(موقوف) حدثنا محمد بن سلام، قال: اخبرنا وكيع، عن سفيان، عن مطرف، عن الشعبي، عن ابي جحيفة، قال: قلت لعلي:" هل عندكم كتاب؟ قال: لا، إلا كتاب الله، او فهم اعطيه رجل مسلم او ما في هذه الصحيفة، قال: قلت، فما في هذه الصحيفة؟ قال: العقل وفكاك الاسير، ولا يقتل مسلم بكافر".(موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ، قَالَ: قُلْتُ لِعَلِيِّ:" هَلْ عِنْدَكُمْ كِتَابٌ؟ قَالَ: لَا، إِلَّا كِتَابُ اللَّهِ، أَوْ فَهْمٌ أُعْطِيَهُ رَجُلٌ مُسْلِمٌ أَوْ مَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ، قَالَ: قُلْتُ، فَمَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ؟ قَالَ: الْعَقْلُ وَفَكَاكُ الْأَسِيرِ، وَلَا يُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ".
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، انہیں وکیع نے سفیان سے خبر دی، انہوں نے مطرف سے سنا، انہوں نے شعبی رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابوجحیفہ سے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس کوئی (اور بھی) کتاب ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں، مگر اللہ کی کتاب قرآن ہے یا پھر فہم ہے جو وہ ایک مسلمان کو عطا کرتا ہے۔ یا پھر جو کچھ اس صحیفے میں ہے۔ میں نے پوچھا، اس صحیفے میں کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا، دیت اور قیدیوں کی رہائی کا بیان ہے اور یہ حکم کہ مسلمان، کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔
Narrated Ash-Shu`bi: Abu Juhaifa said, "I asked `Ali, 'Have you got any book (which has been revealed to the Prophet apart from the Qur'an)?' `Ali replied, 'No, except Allah's Book or the power of understanding which has been bestowed (by Allah) upon a Muslim or what is (written) in this sheet of paper (with me).' Abu Juhaifa said, "I asked, 'What is (written) in this sheet of paper?' `Ali replied, it deals with The Diyya (compensation (blood money) paid by the killer to the relatives of the victim), the ransom for the releasing of the captives from the hands of the enemies, and the law that no Muslim should be killed in Qisas (equality in punishment) for the killing of (a disbeliever).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 111
(مرفوع) حدثنا ابو نعيم الفضل بن دكين، قال: حدثنا شيبان، عن يحيى، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة،" ان خزاعة قتلوا رجلا من بني ليث عام فتح مكة بقتيل منهم قتلوه، فاخبر بذلك النبي صلى الله عليه وسلم، فركب راحلته فخطب، فقال: إن الله حبس عن مكة القتل او الفيل، شك ابو عبد الله، كذا قال ابو نعيم: واجعلوه على الشك الفيل او القتل، وغيره يقول: الفيل، وسلط عليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم والمؤمنين، الا وإنها لم تحل لاحد قبلي ولم تحل لاحد بعدي، الا وإنها حلت لي ساعة من نهار، الا وإنها ساعتي هذه حرام لا يختلى شوكها، ولا يعضد شجرها، ولا تلتقط ساقطتها إلا لمنشد، فمن قتل فهو بخير النظرين، إما ان يعقل وإما ان يقاد اهل القتيل، فجاء رجل من اهل اليمن، فقال: اكتب لي يا رسول الله، فقال: اكتبوا لابي فلان، فقال رجل من قريش: إلا الإذخر يا رسول الله، فإنا نجعله في بيوتنا وقبورنا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: إلا الإذخر إلا الإذخر" قال ابو عبد الله: يقال يقاد بالقاف، فقيل لابي عبد الله: اي شيء كتب له، قال: كتب له هذه الخطبة.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،" أَنَّ خُزَاعَةَ قَتَلُوا رَجُلًا مِنْ بَنِي لَيْثٍ عَامَ فَتْحِ مَكَّةَ بِقَتِيلٍ مِنْهُمْ قَتَلُوهُ، فَأُخْبِرَ بِذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَكِبَ رَاحِلَتَهُ فَخَطَبَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ حَبَسَ عَنْ مَكَّةَ الْقَتْلَ أَوِ الْفِيلَ، شَكَّ أَبُو عَبْد اللَّهِ، كَذَا قَالَ أَبُو نُعَيْمٍ: وَاجْعَلُوهُ عَلَى الشَّكِّ الْفِيلَ أَوِ الْقَتْلَ، وَغَيْرُهُ يَقُولُ: الْفِيلَ، وَسَلَّطَ عَلَيْهِمْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُؤْمِنِينَ، أَلَا وَإِنَّهَا لَمْ تَحِلُّ لِأَحَدٍ قَبْلِي وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ بَعْدِي، أَلَا وَإِنَّهَا حَلَّتْ لِي سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، أَلَا وَإِنَّهَا سَاعَتِي هَذِهِ حَرَامٌ لَا يُخْتَلَى شَوْكُهَا، وَلَا يُعْضَدُ شَجَرُهَا، وَلَا تُلْتَقَطُ سَاقِطَتُهَا إِلَّا لِمُنْشِدٍ، فَمَنْ قُتِلَ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ، إِمَّا أَنْ يُعْقَلَ وَإِمَّا أَنْ يُقَادَ أَهْلُ الْقَتِيلِ، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ، فَقَالَ: اكْتُبْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: اكْتُبُوا لِأَبِي فُلَانٍ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ: إِلَّا الْإِذْخِرَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِنَّا نَجْعَلُهُ فِي بُيُوتِنَا وَقُبُورِنَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِلَّا الْإِذْخِرَ إِلَّا الْإِذْخِرَ" قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: يُقَالُ يُقَادُ بِالْقَافِ، فَقِيلَ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: أَيُّ شَيْءٍ كَتَبَ لَهُ، قَالَ: كَتَبَ لَهُ هَذِهِ الْخُطْبَةَ.
