سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: زہد، ورع، تقوی اور پرہیز گاری
Chapters On Zuhd
1. باب مَا جَاءَ فِي أَنَّ الصِّحَّةَ وَالْفَرَاغَ نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ
1. باب: تندرستی اور فرصت کی نعمتوں میں اکثر لوگ اپنا نقصان کرتے ہیں۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2304
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا صالح بن عبد الله، وسويد بن نصر، قال صالح: حدثنا، وقال سويد: اخبرنا عبد الله بن المبارك، عن عبد الله بن سعيد بن ابي هند، عن ابيه، عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " نعمتان مغبون فيهما كثير من الناس الصحة والفراغ ".(مرفوع) حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَسُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ صَالِحٌ: حَدَّثَنَا، وَقَالَ سُوَيْدٌ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں اکثر لوگ اپنا نقصان کرتے ہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الرقاق 1 (6412)، سنن ابن ماجہ/الزہد 15 (4170) (تحفة الأشراف: 5666)، و مسند احمد (1/258، 344)، وسنن الدارمی/الرقاق 2 (2749) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی ان کی قدر نہیں کرتے ہیں ایک تندرستی اور دوسری فراغت ہیں بلکہ یوں ہی انہیں ضائع کر دیتے ہیں جب کہ تندرستی کو بیماری سے پہلے اور فرصت کو مشغولیت سے پہلے غنیمت سمجھنا چاہیئے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 2304M
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، حدثنا عبد الله بن سعيد بن ابي هند، عن ابيه، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه، قال: وفي الباب عن انس بن مالك، وقال: هذا حديث حسن صحيح، ورواه غير واحد، عن عبد الله بن سعيد بن ابي هند فرفعوه، واوقفه بعضهم، عن عبد الله بن سعيد بن ابي هند.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ فَرَفَعُوهُ، وَأَوْقَفَهُ بَعْضُهُمْ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ.
اس سند سے بھی عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس کو کئی اور لوگوں نے عبداللہ بن سعید بن ابی ہند سے مرفوعاً ہی روایت کیا ہے، جب کہ کچھ لوگوں نے عبداللہ بن سعید ہی کے واسطے سے (ابن عباس سے) موقوفاً روایت کیا ہے،
۳- اس باب میں انس بن مالک رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
2. باب مَنِ اتَّقَى الْمَحَارِمَ فَهُوَ أَعْبَدُ النَّاسِ
2. باب: حرام چیزوں سے بچنے والا سب سے بڑا عابد ہے۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2305
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا بشر بن هلال الصواف البصري، حدثنا جعفر بن سليمان، عن ابي طارق، عن الحسن، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من ياخذ عني هؤلاء الكلمات فيعمل بهن او يعلم من يعمل بهن؟ " فقال ابو هريرة: فقلت: انا يا رسول الله، فاخذ بيدي فعد خمسا، وقال: " اتق المحارم تكن اعبد الناس، وارض بما قسم الله لك تكن اغنى الناس، واحسن إلى جارك تكن مؤمنا، واحب للناس ما تحب لنفسك تكن مسلما، ولا تكثر الضحك فإن كثرة الضحك تميت القلب "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعرفه إلا من حديث جعفر بن سليمان، والحسن لم يسمع من ابي هريرة شيئا هكذا، روي عن ايوب، ويونس بن عبيد، وعلي بن زيد، قالوا: لم يسمع الحسن من ابي هريرة، وروى ابو عبيدة الناجي، عن الحسن هذا الحديث قوله، ولم يذكر فيه عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الصَّوَّافُ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي طَارِقٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ يَأْخُذُ عَنِّي هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ فَيَعْمَلُ بِهِنَّ أَوْ يُعَلِّمُ مَنْ يَعْمَلُ بِهِنَّ؟ " فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَقُلْتُ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَخَذَ بِيَدِي فَعَدَّ خَمْسًا، وَقَالَ: " اتَّقِ الْمَحَارِمَ تَكُنْ أَعْبَدَ النَّاسِ، وَارْضَ بِمَا قَسَمَ اللَّهُ لَكَ تَكُنْ أَغْنَى النَّاسِ، وَأَحْسِنْ إِلَى جَارِكَ تَكُنْ مُؤْمِنًا، وَأَحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ تَكُنْ مُسْلِمًا، وَلَا تُكْثِرِ الضَّحِكَ فَإِنَّ كَثْرَةَ الضَّحِكِ تُمِيتُ الْقَلْبَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ جَعْفَرِ بْنِ سُلَيْمَانَ، وَالْحَسَنُ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ شَيْئًا هَكَذَا، رُوِيَ عَنْ أَيُّوبَ، وَيُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، وَعَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، قَالُوا: لَمْ يَسْمَعْ الْحَسَنُ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَرَوَى أَبُو عُبَيْدَةَ النَّاجِيُّ، عَنِ الْحَسَنِ هَذَا الْحَدِيثَ قَوْلَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون ایسا شخص ہے جو مجھ سے ان کلمات کو سن کر ان پر عمل کرے یا ایسے شخص کو سکھلائے جو ان پر عمل کرے، ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں ایسا کروں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پانچ باتوں کو گن کر بتلایا: تم حرام چیزوں سے بچو، سب لوگوں سے زیادہ عابد ہو جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ کی تقسیم شدہ رزق پر راضی رہو، سب لوگوں سے زیادہ بے نیاز رہو گے، اور اپنے پڑوسی کے ساتھ احسان کرو پکے سچے مومن رہو گے۔ اور دوسروں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو سچے مسلمان ہو جاؤ گے اور زیادہ نہ ہنسو اس لیے کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف جعفر بن سلیمان کی روایت سے جانتے ہیں،
۲- حسن بصری کا سماع ابوہریرہ سے ثابت نہیں،
۳- اسی طرح ایوب، یونس بن عبید اور علی بن زید سے مروی ہے ان سب کا کہنا ہے کہ حسن بصری نے ابوہریرہ سے نہیں سنا ہے،
۴- ابوعبیدہ ناجی نے اسے حسن بصری سے روایت کرتے ہوئے اس کو حسن بصری کا قول کہا ہے اور یہ نہیں ذکر کیا کہ یہ حدیث حسن بصری ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں، اور ابوہریرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12247)، و مسند احمد (2/310) (حسن) (متابعات کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کے راوی ”حسن بصری“ کا سماع ابوہریرہ رضی الله عنہ سے نہیں ہے، نیز ”ابو طارق“ مجہول ہیں، نیز ملاحظہ ہو: الصحیحہ 930)»

قال الشيخ الألباني: حسن، الصحيحة (930)، تخريج المشكلة (17)

قال الشيخ زبير على زئي: (2305) إسناده ضعيف
أبو طارق مجهول (تق: 8182) والحسن البصري مدلس وعنعن (تقدم:21)
3. باب مَا جَاءَ فِي الْمُبَادَرَةِ بِالْعَمَلِ
3. باب: اچھے کام میں سبقت کرنے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2306
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو مصعب المدني، عن محرر بن هارون، عن عبد الرحمن الاعرج، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " بادروا بالاعمال سبعا هل تنتظرون إلا فقرا منسيا، او غنى مطغيا، او مرضا مفسدا، او هرما مفندا، او موتا مجهزا، او الدجال فشر غائب ينتظر، او الساعة فالساعة ادهى وامر "، قال: هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه من حديث الاعرج، عن ابي هريرة، إلا من حديث محرر بن هارون، وقد روى بشر بن عمر وغيره، عن محرر بن هارون هذا، وقد روى معمر هذا الحديث، عمن سمع سعيدا المقبري، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه، وقال: تنتظرون.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ الْمَدَنِيُّ، عَنْ مُحْرَّرِ بْنِ هَارُونَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " بَادِرُوا بِالْأَعْمَالِ سَبْعًا هَلْ تَنْتَظِرُونَ إِلَّا فَقْرًا مُنْسِيًا، أَوْ غِنًى مُطْغِيًا، أَوْ مَرَضًا مُفْسِدًا، أَوْ هَرَمًا مُفَنِّدًا، أَوْ مَوْتًا مُجْهِزًا، أَوِ الدَّجَّالَ فَشَرُّ غَائِبٍ يُنْتَظَرُ، أَوِ السَّاعَةَ فَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَرَّرِ بْنِ هَارُونَ، وَقَدْ رَوَى بِشْرُ بْنُ عُمَرَ وَغَيْرُهُ، عَنْ مُحَرَّرِ بْنِ هَارُونَ هَذَا، وَقَدْ رَوَى مَعْمَرٌ هَذَا الْحَدِيثَ، عَمَّنْ سَمِعَ سَعِيدًا الْمَقْبُرِيَّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، وَقَالَ: تَنْتَظِرُونَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سات چیزوں سے پہلے نیک اعمال کرنے میں جلدی کرو، تمہیں ایسے فقر کا انتظار ہے جو سب کچھ بھلا ڈالنے والا ہے؟ یا ایسی مالداری کا جو طغیانی پیدا کرنے والی ہے؟ یا ایسی بیماری کا جو مفسد ہے (یعنی اطاعت الٰہی میں خلل ڈالنے والی) ہے؟ یا ایسے بڑھاپے کا جو عقل کو کھو دینے والا ہے؟ یا ایسی موت کا جو جلدی ہی آنے والی ہے؟ یا اس دجال کا انتظار ہے جس کا انتظار سب سے برے غائب کا انتظار ہے؟ یا اس قیامت کا جو قیامت نہایت سخت اور کڑوی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- اعرج ابوہریرہ سے مروی حدیث ہم صرف محرز بن ہارون کی روایت سے جانتے ہیں،
