Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْعِلْمِ
کتاب: علم کے بیان میں
39. بَابُ كِتَابَةِ الْعِلْمِ:
باب: (دینی) علم کو قلم بند کرنے کے جواز میں۔
حدیث نمبر: 114
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" لَمَّا اشْتَدَّ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ، قَالَ: ائْتُونِي بِكِتَابٍ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ، قَالَ عُمَرُ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَلَبَهُ الْوَجَعُ وَعِنْدَنَا كِتَابُ اللَّهِ حَسْبُنَا، فَاخْتَلَفُوا وَكَثُرَ اللَّغَطُ، قَالَ: قُومُوا عَنِّي وَلَا يَنْبَغِي عِنْدِي التَّنَازُعُ، فَخَرَجَ ابْنُ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: إِنَّ الرَّزِيَّةَ كُلَّ الرَّزِيَّةِ مَا حَالَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ كِتَابِهِ".
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ابن وہب نے، انہیں یونس نے ابن شہاب سے خبر دی، وہ عبیداللہ بن عبداللہ سے، وہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں شدت ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس سامان کتابت لاؤ تاکہ تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں، تاکہ بعد میں تم گمراہ نہ ہو سکو، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے (لوگوں سے) کہا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تکلیف کا غلبہ ہے اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب قرآن موجود ہے جو ہمیں (ہدایت کے لیے) کافی ہے۔ اس پر لوگوں کی رائے مختلف ہو گئی اور شور و غل زیادہ ہونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس سے اٹھ کھڑے ہو، میرے پاس جھگڑنا ٹھیک نہیں، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ کہتے ہوئے نکل آئے کہ بیشک مصیبت بڑی سخت مصیبت ہے (وہ چیز جو) ہمارے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ کی تحریر کے درمیان حائل ہو گئی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 114 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 114  
تشریح:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ازراہ شفقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ترین تکلیف دیکھ کر یہ رائے دی تھی کہ ایسی تکلیف کے وقت آپ تحریر کی تکلیف کیوں فرماتے ہیں۔ ہماری ہدایت کے لیے قرآن مجید کافی ہے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس رائے پر سکوت فرمایا اور اس واقعہ کے بعد چار روز آپ زندہ رہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ اس خیال کا اظہار نہیں فرمایا۔

علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وقد كان عمر افقه من ابن عباس حيث اكتفي بالقرآن على انه يحتمل ان يكون صلى الله عليه وسلم كان ظهرله حين هم بالكتاب انه مصلحة ثم ظهر له اواوحي اليه بعد ان المصلحة فى تركه ولو كان واجبا لم يتركه عليه الصلوٰة والسلام لاختلافهم لانه لم يترك التكليف بمخالفة من خالف وقد عاش بعدذلك اياما ولم يعاود امرهم بذلك .»
خلاصہ اس عبارت کا یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بہت زیادہ سمجھ دار تھے، انہوں نے قرآن کو کافی جانا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مصلحتاً یہ ارادہ ظاہر فرمایا تھا مگر بعد میں اس کا چھوڑنا بہتر معلوم ہوا۔ اگر یہ حکم واجب ہوتا تو آپ لوگوں کے اختلاف کی وجہ سے اسے ترک نہ فرماتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعہ کے بعد کئی روز زندہ رہے مگر پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اعادہ نہیں فرمایا۔ صحیح بخاری میں یہ حدیث سات طریقوں سے مذکور ہوئی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 114   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:114  
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کتابت حدیث دردور نبوی ثابت کرناچاہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرکے بالکل آخری حصے میں کچھ تحریر فرمانے کا ارادہ فرمایا لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے باہمی اختلاف کی وجہ سے اسے عملی شکل دینے کی نوبت نہ آئی۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقصد کے اثبات کے لیے چار حدیثیں پیش کی ہیں:
پہلی حدیث حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے کہ ان کے پاس ایک صحیفہ تھا جس میں کچھ احکام لکھے ہوئے تھے لیکن اس میں بدرجہ امکان یہ احتمال تھا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ نوشتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تحریر فرمایا ہو یا انھیں نہی کی حدیث نہ پہنچی ہو، اس لیے دوسری حدیث پیش کی جس میں ابوشاہ یمنی کی درخواست پر آپ نے خطبہ لکھنے کی اجازت دی، مگر اس میں بھی خصوصیت کا یہ احتمال موجود ہے کہ شاید نابینا اور امی حضرات کے لیے یہ حکم ہو، اس لیے تیسری حدیث لائے جس میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کا عمل کتابت منقول ہے جو آپ کی اجازت سے ہوا۔
اس میں خصوصیت نہیں بلکہ عموم ہے۔