ہم سے ابونعیم الفضل بن دکین نے بیان کیا، ان سے شیبان نے یحییٰ کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابوسلمہ سے، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ قبیلہ خزاعہ (کے کسی شخص) نے بنو لیث کے کسی آدمی کو اپنے کسی مقتول کے بدلے میں مار دیا تھا، یہ فتح مکہ والے سال کی بات ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر دی گئی، آپ نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر خطبہ پڑھا اور فرمایا کہ اللہ نے مکہ سے قتل یا ہاتھی کو روک لیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس لفظ کو شک کے ساتھ سمجھو، ایسا ہی ابونعیم وغیرہ نے «القتل» اور «الفيل» کہا ہے۔ ان کے علاوہ دوسرے لوگ «الفيل» کہتے ہیں۔ (پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) کہ اللہ نے ان پر اپنے رسول اور مسلمانوں کو غالب کر دیا اور سمجھ لو کہ وہ (مکہ) کسی کے لیے حلال نہیں ہوا۔ نہ مجھ سے پہلے اور نہ (آئندہ) کبھی ہو گا اور میرے لیے بھی صرف دن کے تھوڑے سے حصہ کے لیے حلال کر دیا گیا تھا۔ سن لو کہ وہ اس وقت حرام ہے۔ نہ اس کا کوئی کانٹا توڑا جائے، نہ اس کے درخت کاٹے جائیں اور اس کی گری پڑی چیزیں بھی وہی اٹھائے جس کا منشاء یہ ہو کہ وہ اس چیز کا تعارف کرا دے گا۔ تو اگر کوئی شخص مارا جائے تو (اس کے عزیزوں کو) اختیار ہے دو باتوں کا، یا دیت لیں یا بدلہ۔ اتنے میں ایک یمنی آدمی (ابوشاہ نامی) آیا اور کہنے لگا (یہ مسائل) میرے لیے لکھوا دیجیئے۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوفلاں کے لیے (یہ مسائل) لکھ دو۔ تو ایک قریشی شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ! مگر اذخر (یعنی اذخر کاٹنے کی اجازت دے دیجیئے) کیونکہ اسے ہم گھروں کی چھتوں پر ڈالتے ہیں۔ (یا مٹی ملا کر) اور اپنی قبروں میں بھی ڈالتے ہیں (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (ہاں) مگر اذخر، مگر اذخر۔
Narrated Abu Huraira: In the year of the Conquest of Mecca, the tribe of Khuza`a killed a man from the tribe of Bani Laith in revenge for a killed person, belonging to them. They informed the Prophet about it. So he rode his Rahila (she-camel for riding) and addressed the people saying, "Allah held back the killing from Mecca. (The sub-narrator is in doubt whether the Prophet said "elephant or killing," as the Arabic words standing for these words have great similarity in shape), but He (Allah) let His Apostle and the believers over power the infidels of Mecca. Beware! (Mecca is a sanctuary) Verily! Fighting in Mecca was not permitted for anyone before me nor will it be permitted for anyone after me. It (war) in it was made legal for me for few hours or so on that day. No doubt it is at this moment a sanctuary, it is not allowed to uproot its thorny shrubs or to uproot its trees or to pick up its Luqat (fallen things) except by a person who will look for its owner (announce it publicly). And if somebody is killed, then his closest relative has the right to choose one of the two-- the blood money (Diyya) or retaliation having the killer killed. In the meantime a man from Yemen came and said, "O Allah's Apostle! Get that written for me." The Prophet ordered his companions to write that for him. Then a man from Quraish said, "Except Al-Idhkhir (a type of grass that has good smell) O Allah's Apostle, as we use it in our houses and graves." The Prophet said, "Except Al-Idhkhir i.e. Al-Idhkhir is allowed to be plucked."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 112
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، قال: حدثنا سفيان، قال: حدثنا عمرو، قال: اخبرني وهب بن منبه، عن اخيه، قال: سمعت ابا هريرة، يقول:" ما من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم احد اكثر حديثا عنه مني، إلا ما كان من عبد الله بن عمرو، فإنه كان يكتب ولا اكتب"، تابعه معمر، عن همام، عن ابي هريرة.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرٌو، قَالَ: أَخْبَرَنِي وَهْبُ بْنُ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَخِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ:" مَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ أَكْثَرَ حَدِيثًا عَنْهُ مِنِّي، إِلَّا مَا كَانَ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، فَإِنَّهُ كَانَ يَكْتُبُ وَلَا أَكْتُبُ"، تَابَعَهُ مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے عمرو نے، وہ کہتے ہیں کہ مجھے وہب بن منبہ نے اپنے بھائی کے واسطے سے خبر دی، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے علاوہ مجھ سے زیادہ کوئی حدیث بیان کرنے والا نہیں تھا۔ مگر وہ لکھ لیا کرتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا۔ دوسری سند سے معمر نے وہب بن منبہ کی متابعت کی، وہ ہمام سے روایت کرتے ہیں، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے۔
