سنن ترمذي
كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: زہد، ورع، تقوی اور پرہیز گاری
1. باب مَا جَاءَ فِي أَنَّ الصِّحَّةَ وَالْفَرَاغَ نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ
باب: تندرستی اور فرصت کی نعمتوں میں اکثر لوگ اپنا نقصان کرتے ہیں۔
حدیث نمبر: 2304
حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَسُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ صَالِحٌ: حَدَّثَنَا، وَقَالَ سُوَيْدٌ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں اکثر لوگ اپنا نقصان کرتے ہیں“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الرقاق 1 (6412)، سنن ابن ماجہ/الزہد 15 (4170) (تحفة الأشراف: 5666)، و مسند احمد (1/258، 344)، وسنن الدارمی/الرقاق 2 (2749) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی ان کی قدر نہیں کرتے ہیں ایک تندرستی اور دوسری فراغت ہیں بلکہ یوں ہی انہیں ضائع کر دیتے ہیں جب کہ تندرستی کو بیماری سے پہلے اور فرصت کو مشغولیت سے پہلے غنیمت سمجھنا چاہیئے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2304 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2304
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی ان کی قدر نہیں کرتے ہیں ایک تندرستی اوردوسری فراغت ہیں بلکہ یوں ہی انہیں ضائع کردیتے ہیں جب کہ تندرستی کوبیماری سے پہلے اورفرصت کو مشغولیت سے پہلے غنیمت سمجھناچاہئے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2304
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6412
´نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ زندگی درحقیقت آخرت ہی کی زندگی ہے`
«. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ: الصِّحَّةُ، وَالْفَرَاغُ . . .»
”. . . عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے، صحت اور فراغت۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ: 6412]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6412 کا باب: «بَابُ مَا جَاءَ فِي الرِّقَاقِ وَأَنْ لاَ عَيْشَ إِلاَّ عَيْشُ الآخِرَةِ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
باب اور حدیث میں مناسبت بہت مشکل ہے، کیوں کہ ترجمۃ الباب میں فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے: ”زندگی در حقیقت آخرت کی زندگی ہے۔“ جبکہ تحت الباب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے جو حدیث مروی ہے اس میں یہ الفاظ موجود نہیں ہیں۔
ابن المنیر رحمہ اللہ باب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
«وجه دخول الحديث الأول فى الترجمة أن الناس غبن كثير منهم هاتين النعمتين إيثارًا منهم لعيش الدنيا على عيش الآخرة، فبين بحديث الترجمة أن العيش الذى شغفوا به ليس بشييءٍ، إنما العيش هو الذى شغلوا عنه.» (2)
”یعنی بہت سارے لوگ غبن کر جاتے ہیں ان دونوں نعمتوں پر اور اس کے ایثار پر، اور وہ دنیا کے عیش کو آخرت کے عیش پر ترجیح دیتے ہیں، پس ترجمۃ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جس عیش میں انسان شغف حاصل کرتا ہے وہ کچھ نہیں ہے (یعنی دنیا کا عیش) اور حقیقتا عیش وہی ہے جس سے وہ غافل رہتا ہے (یعنی آخرت کا)۔“
ابن المنیر رحمہ اللہ کی اس مناسبت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے «نعمتان مغبون فيهما» کی جو حدیث نقل فرمائی ہے اس کا تعلق باب سے اس طرح ہے کہ آدمی دنیا کی مشغولیت میں اتنا ڈوب جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے آخرت کے عیش بھول جاتا ہے، کیوں کہ وہ بندہ دنیا کی وجہ سے آخرت کو بھلا دیتا ہے، وہ دنیا کو ہی اصل عیش سمجھ بیٹھتا ہے اور آخرت کو نہیں، لہذا یہی وجہ ہے امام بخاری رحمہ اللہ کا تحت الباب اس حدیث کو ذکر کرنے میں۔
