(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار , حدثنا إسماعيل بن عياش , حدثنا ابن جريج , عن ابن شهاب , عن عبيد الله بن عبد الله , عن ابن عباس , قال: اتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بلبن , وعن يمينه ابن عباس , وعن يساره خالد بن الوليد , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لابن عباس:" اتاذن لي ان اسقي خالدا؟" , قال ابن عباس: ما احب ان اوثر بسؤر رسول الله صلى الله عليه وسلم , على نفسي احدا , فاخذ ابن عباس فشرب , وشرب خالد. (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ , حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ , حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ , عَنْ ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ: أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَبَنٍ , وَعَنْ يَمِينِهِ ابْنُ عَبَّاسٍ , وَعَنْ يَسَارِهِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِابْنِ عَبَّاسٍ:" أَتَأْذَنُ لِي أَنْ أَسْقِيَ خَالِدًا؟" , قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: مَا أُحِبُّ أَنْ أُوثِرَ بِسُؤْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , عَلَى نَفْسِي أَحَدًا , فَأَخَذَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَشَرِبَ , وَشَرِبَ خَالِدٌ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دودھ آیا، اس وقت آپ کے دائیں جانب ابن عباس رضی اللہ عنہما اور بائیں جانب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا: کیا تم مجھے اس کی اجازت دیتے ہو کہ پہلے خالد کو پلاؤں؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوٹھے کے لیے اپنے اوپر کسی کو ترجیح دینا پسند نہیں کرتا، چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے لیا، اور پیا، اور پھر خالد رضی اللہ عنہ نے پیا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کم عمر بچے تھے، اور خالد رضی اللہ عنہ بڑی عمر والے، اس لئے آپ ﷺ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پہلے ان کو دینے کی اجازت چاہی، لیکن جب انہوں نے اجازت نہ دی تو آپ ﷺ خاموش ہے کیونکہ اصولاًا ور قاعدے سے پہلے ابن عباس رضی اللہ عنہ کا حق تھا، ان پر زبردستی نہیں ہو سکتی تھی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5858، ومصباح الزجاجة: 1185)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الأشربة 21 (3730)، سنن الترمذی/الدعوات 55 (3455)، مسند احمد (1/220، 225) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف ضعيف انظر الحديث السابق طرفه (3322) وأصل الحديث متفق عليه (البخاري: 5620،مسلم: 3030) وھو يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 500
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3426
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) ہر اچھے کام میں دایئں جانب کو بایئں جانب پر ترجیح حاصل ہے۔
(2) رسول اللہ ﷺ نے اپنا تبرک حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دینے کی خواہش ظاہر فرمائی اس میں بڑی عمر والے شخص کا احترام ملحوظ تھا۔
(3) اسی مقصد کے لئے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اجازت طلب فرمائی کیونکہ یہ ان کا حق تھا۔ لہٰذا ان کی اجازت کے بغیر کسی کو دینا مناسب نہ تھا۔ نیز اس میں بچوں پر شفقت اور ان کے تحفظ کا اظہار ہے۔
(4) جب عزت افزائی کا کوئی موقع حاصل ہورہا ہو۔ اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ لیکن اس میں ایسا انداز اختیار نہ کیاجائے۔ کہ دوسروں کی تحقیر محسوس ہو۔
(5) ہمارے فاضل محقق کے نزدیک یہ حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذکر کے بغیر صحیح ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3426