۳- بشر بن عمر اور ان کے علاوہ لوگوں نے بھی اسے محرز بن ہارون سے روایت کیا ہے،
۴- معمر نے ایک ایسے شخص سے سنا ہے جس نے بسند «سعيدا المقبري عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» اسی جیسی حدیث روایت کی ہے اس میں «هل تنتظرون» کی بجائے «تنتظرون» ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 13951) (ضعیف) (سند میں ”محرر -یا محرز- بن ہارون“ متروک الحدیث راوی ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (1666) // ضعيف الجامع الصغير (2315) //

قال الشيخ زبير على زئي: (2306) إسناده ضعيف جدًا
محرر بن هارون: متروك (تق: 6499) وقال الهيثمي: وقد ضعفه الجمهور (مجمع الزوئد 272/6)
4. باب مَا جَاءَ فِي ذِكْرِ الْمَوْتِ
4. باب: موت کی یاد۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2307
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا الفضل بن موسى، عن محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اكثروا ذكر هاذم اللذات "، يعني الموت، قال: وفي الباب عن ابي سعيد، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَكْثِرُوا ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ "، يَعْنِي الْمَوْتَ، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لذتوں کو توڑنے والی (یعنی موت) کو کثرت سے یاد کیا کرو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب،
۲- اس باب میں ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الجنائز 3 (1825)، سنن ابن ماجہ/الزہد 31 (4258) (تحفة الأشراف: 15080)، و مسند احمد (2/293) (حسن صحیح)»

وضاحت:
۱؎: موت کی یاد اور اس کا تصور انسان کو دنیاوی مشاغل سے دور اور معصیت کے ارتکاب سے باز رکھتا ہے، اس لیے بکثرت موت کو یاد کرنا چاہیئے اور اس کے پیش آنے والے معاملات سے غافل نہیں رہنا چاہیئے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (4258)
5. باب مِنْهُ
5. باب: قبر کی ہولناکی کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2308
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا يحيى بن معين، حدثنا هشام بن يوسف، حدثني عبد الله بن بحير، انه سمع هانئا مولى عثمان، قال: كان عثمان إذا وقف على قبر بكى حتى يبل لحيته، فقيل له: تذكر الجنة والنار فلا تبكي وتبكي من هذا، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن القبر اول منزل من منازل الآخرة، فإن نجا منه فما بعده ايسر منه، وإن لم ينج منه فما بعده اشد منه ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: قال: وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما رايت منظرا قط إلا والقبر افظع منه "، قال: هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث هشام بن يوسف.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَحِيرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ هَانِئًا مَوْلَى عُثْمَانَ، قَالَ: كَانَ عُثْمَانُ إِذَا وَقَفَ عَلَى قَبْرٍ بَكَى حَتَّى يَبُلَّ لِحْيَتَهُ، فَقِيلَ لَهُ: تُذْكَرُ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ فَلَا تَبْكِي وَتَبْكِي مِنْ هَذَا، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ الْقَبْرَ أَوَّلُ مَنْزِلٍ مِنْ مَنَازِلِ الْآخِرَةِ، فَإِنْ نَجَا مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَيْسَرُ مِنْهُ، وَإِنْ لَمْ يَنْجُ مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَشَدُّ مِنْهُ ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا رَأَيْتُ مَنْظَرًا قَطُّ إِلَّا وَالْقَبْرُ أَفْظَعُ مِنْهُ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ يُوسُفَ.
