(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا عبد الله بن صالح، حدثني الليث، حدثني ابن عجلان، عن العجلان، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "بينما رجل يتبختر في بردين، خسف الله به الارض، فهو يتجلجل فيها إلى يوم القيامة"، فقال له فتى قد سماه وهو في حلة له: يا ابا هريرة، اهكذا كان يمشي ذلك الفتى الذي خسف به؟ ثم ضرب بيده، فعثر عثرة كاد يتكسر منها، فقال ابو هريرة للمنخرين وللفم: إنا كفيناك المستهزئين سورة الحجر آية 95.(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي ابْنُ عَجْلَانَ، عَنْ الْعَجْلَانِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "بَيْنَمَا رَجُلٌ يَتَبَخْتَرُ فِي بُرْدَيْنِ، خَسَفَ اللَّهُ بِهِ الْأَرْضَ، فَهُوَ يَتَجَلْجَلُ فِيهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ"، فَقَالَ لَهُ فَتًى قَدْ سَمَّاهُ وَهُوَ فِي حُلَّةٍ لَهُ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، أَهَكَذَا كَانَ يَمْشِي ذَلِكَ الْفَتَى الَّذِي خُسِفَ بِهِ؟ ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ، فَعَثَرَ عَثْرَةً كَادَ يَتَكَسَّرُ مِنْهَا، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ لِلْمَنْخَرَيْنِ وَلِلْفَمِ: إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ سورة الحجر آية 95.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک شخص اپنی دو چادروں میں اترا رہا تھا تو الله تعالیٰ نے اسے زمین میں دھنسا دیا، لہٰذا وہ قیامت تک دھنستا رہے گا۔“ ایک نوجوان نے کہا: جس کا نام انہوں نے بتایا جو اپنے لباس (حلۃ) میں تھا، اے ابوہریرہ! کیا وہ جوان جو چلتے ہوئے دھنسا دیا گیا اس طرح چلتا تھا؟ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ مارا تو وہ لڑکھڑا کر گرا، قریب تھا کہ چور چور ہو جائے، پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ اسے اس کے چہرے کے بل گرائے اور پڑھا: «﴿إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ﴾»[الحجر: 95/15] یعنی آپ سے جو لوگ استہزاء کرتے ہیں ان کی سزا کے لئے ہم کافی ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف غير أن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 451]» اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن زمین میں دھنسائے جانے کا واقعہ صحیح ہے، اور متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3485]، [مسلم 2088] نیز اس روایت کے شواہد بھی ہیں۔ دیکھئے: [مسند أبى يعلی 4302] و [فتح الباري 261/10]
وضاحت: (تشریح حدیث 450) حدیث پاک کے ساتھ ہنسی مذاق پر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس شخص کو سخت سرزنش کی اور یہ پیغام دیا کہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توقیر و عظمت نہ کرنے والے کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جائے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف غير أن الحديث متفق عليه
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن حميد، حدثنا هارون هو ابن المغيرة، عن عمرو بن ابي قيس، عن الزبير بن عدي، عن خراش بن جبير، قال: رايت في المسجد فتى يخذف، فقال له شيخ: لا تخذف، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم "نهى عن الخذف"، فغفل الفتى وظن ان الشيخ لا يفطن له، فخذف، فقال له الشيخ: احدثك اني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم"ينهى عن الخذف"ثم تخذف؟ والله لا اشهد لك جنازة، ولا اعودك في مرض , ولا اكلمك ابدا، فقلت لصاحب لي يقال له مهاجر: انطلق إلى خراش فاساله، فاتاه، فساله عنه فحدثه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا هَارُونُ هُوَ ابْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قَيْسٍ، عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ خِرَاشِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: رَأَيْتُ فِي الْمَسْجِدِ فَتًى يَخْذِفُ، فَقَالَ لَهُ شَيْخٌ: لَا تَخْذِفْ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "نَهَى عَنْ الْخَذْفِ"، فَغَفَلَ الْفَتَى وَظَنَّ أَنَّ الشَّيْخَ لَا يَفْطِنُ لَهُ، فَخَذَفَ، فَقَالَ لَهُ الشَّيْخُ: أُحَدِّثُكَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يَنْهَى عَنْ الْخَذْفِ"ثُمَّ تَخْذِفُ؟ وَاللَّهِ لَا أَشْهَدُ لَكَ جَنَازَةً، وَلَا أَعُودُكَ فِي مَرَضٍ , وَلَا أُكَلِّمُكَ أَبَدًا، فَقُلْتُ لِصَاحِبٍ لِي يُقَالُ لَهُ مُهَاجِرٌ: انْطَلِقْ إِلَى خِرَاشٍ فَاسْأَلْهُ، فَأَتَاهُ، فَسَأَلَهُ عَنْهُ فَحَدَّثَهُ.