لیکن ان تینوں احادیث میں کہیں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قصد کتابت کا ذکر نہیں، اس لیے یہ آخری روایت پیش کرکے آپ کے ارادہ کتابت کا بھی ثبوت فراہم کردیا۔
اورظاہر ہے کہ آپ کا ارادہ حق اور درست ہی ہوسکتا ہے اس لیے بہترین دلائل کے ساتھ کتابت حدیث کا عمل ثابت ہو گیا۔
(فتح الباري: 277/1)

یہ حدیث، حدیث قرطاس کے نام سے مشہور ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چار دن قبل جمعرات کے دن یہ واقعہ ہوا۔
مسند امام احمد رحمۃ اللہ علیہ میں ہے کہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ شانے کی ہڈی لائیں تاکہ میں اس پر امت کو گمراہی کے تدارک کے لیے کچھ لکھوا دوں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقصد آپ کے حکم سے گریز نہ تھا بلکہ آپ نے ایسا ازراہ محبت فرمایا، ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بعد چار روز تک زندہ رہے اور دوسرے احکام نافذ فرماتے رہے جبکہ تحریر کے متعلق آپ نے سکوت اختیار فرمایا۔
معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے سے آپ کو اتفاق تھا۔
بنیادی طور پر یہ حکم تو آپ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیا تھا، کم از کم ان سے اس کوتاہی کی توقع نہ تھی۔
اگر یہ حکم ضروری ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے اختلاف کی وجہ سے اسے ترک نہ فرماتے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ بڑی مصیبت یہ ہوئی کہ تحریر کی نوبت ہی نہ آئی اور باہمی اختلاف اس سے محرومی کا باعث ہوا۔
اس گفتگو سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اس واقعہ کے وقت وہاں شریک مجلس تھے اور وہاں سے نکلتے ہوئے ان کلمات افسوس کا اظہار فرمایا، حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ مختلف شواہد کی بنا پر اس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما جب اپنے تلامذہ کے سامنے حدیث بیان فرماتے تو آخر میں یہ کلمات کہتے تھے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔
(فتح الباري: 277/1)

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس تحریر کو مؤخر کرانے میں اکیلے نہ تھے بلکہ متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ کے ساتھ تھے۔
ان حضرات کو اس بات کا یقین تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات واجب التعمیل ہیں لیکن یہ حضرات اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ منافقین کو باتیں بنانے کے لیے ایک ثبوت مل جائے گا کہ خاکم بدہن، لیجئے شدت مرض کے ایام میں جبکہ ہوش وحواس میں اختلال کا امکان تھا، ایک تحریر لکھوالی۔
منافقین کی اس زبان بندی اور یاوہ گوئی کے پیش نظر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اوردیگرصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ایسا کیا۔
(فتح الباري: 276/1)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر میں فرمایا کہ میرے پاس سے اٹھ جاؤ، میرے ہاں لڑائی جھگڑے کا کیا کام ہے؟ آپ کا یہ خطاب تمام شرکائے مجلس کو تھا جس میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے۔
اس حکم کی تعمیل میں سب لوگ گھروں کو چلے گئے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مطابق تھی، بصورت دیگر وہی کاغذ وغیرہ لے آتے، پھر آپ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد بھی تھے، گھر آنا جانا رہتا تھا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر چلے جانے کے بعد یہ کام بخوبی کرسکتے تھے لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ ان کی رائے بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھی۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 114   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4232  
امام صاحب اپنے کئی اساتذہ سے، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کی حدیث بیان کرتے ہیں، انہوں نے کہا، جمعرات کا دن، جمعرات کا دن کس قدر سنگین تھا، پھر وہ رو پڑے، حتی کہ ان کے آنسوؤں سے کنکریاں تر ہو گئیں، میں نے پوچھا، جمعرات کے دن سے کیا مقصد ہے؟ انہوں نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری شدت اختیار کر گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دوات کتاب لاؤ، میں تمہیں تحریر کر دوں، میرے بعد تم پریشان نہیں ہو گے، یا غلطی نہیں کرو گے۔ تو صحابہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4232]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
أهَجَرَ:
کیا آپ ہمیں داغ مفارقت دینا چاہتے ہیں،
یعنی یہ لفظ هَجْرٌ سے ماخوذ ہے،
هُجْرٌ سے ماخوذ نہیں ہے،
جس کا معنی ہوتا ہے،
بیماری کی حالت میں غیر شعوری گفتگو کرنا اور بے ربط باتیں کرنا،
ظاہر ہے اگر یہ مقصود ہوتا،
تو پھر استفهصموه،
آپ سے وضاحت کہنے کی کیا ضرورت تھی،
اور اگلی روایت کے الفاظ،
قَالُوا اِنَّ رَسُولُ اللهِ يهجُر:
آپ داغ مفارقت دینا چاہتے ہیں،
میں سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔
فوائد ومسائل:
تیسری چیز جسے حضرت سعید بن جبیر نے بیان نہیں کیا،
یا سلیمان بھول گیا،
اس کے بارے میں اختلاف ہے،
بعض کے بقول وصیت بالقرآن ہے،
