(مرفوع) حدثنا بشر بن هلال الصواف البصري، حدثنا جعفر بن سليمان، عن ابي طارق، عن الحسن، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من ياخذ عني هؤلاء الكلمات فيعمل بهن او يعلم من يعمل بهن؟ " فقال ابو هريرة: فقلت: انا يا رسول الله، فاخذ بيدي فعد خمسا، وقال: " اتق المحارم تكن اعبد الناس، وارض بما قسم الله لك تكن اغنى الناس، واحسن إلى جارك تكن مؤمنا، واحب للناس ما تحب لنفسك تكن مسلما، ولا تكثر الضحك فإن كثرة الضحك تميت القلب "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعرفه إلا من حديث جعفر بن سليمان، والحسن لم يسمع من ابي هريرة شيئا هكذا، روي عن ايوب، ويونس بن عبيد، وعلي بن زيد، قالوا: لم يسمع الحسن من ابي هريرة، وروى ابو عبيدة الناجي، عن الحسن هذا الحديث قوله، ولم يذكر فيه عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الصَّوَّافُ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي طَارِقٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ يَأْخُذُ عَنِّي هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ فَيَعْمَلُ بِهِنَّ أَوْ يُعَلِّمُ مَنْ يَعْمَلُ بِهِنَّ؟ " فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَقُلْتُ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَخَذَ بِيَدِي فَعَدَّ خَمْسًا، وَقَالَ: " اتَّقِ الْمَحَارِمَ تَكُنْ أَعْبَدَ النَّاسِ، وَارْضَ بِمَا قَسَمَ اللَّهُ لَكَ تَكُنْ أَغْنَى النَّاسِ، وَأَحْسِنْ إِلَى جَارِكَ تَكُنْ مُؤْمِنًا، وَأَحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ تَكُنْ مُسْلِمًا، وَلَا تُكْثِرِ الضَّحِكَ فَإِنَّ كَثْرَةَ الضَّحِكِ تُمِيتُ الْقَلْبَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ جَعْفَرِ بْنِ سُلَيْمَانَ، وَالْحَسَنُ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ شَيْئًا هَكَذَا، رُوِيَ عَنْ أَيُّوبَ، وَيُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، وَعَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، قَالُوا: لَمْ يَسْمَعْ الْحَسَنُ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَرَوَى أَبُو عُبَيْدَةَ النَّاجِيُّ، عَنِ الْحَسَنِ هَذَا الْحَدِيثَ قَوْلَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون ایسا شخص ہے جو مجھ سے ان کلمات کو سن کر ان پر عمل کرے یا ایسے شخص کو سکھلائے جو ان پر عمل کرے“، ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں ایسا کروں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پانچ باتوں کو گن کر بتلایا: ”تم حرام چیزوں سے بچو، سب لوگوں سے زیادہ عابد ہو جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ کی تقسیم شدہ رزق پر راضی رہو، سب لوگوں سے زیادہ بے نیاز رہو گے، اور اپنے پڑوسی کے ساتھ احسان کرو پکے سچے مومن رہو گے۔ اور دوسروں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو سچے مسلمان ہو جاؤ گے اور زیادہ نہ ہنسو اس لیے کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف جعفر بن سلیمان کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- حسن بصری کا سماع ابوہریرہ سے ثابت نہیں، ۳- اسی طرح ایوب، یونس بن عبید اور علی بن زید سے مروی ہے ان سب کا کہنا ہے کہ حسن بصری نے ابوہریرہ سے نہیں سنا ہے، ۴- ابوعبیدہ ناجی نے اسے حسن بصری سے روایت کرتے ہوئے اس کو حسن بصری کا قول کہا ہے اور یہ نہیں ذکر کیا کہ یہ حدیث حسن بصری ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں، اور ابوہریرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12247)، و مسند احمد (2/310) (حسن) (متابعات کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کے راوی ”حسن بصری“ کا سماع ابوہریرہ رضی الله عنہ سے نہیں ہے، نیز ”ابو طارق“ مجہول ہیں، نیز ملاحظہ ہو: الصحیحہ 930)»