خراش بن جبیر نے کہا: میں نے مسجد میں ایک جوان کو دیکھا جو کنکری پھینک رہا تھا، ایک شیخ نے اس سے کہا: کنکری نہ پھینکو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کنکری پھینکنے سے منع کرتے سنا ہے۔ اس جوان نے غفلت برتی اور سمجھا کہ شیخ اس کو دیکھ نہیں رہے ہیں، چنانچہ پھر کنکری پھینکنے لگا تو شیخ نے اس سے کہا: میں تمہیں حدیث بتاتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کنکری پھینکنے سے منع فرماتے سنا پھر بھی تم وہی کر رہے ہو؟ قسم خدا کی میں نہ تمہارے جنازے میں آؤں گا نہ بیمار ہوئے تو تمہاری عیادت کروں گا، اور نہ کبھی تم سے بات کروں گا۔ میں نے اپنے ساتھی سے جس کا نام مہاجر تھا کہا: خراش کے پاس جاؤ اور پوچھو، چنانچہ وہ ان کے پاس گئے اور اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے یہ حدیث ان سے بھی بیان کی۔ (یعنی اس کی تصدیق کر دی)۔
تخریج الحدیث: «في إسناده علتان: ضعف محمد بن حميد وجهالة خراش بن جبير إن كان محفوظا. ولكنه صحيح بما بعده، [مكتبه الشامله نمبر: 452]» اس روایت کی سند میں محمد بن حمید ضعیف اور خراش مجہول ہیں، لیکن حدیث الخذف صحیح ہے، جیسا کہ آگے آرہا ہے، دیکھئے رقم: (453، 454)۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده علتان: ضعف محمد بن حميد وجهالة خراش بن جبير إن كان محفوظا. ولكنه صحيح بما بعده
(حديث مرفوع) اخبرنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن سعيد بن جبير، عن عبد الله بن مغفل رضي الله عنه، قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم "عن الخذف"وقال:"إنها لا تصطاد صيدا، ولا تنكا عدوا، ولكنها تكسر السن، وتفقا العين"، فرفع رجل بينه وبين سعيد قرابة شيئا من الارض، فقال: هذه؟ وما تكون هذه؟، فقال سعيد: الا اراني احدثك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم تهاون به، لا اكلمك ابدا.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "عَنْ الْخَذْفِ"وَقَالَ:"إِنَّهَا لَا تَصْطَادُ صَيْدًا، وَلَا تَنْكِأُ عَدُوًّا، وَلَكِنَّهَا تَكْسِرُ السِّنَّ، وَتَفْقَأُ الْعَيْنَ"، فَرَفَعَ رَجُلٌ بَيْنَهُ وَبَيْنَ سَعِيدٍ قَرَابَةٌ شَيْئًا مِنْ الْأَرْضِ، فَقَالَ: هَذِهِ؟ وَمَا تَكُونُ هَذِهِ؟، فَقَالَ سَعِيدٌ: أَلَا أُرَانِي أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ تَهَاوَنُ بِهِ، لَا أُكَلِّمُكَ أَبَدًا.