بعض کے نزدیک حضرت اسامہ کے لشکر کی تیاری اور اہتمام ہے،
بعض کے نزدیک (لَا تَتَّخِذُوا قَبَرِي وَثَناً يُعْبَد)
ہے،
میری قبر کو عبادت گاہ نہ بنا لینا،
اور بعض کے نزدیک نماز اور غلام،
لونڈیوں کے بارے میں تاکید ہے،
(حدیث کی تشریح آخر میں آ رہی ہے۔
)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4232   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4234  
حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت آ پہنچا، اور گھر میں بہت سے افراد تھے، جن میں عمر بن خطاب بھی تھے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آؤ، میں تمہیں ایک تحریر لکھوا دوں، اس کے بعد تم حیران نہیں ہو گے، تو حضرت عمر ؓ کہنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شدید بیمار ہیں (اس لیے آپ کو لکھوانے کی زحمت نہیں دینی چاہیے) اور تمہارے پاس قرآن مجید موجود ہے، ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے (اس کی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4234]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
رزيت،
مصیبت۔
(2)
لغظ،
شور شرابا۔
فوائد ومسائل:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا خیال یہ تھا کہ آپ بالترتیب خلفاء کی خلافت تحریر کروا دیتے،
تو بعد والے جو جھگڑے کھڑے ہوئے،
اور صحابہ میں جنگ تک نوبت پہنچی،
ہم اس سے بچ جاتے،
لیکن کبار صحابہ نے یہ سمجھا کہ دین کی تکمیل کے بعد،
کوئی نئی بات تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوانی نہیں ہے،
پہلی باتوں کی تاکید اور توثیق ہی ہو گی یا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ خیال کیا،
آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بارے میں لکھوائیں گے اور اس کے بارے میں ہمارے اندر کوئی اختلاف نہیں،
کیونکہ اس کا آپ نے پہلے اظہار فرمایا تھا کہ اے عائشہ! ادعي لي اباك ابابكر و اخاك۔
میرے پاس اپنے باپ ابوبکر اور اپنے بھائی کو بلاؤ،
تاکہ میں انہیں ایک تحریر لکھ دوں،
کیونکہ مجھے خدشہ ہے،
کوئی تمنا کرنے والا تمنا کرے گا،
اور کہنے والا کہے گا،
میں زیادہ لائق اور حقدار ہوں،
اور اللہ اور مومن،
ابوبکر کے سوا کسی کو قبول نہیں کریں گے۔
(مسلم،
ج 2،
ص 273،
طبعہ قدیمی کتب خانہ،
کراچی۔
)

نیز حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کا خیال تھا،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے ہی شدید بیمار ہیں،
اس لیے آپ کو مزید تکلیف میں مبتلا نہیں کرنا چاہیے،
پھر آپ نے بھی تحریر پر اصرار نہیں فرمایا،
اگر لکھوانا ضروری ہوتا تو آپ کسی مخالفت کی پرواہ نہ کرتے اور لکھوا کر رہتے،
جیسا کہ صلح حدیبیہ،
سب کی مخالفت کے علی الرغم،
کفار کی شروط پر ہی کر لی تھی،
نیز یہ واقعہ جمعرات کو پیش آیا،
اور آپ کی وفات سوموار کے دن ہوئی،
اگر تحریر ضروری ہوتی،
تو آپ نے ان دنوں اور وصیتیں کی ہیں،
بلکہ ہفتہ کے دن،
منبر پر بیٹھ کر خطاب بھی فرمایا ہے،
تو آپ ان دنوں میں لکھوا دیتے،
اور پھر عام طور پر مخاطب گھر کے افراد ہوتے ہیں،
تو حضرت علی آگے پیچھے یہ کام کروا سکتے تھے،
بلکہ مسند احمد میں تو ہے،
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں،
کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا،
کہ میں ایک طبق لے کر آؤں،
جس پر آپ ایسی چیز لکھوا دیں،
جس کے بعد آپ کی امت سرگرداں نہیں ہو گی۔
(مسند احمد،
ج 1،
ص 90،
طبع بیروت)

بہرحال حضرت عمر نے یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور آپ کو تکلیف سے بچانے کے لیے کہی،
آپ کے حکم کا انکار مقصود نہیں تھا،
جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب قریش نے آپ کے نام کے ساتھ،
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)
لکھنے پر اعتراض کیا،
تو آپ نے حضرت علی سے فرمایا،
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)
کا لفظ کاٹ کر،
محمد بن عبداللہ لکھ دو،
تو حضرت علی کہنے لگے،
والله لا امحوك ابدا،
اللہ کی قسم میں کبھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)
کا لفظ نہیں مٹاؤں گا،
تو کیا یہ انکار تعظیم و محبت کی بنا پر تھا یا عناد و انکار کی خاطر،
اس لیے اس واقعہ کو صحابہ کرام پر طعن و تشنیع کا ذریعہ بنانا،
صحابہ دشمنی کا شاخسانہ ہے،
وگرنہ اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4234   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3053  
3053. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: جمعرات کا دن!کیا ہے جمعرات کا دن! اس کے بعد وہ اس قدر روئے کہ آنسوؤں سے زمین کی کنکریاں تر ہوگئیں۔ پھر کہنے لگے کہ جمعرات کے دن رسول اللہ ﷺ کی بیماری زیادہ ہو گئی تو آپ نے فرمایا: میرے پاس لکھنے کے لیے کچھ لاؤ تاکہ میں تمھیں ایک تحریر لکھوا دوں، تم اس کے بعد ہر گز گمراہ نہیں ہو گے۔ لیکن لوگوں نے اختلاف کیا اور نبی کے پاس جھگڑنا مناسب نہیں۔ پھر لوگوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ تو جدائی کی باتیں کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: مجھے چھوڑ دو۔ کیونکہ میں جس حالت میں ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کی جانب تم مجھے بلا رہے ہو۔ اور آپ نے اپنی وفات کے وقت تین باتوں کی وصیت فرمائی: مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دینا اور قاصدوں کو اسی طرح انعام دینا جس طرح میں دیتا تھا۔ راوی کہتا ہے کہ میں تیسری بات بھول گیا ہوں۔ مغیرہ بن عبد الرحمٰن نے جزیرہ عرب کے متعلق فرمایا کہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3053]
