وضاحت: ۱؎: ممانعت کی وجہ ظاہر ہے کہ پانی اس صورت میں نظر نہیں آتا، اور اندیشہ ہے کہ پانی میں کوڑا یا کیڑا ہو، اور وہ پی جائے، دوسرے یہ کہ مشک میں بدبو ہو جانے کا خیال ہے، تیسرے یہ کہ پانی گرنے کا اندیشہ ہے، اور اکثر علماء کے نزدیک یہ ممانعت تنزیہی ہے، یعنی خلاف اولیٰ۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو زمزم کا پانی پلایا، تو آپ نے کھڑے کھڑے پیا ۱؎۔ شعبی کہتے ہیں: میں نے یہ حدیث عکرمہ سے بیان کی تو انہوں نے قسم کھا کر کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا۔
وضاحت: ۱؎: یعنی کھڑے ہو کر پانی نہیں پیا، یہ عکرمہ نے اپنے گمان کے مطابق قسم کھائی، ورنہ مشہور روایتوں سے یہ ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے زمزم کا پانی کھڑے کھڑے ہی پیا، اور بعض علماء نے کہا کہ زمزم کا پانی اور وضو سے بچا ہوا پانی کھڑے رہ کر پینا مستحب ہے، اور باقی کل پانی بیٹھ کر پینا چاہیے، اور احتمال ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے جو زمزم کا پانی کھڑے رہ کر پیا یہ عذر کی وجہ سے ہو کہ وہاں بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے آپ ﷺ نے بیٹھنے کی جگہ نہ پائی ہو، اور بعضوں نے کہا کہ کھڑے رہ کر پانی پینا پہلے منع تھا، اس کی ممانعت منسوخ ہو گئی، اور بعضوں نے کہا: پہلے جائز تھا، پھر منع ہوا، جابر رضی اللہ عنہ سے ایسا مروی ہے، غرض بہتر یہی ہے بیٹھ کر پانی پیئے، مجبوری کی بات اور ہے۔
کبشہ انصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے، ان کے پاس ایک پانی کی مشک لٹکی ہوئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑ ے کھڑے اس کے منہ سے منہ لگا کر پانی پیا، تو انہوں نے مشک کے منہ کو جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کا لمس ہوا تھا برکت کے لیے کاٹ کر رکھ لیا۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الأشربة 18 (1892)، (تحفة الأشراف: 18049)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/434) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار , حدثنا مالك بن انس , عن الزهري , عن انس بن مالك , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتي بلبن قد شيب بماء , وعن يمينه اعرابي , وعن يساره ابو بكر فشرب , ثم اعطى الاعرابي , وقال:" الايمن فالايمن". (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ , حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ , عَنْ الزُّهْرِيِّ , عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِلَبَنٍ قَدْ شِيبَ بِمَاءٍ , وَعَنْ يَمِينِهِ أَعْرَابِيٌّ , وَعَنْ يَسَارِهِ أَبُو بَكْرٍ فَشَرِبَ , ثُمَّ أَعْطَى الْأَعْرَابِيَّ , وَقَالَ:" الْأَيْمَنُ فَالْأَيْمَنُ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دودھ آیا جس میں پانی ملا ہوا تھا، اس وقت آپ کے دائیں جانب ایک اعرابی اور آپ کے بائیں جانب ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیا، پھر اعرابی کو دیا اور فرمایا: ”دائیں طرف والے کو دینا چاہیئے، پھر وہ اپنے دائیں طرف والے کو دے“۱؎۔
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار , حدثنا إسماعيل بن عياش , حدثنا ابن جريج , عن ابن شهاب , عن عبيد الله بن عبد الله , عن ابن عباس , قال: اتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بلبن , وعن يمينه ابن عباس , وعن يساره خالد بن الوليد , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لابن عباس:" اتاذن لي ان اسقي خالدا؟" , قال ابن عباس: ما احب ان اوثر بسؤر رسول الله صلى الله عليه وسلم , على نفسي احدا , فاخذ ابن عباس فشرب , وشرب خالد. (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ , حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ , حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ , عَنْ ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ: أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَبَنٍ , وَعَنْ يَمِينِهِ ابْنُ عَبَّاسٍ , وَعَنْ يَسَارِهِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِابْنِ عَبَّاسٍ:" أَتَأْذَنُ لِي أَنْ أَسْقِيَ خَالِدًا؟" , قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: مَا أُحِبُّ أَنْ أُوثِرَ بِسُؤْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , عَلَى نَفْسِي أَحَدًا , فَأَخَذَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَشَرِبَ , وَشَرِبَ خَالِدٌ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دودھ آیا، اس وقت آپ کے دائیں جانب ابن عباس رضی اللہ عنہما اور بائیں جانب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا: کیا تم مجھے اس کی اجازت دیتے ہو کہ پہلے خالد کو پلاؤں؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوٹھے کے لیے اپنے اوپر کسی کو ترجیح دینا پسند نہیں کرتا، چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے لیا، اور پیا، اور پھر خالد رضی اللہ عنہ نے پیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5858، ومصباح الزجاجة: 1185)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الأشربة 21 (3730)، سنن الترمذی/الدعوات 55 (3455)، مسند احمد (1/220، 225) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کم عمر بچے تھے، اور خالد رضی اللہ عنہ بڑی عمر والے، اس لئے آپ ﷺ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پہلے ان کو دینے کی اجازت چاہی، لیکن جب انہوں نے اجازت نہ دی تو آپ ﷺ خاموش ہے کیونکہ اصولاًا ور قاعدے سے پہلے ابن عباس رضی اللہ عنہ کا حق تھا، ان پر زبردستی نہیں ہو سکتی تھی۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف ضعيف انظر الحديث السابق طرفه (3322) وأصل الحديث متفق عليه (البخاري: 5620،مسلم: 3030) وھو يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 500
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی کچھ پئے تو برتن میں سانس نہ لے، اور اگر سانس لینا چاہے تو برتن کو منہ سے علیحدہ کر لے، پھر اگر چاہے تو دوبارہ پئے“۔