صحيح البخاري
كِتَاب الْعِلْمِ
کتاب: علم کے بیان میں
39. بَابُ كِتَابَةِ الْعِلْمِ:
باب: (دینی) علم کو قلم بند کرنے کے جواز میں۔
حدیث نمبر: 111
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ، قَالَ: قُلْتُ لِعَلِيِّ:" هَلْ عِنْدَكُمْ كِتَابٌ؟ قَالَ: لَا، إِلَّا كِتَابُ اللَّهِ، أَوْ فَهْمٌ أُعْطِيَهُ رَجُلٌ مُسْلِمٌ أَوْ مَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ، قَالَ: قُلْتُ، فَمَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ؟ قَالَ: الْعَقْلُ وَفَكَاكُ الْأَسِيرِ، وَلَا يُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ".
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، انہیں وکیع نے سفیان سے خبر دی، انہوں نے مطرف سے سنا، انہوں نے شعبی رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابوجحیفہ سے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس کوئی (اور بھی) کتاب ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں، مگر اللہ کی کتاب قرآن ہے یا پھر فہم ہے جو وہ ایک مسلمان کو عطا کرتا ہے۔ یا پھر جو کچھ اس صحیفے میں ہے۔ میں نے پوچھا، اس صحیفے میں کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا، دیت اور قیدیوں کی رہائی کا بیان ہے اور یہ حکم کہ مسلمان، کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 111 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 111
� تشریح:
بہت سے شیعہ یہ گمان کرتے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ ایسے خاص احکام اور پوشیدہ باتیں کسی صحیفے میں درج ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے علاوہ کسی اور کو نہیں بتائیں، اس لیے ابوحجیفہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ سوال کیا اور آپ نے صاف لفظوں میں اس خیال باطل کی تردید فرما دی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 111
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:111
حدیث حاشیہ:
1۔
کتابت حدیث کے متعلق سلف کی آراء مختلف ہیں۔
اس اختلاف کی بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اجمال سے کام لیا ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ مختلف فیہ مسائل میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا طریق کار یہ ہے کہ وہ عنوان میں کوئی قطعی فیصلہ نہیں کرتے۔
البتہ اس کے تحت احادیث وآثار پیش کر کے اپنا رجحان ظاہر کر دیتے ہیں۔
اس مقام پر بھی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
اگرچہ بعد میں اجماع سے کتابت حدیث کا جواز بلکہ استحباب ثابت ہوچکا ہے بلکہ اندیشہ نسیان کے پیش نظر اس کا وجوب بھی بعید نہیں۔
(فتح الباري: 269/1)
2۔
کتب حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کتابت حدیث کے متعلق ایک حکم امتناعی بایں الفاظ نقل ہوا ہے:
”میری کوئی بات نہ لکھا کرو اور جس نے قرآن کے علاوہ میری باتوں کو لکھا ہے،اسے چاہیے کہ وہ مٹادے۔
“ (صحیح مسلم، الذھد، حدیث: 7510(3004)
اس میں کتابت حدیث سے منع کیا گیا ہے جبکہ اس کے برعکس بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کتابت حدیث کی اجازت تھی جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل منقول ہے۔
اس تعارض کو دور کرنے کے لیے مختلف انداز اختیار کیے گئے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
(الف)
۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مذکورہ روایت موقوف ہے، اسے موقوف ماننے والوں میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سرفہرست ہیں، اس بنا پر تعارض کا قصہ ہی ختم ہے۔
(فتح الباري: 275/1) (ب)
۔