Narrated Abu Huraira: There is none among the companions of the Prophet who has narrated more Hadiths than I except `Abdullah bin `Amr (bin Al-`As) who used to write them and I never did the same.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 113
(مرفوع) حدثنا يحيى بن سليمان، قال: حدثني ابن وهب، قال: اخبرني يونس، عن ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس، قال:" لما اشتد بالنبي صلى الله عليه وسلم وجعه، قال: ائتوني بكتاب اكتب لكم كتابا لا تضلوا بعده، قال عمر: إن النبي صلى الله عليه وسلم غلبه الوجع وعندنا كتاب الله حسبنا، فاختلفوا وكثر اللغط، قال: قوموا عني ولا ينبغي عندي التنازع، فخرج ابن عباس، يقول: إن الرزية كل الرزية ما حال بين رسول الله صلى الله عليه وسلم وبين كتابه".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" لَمَّا اشْتَدَّ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ، قَالَ: ائْتُونِي بِكِتَابٍ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ، قَالَ عُمَرُ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَلَبَهُ الْوَجَعُ وَعِنْدَنَا كِتَابُ اللَّهِ حَسْبُنَا، فَاخْتَلَفُوا وَكَثُرَ اللَّغَطُ، قَالَ: قُومُوا عَنِّي وَلَا يَنْبَغِي عِنْدِي التَّنَازُعُ، فَخَرَجَ ابْنُ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: إِنَّ الرَّزِيَّةَ كُلَّ الرَّزِيَّةِ مَا حَالَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ كِتَابِهِ".
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ابن وہب نے، انہیں یونس نے ابن شہاب سے خبر دی، وہ عبیداللہ بن عبداللہ سے، وہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں شدت ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس سامان کتابت لاؤ تاکہ تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں، تاکہ بعد میں تم گمراہ نہ ہو سکو، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے (لوگوں سے) کہا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تکلیف کا غلبہ ہے اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب قرآن موجود ہے جو ہمیں (ہدایت کے لیے) کافی ہے۔ اس پر لوگوں کی رائے مختلف ہو گئی اور شور و غل زیادہ ہونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس سے اٹھ کھڑے ہو، میرے پاس جھگڑنا ٹھیک نہیں، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ کہتے ہوئے نکل آئے کہ بیشک مصیبت بڑی سخت مصیبت ہے (وہ چیز جو) ہمارے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ کی تحریر کے درمیان حائل ہو گئی۔
Narrated 'Ubaidullah bin `Abdullah: Ibn `Abbas said, "When the ailment of the Prophet became worse, he said, 'Bring for me (writing) paper and I will write for you a statement after which you will not go astray.' But `Umar said, 'The Prophet is seriously ill, and we have got Allah's Book with us and that is sufficient for us.' But the companions of the Prophet differed about this and there was a hue and cry. On that the Prophet said to them, 'Go away (and leave me alone). It is not right that you should quarrel in front of me." Ibn `Abbas came out saying, "It was most unfortunate (a great disaster) that Allah's Apostle was prevented from writing that statement for them because of their disagreement and noise. (Note: It is apparent from this Hadith that Ibn `Abbas had witnessed the event and came out saying this statement. The truth is not so, for Ibn `Abbas used to say this statement on narrating the Hadith and he had not witnessed the event personally. See Fath Al-Bari Vol. 1, p.220 footnote.) (See Hadith No. 228, Vol. 4).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 114