سنن ترمذي
كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: زہد، ورع، تقوی اور پرہیز گاری
5. باب مِنْهُ
باب: قبر کی ہولناکی کا بیان۔
حدیث نمبر: 2308
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَحِيرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ هَانِئًا مَوْلَى عُثْمَانَ، قَالَ: كَانَ عُثْمَانُ إِذَا وَقَفَ عَلَى قَبْرٍ بَكَى حَتَّى يَبُلَّ لِحْيَتَهُ، فَقِيلَ لَهُ: تُذْكَرُ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ فَلَا تَبْكِي وَتَبْكِي مِنْ هَذَا، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ الْقَبْرَ أَوَّلُ مَنْزِلٍ مِنْ مَنَازِلِ الْآخِرَةِ، فَإِنْ نَجَا مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَيْسَرُ مِنْهُ، وَإِنْ لَمْ يَنْجُ مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَشَدُّ مِنْهُ ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا رَأَيْتُ مَنْظَرًا قَطُّ إِلَّا وَالْقَبْرُ أَفْظَعُ مِنْهُ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ يُوسُفَ.
ہانی مولی عثمان کہتے ہیں کہ عثمان رضی الله عنہ جب کسی قبرستان پر ٹھہرتے تو اتنا روتے کہ آپ کی داڑھی تر ہو جاتی، ان سے کسی نے کہا کہ جب آپ کے سامنے جنت و جہنم کا ذکر کیا جاتا ہے تو نہیں روتے ہیں اور قبر کو دیکھ کر اس قدر رو رہے ہیں؟ تو کہا کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:
”آخرت کے منازل میں سے قبر پہلی منزل ہے، سو اگر کسی نے قبر کے عذاب سے نجات پائی تو اس کے بعد کے مراحل آسان ہوں گے اور اگر جسے عذاب قبر سے نجات نہ مل سکی تو اس کے بعد کے منازل سخت تر ہوں گے
“، عثمان رضی الله عنہ نے مزید کہا کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”گھبراہٹ اور سختی کے اعتبار سے قبر کی طرح کسی اور منظر کو نہیں دیکھا
“ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے، اسے ہم صرف ہشام بن یوسف کی روایت سے جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزہد 32 (4267) (تحفة الأشراف: 9839)، و مسند احمد (1/64) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: عثمان رضی الله عنہ کا یہ حال کہ قبر کے عذاب کا اتنا خوف اور ڈر لاحق ہو کہ اسے دیکھ کر زار و قطار رونے لگیں باوجود یہ کہ آپ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور ہمارا یہ حال ہے کہ اس عذاب کو بھولے ہوئے ہیں، حالانکہ یہ منازل آخرت میں سے پہلی منزل ہے، اللہ رب العالمین ہم سب کو قبر کے عذاب سے بچائے آمین۔
قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (4267)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2308 کے فوائد و مسائل
الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ترمذي 2308
فوائد و مسائل:
موت کے بعد آخروی زندگی شروع ہوتی ہے، جو دراصل جزا و سزا کا جہان ہے۔ جو شخص اس جہان میں چلا جاتا ہے، اس کا دنیا والوں سے کوئی دنیوی تعلق قائم نہیں رہتا، کیونکہ اخروی زندگی ایک الگ زندگی ہے۔ قبر کی زندگی اخروی حیات کا آغاز ہے۔
بہت سے لوگ اس اخروی زندگی کے سلسلے میں افراط و تفریط کا شکار ہو کر گمراہی کے اندھیروں میں بھٹکنے لگے ہیں۔ بعض نے تو تفریط میں مبتلا ہو کر سرے سے اس زندگی کا انکار کر دیا ہے، جبکہ بعض نے افراط میں پڑ کر اس زندگی کا اس طرح اقرار کیا کہ اسے دنیوی زندگی کی مثل سمجھ لیا۔ لیکن یہ عام زندگی جو سب کو ملتی ہے، ایک مخصوص نعرہ لگا کر انہوں نے اسے بلادلیل خاص کر دیا ہے۔
اس سلسلے میں اعتدال کی بات وہی ہے، جو ہمیں قرآن و سنت نے بتائی ہے۔ شرعی دلائل کے مطابق قبر کی زندگی نیک و بد سب کو ملتی ہے، البتہ درجات کے اعتبار سے اس زندگی کی حالت مختلف ہوتی ہے۔ انبیا و شہدا کی زندگی افضل ترین اور کفار کی بدترین ہوتی ہے، لیکن بہرحال یہ زندگی اخروی ہوتی ہے، دنیوی نہیں، جیسا کہ:
