باب: اس بیان میں کہ جب کسی عالم سے یہ پوچھا جائے کہ لوگوں میں کون سب سے زیادہ علم رکھتا ہے؟ تو بہتر یہ ہے کہ اللہ کے حوالے کر دے یعنی یہ کہہ دے کہ اللہ سب سے زیادہ علم رکھتا ہے یا یہ کہ اللہ ہی جانتا ہے کہ کون سب سے بڑا عالم ہے۔
(44) Chapter. When a religious learned man is asked, “Who is the most learned person,” it is better for him to attribute or entrust absolute knowledge to Allah and to say, “Allah is the Most Learned (than anybody else).”
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد، قال حدثنا سفيان، قال: حدثنا عمرو، قال: اخبرني سعيد بن جبير، قال: قلت لابن عباس إن نوفا البكالي يزعم ان موسى ليس بموسى بني إسرائيل، إنما هو موسى آخر، فقال: كذب عدو الله، حدثنا ابي بن كعب، عن النبي صلى الله عليه وسلم،" قام موسى النبي خطيبا في بني إسرائيل، فسئل اي الناس اعلم؟ فقال: انا اعلم، فعتب الله عليه إذ لم يرد العلم إليه، فاوحى الله إليه ان عبدا من عبادي بمجمع البحرين هو اعلم منك، قال: يا رب، وكيف به؟ فقيل له: احمل حوتا في مكتل، فإذا فقدته فهو ثم فانطلق، وانطلق بفتاه يوشع بن نون وحملا حوتا في مكتل، حتى كانا عند الصخرة وضعا رءوسهما وناما، فانسل الحوت من المكتل، فاتخذ سبله في البحر سربا، وكان لموسى وفتاه عجبا، فانطلقا بقية ليلتهما ويومهما، فلما اصبح، قال موسى لفتاه: آتنا غداءنا لقد لقينا من سفرنا هذا نصبا، ولم يجد موسى مسا من النصب حتى جاوز المكان الذي امر به، فقال له فتاه: ارايت إذ اوينا إلى الصخرة فإني نسيت الحوت، قال موسى: ذلك ما كنا نبغي، فارتدا على آثارهما قصصا، فلما انتهيا إلى الصخرة إذا رجل مسجى بثوب او قال تسجى بثوبه فسلم موسى، فقال الخضر: وانى بارضك السلام، فقال: انا لموسى، فقال موسى: بني إسرائيل، قال: نعم، قال: هل اتبعك على ان تعلمني مما علمت رشدا؟ قال: إنك لن تستطيع معي صبرا يا موسى، إني على علم من علم الله علمنيه لا تعلمه انت، وانت على علم علمكه لا اعلمه، قال: ستجدني إن شاء الله صابرا ولا اعصي لك امرا، فانطلقا يمشيان على ساحل البحر ليس لهما سفينة، فمرت بهما سفينة فكلموهم ان يحملوهما، فعرف الخضر فحملوهما بغير نول، فجاء عصفور فوقع على حرف السفينة فنقر نقرة او نقرتين في البحر، فقال الخضر: يا موسى، ما نقص علمي وعلمك من علم الله إلا كنقرة هذا العصفور في البحر، فعمد الخضر إلى لوح من الواح السفينة فنزعه، فقال موسى: قوم حملونا بغير نول عمدت إلى سفينتهم فخرقتها لتغرق اهلها، قال: الم اقل إنك لن تستطيع معي صبرا، قال: لا تؤاخذني بما نسيت، فكانت الاولى من موسى نسيانا، فانطلقا فإذا غلام يلعب مع الغلمان، فاخذ الخضر براسه من اعلاه فاقتلع راسه بيده، فقال موسى: اقتلت نفسا زكية بغير نفس، قال: الم اقل لك إنك لن تستطيع معي صبرا، قال ابن عيينة: وهذا اوكد فانطلقا حتى إذا اتيا اهل قرية استطعما اهلها فابوا ان يضيفوهما فوجدا فيها جدارا يريد ان ينقض فاقامه، قال الخضر: بيده فاقامه، فقال له موسى: لو شئت لاتخذت عليه اجرا، قال: هذا فراق بيني وبينك، قال النبي صلى الله عليه وسلم: يرحم الله موسى لوددنا لو صبر حتى يقص علينا من امرهما".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرٌو، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبَكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى لَيْسَ بِمُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، إِنَّمَا هُوَ مُوسَى آخَرُ، فَقَالَ: كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" قَامَ مُوسَى النَّبِيُّ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ؟ فَقَالَ: أَنَا أَعْلَمُ، فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ أَنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِي بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ، قَالَ: يَا رَبِّ، وَكَيْفَ بِهِ؟ فَقِيلَ لَهُ: احْمِلْ حُوتًا فِي مِكْتَلٍ، فَإِذَا فَقَدْتَهُ فَهُوَ ثَمَّ فَانْطَلَقَ، وَانْطَلَقَ بِفَتَاهُ يُوشَعَ بْنِ نُونٍ وَحَمَلَا حُوتًا فِي مِكْتَلٍ، حَتَّى كَانَا عِنْدَ الصَّخْرَةِ وَضَعَا رُءُوسَهُمَا وَنَامَا، فَانْسَلَّ الْحُوتُ مِنَ الْمِكْتَلِ، فَاتَّخَذَ سَبِلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا، وَكَانَ لِمُوسَى وَفَتَاهُ عَجَبًا، فَانْطَلَقَا بَقِيَّةَ لَيْلَتِهِمَا وَيَوْمَهُمَا، فَلَمَّا أَصْبَحَ، قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ: آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا، وَلَمْ يَجِدْ مُوسَى مَسًّا مِنَ النَّصَبِ حَتَّى جَاوَزَ الْمَكَانَ الَّذِي أُمِرَ بِهِ، فَقَالَ لَهُ فَتَاهُ: أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ، قَالَ مُوسَى: ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي، فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا، فَلَمَّا انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ إِذَا رَجُلٌ مُسَجًّى بِثَوْبٍ أَوْ قَالَ تَسَجَّى بِثَوْبِهِ فَسَلَّمَ مُوسَى، فَقَالَ الْخَضِرُ: وَأَنَّى بِأَرْضِكَ السَّلَامُ، فَقَالَ: أَنَا لمُوسَى، فَقَالَ مُوسَى: بَنِي إِسْرَائِيلَ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رَشَدًا؟ قَالَ: إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا يَا مُوسَى، إِنِّي عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ لَا تَعْلَمُهُ أَنْتَ، وَأَنْتَ عَلَى عِلْمٍ عَلَّمَكَهُ لَا أَعْلَمُهُ، قَالَ: سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا، فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ عَلَى سَاحِلِ الْبَحْرِ لَيْسَ لَهُمَا سَفِينَةٌ، فَمَرَّتْ بِهِمَا سَفِينَةٌ فَكَلَّمُوهُمْ أَنْ يَحْمِلُوهُمَا، فَعُرِفَ الْخَضِرُ فَحَمَلُوهُمَا بِغَيْرِ نَوْلٍ، فَجَاءَ عُصْفُورٌ فَوَقَعَ عَلَى حَرْفِ السَّفِينَةِ فَنَقَرَ نَقْرَةً أَوْ نَقْرَتَيْنِ فِي الْبَحْرِ، فَقَالَ الْخَضِرُ: يَا مُوسَى، مَا نَقَصَ عِلْمِي وَعِلْمُكَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا كَنَقْرَةِ هَذَا الْعُصْفُورِ فِي الْبَحْرِ، فَعَمَدَ الْخَضِرُ إِلَى لَوْحٍ مِنْ أَلْوَاحِ السَّفِينَةِ فَنَزَعَهُ، فَقَالَ مُوسَى: قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَ إِلَى سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا، قَالَ: أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا، قَالَ: لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ، فَكَانَتِ الْأُولَى مِنْ مُوسَى نِسْيَانًا، فَانْطَلَقَا فَإِذَا غُلَامٌ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ، فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِهِ مِنْ أَعْلَاهُ فَاقْتَلَعَ رَأْسَهُ بِيَدِهِ، فَقَالَ مُوسَى: أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ، قَالَ: أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا، قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: وَهَذَا أَوْكَدُ فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ، قَالَ الْخَضِرُ: بِيَدِهِ فَأَقَامَهُ، فَقَالَ لَهُ مُوسَى: لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا، قَالَ: هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَى لَوَدِدْنَا لَوْ صَبَرَ حَتَّى يُقَصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَمْرِهِمَا".
