Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ترمذي
كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: زہد، ورع، تقوی اور پرہیز گاری
4. باب مَا جَاءَ فِي ذِكْرِ الْمَوْتِ
باب: موت کی یاد۔
حدیث نمبر: 2307
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَكْثِرُوا ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ "، يَعْنِي الْمَوْتَ، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لذتوں کو توڑنے والی (یعنی موت) کو کثرت سے یاد کیا کرو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب،
۲- اس باب میں ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الجنائز 3 (1825)، سنن ابن ماجہ/الزہد 31 (4258) (تحفة الأشراف: 15080)، و مسند احمد (2/293) (حسن صحیح)»

وضاحت: ۱؎: موت کی یاد اور اس کا تصور انسان کو دنیاوی مشاغل سے دور اور معصیت کے ارتکاب سے باز رکھتا ہے، اس لیے بکثرت موت کو یاد کرنا چاہیئے اور اس کے پیش آنے والے معاملات سے غافل نہیں رہنا چاہیئے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (4258)

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2307 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2307  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
موت کی یاد اوراس کا تصورانسان کو دنیادی مشاغل سے دوراورمعصیت کے ارتکاب سے باز رکھتا ہے،
اس لیے بکثرت موت کو یاد کرنا چاہئے اور اس کے پیش آنے والے معاملات سے غافل نہیں رہنا چاہئے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2307   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 425  
´موت کو یاد کرنا`
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لذتوں کو توڑ دینے، کاٹ دینے والی کا ذکر کثرت سے کیا کرو (یعنی موت کا) . . . [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 425]
لغوی تشریح:
«كِتَابُ الجَنَائِز» جیم پر فتحہ ہے اور بس۔ جنائز، جنازۃ کی جمع ہے۔ جنازہ کی جیم پر فتحہ اور کسرہ دونوں جائز ہیں مگر کسرہ زیادہ فصیح ہے اور یہ چارپائی پر رکھی ہوئی میت پر بولا جاتا ہے۔
اور ایک قول کے مطابق جیم پر فتحہ ہے اس صورت میں اس کے معنی میت کے ہیں اور کسرے (زیر) کی صورت میں اس سے مراد وہ چارپائی ہے جس پر میت پڑی ہو۔
اور ایک قول اس کے برعکس بھی ہے، یعنی فتحہ کی صورت میں میت والی چارپائی اور کسرے کی صورت میں میت۔ کتاب الصلاۃ کے متصل بعد کتاب الجنائز لانے سے مقصود یہ ہے کہ میت کی تجہیز و تکفین کے جملہ امور و افعال میں سے نماز جنازہ زیادہ اہم ہے، اور ان دونوں میں قریبی مناسبت اور تعلق کی وجہ سے کتاب کتاب الصلاۃ کے بعد کتاب الجنائز کو رکھا ہے۔
ایک قول کے مطابق نماز جنازہ کی مشروعیت ہجرت کے پہلے سال میں ہوئی۔
«اَكثِرُو» «إكثَار» سے امر کا صیغہ ہے۔ زیادہ کرو۔
«هَاذِمِ» مضاف الیہ ہونے کی بنا پر مجرور ہے اور یہ «اَلَّلَّذَات» کی طرف مضاف ہے۔ «هَاذِمِ» ذال کے ساتھ ہونے کی صورت میں اس کے معنی ہوں کاٹ ڈالنے والی، توڑ دینے والی۔ موت کا نام «هَاذِمِ الَّلَّذات»، یعنی لذتوں کی توڑ دینے والی اس لیے رکھا گیا ہے کہ جب موت کی یاد آتی ہے تو تمام لذتیں اور مزے ختم ہو جاتے ہیں اور اس کی یاد آدمی کو دنیا کی لذتوں سے بےرغبت کر دیتی ہے، یا اس نام کی وجہ یہ ہے کہ جب موت کسی پر واہ ہوتی ہے تو دنیوی لذتوں میں سے کوئی چیز باقی نہیں چھوڑتی، سب ختم ہو جاتی ہیں۔
ایک روایت میں «هَادِمِ» (دال مہملہ کے ساتھ) بھی منقول ہے جو «هَدَمَ الْبِنَاءَ وَالَّجدَارّ» کے محاورے سے ماخوذ ہے۔ یہ محاورہ اس وقت بولتے ہیں جب کوئی شخص عمارت یا دیوار کو گرائے۔ اس میں دنیا کی فانی اور زوال پذیر کو منہدم، اجڑی ہوئی اور تباہ شدہ عمارت کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے، اس لیے اس کے معنی یہ ہوں گے کہ موت کو اکثر یاد رکھو جو دنیوی لذتوں کی عمارت کو منہدم کر دینے والی ہے۔ موت جب وارد ہوتی ہے تو لذات دنیوی کی تعمیر شدہ عمارت عمارت دھڑام سے زمین پر آ رہتی ہے۔
«اَلْمَوْتِ» جر (کسرہ) کی صورت میں عطف بیان ہو گا اور رفعی صورت میں «هُوَ» مبتدا محذوف کی خبر ہے اور نصب کی صورت میں «أعني» کو مقدر تسلیم کرنا ہوگا اور یہ «هاذم» کی تفسیر و وضاحت ہے۔

فائدہ:
موت ایک ایسی چیز ہے جس کا ابتدائے آفرنیش سے روز ابد تک کوئی منکر نہیں۔ یہ انسانوں کے مشاہدے میں آنے والی چیز ہے کہ روزمرہ آنکھوں کے سامنے ہر ایک کے اعزہ و اقربا، احباب و رفقاء میں سے کوئی نہ کوئی موت کا جام پیتا ہے، سب اس وقت بےبس ہوتے ہیں۔ ایسے موقع پر قدرتی طور پر دلوں میں نرمی، خوف، محاسبہ اعمال، قیام انسان نیک اعمال کی طرف مائل ہو جاتا ہے، اسی لیے موت کو ہمیشہ یاد رکھنے کا حکم ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 425