سیدنا عبدالله بن مغفل رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکری پھینکنے سے منع فرمایا اور فرمایا: ”یہ کنکری نہ پرند کا شکار کر سکتی ہے اور نہ دشمن کو نقصان پہنچا سکتی ہے سوائے اس کے کہ دانت توڑ د ے گی یا آنکھ پھوڑ دے گی۔“ پھر سعید بن جبیر اور وہ شخص جس کے درمیان رشتے داری تھی اس نے زمین سے کوئی چیز اٹھائی اور کہا: یہ اس کی کیا اہمیت ہو سکتی ہے؟ سعید بن جبیر نے کہا: کیا تم دیکھتے نہیں میں تمہیں حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سناتا ہوں، پھر تم اس کو معمولی سمجھتے ہو؟ تم سے میں کبھی بات نہیں کروں گا۔
تخریج الحدیث: «وهكذا جاءت عند البخاري ومسلم إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 453]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ [امام بخاري 5479] اور [امام مسلم 1954] و [امام أحمد 86/4] نے اسے ذکر کیا ہے اور اصحاب السنن نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 5270]، [نسائي 47/8]، [ابن ماجه 217، 3226]
وضاحت: (تشریح احادیث 451 سے 453) مولانا داؤد راز رحمہ اللہ نے فرمایا: اس سے معلوم ہوا حدیث پر چلنا اور اس کے سامنے رائے قیاس کو چھوڑنا ایمان کا تقاضا ہے اور یہ ہی صراط مستقیم ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا: اس سے ان لوگوں سے ترکِ سلام و کلام جائز ثابت ہوا جو سنّت کی مخالفت کریں، اور یہ عمل اس حدیث کے خلاف نہ ہوگا جس میں تین دن سے زیادہ ترکِ کلام کی مخالفت آئی ہے، اس لئے کہ وہ اپنے نفس کے لئے ہے اور یہ محبتِ سنّتِ نبوی کے لئے ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: وهكذا جاءت عند البخاري ومسلم إسناده صحيح
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن يزيد، حدثنا كهمس بن الحسن، عن عبد الله بن بريدة، قال: راى عبد الله بن مغفل رضي الله عنه رجلا من اصحابه يخذف، فقال: لا تخذف، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم: "كان ينهى عن الخذف او كان يكره الخذف"، وقال:"وإنه لا ينكا به عدو، ولا يصاد به صيد، ولكنه قد يفقا العين، ويكسر السن"، ثم رآه بعد ذلك يخذف، فقال له: الم اخبرك ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان ينهى عنه، ثم اراك تخذف، والله لا اكلمك ابدا.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا كَهْمَسُ بْنُ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، قَالَ: رَأَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُغَفَّلٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِهِ يَخْذِفُ، فَقَالَ: لَا تَخْذِفْ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "كَانَ يَنْهَى عَنْ الْخَذْفِ أَوْ كَانَ يَكْرَه الْخَذْفَ"، وَقَالَ:"وَإِنَّهُ لَا يُنْكَأُ بِهِ عَدُوٌّ، وَلَا يُصَادُ بِهِ صَيْدٌ، وَلَكِنَّهُ قَدْ يَفْقَأُ الْعَيْنَ، وَيَكْسِرُ السِّنَّ"، ثُمَّ رَآهُ بَعْدَ ذَلِكَ يَخْذِفُ، فَقَالَ لَهُ: أَلَمْ أُخْبِرْكَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْهَى عَنْهُ، ثُمَّ أَرَاكَ تَخْذِفُ، وَاللَّهِ لَا أُكَلِّمُكَ أَبَدًا.
عبداللہ بن بریدہ نے کہا: سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے اپنے اصحاب میں سے ایک آدمی کو کنکری پھینکتے دیکھا. تو فرمایا: کنکری نہ پھینکو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کنکری پھینکنے سے منع فرماتے تھے، (دوسری روایت میں ہے) کنکری پھینکنے کو پسند نہیں کرتے تھے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے ذریعہ نہ دشمن کو کوئی نقصان پہنچایا جا سکتا ہے اور نہ شکار کیا جا سکتا ہے، البتہ یہ کبھی آنکھ پھوڑ دیتی ہے اور دانت توڑ دیتی ہے۔“ اس کے بعد پھر اسے کنکری پھینکتے دیکھا تو فرمایا: کیا میں نے تمہیں بتایا نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے منع فرماتے تھے؟ اس کے باوجود بھی میں تمہیں کنکری پھینکتے دیکھ رہا ہوں، قسم الله کی اب میں تم سے کبھی بات نہیں کروں گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 454]» اس روایت کی سند بھی صحیح ہے اور تخریج اوپر گزرچکی ہے۔
(حديث مقطوع) اخبرنا مروان بن محمد، حدثنا سعيد بن بشير، عن قتادة، قال: حدث ابن سيرين رجلا بحديث، عن النبي صلى الله عليه وسلم، فقال رجل: قال فلان: كذا وكذا، فقال ابن سيرين: "احدثك عن النبي صلى الله عليه وسلم، وتقول: قال فلان وفلان: كذا وكذا، لا اكلمك ابدا".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ بَشِيرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: حَدَّثَ ابْنُ سِيرِينَ رَجُلًا بِحَدِيثٍ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَجُلٌ: قَالَ فُلَانٌ: كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ ابْنُ سِيرِينَ: "أُحَدِّثُكَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتَقُولُ: قَالَ فُلَانٌ وَفُلَانٌ: كَذَا وَكذَا، لَا أُكَلِّمُكَ أَبَدًا".