ہم سے عبداللہ بن محمد المسندی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے عمرو نے، انہیں سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے خبر دی، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ نوف بکالی کا یہ خیال ہے کہ موسیٰ علیہ السلام (جو خضر علیہ السلام کے پاس گئے تھے وہ) موسیٰ بنی اسرائیل والے نہیں تھے بلکہ دوسرے موسیٰ تھے، (یہ سن کر) ابن عباس رضی اللہ عنہما بولے کہ اللہ کے دشمن نے جھوٹ کہا ہے۔ ہم سے ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا کہ (ایک روز) موسیٰ علیہ السلام نے کھڑے ہو کر بنی اسرائیل میں خطبہ دیا، تو آپ سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ صاحب علم کون ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ میں ہوں۔ اس وجہ سے اللہ کا غصہ ان پر ہوا کہ انہوں نے علم کو اللہ کے حوالے کیوں نہ کر دیا۔ تب اللہ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ دریاؤں کے سنگم پر ہے۔ (جہاں فارس اور روم کے سمندر ملتے ہیں) وہ تجھ سے زیادہ عالم ہے، موسیٰ علیہ السلام نے کہا اے پروردگار! میری ان سے ملاقات کیسے ہو؟ حکم ہوا کہ ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لو، پھر جہاں تم اس مچھلی کو گم کر دو گے تو وہ بندہ تمہیں (وہیں) ملے گا۔ تب موسیٰ علیہ السلام چلے اور ساتھ اپنے خادم یوشع بن نون کو لے لیا اور انہوں نے زنبیل میں مچھلی رکھ لی، جب (ایک) پتھر کے پاس پہنچے، دونوں اپنے سر اس پر رکھ کر سو گئے اور مچھلی زنبیل سے نکل کر دریا میں اپنی راہ بناتی چلی گئی اور یہ بات موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی کے لیے بےحد تعجب کی تھی، پھر دونوں باقی رات اور دن میں (جتنا وقت باقی تھا) چلتے رہے، جب صبح ہوئی موسیٰ علیہ السلام نے خادم سے کہا، ہمارا ناشتہ لاؤ، اس سفر میں ہم نے (کافی) تکلیف اٹھائی ہے اور موسیٰ علیہ السلام بالکل نہیں تھکے تھے، مگر جب اس جگہ سے آگے نکل گئے، جہاں تک انہیں جانے کا حکم ملا تھا، تب ان کے خادم نے کہا، کیا آپ نے دیکھا تھا کہ جب ہم صخرہ کے پاس ٹھہرے تھے تو میں مچھلی کا ذکر بھول گیا، (بقول بعض صخرہ کے نیچے آب حیات تھا، وہ اس مچھلی پر پڑا، اور وہ زندہ ہو کر بقدرت الٰہی دریا میں چل دی)(یہ سن کر) موسیٰ علیہ السلام بولے کہ یہ ہی وہ جگہ ہے جس کی ہمیں تلاش تھی، تو وہ پچھلے پاؤں واپس ہو گئے، جب پتھر تک پہنچے تو دیکھا کہ ایک شخص کپڑا اوڑھے ہوئے (موجود ہے) موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام کیا، خضر علیہ السلام نے کہا کہ تمہاری سر زمین میں سلام کہاں؟ پھر موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں موسیٰ (علیہ السلام) ہوں، خضر بولے کہ بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں! پھر کہا کیا میں آپ کے ساتھ چل سکتا ہوں، تاکہ آپ مجھے ہدایت کی وہ باتیں بتلائیں جو اللہ نے خاص آپ ہی کو سکھلائی ہیں۔ خضر علیہ السلام بولے کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے۔ اسے موسیٰ! مجھے اللہ نے ایسا علم دیا ہے جسے تم نہیں جانتے اور تم کو جو علم دیا ہے اسے میں نہیں جانتا۔ (اس پر) موسیٰ نے کہا کہ اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابر پاؤ گے اور میں کسی بات میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ پھر دونوں دریا کے کنارے کنارے پیدل چلے، ان کے پاس کوئی کشتی نہ تھی کہ ایک کشتی ان کے سامنے سے گزری، تو کشتی والوں سے انہوں نے کہا کہ ہمیں بٹھا لو۔ خضر علیہ السلام کو انہوں نے پہچان لیا اور بغیر کرایہ کے سوار کر لیا، اتنے میں ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھ گئی، پھر سمندر میں اس نے ایک یا دو چونچیں ماریں (اسے دیکھ کر) خضر علیہ السلام بولے کہ اے موسیٰ! میرے اور تمہارے علم نے اللہ کے علم میں سے اتنا ہی کم کیا ہو گا جتنا اس چڑیا نے سمندر (کے پانی) سے پھر خضر علیہ السلام نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختہ نکال ڈالا، موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ان لوگوں نے تو ہمیں کرایہ لیے بغیر (مفت میں) سوار کیا اور آپ نے ان کی کشتی (کی لکڑی) اکھاڑ ڈالی تاکہ یہ ڈوب جائیں، خضر علیہ السلام بولے کہ کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے؟ (اس پر) موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ بھول پر میری گرفت نہ کرو۔ موسیٰ علیہ السلام نے بھول کر یہ پہلا اعتراض کیا تھا۔ پھر دونوں چلے (کشتی سے اتر کر) ایک لڑکا بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، خضر علیہ السلام نے اوپر سے اس کا سر پکڑ کر ہاتھ سے اسے الگ کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام بول پڑے کہ آپ نے ایک بےگناہ بچے کو بغیر کسی جانی حق کے مار ڈالا (غضب ہو گیا) خضر علیہ السلام بولے کہ میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے۔ ابن عیینہ کہتے ہیں کہ اس کلام میں پہلے سے زیادہ تاکید ہے (کیونکہ پہلے کلام میں لفظ لک نہیں کہا تھا، اس میں لک زائد کیا، جس سے تاکید ظاہر ہے) پھر دونوں چلتے رہے۔ حتیٰ کہ ایک گاؤں والوں کے پاس آئے، ان سے کھانا لینا چاہا۔ انہوں نے کھانا کھلانے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے وہیں دیکھا کہ ایک دیوار اسی گاؤں میں گرنے کے قریب تھی۔ خضر علیہ السلام نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے اسے سیدھا کر دیا۔ موسیٰ بول اٹھے کہ اگر آپ چاہتے تو (گاؤں والوں سے) اس کام کی مزدوری لے سکتے تھے۔ خضر نے کہا کہ (بس اب) ہم اور تم میں جدائی کا وقت آ گیا ہے۔ جناب محبوب کبریا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ موسیٰ پر رحم کرے، ہماری تمنا تھی کہ موسیٰ کچھ دیر اور صبر کرتے تو مزید واقعات ان دونوں کے بیان کئے جاتے (اور ہمارے سامنے روشنی میں آتے، مگر موسیٰ علیہ السلام کی عجلت نے اس علم لدنی کے سلسلہ کو جلد ہی منقطع کرا دیا) محمد بن یوسف کہتے ہیں کہ ہم سے علی بن خشرم نے یہ حدیث بیان کی، ان سے سفیان بن عیینہ نے پوری کی پوری بیان کی۔
Narrated Sa`id bin Jubair: I said to Ibn `Abbas, "Nauf-Al-Bakali claims that Moses (the companion of Khadir) was not the Moses of Bani Israel but he was another Moses." Ibn `Abbas remarked that the enemy of Allah (Nauf) was a liar. Narrated Ubai bin Ka`b: The Prophet said, "Once the Prophet Moses stood up and addressed Bani Israel. He was asked, "Who is the most learned man amongst the people. He said, "I am the most learned." Allah admonished Moses as he did not attribute absolute knowledge to Him (Allah). So Allah inspired to him "At the junction of the two seas there is a slave amongst my slaves who is more learned than you." Moses said, "O my Lord! How can I meet him?" Allah said: Take a fish in a large basket (and proceed) and you will find him at the place where you will lose the fish. So Moses set out along with his (servant) boy, Yusha` bin Noon and carried a fish in a large basket till they reached a rock, where they laid their heads (i.e. lay down) and slept. The fish came out of the basket and it took its way into the sea as in a tunnel. So it was an