غسل کرے گی۔“ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کیا عورتوں کا بھی پانی ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، پھر بچہ ان کے مشابہ کیسے ہوتا ہے؟“ وہ (یعنی عورتیں) مردوں کے مثل ہیں (طبیعت و عادات میں) یا عورتیں مردوں کا جوڑا ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف محمد بن كثير هو: الصنعاني وهو ضعيف. ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 791]» یہ حدیث اس سند سے ضعیف ہے، لیکن متن و معنی صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 310، 314]، [أحمد 199/3]، [مسند الموصلي 3495]، [صحيح ابن حبان 1166]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف محمد بن كثير هو: الصنعاني وهو ضعيف. ولكن الحديث صحيح
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے بارے میں فرمایا جو جاگنے پر تری دیکھے، خواب (احتلام) یاد نہ ہو، فرمایا: ”وہ غسل کر لے اور اگر خواب میں احتلام ہوتے دیکھے، لیکن تری نہ پائے تو اس پر غسل نہیں ہے۔“(یعنی جب منی کا اثر دیکھے تبھی غسل واجب ہو گا، صرف خواب دیکھنے سے نہیں)۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 792]» اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداود 236]، [ترمذي 113]، [ابن ماجه 612]، [دارقطني 133/1]، [البيهقي 168/1]
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا ابن عيينة، عن الزهري، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا استيقظ احدكم من نومه، فلا يغمس يده في الوضوء حتى يغسلها ثلاثا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا اسْتَيْقَظَ أَحَدُكُمْ مِنْ نَوْمِهِ، فَلَا يَغْمِسْ يَدَهُ فِي الْوَضُوءِ حَتَّى يَغْسِلَهَا ثَلَاثًا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی سو کر اٹھے تو پانی میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے تین بار ہاتھ کو دھو لے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 793]» اس حدیث کی سند صحیح ہے، اور یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 162]، [مسلم 278]، [ترمذي 24]، [نسائي 1]، [ابن ماجه 393]، [أبويعلی 5863]، [ابن حبان 1061]، [الحميدي 981]
وضاحت: (تشریح احادیث 786 سے 789) بخاری شریف کی روایت میں ہے: تم میں سے کوئی نہیں جانتا رات میں اس کا ہاتھ کس مقام پر تھا۔ مسلم شریف میں بھی ایسا ہی ذکر ہے۔ لہٰذا ہاتھ کو تین بار دھو لینا ضروری ہے۔ علامہ وحید الزماں رحمہ اللہ نے کہا: یہاں رات کی قید اتفاقی ہے، دن کو سو کر اُٹھے جب بھی یہی حکم ہے کہ بنا ہاتھ دھوئے برتن میں ہاتھ نہ ڈالے، اور یہ نہی تنزیہی ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے، آپ حمام میں داخل ہوئے، جب قضائے حاجت سے فارغ ہو کر نکلے تو کھانا پیش کیا گیا، اور کہا گیا: آپ وضو نہیں کریں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا نماز پڑھنی ہے جو وضو کروں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 794]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 374]، [أبوداؤد 3760]، [ترمذي 1848]، [نسائي 132]، [أحمد 359/1]، [المعجم الكبير 122/11، 11241]، [البيهقي 348/1] و [شرح السنة للبغوي 2835]
وضاحت: (تشریح حدیث 789) اس سے معلوم ہوا کہ محدث (بنا وضو والے) کے لئے کھانا، پینا، ذکر و تلاوت زبانی بلا وضو سب درست ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے کہا: اس پر اُمّت کا اجماع ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو المغيرة، عن الاوزاعي، عن الزهري، عن عروة بن الزبير، وعمرة بنت عبد الرحمن بن سعد بن زرارة، عن عائشة رضي الله عنها زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: استحيضت ام حبيبة بنت جحش وهي تحت عبد الرحمن بن عوف سبع سنين، فشكت ذلك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "إن هذه ليست بالحيضة، وإنما هي عرق، فإذا اقبلت الحيضة، فدعي الصلاة، وإذا ادبرت، فاغتسلي ثم صلي"، قالت عائشة: فكانت تغتسل لكل صلاة، ثم تصلي، وكانت تقعد في مركن لاختها زينب بنت جحش حتى إن حمرة الدم لتعلو الماء.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، وَعَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدِ بْنِ زُرَارَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: اسْتُحِيضَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ بِنْتُ جَحْشٍ وَهِيَ تَحْتَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ سَبْعَ سِنِينَ، فَشَكَتْ ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ هَذِهِ لَيْسَتْ بِالْحَيْضَةِ، وَإِنَّمَا هِيَ عِرْقٌ، فَإِذَا أَقْبَلَتْ الْحَيْضَةُ، فَدَعِي الصَّلَاةَ، وَإِذَا أَدْبَرَتْ، فَاغْتَسِلِي ثُمَّ صَلِّي"، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَكَانَتْ تَغْتَسِلُ لِكُلِّ صَلَاةٍ، ثُمَّ تُصَلِّي، وَكَانَتْ تَقْعُدُ فِي مِرْكَنٍ لِأُخْتِهَا زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ حَتَّى إِنَّ حُمْرَةَ الدَّمِ لَتَعْلُو الْمَاءَ.
عروة بن زبیر اور عمرہ بنت عبدالرحمٰن سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ سیدہ ام حبیبہ بنت جحش رضی اللہ عنہا جو کہ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے عقد میں تھیں، سات سال تک مرضِ استحاضہ میں مبتلا رہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ حیض کا خون نہیں ہے، یہ ایک رگ کا خون ہے، تو جب تمہیں حیض آئے تو نماز چھوڑ دو، اور جب حیض کی مدت ختم ہو جائے تو غسل کرو اور نماز پڑھو۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: چنانچہ وہ ہرنماز کے لئے غسل کرتیں اور نماز پڑھتی تھیں، اور وہ اپنی بہن زینب بنت جحش کے ٹب یا تسلے میں بیٹھ جاتیں تو خون کی سرخی پانی کے اوپر تیرنے لگتی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 795]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 228]، [مسلم 333، واصحاب السنن غير الترمذي]، [أبويعلي 4405]، [ابن حبان 1348]، [الحميدي 193] وغيرهم۔
وضاحت: (تشریح حدیث 790) استحاضہ ایک بیماری ہے جس میں مدتِ حیض کے بعد بھی خون جاری رہتا ہے، بند نہیں ہوتا، ایسی عورت مستحاضہ کہلاتی ہے اور اس کے لئے یہ حکم ہے کہ جب حیض کی مدت شروع ہو تو نماز چھوڑ دے، اور جب اس کی مدت ختم ہو جائے تو غسل کر کے نماز پڑھے کیونکہ یہ حیض کا خون نہیں ہوتا ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو عاصم، عن هشام صاحب الدستوائي، عن حماد، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم "يباشر وهو صائم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ هِشَامٍ صَاحِبِ الدَّسْتَوَائِيِّ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "يُبَاشِرُ وَهُوَ صَائِمٌ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے ہوتے اور اپنی بیویوں سے مباشرت کرتے تھے۔