قتادہ نے کہا: امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے ایک آدمی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کی تو اس آدمی نے کہا: فلاں نے تو اس طرح کہا ہے؟ امام ابن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا: میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سناتا ہوں اور تم کہتے ہو کہ فلاں فلاں نے یہ کہا ہے؟ میں تم سے کبھی بات نہ کروں گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل سعيد بن بشير، [مكتبه الشامله نمبر: 455]» اس اثر کی سند حسن ہے، اور یہ روایت [مجمع الزوائد 1442] میں مذکور ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل سعيد بن بشير
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن كثير، عن الاوزاعي، عن الزهري، عن سالم، عن ابن عمر رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "إذا استاذنت احدكم امراته إلى المسجد، فلا يمنعها"، فقال فلان بن عبد الله: إذا والله امنعها، فاقبل عليه ابن عمر فشتمه شتيمة لم اره يشتمها احدا قبله، ثم قال: احدثك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، وتقول: إذا والله امنعها!!.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِذَا اسْتَأْذَنَتْ أَحَدَكُمْ امْرَأَتُهُ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَلَا يَمْنَعْهَا"، فَقَالَ فُلَانُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: إِذًا وَاللَّهِ أَمْنَعُهَا، فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ ابْنُ عُمَرَ فَشَتَمَهُ شَتِيمَةً لَمْ أَرَهُ يَشْتِمُهَا أَحَدًا قَبْلَهُ، ثُمَّ قَالَ: أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتَقُولُ: إِذًا وَاللَّهِ أَمْنَعُهَا!!.
سیدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کسی کی بیوی اگر مسجد جانے کی اجازت مانگے تو اسے روکے نہیں۔“ عبداللہ کے ایک بیٹے نے کہا: میں تو الله کی قسم اس وقت اسے روکوں گا، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اتنا برا بھلا کہا کہ میں نے اس سے پہلے انہیں کبھی کسی کو اتنا برا بھلا کہتے نہیں سنا، پھر فرمایا: میں تمہیں حدیث رسول سناتا ہوں، پھر بھی تم کہتے ہو ہم اس وقت واللہ اسے روکیں گے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف محمد بن كثير وهو الثقفي الصنعاني لكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 456]» اس اثر کی سند ضعیف ہے، لیکن عورت کا مسجد جانے کی اجازت والی حدیث دوسری سند سے صحیح و متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: تخریج حدیث نمبر (459)۔ اور مذکورہ بالا حدیث کے لئے دیکھئے: [بخاري 873]، [مسلم 442]، [مسند أبي يعلی 5426]، [صحيح ابن حبان 2208]، [مسند الحميدي 625]
وضاحت: (تشریح احادیث 453 سے 456) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت اگر مسجد جانے کی اجازت مانگے تو اسے مسجد جانے سے روکنا نہیں چاہئے بشرطیکہ فتنے میں پڑنے کا ڈر نہ ہو، اور مکان آمن ہو، راستہ محفوظ ہو، اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اتنی شدت سے ان کو ڈانٹا تو اس کا سبب ان کے بیٹے کا طرزِ کلام تھا، اور قسم کھا کر یہ کہنا کہ واللہ ہم روکیں گے حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح مخالفت ہے۔ جس کے بارے میں آیا: « ﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾[النور: 63] » یعنی ”جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کریں انھیں ڈرنا چاہیے کہ فتنہ میں نہ پڑ جائیں یا درد ناک عذاب میں مبتلا ہو جائیں۔ “
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف محمد بن كثير وهو الثقفي الصنعاني لكن الحديث متفق عليه
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن حميد، حدثنا هارون بن المغيرة، عن معروف، عن ابي المخارق، قال: ذكر عبادة بن الصامت رضي الله عنه، ان النبي صلى الله عليه وسلم: "نهى عن درهمين بدرهم"، فقال فلان: ما ارى بهذا باسا، يدا بيد، فقال عبادة: اقول: قال النبي صلى الله عليه وسلم، وتقول: لا ارى به باسا، والله لا يظلني وإياك سقف ابدا.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ مَعْرُوفٍ، عَنْ أَبِي الْمُخَارِقِ، قَالَ: ذَكَرَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَهَى عَنْ دِرْهَمَيْنِ بِدِرْهَمٍ"، فَقَالَ فُلَانٌ: مَا أَرَى بِهَذَا بَأْسًا، يَدًا بِيَدٍ، فَقَالَ عُبَادَةُ: أَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتَقُولُ: لَا أَرَى بِهِ بَأْسًا، وَاللَّهِ لَا يُظِلُّنِي وَإِيَّاكَ سَقْفٌ أَبَدًا.