❀ ہانی مولیٰ عثمان رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
”سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ جب کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو وہاں اس قدر روتے کہ آپ کی ڈاڑھی تر ہو جاتی۔ آپ سے پوچھا گیا کہ جنت و جہنم کا تذکرہ ہوتا ہے، لیکن آپ نہیں روتے، مگر قبر کا ذکر سنتے ہی رو پڑتے ہیں؟ اس پر آپ نے بیان کیا کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا تھا: بےشک قبر آخرت کی منزلوں میں سب سے پہلی منزل ہے۔ اگر کوئی شخص اس منزل کو کامیابی سے عبور کر گیا، تو اس کے بعد جو بھی منزل آئے گی، اس سے آسان تر ہی ہو گی لیکن اگر کوئی اسی منزل میں کامیاب نہ ہو سکا، تو اس کے بعد والی منزلیں اس سے بھی زیادہ سخت ہیں۔“ [مسند الام احمد: 63/1، سنن ترمذي 2308، سنن ابن ماجه 4267، وسنده حسن]
↰ اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ”حسن“، جبکہ امام حاکم رحمہ اللہ [331، 330/4] نے ” صحیح الاسناد“ اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ” صحیح“ قرار دیا ہے۔
↰ اس حدیث سے یہ بات واضح طور پر سمجھ آ رہی ہے کہ موت کی صورت میں دنیوی زندگی ختم ہونے کے فورا بعد آخرت کی زندگی شروع ہو جاتی ہے۔ قبر آخرت کی ایک منزل ہے اور اس کی زندگی اخروی زندگی ہے، نہ کہ دنیوی۔
❀ ام المؤمنین، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض موت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتی ہیں:
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ مبارک سے مسواک چھوٹ گئی۔ یوں اللہ تعالیٰ نے میرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لعاب دہن کو اس دن ایک ساتھ جمع کر دیا، جو آپ کی دینوی زندگی کا آخری اور اخروی حیات کا پہلا دن تھا۔“ [صحیح بخاری: 4451]
↰ ام المؤمنین، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ بیان بھی اس سلسلے میں بالکل صریح ہے کہ موت کے فوراً بعد اخروی زندگی شروع ہو جاتی ہے۔
لہٰذا قبر کی زندگی کے جو حالات قرآن و حدیث کے ذریعے ہمیں معلوم ہوئے ہیں، ان کا انکار کرنا بہت بڑی جہالت ہے۔ اس سے بھی بڑی جہالت یہ ہے کہ اسے دنیوی زندگی یا اس سے مشابہ مانا جائے۔
ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 61-66، حدیث/صفحہ نمبر: 4
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4267
´قبر اور مردے کے گل سڑ جانے کا بیان۔`
ہانی بربری مولیٰ عثمان کہتے ہیں کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ جب کسی قبر پر کھڑے ہوتے تو رونے لگتے یہاں تک کہ ان کی ڈاڑھی تر ہو جاتی، ان سے پوچھا گیا کہ آپ جنت اور جہنم کا ذکر کرتے ہیں تو نہیں روتے اور قبر کو دیکھ کر روتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”قبر آخرت کی پہلی منزل ہے، اگر وہ اس منزل پر نجات پا گیا تو اس کے بعد کی منزلیں آسان ہوں گی، اور اگر یہاں اس نے نجات نہ پائی تو اس کے بعد کی منزلیں اس سے سخت ہیں“، اور کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے کبھی قبر سے زیادہ ہولناک کوئی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4267]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اللہ کے خوف سے رونا ایمان کی نشانی ہے۔
(2)
قبر سے نجات کا مطلب قبر میں سوال جواب کا مرحلہ خیریت سے طے ہوجانا ہے۔
اگر سوالوں کے صحیح جواب دینے کی توفیق مل گئی تو قیامت کے مراحل بھی آسان ہوجایئں گے۔
ورنہ قیامت کے سخت مراحل قبر کی نسبت زیادہ ہولناک ہیں۔
اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ان سے محفوظ رکھے۔
(3)
قبر کو سب سے خوفناک منظر دنیا کے لحاظ سے فرمایا گیا ہے ورنہ جہنم کے عذاب کا منظر اس سے کہیں زیادہ ہولناک ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4267