قال الشيخ الألباني: حسن، الصحيحة (930)، تخريج المشكلة (17)
قال الشيخ زبير على زئي: (2305) إسناده ضعيف أبو طارق مجهول (تق: 8182) والحسن البصري مدلس وعنعن (تقدم:21)
اتق المحارم تكن أعبد الناس ارض بما قسم الله لك تكن أغنى الناس أحسن إلى جارك تكن مؤمنا أحب للناس ما تحب لنفسك تكن مسلما لا تكثر الضحك فإن كثرة الضحك تميت القلب
ارض بما قسم الله تكن غنيا كن ورعا تكن عبدا لله أحب للناس ما تحب لنفسك تكن مؤمنا أحسن مجاورة من جاورك تكن مسلما إياك وكثرة الضحك فإنه يميت القلب القهقهة من الشيطان التبسم من الله
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2305
اردو حاشہ: نوٹ: (متابعات کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کے راوی ”حسن بصری“ کا سماع ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے، نیز ”ابوطارق“ مجہول ہیں، نیز ملاحظہ ہو: الصحیحة: 930)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2305
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4217
´ورع اور تقویٰ و پرہیزگاری کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوہریرہ! ورع و تقویٰ والے بن جاؤ، لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گزار ہو جاؤ گے، قانع بن جاؤ، لوگوں میں سب سے زیادہ شکر کرنے والے ہو جاؤ گے، اور لوگوں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو، مومن ہو جاؤ گے، پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرو، مسلمان ہو جاؤ گے، اور کم ہنسا کرو، کیونکہ زیادہ ہنسی دل کو مردہ کر دیتی ہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4217]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قراردیا ہے۔ مسند احمد میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی مفہوم کی ایک روایت مروی ہے جس کی بابت مسند احمد کے محققین لکھتے ہیں کہ یہ حدیث جید ہے نیز شیخ البانی نے بھی اسے صحیح قراردیا ہے۔ محققین کی بحث سے تصحیح حدیث والی رائے ہ اقرب الی الصلوب معلوم ہوتی ہے بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد اور متابعات کی بنا پر قابل عمل ہے۔ والله اعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثية مسند الإمام أحمد: 13/ 459 والصحيحة للألباني: رقم: 506، 930، 2046)
(2) جس طرح نماز روزہ وغیرہ اعمال عبادت میں شامل ہیں اسی طرح گناہوں اور مشکوک کاموں سے پرہیز کرنا بھی عبادت کا ایک پہلو ہے۔ زیادہ عبادت گزار وہ ہے جو عبادت کے دونوں پہلو مد نظر رکھے۔
(3) موجود نعمتوں پر مطمئن نہ ہونا اور مزید کی حرص رکھنا دل میں شکر کے جذبات پیدا نہیں ہونے دیتا۔ شکر کے لیے ضروری ہے کہ موجود نعمتوں کی اہمیت اور فوائد کو مد نظر رکھا جائے۔ اس سے اللہ کے احسانات کا احساس پیدا ہوگا اور بندہ شکر گزار بن جائے گا۔
(4) مومن کی امتیازی صفت دوسروں سے حسن سلوک ہے۔
(5) مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان کے ایذا سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ زیادہ اختلافات ان سے پیدا ہوتے ہیں جن کے ساتھ زیادہ میل ملاپ ہوتا ہےاور انسانوں کو ہمسائیوں سے اکثر واسطہ پڑتا رہتا ہے لہٰذا ہمسائیوں سے حسن سلوک کا عادی سب کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آتا ہے اس طرح وہ صحیح مسلمان بن جاتا ہے۔
(6) زیادہ ہنسنا غفلت کو ظاہر کرتا ہے اور غفلت اور بے پرواہی مردہ دلی کی علامت ہے اور دل جب مردہ ہوجائے تو اسے اپنے اخروی نفع و نقصان کا احساس نہیں رہتا۔ اس لیے ہنسی مذاق کی زیادتی بری بات ہے البتہ خندہ پیشانی اچھی صفت ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4217