نہی کا معاملہ زمانہ نزول قرآن کے ساتھ خاص ہے تاکہ قرآن وحدیث کااختلاط نہ ہو۔
(ج)
۔
نہی کامطلب یہ تھا کہ ان دونوں چیزوں کو ایک ہی صیغے میں نہ لکھا جائے۔
(د)
۔
ابتداء میں کتابت حدیث سے منع کیا گیا، اس کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ عليہم اجمعین کو کتابت کی اجازت دینے سے یہ حکم منسوخ ہوگیا۔
(ھ)
۔
نہی اس شخص کے لیے تھی جو صرف کتابت پر اعتماد کرتا ہے، حفظ کی طرف توجہ نہیں دیتا۔
(فتح الباري: 275/1) (و)
۔
ممانعت اس لیے تھی تاکہ کتاب اللہ کے مقابلے میں کوئی دوسری کتاب نہ تیار کر لی جائے۔
(ز)
۔
صحابہ کرام رضوان اللہ عليہم اجمعین کی اکثریت فن کتابت سے ناآشنا تھی، اس لیے انھیں لکھنے سے منع کردیا اور جو صحیح لکھ سکتے تھے انھیں اجازت دے دی۔
(مشکل الحدیث لإبن قتيبة)
منکرین حدیث بھی اس ممانعت کو بڑے شدومد سے پیش کرتے ہیں، حالانکہ ان لوگوں کو احادیث پر اعتماد ہی نہیں۔
یہ عجیب منطق ہے کہ اگرحدیث کتب حدیث میں ہو تو عجمی سازش کا ایک حصہ۔
اگر اسے بطور دلیل پیش کرنا ہو تو قابل حجت۔
اگر احادیث کی عدم کتابت کے لیے بطور ثبوت اسے پیش کیا جا سکتا ہے تو کتابت حدیث کے ثبوت کے لیے ان روایات سے استشہاد کیوں نہیں کیا جاسکتا جو سند کے لحاظ سے کہیں بالاتر ہیں۔
4۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے ہی سے روافض کاسلسلہ شروع ہوگیا تھا اور ان کی جانب سے یہ بات عام کی جارہی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کچھ خصوصی علوم عطا فرمائے ہیں جن کا دوسرے لوگوں کو علم نہیں ہے۔
اس پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر حضرت ابوجحیفہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا کہ آپ کے پاس کتاب اللہ کے علاوہ کوئی اور نوشتہ بھی ہے؟ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ میرے پاس کتاب اللہ ہے، فہم ہے اور یہ صحیفہ ہے اور یہ تینوں چیزیں میرے ساتھ خاص نہیں۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ”صحیفہ“ سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ کتابت حدیث دور نبوی میں شروع ہو چکی تھی۔
یہ بعد کی پیداوار نہیں۔
5۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فہم کو الگ ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ قرآن کریم کے ظاہری معانی کے علاوہ کلام کے سیاق وسباق سے جو مسائل واحکام معلوم ہوتے ہیں، ان کا ذکر کرنا چاہتے تھے، یعنی ایک تو وہ مسائل ہیں جو ظاہرالنص سے ہرایک کوسمجھ میں آ جاتے ہیں، دوسرے وہ جو ظاہرالنص سے نہیں بلکہ وہ فحوائے کلام، قیاسات اور طرق استنباط سے معلوم ہوتے ہیں، چنانچہ ایک دوسرے مقام پر یہ روایت بایں الفاظ موجود ہے ہمارے پاس وہی ہے جو قرآن میں ہے، ہاں فہم بھی ہے جو اس کتاب پر غور وفکر کرنے کے لیے آدمی کو دی جاتی ہے۔
(صحیح البخاري، الدیات، حدیث: 6903)
یعنی اگر اللہ تعالیٰ آدمی کو قرآن مجید میں غور وفکر کرنے کا سلیقہ عطا کردے تو وہ مسائل کے استخراج پر قدرت حاصل کرلیتا ہے۔
اس اعتبار سے وہ دوسروں سے فوقیت حاصل کرلیتا ہے۔
اس کی تائید درج ذیل روایت سے بھی ہوتی ہے۔
طارق بن شہاب کہتے ہیں:
میں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو منبر پر یہ فرماتے دیکھا:
واللہ! ہمارے پاس کوئی کتاب نہیں جسے ہم تمہیں پڑھ کرسنائیں مگر اللہ کی کتاب اور یہ صحیفہ۔
(مسند احمد: 100/1)
اس کا مطلب یہ ہے کہ استخراج کردہ مسائل کا مجموعہ تحریری شکل میں آپ کے پاس موجود تھا جیسا کہ صحیح بخاری کے بعض شراح نے لکھا ہے۔
(فتح الباري: 270/1)
6۔
صحیفے کے مندرجات اور اس کے متعلقہ مسائل واحکام کتاب الدیات میں ذکر کیے جائیں گے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 111