ہانی مولی عثمان کہتے ہیں کہ عثمان رضی الله عنہ جب کسی قبرستان پر ٹھہرتے تو اتنا روتے کہ آپ کی داڑھی تر ہو جاتی، ان سے کسی نے کہا کہ جب آپ کے سامنے جنت و جہنم کا ذکر کیا جاتا ہے تو نہیں روتے ہیں اور قبر کو دیکھ کر اس قدر رو رہے ہیں؟ تو کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: آخرت کے منازل میں سے قبر پہلی منزل ہے، سو اگر کسی نے قبر کے عذاب سے نجات پائی تو اس کے بعد کے مراحل آسان ہوں گے اور اگر جسے عذاب قبر سے نجات نہ مل سکی تو اس کے بعد کے منازل سخت تر ہوں گے، عثمان رضی الله عنہ نے مزید کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: گھبراہٹ اور سختی کے اعتبار سے قبر کی طرح کسی اور منظر کو نہیں دیکھا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے، اسے ہم صرف ہشام بن یوسف کی روایت سے جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزہد 32 (4267) (تحفة الأشراف: 9839)، و مسند احمد (1/64) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: عثمان رضی الله عنہ کا یہ حال کہ قبر کے عذاب کا اتنا خوف اور ڈر لاحق ہو کہ اسے دیکھ کر زار و قطار رونے لگیں باوجود یہ کہ آپ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور ہمارا یہ حال ہے کہ اس عذاب کو بھولے ہوئے ہیں، حالانکہ یہ منازل آخرت میں سے پہلی منزل ہے، اللہ رب العالمین ہم سب کو قبر کے عذاب سے بچائے آمین۔

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (4267)
6. باب مَا جَاءَ مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ
6. باب: جس نے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو پسند کیا اللہ تعالیٰ نے بھی اس سے ملاقات کو پسند کیا۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2309
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود، اخبرنا شعبة، عن قتادة، قال: سمعت انسا يحدث، عن عبادة بن الصامت، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من احب لقاء الله احب الله لقاءه، ومن كره لقاء الله كره الله لقاءه "، قال: وفي الباب عن ابي هريرة، وعائشة، وانس، وابي موسى، قال: حديث عبادة حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، قَال: سَمِعْتُ أَنَسًا يُحَدِّثُ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ، وَمَنْ كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ كَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَائِشَةَ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي مُوسَى، قَالَ: حَدِيثُ عُبَادَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبادہ بن صامت رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملنا چاہے گا تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا چاہے گا، اور جو اللہ تعالیٰ سے ملنا ناپسند کرے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا ناپسند کرے گا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عبادہ کی حدیث صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوہریرہ، ام المؤمنین عائشہ، انس اور ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1066 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: نسائی کتاب الجنائز باب رقم ۱۰، حدیث رقم ۱۸۳۸ میں ہے: ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا نے اس حدیث کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ یہ موت کے وقت کا معاملہ ہے جب بینائی چھن جائے، جاں کنی کا عالم ہو اور رونگٹے کھڑے ہو جائیں تو جس کو اللہ کی رحمت اور مغفرت کی بشارت دی جائے اس وقت جو اللہ سے ملنا چاہے اللہ بھی اس سے ملنا چاہے گا اور جس کو اللہ کے عذاب کی وارننگ دی جائے وہ اللہ سے ملنا ناپسند کرے تو اللہ بھی اس سے ملنا ناپسند کرے گا، یعنی مومن کو اللہ سے ملنے میں خوشی اور کافر کو گھبراہٹ اور ڈر لاحق ہوتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
7. باب مَا جَاءَ فِي إِنْذَارِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْمَهُ
7. باب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا اپنی قوم کو ڈرانا۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2310