حدیث حاشیہ:
ہجر کے معنی بیماری کی حالت میں ہذیانی کیفیت کا ہونا۔
آنحضرتﷺ بیماری اور غیر بیماری ہر حالت میں ہذیان سے محفوظ تھے۔
بعض روایتوں میں أهجر استفهموہ ہے۔
یعنی کیا پیغمبر صاحبﷺ کی باتیں ہذیان ہیں؟ آپ سے اچھی طرح پوچھ لو‘ سمجھ لو گویا یہ ان لوگوں کا کلام ہے جو کتاب لکھوانے کے حق میں تھے۔
بعضوں نے کہا یہ کلام حضرت عمر ؓ نے کہا تھا اور قرینہ بھی یہی ہے کیونکہ وہ کتاب لکھے جانے کے مخالف تھے۔
اس صورت میں ہجر کے معنی یہ ہوں گے کہ کیا آپ دنیا کو چھوڑنے والے ہیں؟ یعنی آپ کیا وفات پا جائیں گے۔
حضرت عمر ؓ کو گھبراہٹ اور رنج میں یہ خیال سما گیا تھا کہ آپ کو موت نہیں آ سکتی‘ اس حالت میں کتاب لکھنے کی کیا ضرورت ہے۔
قسطلانی نے کہا‘ ظاہر یہ ہے کہ آپ حضرت ابوبکر ؓ کی خلافت لکھوانا چاہتے تھے‘ جیسے امام مسلم کی روایت میں ہے کہ آپ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا‘ تو اپنے باپ اور بھائی کو بلا لے۔
میں ڈرتا ہوں کہیں کوئی اور خلافت کی آرزو کرے‘ اللہ اور مسلمان سوائے ابوبکر ؓ کے اور کسی کی خلافت نہیں مانتے۔
وصایائے نبوی میں ایک اہم وصیت یہ تھی کہ جزیرۂ عرب میں سے مشرکین اور یہود و نصاریٰ کو نکال دیا جائے‘ عرب کا ملک طول میں عدن سے عراق تک اور عرض میں جدہ سے شام تک ہے۔
اور اس کو جزیرہ اس لئے فرمایا کہ تین طرف سے سمندر اس کو گھیرے ہوئے ہے۔
یہ وصیت حضرت عمر ؓ نے اپنی خلافت میں پوری کی۔
ملک عرب کو ہر چار جانب سے بحر ہند و بحر قلزم و بحر فارس و بحر حبشہ نے گھیرا ہوا ہے اس لئے اسے جزیرہ کہا گیا ہے۔
حدیث کے جملہ وَلاَ يَنْبَغِي عِنْدَ نَبِيٍّ تَنَازُعٌ پر علامہ قسطلانی ؒ لکھتے ہیں۔
الظاهر انہ من قوله صلی اللہ علیه وسلم لا من قول ابن عباس کما وقع التصریح به في کتاب العلم قال النبي صلی اللہ علیه وسلم قوموا عني ولا ینبغي عندي التنازع انتهی والظاهر أن هذا الكتاب الذي أراده إنما هو في النص على خلافة أبي بكر، لكنهم لما تنازعوا واشتدّ مرضه -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- عدل عن ذلك معوّلاً على ما أصله من استخلافه في الصلاة لتنازعهم واشتد مرضه صلی اللہ علیه وسلم ویدل علیہ ما وعند مسلم عن عائشة أنه -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- قال:
"ادعي لي أبا بكر وأخاك أكتب كتابًا فإني أخاف أن يتمنى متمنٍّ ويقول قائل:
أنا أولى ويأبى الله والمؤمنون إلا أبا بكر"وعند البزار من حديثها لما اشتد وجعه عليه الصلاة والسلام قال:
"ائتوني بدواة وكتف أو قرطاس أكتب لأبي بكر كتابًا لا يختلف الناس عليه" ثم قال:
"معاذ الله أن يختلف الناس على أبي بكر" فهذا نص صريح علی تقدیم خلافة أبي بکر۔
(قسطلاني)
ظاہر ہے کہ الفاظ قوموا عنی الخ خود آنحضرتﷺ ہی کے فرمودہ ہیں یہ ابن عباس ؓ کے لفظ نہیں ہیں جیسا کہ کتاب العلم میں صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا‘ میرے پاس جھگڑنا مناسب نہیں لہٰذا یہاں سے کھڑے ہو جائو‘ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جس کتاب کے لکھنے کا آنحضرتﷺ نے ارادہ فرمایا تھا وہ کتاب خلافت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے متعلق آپ لکھنا چاہتے تھے۔
پھر آپ نے لوگوں کے تنازع اور اپنی تکلیف مرض دیکھ کر اس ارادہ کو ترک فرما دیا اور اس لئے بھی کہ آپ اپنی حیات طیبہ ہی میں حضرت صدیق اکبر ؓ کو نماز میں امام بنا کر اپنی گدی ان کے حوالے فرما چکے تھے جیسا کہ مسلم شریف کی روایت عائشہ صدیقہ میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا‘ اپنے والد ابوبکر کو بلا لو اور اپنے بھائی کو بھی تاکہ میں ایک کتاب لکھوا دوں‘ میں ڈرتا ہوں کہ میرے بعد کوئی خلافت کی تمنا لے کر کھڑا ہو اور کہے کہ میں اس کا زیادہ مستحق ہوں‘ حالانکہ اللہ پاک نے اور جملہ ایمان والوں نے اس عظیم خدمت کے لئے ابوبکر ؓ ہی کو منتخب کر لیا ہے اور بزار میں انہی کی روایت سے یوں ہے کہ آپ نے شدت مرض میں فرمایا‘ میرے پاس دوات کاغذ وغیرہ لائو کہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لئے دستاویز لکھوا دوں‘ تاکہ لوگ اس پر اختلاف نہ کریں۔
پھر فرمایا کہ اللہ کی پناہ اس سے کہ لوگ خلافت ابوبکر میں اختلاف کریں۔
پس حضرت صدیق اکبر ؓ کی خلافت پر یہ نص صریح ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3053   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7366  