حقیقت میں اگر اللہ تعالی نے کسی کو فراغت بھی عطا کر دی اور اس کے ساتھ ساتھ صحت بھی عطا کر دی اور مزید یہ کہ اس بندے کو اپنی عبادت میں مشغول بھی کر دیا تو یہ نور علی نور کا مصداق ہے، اور حقیقت میں یہی آخرت کے عیش کی تیاریاں ہیں، جس پر رشک کیا جا سکتا ہے۔
ابن بطال رحمہ اللہ اس حدیث کے مطالب پر گفتگو کرتے ہوئے بڑی عمدہ بات لکھتے ہیں، آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«معنى الحديث أن المرء لا يكون فارغًا حتى يكون مكفيا صحيح البدن، فمن حصل له ذالك فليحرض على أن لا يغبن بأن لا يترك شكر الله على ما أنعم به عليه، ومن شكره امتثال أو امره و اجتناب نواهيه، فمن فرط فى ذالك فهو المغبون، و أشار بقوله ”كثير من الناس“ إلى أن الذى يوفق لذالك قليل، و قال ابن الجوزي: قد يكون الإنسان صحيحًا و لا يكون متفرغًا لشغله بالمعاش، وقد يكون مستغنيًا و لا يكون صحيحًا، فإذا اجتمعا فغلب عليه الكسل عن الطاعة فهو المغبون، و تمام ذالك أن الدنيا مزرعة الآخرة، و فيها التجارة التى يظهر ربحها فى الآخرة، فمن استعمل فراغه وصحته فى طاعة الله فهو مغبوط، و من استعملهما فى معصية الله فهو مغبون، لأن الفراغ يعقبه الشغل و الصحة يعقبها السقم، ولو لم يكن إلا الهرم كما قيل:
سير الفتى طول السلامة و البقا
فكيف ترى طول السلامة بفعل
يدد الفتي بعد اعتدال و صحة
ينوء إذا رام القيام ويحمل» (1)
”معنی حدیث یہ ہے کہ عموما آدمی اس طرح فارغ نہیں ہوتا کہ اس کا بدن بھی مکفی یعنی قوتوں والا اور صحیح ہو، جس کے لیے یہ (نعمت) حاصل ہو تو وہ اس امر پر حریص ہو کر غبن نہ کرے، یعنی اللہ تعالی کے شکر کا ترک اس عظیم نعمت پر جو اس نے اس پر فرمائی، اور اس کے شکر کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے اوامر کا امتثال اور نواہی سے اجتناب کرے، تو جس نے اس میں تفریط کی وہ مغبون ہے، «كثير من الناس» سے اشارہ دیا کہ کم ہی لوگ ہیں جنہیں رشد اور سدھار کی توفیق ملتی ہے۔ ابن الجوزی رحمہ اللہ کے بقول کبھی انسان صحیح سلامت ہوتا ہے مگر معاش کی مصروفیات کی وجہ سے متفرغ نہیں ہوتا، اور کبھی فکر معاش سے تو مستغنی ہوتا ہے مگر صحت قائم نہیں ہوتی، عموما (ایسا بھی ہوتا ہے کہ) جب یہ دونوں چیزیں حاصل ہوتی ہیں تو ہر اطاعت سے سستی کا غلبہ ہو جاتا ہے تو ایسا شخص مغبون ہے، اس کا تکملہ یہ ہے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے اور ایسی تجارت ہے جس کا نفع آخرت میں ظاہر ہو گا، تو جس نے صحت و فراغت کو اللہ تعالی کی اطاعت کے کاموں میں صرف کیا وہ مغبوط (یعنی قابل رشک) ہو گا، اور جس نے اس کا استعمال اللہ کی معصیت میں کیا وہ مغبون ہے کیوں کہ فراغت شغل، صحت، سقم سے معقب ہے، سقم نہ ہو تو بھی بڑھاپا دامن گیر ہی ہے۔ کسی نے کہا کہ:
”انسان طول و سلامتی اور بقا کو پسند کرتا ہے، لیکن یہ دیکھو طول سلامتی اس کے ساتھ کیا کرتی ہے؟ کہ اس کی حالت یہ ہو جاتی ہے کہ اعتدال و صحت کے بعد اب مشکل سے ہی اٹھتا ہے بلکہ سہارا دے کر اٹھایا جاتا ہے۔“
لہذا ان گفتگو کا خلاصہ اور بہترین تطبیق وہی ہے جو ابن المنیر رحمہ اللہ نے دی ہے کہ آدمی صحت اور فراغت کو غنیمت نہیں سمجھتا اور ان نعمتوں کو دنیا پر لگا دیتا ہے کیوں کہ آدمی یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ دنیا کی زندگی ہمیشہ کی ہے آخرت کی زندگی کے مقابلے میں۔ اس نقطے کو بیان کرنے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں «لا عيش إلا عيش الآخرة» کے الفاظ نقل فرمائے اور تحت الباب «نعمتان مغبون فيهما كثير» والی حدیث ذکر فرمائی۔
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 216
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4170
