(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا ابو احمد الزبيري، حدثنا إسرائيل، عن إبراهيم بن المهاجر، عن مجاهد، عن مورق، عن ابي ذر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إني ارى ما لا ترون، واسمع ما لا تسمعون، اطت السماء وحق لها ان تئط ما فيها موضع اربع اصابع إلا وملك واضع جبهته ساجدا لله، والله لو تعلمون ما اعلم لضحكتم قليلا، ولبكيتم كثيرا، وما تلذذتم بالنساء على الفرش، ولخرجتم إلى الصعدات تجارون إلى الله لوددت اني كنت شجرة تعضد "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابي هريرة، وعائشة، وابن عباس، وانس، قال: هذا حديث حسن غريب، ويروى من غير هذا الوجه، ان ابا ذر، قال: لوددت اني كنت شجرة تعضد.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْمُهَاجِرِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ مُوَرِّقٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي أَرَى مَا لَا تَرَوْنَ، وَأَسْمَعُ مَا لَا تَسْمَعُونَ، أَطَتِ السَّمَاءُ وَحُقَّ لَهَا أَنْ تَئِطَّ مَا فِيهَا مَوْضِعُ أَرْبَعِ أَصَابِعَ إِلَّا وَمَلَكٌ وَاضِعٌ جَبْهَتَهُ سَاجِدًا لِلَّهِ، وَاللَّهِ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا، وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا، وَمَا تَلَذَّذْتُمْ بِالنِّسَاءِ عَلَى الْفُرُشِ، وَلَخَرَجْتُمْ إِلَى الصُّعُدَاتِ تَجْأَرُونَ إِلَى اللَّهِ لَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ شَجَرَةً تُعْضَدُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَائِشَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَنَسٍ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَيُرْوَى مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، أَنَّ أَبَا ذَرٍّ، قَالَ: لَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ شَجَرَةً تُعْضَدُ.
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک میں وہ چیز دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور وہ سن رہا ہوں جو تم نہیں سنتے۔ بیشک آسمان چرچرا رہا ہے اور اسے چرچرانے کا حق بھی ہے، اس لیے کہ اس میں چار انگل کی بھی جگہ نہیں خالی ہے مگر کوئی نہ کوئی فرشتہ اپنی پیشانی اللہ کے حضور رکھے ہوئے ہے، اللہ کی قسم! جو میں جانتا ہوں اگر وہ تم لوگ بھی جان لو تو ہنسو گے کم اور رؤ گے زیادہ اور بستروں پر اپنی عورتوں سے لطف اندوز نہ ہو گے، اور یقیناً تم لوگ اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتے ہوئے میدانوں میں نکل جاتے“، (اور ابوذر رضی الله عنہ) فرمایا کرتے تھے کہ ”کاش میں ایک درخت ہوتا جو کاٹ دیا جاتا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اور یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس کے علاوہ ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے کہ ابوذر رضی الله عنہ فرمایا کرتے تھے: ”کاش میں ایک درخت ہوتا کہ جسے لوگ کاٹ ڈالتے“، ۳- اس باب میں ابوہریرہ، عائشہ، ابن عباس اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزہد 19 (4190) (تحفة الأشراف: 11986) (حسن) (حدیث میں ”لوددت …“ کا جملہ مرفوع نہیں ہے، ابو ذر رضی الله عنہ کا اپنا قول ہے)»
قال الشيخ الألباني: حسن دون قوله: " لوددت.... "، ابن ماجة (4190)
أطت السماء وحق لها أن تئط ما فيها موضع أربع أصابع إلا وملك واضع جبهته ساجدا لله لو تعلمون ما أعلم لضحكتم قليلا ولبكيتم كثيرا وما تلذذتم بالنساء على الفرش ولخرجتم إلى الصعدات تجأرون إلى الله
السماء أطت وحق لها أن تئط ما فيها موضع أربع أصابع إلا وملك واضع جبهته ساجدا لله لو تعلمون ما أعلم لضحكتم قليلا ولبكيتم كثيرا وما تلذذتم بالنساء على الفرشات ولخرجتم إلى الصعدات تجأرون إلى الله
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4190
´غمگین ہونے اور رونے کا بیان۔` ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک میں وہ چیز دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھتے، اور سن رہا ہوں جو تم نہیں سنتے، بیشک آسمان چرچرا رہا ہے اور اس کو حق ہے کہ وہ چرچرائے، اس میں چار انگل کی بھی کوئی جگہ نہیں ہے مگر کوئی نہ کوئی فرشتہ اپنی پیشانی اللہ کے حضور سجدے میں رکھے ہوئے ہے، اللہ کی قسم! اگر تم وہ جانتے جو میں جانتا ہوں تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ، اور تم بستروں پر اپنی عورتوں سے لطف اندوز نہ ہوتے، اور تم میدانوں کی طرف نکل جاتے اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتے ہوئے“، اللہ کی قسم! میری تمنا ہے کہ میں ایک درخت ہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4190]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کو جنت، جہنم اور آسمانوں کے حالات دکھا دیے تھے، اس لیے نبی ﷺ کو تقویٰ اور خوف الہی کی وہ کیفیت حاصل تھی جو دسوروں کو حاصل نہیں ہوسکتی۔
(2) فرشتے اللہ تعالی کی عظیم ترین مخلوق ہیں اور اللہ کی عظمت سے کما حقہ واقف ہونے کی وجہ سے وہ اللہ کے سامنے انتہائی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں۔
(3) انسان کمزور اور محتاج، مخلوق ہے، اسے خشیت وانابت کی زیادہ ضرورت ہے۔
(4) سجدہ فرشتوں کی عبادت میں بھی شامل ہے اور یہ بندے کو اللہ کے قریب کرنے والا عظیم ترین عمل ہے۔
(5) اللہ کے خوف کا تقاضہ ہے کہ اس کی عظمت کا احساس کرکے اور اپنے گناہوں اور کمزوریوں پر نظر کرکے ندامت پیدا ہو، اور اللہ کے سامنے رو رو کر اس سے معافی مانگی جائے۔
(6) آسمان بہت مضبوط مخلوق ہے لیکن اللہ تعالی کی عظمت کے احساس سے اس میں ایسی آواز پیدا ہوتی ہے جیسے کسی تخت یا کجاوے پر بہت زیادہ وزنی چیز رکھ دینے سے پیدا ہوتی ہے۔
(7) آسمان کا چرچرانا عقل کے خلاف نہیں، لہٰذا اس کی تاویل کی ضرورت نہیں۔
(8) حدیث کا آخری جملہ (والله لوددت۔ ۔ ۔ ۔ تعضد) ”قسم ہے اللہ کی! میرا جی چاہتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔“ مدرج ہے، یعنی یہ جملہ رسول کریم ﷺ کا ارشاد گرامی نہیں بلکہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کا اپنا قول ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4190