7366. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نےکہا: نبی ﷺ کی وفات کا وقت قریب آیا تو گھر میں بہت سےصحابہ کرام موجود تھے۔ ان میں سیدنا عمر بن خطاب ؓ بھی تھے۔ (اس وقت) آپ ﷺ نے فرمایا: آؤ، میں تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں کہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہں ہو گے۔ سیدنا عمر ؓ نے کہا: نبیﷺ اس وقت تکلیف میں مبتلا ہیں، تمہارے پاس قرآن موجود ہے اور ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے گھر کے لوگوں میں بھی اختلاف ہوگیا اور وہ آپس میں جھگڑنے لگے۔ کچھ کہنے لگے: رسول اللہ ﷺ کے قریب (لکھنے کا سامان) کر دو، وہ تمہارے لیے ایسی تحریر لکھ دیں کہ اس کے بعد تم گمراہ نہیں ہوگے اور کچھ حضرات نے وہی بات کہی جو سیدنا عمر ؓ کہہ چکے تھے۔ جب نبی ﷺ کے پاس شور وغل اور اختلاف زیادہ ہوگیا تو آپ نےفرمایا: میرے پاس سے اٹھ جاؤ۔ سیدنا ابن عباس ؓ کہا کرتے تھے: سب سے بھاری مصیبت تو یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ اور اس نوشت لکھوانے کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7366]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جھگڑے اور شور اور اختلاف کو دیکھ کر اپنا ارادہ بدل دیا جو عین منشائے الٰہی کے تحت ہوا۔
بعد میں آپ کا فی وقت تک باہوش رہے مگر یہ خیال مکرر ظاہر نہیں فرمایا۔
بعد میں امر خلافت میں جو کچھ ہوا وہ عین اللہ ورسول کی منشا کے مطابق ہوا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بھی یہی مطلب تھا۔
حدیث اور بات میں وجہ مناسبت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اختلاف باہمی کو پسند نہیں فرمایا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7366   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3168  
3168. حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے، انھوں نے حضرت ابن عباس ؓ کو یہ کہتے سنا: جمعرات کا دن، آہ جمعرات کا دن کیسا (ہیبت ناک) تھا پھر ر وپڑے یہاں تک کہ آپ نے آنسوؤں سے کنکریاں ترکردیں۔ میں نے عرض کیا: ابن عباس ؓ! جمعرات کا دن کیساتھا؟ فرمایا: رسول اللہ ﷺ کی بیماری سنگین ہوگئی تو آپ نے فرمایا: میرے پاس شانے کی کوئی ہڈی لاؤ میں تمہارے لیے کچھ تحریر کردوں کہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔ اس کے بعدلوگ باہم جھگڑنے لگے، حالانکہ نبی کریم ﷺ کے پاس جھگڑنا نہیں چاہیے تھا۔ لوگوں نے کہا: آپ کو کیاہوگیا ہے؟ کیا آپ دنیا سے ہجرت فرمارہے ہیں؟ اچھی طرح آپ کی بات سمجھو۔ آپ نے فرمایا: تم مجھے چھوڑ دو، میں جس حال میں ہوں وہ اس حال سے اچھا ہے جس کی طرف تم مجھے بلارہے ہو۔ پھر آپ نے انھیں تین امور کا حکم دیا۔ آپ نے فرمایا: مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو۔ اور دوسرے ممالک سے آنے والے وفد کو عطایا دو، جیسے میں انھیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3168]
حدیث حاشیہ:
اهجرالهمزة للاستفهام الإنکاري لأن معنی هجر هذي وإنما جاء من قائله استفها ما للإنکار علی من قال لاتکتبوا أي تترکوا أمر رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ولا تجعلوہ کأمر من هجر في کلامه لانه صلی اللہ علیه وسلم لایهجر الخ کذا في الطیبي۔
یعنی یہاں ہمزہ استفہام انکار کے لیے ہے۔
جس کا مطلب یہ کہ جن لوگوں نے کہا تھا کہ حضور ﷺ کو اب لکھوانے کی تکلیف نہ دو، ان سے کہا گیا کہ حضور ﷺ کو ہذیان نہیں ہوگیا ہے اس لیے آپ ﷺ کو ہذیان والے پر قیاس کرکے ترک نہ کرو۔
آپ سے ہذیان ہو یہ ناممکن ہے۔
اس سلسلہ کی تفصیلی بحث اسی پارہ میں گزرچکی ہے۔
کتاب لکھے جانے پر صحابہ کا احتلاف اس وجہ سے ہوا تھا کہ بعض صحابہ نے کہا کہ آنحضرت کو اس شدت تکلیف میں مزید تکلیف نہ دینی چاہئے۔
بعد میں خود آنحضرت ﷺخاموش ہوگئے۔
جس کا مطلب یہ کہ اگر لکھوانا فرض ہوتا تو آپ کسی کے کہنے سے یہ فرض ترک نہ کرتے، فقط برائے مصلحت ایک بات ذہن میں آئی تھی، بعد میں آپ نے خود اسے ضروری نہیں سمجھا۔
منقول ہے کہ آپ خلافت صدیقی کے بارے میں قطعی فیصلہ لکھ کر جانا چاہتے تھے تاکہ بعد میں اختلاف نہ ہو۔
اسی لیے آپ ﷺنے خود اپنے مرض الموت میں حضرت صدیق اکبر ؓ کے حوالے منبر و محراب فرما دیا تھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3168   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4431  
4431. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے جمعرات کے دن کا ذکر کیا اور فرمایا تمہیں معلوم بھی ہے کہ جمعرات کے دن کیا ہوا تھا؟ اس دن رسول اللہ ﷺ کے مرض میں شدت پیدا ہوئی۔ اس وقت آپ نے فرمایا: تم میرے پاس آؤ، میں تمہیں کوئی دستاویز لکھ دوں کہ اس کے بعد تم کبھی صحیح راستے کو نہ چھوڑو گے۔ لیکن وہاں اختلاف ہو گیا، حالانکہ نبی ﷺ کے سامنے اختلاف نہیں ہونا چاہئے تھا۔ کچھ لوگوں نے کہا: آپ کا کیا حال ہے؟ کیا آپ شدتِ مرض کی وجہ سے بے معنی کلام کر رہے ہیں؟ آپ سے بات سمجھنے کی کوشش کرو۔ اس کے بعد صحابہ کرام ؓ آپ سے پوچھنے لگے تو آپ نے فرمایا: جاؤ، میں جس کام میں مشغول ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کے لیے تم کہہ رہے ہو۔ اس کے بعد آپ نے صحابہ کرام کو تین چیزوں کی وصیت فرمائی: آپ نے فرمایا: مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو۔ آنے والے وفود کو اسی طرح خاطر تواضع کرنا جس طرح میں کرتا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4431]
حدیث حاشیہ:
کہتے ہیں تیسری بات یہ تھی کہ میری قبر کو بت نہ بنا لینا۔
اسے مؤطا میں امام مالک نے روایت کیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4431   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4432  