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو الاشعث احمد بن المقدام العجلي، حدثنا محمد بن عبد الرحمن الطفاوي، حدثنا هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، قالت: لما نزلت هذه الآية: وانذر عشيرتك الاقربين سورة الشعراء آية 214 قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا صفية بنت عبد المطلب، يا فاطمة بنت محمد، يا بني عبد المطلب، " إني لا املك لكم من الله شيئا، سلوني من مالي ما شئتم "، قال: وفي الباب عن ابي هريرة، وابي موسى، وابن عباس، قال: حديث عائشة حديث حسن غريب، هكذا روى بعضهم، عن هشام بن عروة نحو هذا، وروى بعضهم عن هشام، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا، لم يذكر فيه عن عائشة.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْأَشْعَثِ أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ الْعِجْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الطُّفَاوِيُّ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214 قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا صَفِيَّةُ بِنْتَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، يَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ، يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، " إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، سَلُونِي مِنْ مَالِي مَا شِئْتُمْ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي مُوسَى، وَابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، هَكَذَا رَوَى بَعْضُهُمْ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ نَحْوَ هَذَا، وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، لَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ عَائِشَةَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب یہ آیت کریمہ: «وأنذر عشيرتك الأقربين» نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے عبدالمطلب کی بیٹی صفیہ!، اے محمد کی بیٹی فاطمہ! اے عبدالمطلب کی اولاد! اللہ کی طرف سے تم لوگوں کے نفع و نقصان کا مجھے کچھ بھی اختیار نہیں ہے، تم میرے مال میں سے تم سب کو جو کچھ مانگنا ہو وہ مجھ سے مانگ لو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عائشہ کی حدیث حسن غریب ہے،
۲- ان میں سے بعض نے اسی طرح ہشام بن عروہ سے روایت کی ہے، اور بعض نے «عن هشام عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے مرسلاً روایت کی ہے اور «عن عائشة» کا ذکر نہیں کیا،
۳- اس باب میں ابوہریرہ، ابن عباس اور ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإیمان 89 (205)، سنن النسائی/الوصایا 6 (3678) ویأتي عند المؤلف برقم 3184 (تحفة الأشراف: 17237)، و مسند احمد (6/178) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اگر اللہ تںہی عذاب دینا چاہے تو میں تمہیں اس کے عذاب سے نہیں بچا سکتا، کیونکہ میں کسی کے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں، البتہ دنیاوی وسائل جو مجھے اللہ کی جانب سے حاصل ہیں، ان میں سے جو چاہو تم لوگ مانگ سکتے ہو، میں دینے کے لیے تیار ہوں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
8. باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْبُكَاءِ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ
8. باب: اللہ تعالیٰ کے ڈر سے رونے کی فضیلت کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2311
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا عبد الله بن المبارك، عن عبد الرحمن بن عبد الله المسعودي، عن محمد بن عبد الرحمن، عن عيسى بن طلحة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يلج النار رجل بكى من خشية الله حتى يعود اللبن في الضرع، ولا يجتمع غبار في سبيل الله ودخان جهنم "، قال: وفي الباب عن ابي ريحانة وابن عباس، قال: هذا حديث حسن صحيح، ومحمد بن عبد الرحمن هو مولى آل طلحة، وهو مدني ثقة، روى عنه شعبة، وسفيان الثوري.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمَسْعُودِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَلِجُ النَّارَ رَجُلٌ بَكَى مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ حَتَّى يَعُودَ اللَّبَنُ فِي الضَّرْعِ، وَلَا يَجْتَمِعُ غُبَارٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَدُخَانُ جَهَنَّمَ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي رَيْحَانَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ هُوَ مَوْلَى آلِ طَلْحَةَ، وَهُوَ مَدَنِيٌّ ثِقَةٌ، رَوَى عَنْهُ شُعْبَةُ، وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے خوف اور ڈر سے رونے والا شخص جہنم میں نہیں جا سکتا جب تک کہ دودھ تھن میں واپس نہ پہنچ جائے اور اللہ کی راہ کا گرد و غبار اور جہنم کا دھواں دونوں اکٹھا نہیں ہو سکتے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوریحانہ اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- محمد بن عبدالرحمٰن آل طلحہ کے آزاد کردہ غلام ہیں مدنی ہیں، ثقہ ہیں، ان سے شعبہ اور سفیان ثوری نے روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1633 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ نہ کبھی دودھ تھن میں واپس ہو گا اور نہ ہی اللہ کے خوف سے رونے والا جہنم میں ڈالا جائے گا، اسی طرح راہ جہاد میں نکلنے والا بھی جہنم میں نہیں جا سکتا، کیونکہ جہاد مجاہد کے لیے جہنم سے نجات کا ذریعہ ہے، معلوم ہوا کہ جہاد کی بڑی فضیلت ہے، لیکن یہ ثواب اس مجاہد کے لیے ہے جو کبیرہ گناہوں سے بچتا رہا ہو۔ معلوم ہو جائے تو بہت کم ہنسو گے اور بہت زیادہ روؤ گے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (3828)، التعليق الرغيب (2 / 166)
9. باب فِي قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلاً
9. باب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ جو مجھے معلوم ہے وہ اگر تمہیں معلوم ہو جائے تو بہت کم ہنسو گے اور بہت زیادہ روؤ گے​۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2312
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا ابو احمد الزبيري، حدثنا إسرائيل، عن إبراهيم بن المهاجر، عن مجاهد، عن مورق، عن ابي ذر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إني ارى ما لا ترون، واسمع ما لا تسمعون، اطت السماء وحق لها ان تئط ما فيها موضع اربع اصابع إلا وملك واضع جبهته ساجدا لله، والله لو تعلمون ما اعلم لضحكتم قليلا، ولبكيتم كثيرا، وما تلذذتم بالنساء على الفرش، ولخرجتم إلى الصعدات تجارون إلى الله لوددت اني كنت شجرة تعضد "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابي هريرة، وعائشة، وابن عباس، وانس، قال: هذا حديث حسن غريب، ويروى من غير هذا الوجه، ان ابا ذر، قال: لوددت اني كنت شجرة تعضد.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْمُهَاجِرِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ مُوَرِّقٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي أَرَى مَا لَا تَرَوْنَ، وَأَسْمَعُ مَا لَا تَسْمَعُونَ، أَطَتِ السَّمَاءُ وَحُقَّ لَهَا أَنْ تَئِطَّ مَا فِيهَا مَوْضِعُ أَرْبَعِ أَصَابِعَ إِلَّا وَمَلَكٌ وَاضِعٌ جَبْهَتَهُ سَاجِدًا لِلَّهِ، وَاللَّهِ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا، وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا، وَمَا تَلَذَّذْتُمْ بِالنِّسَاءِ عَلَى الْفُرُشِ، وَلَخَرَجْتُمْ إِلَى الصُّعُدَاتِ تَجْأَرُونَ إِلَى اللَّهِ لَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ شَجَرَةً تُعْضَدُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَائِشَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَنَسٍ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَيُرْوَى مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، أَنَّ أَبَا ذَرٍّ، قَالَ: لَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ شَجَرَةً تُعْضَدُ.
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک میں وہ چیز دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور وہ سن رہا ہوں جو تم نہیں سنتے۔ بیشک آسمان چرچرا رہا ہے اور اسے چرچرانے کا حق بھی ہے، اس لیے کہ اس میں چار انگل کی بھی جگہ نہیں خالی ہے مگر کوئی نہ کوئی فرشتہ اپنی پیشانی اللہ کے حضور رکھے ہوئے ہے، اللہ کی قسم! جو میں جانتا ہوں اگر وہ تم لوگ بھی جان لو تو ہنسو گے کم اور رؤ گے زیادہ اور بستروں پر اپنی عورتوں سے لطف اندوز نہ ہو گے، اور یقیناً تم لوگ اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتے ہوئے میدانوں میں نکل جاتے، (اور ابوذر رضی الله عنہ) فرمایا کرتے تھے کہ کاش میں ایک درخت ہوتا جو کاٹ دیا جاتا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اور یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- اس کے علاوہ ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے کہ ابوذر رضی الله عنہ فرمایا کرتے تھے: کاش میں ایک درخت ہوتا کہ جسے لوگ کاٹ ڈالتے،
۳- اس باب میں ابوہریرہ، عائشہ، ابن عباس اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزہد 19 (4190) (تحفة الأشراف: 11986) (حسن) (حدیث میں ”لوددت …“ کا جملہ مرفوع نہیں ہے، ابو ذر رضی الله عنہ کا اپنا قول ہے)»

قال الشيخ الألباني: حسن دون قوله: " لوددت.... "، ابن ماجة (4190)

1    2    3    4    5    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.