ابوالمخارق نے کہا کہ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے ذکر کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک درہم کے بدلے دو درہم لینے سے منع فرمایا ہے، ایک آدمی نے کہا کہ جب نقداً (لین دین) ہو تو میں اس میں کوئی برائی نہیں سمجھتا، اس پر سیدنا عباده رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا اور تم کہتے ہو کہ میں اس میں کوئی برائی نہیں سمجھتا، قسم الله کی میں کبھی تمہارے ساتھ ایک چھت کے نیچے نہ بیٹھوں گا۔
تخریج الحدیث: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 457]» یہ روایت ضعیف ہے، کیوں کہ ابوالمخارق اور معروف مجہول ہیں اور محمد بن حمید ضعیف ہیں، لیکن اس طرح کے شواہد موجود ہیں جیسا کہ گذر چکا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يزيد الرفاعي، حدثنا ابو عامر العقدي، عن زمعة، عن سلمة بن وهرام، عن عكرمة، عن ابن عباس رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "لا تطرقوا النساء ليلا"، قال: واقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم قافلا، فانسل رجلان إلى اهليهما، فكلاهما وجد مع امراته رجلا.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الرِّفَاعِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، عَنْ زَمْعَةَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ وَهْرَامٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَا تَطْرُقُوا النِّسَاءَ لَيْلًا"، قَالَ: وَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَافِلًا، فَانْسَلَّ رَجُلَانِ إِلَى أَهْلَيْهِمَا، فَكِلَاهُمَا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا.
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورتوں کے پاس رات میں نہ جاؤ۔“ راوی نے کہا: اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے لوٹے تھے، دو آدمی چپکے سے اپنے گھر والوں کے پاس چلے گئے اور دونوں نے اپنی بیویوں کے پاس آدمی پایا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف زمعة، [مكتبه الشامله نمبر: 458]» اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن حدیث (عورتوں کے پاس رات میں نہ جاؤ) صحیح ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: [كشف الأستار 1487] و [معجم الكبير 245/11، 11626]
وضاحت: (تشریح احادیث 456 سے 458) اگر یہ روایت صحیح ہے تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کی سزا تھی جو دنیا ہی میں مل گئی۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف زمعة
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو المغيرة، حدثنا الاوزاعي، عن عبد الرحمن بن حرملة الاسلمي، عن سعيد بن المسيب، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قدم من سفر نزل المعرس، ثم قال: "لا تطرقوا النساء ليلا"، فخرج رجلان ممن سمع مقالته، فطرقا اهليهما فوجد كل واحد منهما مع امراته رجلا.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَةَ الْأَسْلَمِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ نَزَلَ الْمُعَرَّسَ، ثُمَّ قَالَ: "لَا تَطْرُقُوا النِّسَاءَ لَيْلًا"، فَخَرَجَ رَجُلَانِ مِمَّنْ سَمِعَ مَقَالَتَهُ، فَطَرَقَا أَهْلِيهِمَا فَوَجَدَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا.
سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے واپس آئے تو معرّس میں نزول فرمایا، پھر حکم دیا: ”عورتوں کے پاس رات میں نہ جانا۔“ لیکن دوآدمی جنہوں نے آپ کا فرمان سنا تھا، نکل گئے اور اپنے گھر کا دروازہ جا کھٹکھٹایا اور ان میں سے دونوں نے اپنی بیوی کے ساتھ ایک آدمی پایا۔
تخریج الحدیث: «مرسل وإسناده حسن من أجل عبد الرحمن بن حرملة، [مكتبه الشامله نمبر: 459]» یہ روایت مرسل ہے، لیکن اس کی سند صحیح ہے، اور خرائطی نے اسے [مساوي الأخلاق 846] میں ذکر کیا ہے، اور حدیث «(لا تطرقوا النساء ليلا)» حاکم نے [مستدرك 7798] اور طبرانی نے [المعجم الكبير 245/11] اور ہیثمی نے [مجمع الزوائد 330/4] میں ذکر کی ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 458) یہ « ﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾[النور: 63] » ترجمہ: ”جو لوگ حکمِ رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آ پڑے یا وہ دردناک عذاب میں مبتلا کر دیے جائیں۔ “ کی تفسیر اور عقوبتِ عاجلہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہ ماننے کی سزا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: مرسل وإسناده حسن من أجل عبد الرحمن بن حرملة
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو المغيرة، حدثنا الاوزاعي، حدثنا عبد الرحمن بن حرملة، قال: جاء رجل إلى سعيد بن المسيب يودعه بحج او عمرة، فقال له: لا تبرح حتى تصلي، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "لا يخرج بعد النداء من المسجد إلا منافق، إلا رجل اخرجته حاجه وهو يريد الرجعة إلى المسجد"، فقال: إن اصحابي بالحرة، قال: فخرج قال: فلم يزل سعيد يولع بذكره حتى اخبر انه وقع من راحلته فانكسرت فخذه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حَرْمَلَةَ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ يُوَدِّعُهُ بِحَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ، فَقَالَ لَهُ: لَا تَبْرَحْ حَتَّى تُصَلِّيَ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَا يَخْرُجُ بَعْدَ النِّدَاءِ مِنْ الْمَسْجِدِ إِلَّا مُنَافِقٌ، إِلَّا رَجُلٌ أَخْرَجَتْهُ حَاجَهٌ وَهُوَ يُرِيدُ الرَّجْعَةَ إِلَى الْمَسْجِدِ"، فَقَالَ: إِنَّ أَصْحَابِي بِالْحَرَّةِ، قَالَ: فَخَرَجَ قَالَ: فَلَمْ يَزَلْ سَعِيدٌ يَوْلَعُ بِذِكْرِهِ حَتَّى أُخْبِرَ أَنَّهُ وَقَعَ مِنْ رَاحِلَتِهِ فَانْكَسَرَتْ فَخِذُهُ.
عبدالرحمٰن بن حرملۃ نے کہا کہ سعید بن المسيب رحمہ اللہ کے پاس ایک آدمی انہیں حج یا عمرے کے لئے رخصت کرنے آیا تو سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے کہا: مسجد سے بنا نماز پڑھے نہ نکلنا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اذان کے بعد مسجد سے صرف منافق نکل بھاگتا ہے، سوائے اس آدمی کے جو کسی ضرورت سے مسجد سے نکلا اور مسجد واپس آنے کا ارادہ رکھتا ہے۔“ اس شخص نے کہا: میرے ساتھی حرہ میں ہیں، اور وہ نکل گیا۔ سعید رحمہ اللہ بڑی فکر سے اس کو پوچھتے رہے یہاں تک کہ انہیں بتایا گیا کہ وہ آدمی اپنی سواری سے گرا اور اس کی ران ٹوٹ گئی۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 460]» اس روایت کی سند حسن ہے اور حدیث «لا يخرج بعد النداء إلا منافق» کو امام بیہقی نے [السنن الكبري 56/3] میں ذکر کیا ہے۔ نیز دیکھئے: [مصنف عبدالرزاق 1945]، [مراسيل أبى داؤد 25]، [مجمع الزوائد 5/2] و [الكامل لابن عدي 1962/5]
وضاحت: (تشریح حدیث 459) اذان سن کر مسجد سے نکلنے کے ممانعت کی حدیث آگے (1239) نمبر پر بھی آرہی ہے اور سعید بن المسیب رحمہ اللہ کا بار بار اس شخص کے بارے میں پوچھنا ظاہر کرتا ہے کہ انہیں یقین تھا کہ سنّت کی مخالفت پر اللہ تعالیٰ اس شخص کو ضرور کوئی سزا دے گا جو ثابت ہو کر رہی اور دنیا ہی میں اسے سنّت کی مخالفت پر سزا مل گئی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو مخالفتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بچائے، اللہ تعالیٰ نے فرعون کے بارے میں فرمایا: « ﴿فَعَصَى فِرْعَوْنُ الرَّسُولَ فَأَخَذْنَاهُ أَخْذًا وَبِيلًا﴾[المزمل: 16] » ترجمہ: ”تو فرعون نے اس رسول کی نافرمانی کی جس کی وجہ سے ہم نے اسے سخت وبال کی پکڑ میں جکڑ لیا۔ “ یعنی موسیٰ علیہ السلام کی مخالفت کے جرم میں اسے غرق کر دیا۔