4432. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات کا وقت قریب آیا اور گھر میں کچھ لوگ موجود تھے تو نبی ﷺ نے فرمایا: آؤ، میں تمہیں ایسی دستاویز لکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہیں ہو گے۔ بعض حضرات نے کہا: رسول اللہ ﷺ پر بیماری کا غلبہ ہے جبکہ تمہارے پاس قرآن مجید موجود ہے اور اللہ کی کتاب ہمیں کافی ہے، چنانچہ گھر والوں میں کچھ اختلاف پیدا ہو گیا جس کی بنا پر وہ جھگڑنے لگے۔ ان میں سے کچھ کہتے تھے کہ کاغذ اور دوات کو آپ کے قریب کر دیا جائے تاکہ تمہارے لیے ایسی دستاویز لکھ دیں جس کے بعد گمراہی کا اندیشہ نہ رہے جبکہ کچھ حضرات اس کے خلاف تھے۔ جب لوگوں کی بے فائدہ باتیں زیادہ ہونے لگیں اور اختلاف کا آغاز ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے پاس سے اٹھ جاؤ۔ عبیداللہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس ؓ کہا کرتے تھے: یہ کیسی مصیبت ہے جو رسول اللہ ﷺ اور آپ کے تحریر کرنے کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4432]
حدیث حاشیہ:
یہ رحلت سے چار دن پہلے کی بات ہے۔
جب مرض نے شدت اختیار کی تو آپ ﷺ نے فرمایا، لاؤ تمہیں کچھ لکھ دوں تاکہ تم میرے بعد گمراہ نہ ہو۔
بعض نے کہا کہ آپ پر شدت درد غالب ہے، قرآن ہمارے پاس موجود ہے اور ہم کو کافی ہے۔
اس پر آپس میں اختلاف ہوا۔
کوئی کہتا تھا سامان کتابت لے آؤ کہ ایسا نوشتہ لکھا جائے، کوئی کچھ اور کہتا تھا یہ شورو شغف بڑھا تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ تم سب اٹھ جاؤ۔
یہ پنج شنبہ کا واقعہ ہے۔
اسی روز آپ نے تین وصیتیں فرمائیں۔
یہود کو عرب سے نکال دیا جائے۔
وفود کی عزت ہمیشہ اسی طرح کی جائے جیسا میں کرتا رہا ہوں۔
قرآن مجید کو ہر کام میں معمول بنایا جائے۔
بعض روایات کے مطابق کتاب اللہ اور سنت پر تمسک کا حکم فرمایا۔
آج مغرب تک کی جملہ نمازیں حضور ﷺ نے خود پڑھائی تھیں مگر عشاء میں نہ جاسکے اور حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو فرمایا کہ وہ نماز پڑھائے۔
جس کے تحت حضرت صدیق ؓ نے حیات نبوی میں سترہ نمازوں کی امامت فرمائی۔
رضي الله عنه وأرضاہ آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4432   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3053  
3053. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: جمعرات کا دن!کیا ہے جمعرات کا دن! اس کے بعد وہ اس قدر روئے کہ آنسوؤں سے زمین کی کنکریاں تر ہوگئیں۔ پھر کہنے لگے کہ جمعرات کے دن رسول اللہ ﷺ کی بیماری زیادہ ہو گئی تو آپ نے فرمایا: میرے پاس لکھنے کے لیے کچھ لاؤ تاکہ میں تمھیں ایک تحریر لکھوا دوں، تم اس کے بعد ہر گز گمراہ نہیں ہو گے۔ لیکن لوگوں نے اختلاف کیا اور نبی کے پاس جھگڑنا مناسب نہیں۔ پھر لوگوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ تو جدائی کی باتیں کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: مجھے چھوڑ دو۔ کیونکہ میں جس حالت میں ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کی جانب تم مجھے بلا رہے ہو۔ اور آپ نے اپنی وفات کے وقت تین باتوں کی وصیت فرمائی: مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دینا اور قاصدوں کو اسی طرح انعام دینا جس طرح میں دیتا تھا۔ راوی کہتا ہے کہ میں تیسری بات بھول گیا ہوں۔ مغیرہ بن عبد الرحمٰن نے جزیرہ عرب کے متعلق فرمایا کہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3053]
حدیث حاشیہ:

حضرت امام بخاری ؒنے ہر وہ عنوان کے لیے حضرت ابن عباس ؓ سے مروی حدیث بیان کی ہے کیونکہ وفد کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی اس حدیث میں صراحت ہے، نیز اس سے معلوم ہوا کہ جب اہل ذمہ مشرکین جیسی حرکات پر اتر آئیں تو ان کے ساتھ مشرکین جیسا سلوک کرنا چاہیے۔

بظاہر اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ حضرت ابو بکر صدیق ﷺ کی خلافت کے متعلق کچھ تحریر کرانا چاہتے تھے کیونکہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے۔
کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا:
اپنے باپ اور بھائی کو بلاؤ مجھے اندیشہ ہے کہ کوئی اور اس خلافت کی تمنا کر بیٹھے کہ میں اس کا حق رکھتا ہوں۔
پھر فرمایا:
اللہ تعالیٰ اور دیگر اہل اسلام ابوبکرصدیق ؓ کے علاوہ کسی اور کو تسلیم نہیں کریں گے۔
(صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث: 6181(2387)

واضح رہے کہ مذکورہ حدیث "حدیث قرطاس"کے نام سے مشہور ہے۔
اس سے متعلق کچھ مباحث پہلے بیان ہو چکے ہیں۔
دیکھیے۔
حدیث 114کےفوائد۔
تیسری چیز جسے راوی بھول گیا تھا وہ درج ذیل اشیاء میں سے کوئی ایک ہو سکتی ہے۔
جیش اسامہ کی تیاری۔
قرآن کریم سے گہرا رشتہ اور اسے مضبوطی سے تھامنا۔
رسول اللہ ﷺ کی قبرمبارک کو اجتماع گاہ نہ بنایا جائے کہ اس کی عبادت شروع ہو جائے۔
وفات سے پہلے ان چیزوں کی وصیت کے متعلق بھی احادیث منقول ہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3053   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3168  