amazing thing for both Moses and his (servant) boy. They proceeded for the rest of that night and the following day. When the day broke, Moses said to his (servant) boy: "Bring us our early meal. No doubt, we have suffered much fatigue in this journey." Moses did not get tired till he passed the place about which he was told. There the (servant) boy told Moses, "Do you remember when we betook ourselves to the rock, I indeed forgot the fish." Moses remarked, "That is what we have been seeking. So they went back retracing their footsteps, till they reached the rock. There they saw a man covered with a garment (or covering himself with his own garment). Moses greeted him. Al-Khadir replied saying, "How do people greet each other in your land?" Moses said, "I am Moses." He asked, "The Moses of Bani Israel?" Moses replied in the affirmative and added, "May I follow you so that you teach me of that knowledge which you have been taught." Al-Khadir replied, "Verily! You will not be able to remain patient with me, O Moses! I have some of the knowledge of Allah which He has taught me and which you do not know, while you have some knowledge which Allah has taught you which I do not know." Moses said, "Allah willing, you will find me patient and I will disobey no order of yours. So both of them set out walking along the seashore, as they did not have a boat. In the meantime a boat passed by them and they requested the crew of the boat to take them on board. The crew recognized Al-Khadir and took them on board without fare. Then a sparrow came and stood on the edge of the boat and dipped its beak once or twice in the sea. Al-Khadir said: "O Moses! My knowledge and your knowledge have not decreased Allah's knowledge except as much as this sparrow has decreased the water of the sea with its beak." Al- Khadir went to one of the planks of the boat and plucked it out. Moses said, "These people gave us a free lift but you have broken their boat and scuttled it so as to drown its people." Al-Khadir replied, "Didn't I tell you that you will not be able to remain patient with me." Moses said, "Call me not to account for what I forgot." The first (excuse) of Moses was that he had forgotten. Then they proceeded further and found a boy playing with other boys. Al-Khadir took hold of the boy's head from the top and plucked it out with his hands (i.e. killed him). Moses said, "Have you killed an innocent soul who has killed none." Al-Khadir replied, "Did I not tell you that you cannot remain patient with me?" Then they both proceeded till when they came to the people of a town, they asked them for food, but they refused to entertain them. Then they found there a wall on the point of collapsing. Al-Khadir repaired it with his own hands. Moses said, "If you had wished, surely you could have taken wages for it." Al-Khadir replied, "This is the parting between you and me." The Prophet added, "May Allah be Merciful to Moses! Would that he could have been more patient to learn more about his story with Al-Khadir. "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 123