´حکمت و دانائی کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں اکثر لوگ اپنا نقصان کرتے ہیں: صحت و تندرستی اور فرصت و فراغت (کے ایام)“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4170]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1) (غبن)
کا مطلب ہے کہ اپنی چیز مناسب قیمت سے بہت کم قیمت پر بیچ دینا یا کوئی چیز مناسب قیمت سے بہت زیادہ قیمت پر خرید لینا۔
ایسا دھوکا وہی کھاتا ہے جسے اپنی چیز کی قدر قیمت کا صحیح اندازہ نہیں ہوتا یا دوسرے کی چیز کی ظاہری چمک دمک سے متاثر ہوجاتا ہے اور اس کے عیب وغیرہ کی طرف توجہ نہیں کرتا۔
(2)
صحت میں انسان بہت سی ایسی نیکیاں کرسکتا ہے جو بیماری میں نہیں کرسکتا لیکن غفلت کی وجہ سے یہ موقع ضائع کردیتا ہے اس طرح اپنے وقت کی صحیح قیمت وصول نہ کرکے گھاٹا پالیتا ہے۔
(3)
ہم عام طور پر کہہ دیتے ہیں کہ فلاں نیکی نہیں کرسکتا کیونکہ میرے پاس وقت نہیں حالانکہ بہت دفعہ ہم اپنا وقت کھیل کود لہو ولعب ہنسی مذاق غیبت وغیرہ اور فضول گپ بازی میں گزاردیتے ہیں۔
یا ایسے لٹریچر (کہانیاں، افسانے، ناول اور گندی شاعری وغیرہ)
کے مطالعے میں ضائع کردیتے ہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں۔
ٹی وی، وی سی آر، ویڈیو گیم وغیرہ پر وقت کا ضائع ہونا بہت واضح ہے پھر بھی کھیل کا میچ ہورہا ہو تو چھوٹے بڑے سبھی کاموں کو نظر انداز کرکے کمنٹری سننےمیں مشغول ہوجاتے ہیں۔
یہ بہت بڑا خسارا ہے۔
ان فضولیات میں وقت ضائع کرنے کی بجائے ایسی تفریح کو اختیار کرنا چاہیے جس سے کوئی فائدہ حاصل ہو۔
بہت سے غیر اسلامی تہواروں مثلاً:
بسنت وغیرہ پر بے شمار وقت اور روپیہ ضائع ہوتا ہے اور طرح طرح کے گناہوں کا ارتکاب کرکے شیطان کو خوش کیا جاتا ہے۔
مسلمانوں پر ان سے اجتناب کرنا فرض ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4170
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6412
6412. حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے، وہ صحت اور فراغت ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6412]
حدیث حاشیہ:
(1)
نعمت، وہ منفعت ہے جو کسی پر بطور احسان کی جاتی ہے۔
دنیا میں اللہ تعالیٰ کی دو نعمتیں ایسی ہیں جن کی اکثر و بیشتر قدر نہیں کی جاتی اور لوگ انہیں غلط استعمال کر کے خسارے میں رہتے ہیں۔
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ صحت و فراغت دو ایسی چیزیں ہیں اگر انہیں مناسب طور پر استعمال نہ کیا جائے تو صحت مند اور فارغ انسان گھاٹے میں رہتا ہے کیونکہ جب انسان صحت و تندرستی کے زمانے میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہیں کرتا تو بیماری کے زمانے میں بطریق اولیٰ نہیں کرے گا۔
اسی طرح جب اسے فرصت کے لمحات میسر ہیں تو وہ انہیں کسی اچھے عمل کے بغیر یوں ہی گزار دے تو اس سے بڑھ کر خسارے میں رہنے والا دوسرا کون ہو سکتا ہے۔
(2)
بعض اوقات انسان تندرست ہوتا ہے لیکن روزی کے اسباب میں مصروف رہنے کے باعث عبادت کے لیے فارغ نہیں ہوتا اور پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ روزی کے اسباب سے فارغ ہوتا ہے لیکن تندرستی کی نعمت سے محروم ہوتا ہے تو بیماری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو یاد نہیں کر پاتا۔
جب انسان صحت مند بھی ہو اور اسے فراغت بھی میسر ہو تو ایسے میں اگر فضائل و کمالات سے قاصر رہے تو مکمل طور پر خسارے میں رہتا ہے۔
(3)
چونکہ دنیا، آخرت کی کھیتی اور اس کی تجارت ہے، اس بنا پر انسان کو چاہیے کہ وہ بدن کی صحت اور دنیا میں فراغت جیسی دونوں نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں لگائے اور آخرت کی کامیابی میں کوشاں رہے۔
واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6412