3168. حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے، انھوں نے حضرت ابن عباس ؓ کو یہ کہتے سنا: جمعرات کا دن، آہ جمعرات کا دن کیسا (ہیبت ناک) تھا پھر ر وپڑے یہاں تک کہ آپ نے آنسوؤں سے کنکریاں ترکردیں۔ میں نے عرض کیا: ابن عباس ؓ! جمعرات کا دن کیساتھا؟ فرمایا: رسول اللہ ﷺ کی بیماری سنگین ہوگئی تو آپ نے فرمایا: میرے پاس شانے کی کوئی ہڈی لاؤ میں تمہارے لیے کچھ تحریر کردوں کہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔ اس کے بعدلوگ باہم جھگڑنے لگے، حالانکہ نبی کریم ﷺ کے پاس جھگڑنا نہیں چاہیے تھا۔ لوگوں نے کہا: آپ کو کیاہوگیا ہے؟ کیا آپ دنیا سے ہجرت فرمارہے ہیں؟ اچھی طرح آپ کی بات سمجھو۔ آپ نے فرمایا: تم مجھے چھوڑ دو، میں جس حال میں ہوں وہ اس حال سے اچھا ہے جس کی طرف تم مجھے بلارہے ہو۔ پھر آپ نے انھیں تین امور کا حکم دیا۔ آپ نے فرمایا: مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو۔ اور دوسرے ممالک سے آنے والے وفد کو عطایا دو، جیسے میں انھیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3168]
حدیث حاشیہ:

پہلی وصیت کا مطلب یہ ہے کہ جزیرہ عرب سے کفار کو نکال دیا جائے۔
وہ اس جگہ رہائش اختیار کرسکتے ہیں نہ انھیں ادھر کا سفر ہی کرنے کی اجازت ہے۔
امام شافعی ؒ کے نزدیک جزیرہ عرب سے مراد مکہ مکرمہ، مدینہ طیبہ اور یمامہ کاعلاقہ ہے۔
ان کے نزدیک یمن اس میں داخل نہیں ہے۔
یہودی بھی ان میں شامل ہیں۔
حضرت عمر ؓنے اپنے دور میں ان سے بھی جزیرہ عرب کو پاک کردیا اور انھیں جلاوطن کردیا تھا۔

واضح رہے کہ مذکورہ واقعہ جمعرات کے دن کا ہے۔
اس کے بعد آپ پیر تک زندہ رہے۔
ان ایام میں بیماری سے کچھ افاقہ بھی رہا۔
انھی دنوں آپ نے برسرمنبر انصار کے مناقب بیان فرمائے۔
اگر کوئی ضروری قابل تحریری بات ہوتی تو آپ اسے ہر گز نہ چھوڑتے۔
وہ تیسری بات جو راوی بھول گیا وہ درج ذیل باتوں میں سے کوئی ہوسکتی ہے:
۔
قرآن مجید کو مضبوطی سے تھامنا۔
۔
لشکر اسامہ کو روانہ کرنا۔
۔
قبر مبارک کی پوجاپاٹ نہ کرنا۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3168   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4431  
4431. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے جمعرات کے دن کا ذکر کیا اور فرمایا تمہیں معلوم بھی ہے کہ جمعرات کے دن کیا ہوا تھا؟ اس دن رسول اللہ ﷺ کے مرض میں شدت پیدا ہوئی۔ اس وقت آپ نے فرمایا: تم میرے پاس آؤ، میں تمہیں کوئی دستاویز لکھ دوں کہ اس کے بعد تم کبھی صحیح راستے کو نہ چھوڑو گے۔ لیکن وہاں اختلاف ہو گیا، حالانکہ نبی ﷺ کے سامنے اختلاف نہیں ہونا چاہئے تھا۔ کچھ لوگوں نے کہا: آپ کا کیا حال ہے؟ کیا آپ شدتِ مرض کی وجہ سے بے معنی کلام کر رہے ہیں؟ آپ سے بات سمجھنے کی کوشش کرو۔ اس کے بعد صحابہ کرام ؓ آپ سے پوچھنے لگے تو آپ نے فرمایا: جاؤ، میں جس کام میں مشغول ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کے لیے تم کہہ رہے ہو۔ اس کے بعد آپ نے صحابہ کرام کو تین چیزوں کی وصیت فرمائی: آپ نے فرمایا: مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو۔ آنے والے وفود کو اسی طرح خاطر تواضع کرنا جس طرح میں کرتا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4431]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کو "حدیث قرطاس" کہتے ہیں، رسول اللہ ﷺ کی وفات پیر کے دن ہوئی اور دستاویز کا واقعہ جمعرات کے دن پیش آیا۔
اس پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں اختلاف ہوا جس کی بنا پر آپ نے دستاویز نہ لکھی۔
اس کے متعلق روافض بہت شور وغل کرتے ہیں۔
دراصل بات یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے پرمامور ہیں۔
کسی کے خوف سے آپ فریضہ تبلیغ نہیں چھوڑ سکتے، خصوصاً ایسی چیز جو گمراہی سے بچاتی ہو اسےتو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کر سکتے تھے۔
ایسی بات ہوئی تو آپ حضرت عمرؓ کو روک دیتے جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ نے حضرت عمر ؓ کو روک دیا تھا۔

حضرت عمر ؓ صائب الرائے تھے۔
ان کی رائے کے مطابق کئی موقعوں پرقرآن نازل ہوا۔
اگر ایسے آدمی نے روک دیا تو ضرور اس میں کوئی مصلحت ہوگی اور ان کی رائے کی خود رسول اللہ ﷺ نے بھی تائید کی۔
اگر ایسا ضروری معاملہ ہوتا تو آپ اس کے بعد تین چار دن زندہ رہے ان ایام میں کسی سے لکھوا لیتے، نیز قبل ازیں تکمیل دین کی آیت نازل ہو چکی تھی اب اگر گمراہی سے بچانے والی چیز باقی رہ گئی تو پھر تکمیل دین کے کیا معنی ہوں گے؟ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کوئی نئی بات بیان نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ یا تو مفصلات کو مجملاً بیان کرنا چاہتے تھے یا پہلی باتوں میں سے کسی بات کی تاکید کرنا چاہتے تھے جس کے لیے حضرت عمر ؓ نے آپ کو تکلیف دینا ضروری خیال نہ کیا۔
ان حقائق کی روشنی میں فہم عمر کو فہم ابن عباس ؓ پرترجیح دی جائے گی، رسول اللہ ﷺ نے آخر میں تین چیزوں کی وصیت کی تھی جن پر حضرت عمر ؓ عمل پیرا ہوئے۔
حضرت ابن عباس ؓ بھی حضرت عمر ؓ پر کوئی اعتراض نہیں کرنا چاہتے بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ اگر آپ لکھ دیتے تو منافقین کے لیے حضرت عمر ؓ پر اعتراض کرنے کی گنجائش نہ تھی۔

اس حدیث میں ہے کہ تیسری بات راوی بھول گیا ہے، اس کے متعلق درج ذیل احتمالات ہیں۔
وہ وصیت بالقرآن تھی
۔
وصیت جیش اسامہ کی روانگی کے متعلق تھی۔
۔
میری قبر پر میلہ اور جشن نہ بنانا جس کی عبادت کی جائے۔
۔
نماز کی حفاظت اور ماتحت عملے پر نرمی کی وصیت تھی۔
(فتح الباري: 169/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4431   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4432  
4432. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات کا وقت قریب آیا اور گھر میں کچھ لوگ موجود تھے تو نبی ﷺ نے فرمایا: آؤ، میں تمہیں ایسی دستاویز لکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہیں ہو گے۔ بعض حضرات نے کہا: رسول اللہ ﷺ پر بیماری کا غلبہ ہے جبکہ تمہارے پاس قرآن مجید موجود ہے اور اللہ کی کتاب ہمیں کافی ہے، چنانچہ گھر والوں میں کچھ اختلاف پیدا ہو گیا جس کی بنا پر وہ جھگڑنے لگے۔ ان میں سے کچھ کہتے تھے کہ کاغذ اور دوات کو آپ کے قریب کر دیا جائے تاکہ تمہارے لیے ایسی دستاویز لکھ دیں جس کے بعد گمراہی کا اندیشہ نہ رہے جبکہ کچھ حضرات اس کے خلاف تھے۔ جب لوگوں کی بے فائدہ باتیں زیادہ ہونے لگیں اور اختلاف کا آغاز ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے پاس سے اٹھ جاؤ۔ عبیداللہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس ؓ کہا کرتے تھے: یہ کیسی مصیبت ہے جو رسول اللہ ﷺ اور آپ کے تحریر کرنے کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4432]
حدیث حاشیہ:

یہ واقعہ وفات سے چار دن پہلے کا ہے۔
جب بیماری نے شدت اختیار کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
قلم دوات لاؤ میں تمھیں کچھ لکھ دوں تاکہ تم میرے بعد گمراہ نہ ہو۔
اس امر کی بجا آوری پر اختلاف ہوا۔
کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کہتے تھے کہ آپ پر شدت درد کا غلبہ ہے، قرآن ہمارے پاس موجود ہے اور وہ ہمیں کافی ہے اور کچھ حضرات کہتے تھے کہ سامان کتابت لے آؤ تاکہ دستاویز لکھ دی جائے۔

دراصل صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے قرائن سے معلوم کر لیا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کا مذکورہ امر وجوب کے لیے نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو اختلاف کے باوجود رسول اللہ ﷺ ضرور اس کے مطابق عمل کرتے جبکہ اس کے بعد آپ چار دن زندہ رہے ہیں۔
ان بقیہ ایام میں جو حضرات سامان کتابت لانے کی خواہش رکھتے تھے انھوں نے بھی اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں کی۔
رسول اللہﷺ نے بھی حضرت عمر ؓ کی رائے کا انکار نہیں کیا بلکہ خاموشی اختیار کر کے اس کے درست ہونے کی طرف اشارہ فرمایا۔
اس سے حضرت عمر ؓ کی قوت فہم اور وقت نظر کا پتہ چلتا ہے۔
انھیں بھی قرائن سے پتہ لگ گیا تھا کہ یہ دستاویز ضروری نہیں۔
اگر ضروری ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس اختلاف کی وجہ سے اسے نظر انداز نہ کرتے۔
(فتح الباري: 168/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4432   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7366  
7366. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نےکہا: نبی ﷺ کی وفات کا وقت قریب آیا تو گھر میں بہت سےصحابہ کرام موجود تھے۔ ان میں سیدنا عمر بن خطاب ؓ بھی تھے۔ (اس وقت) آپ ﷺ نے فرمایا: آؤ، میں تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں کہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہں ہو گے۔ سیدنا عمر ؓ نے کہا: نبیﷺ اس وقت تکلیف میں مبتلا ہیں، تمہارے پاس قرآن موجود ہے اور ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے گھر کے لوگوں میں بھی اختلاف ہوگیا اور وہ آپس میں جھگڑنے لگے۔ کچھ کہنے لگے: رسول اللہ ﷺ کے قریب (لکھنے کا سامان) کر دو، وہ تمہارے لیے ایسی تحریر لکھ دیں کہ اس کے بعد تم گمراہ نہیں ہوگے اور کچھ حضرات نے وہی بات کہی جو سیدنا عمر ؓ کہہ چکے تھے۔ جب نبی ﷺ کے پاس شور وغل اور اختلاف زیادہ ہوگیا تو آپ نےفرمایا: میرے پاس سے اٹھ جاؤ۔ سیدنا ابن عباس ؓ کہا کرتے تھے: سب سے بھاری مصیبت تو یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ اور اس نوشت لکھوانے کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7366]
حدیث حاشیہ:
جب لوگ بار بار اصرار کرنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مجھے چھوڑ دو۔
میں جس حالت میں ہوں اس حالت سے بہتر ہوں جس کی تم مجھے دعوت دیتے ہو۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میرے پاس سے اٹھ جاؤ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اختلاف اور جھگڑا کرنا اچھا نہیں۔
یہ جمعرات کے دن کا واقعہ ہے۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4431)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پیر کے دن ہوئی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم چھ دن اس واقعے کے بعد زندہ رہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت جزیرہ عرب سے مشرکین کونکال دینے کا حکم دیا اور باہر سے آنے والے مہمانوں کی خاطر و مدارات کرنے کا حکم بھی جاری فرمایا۔
(صحیح البخاري، الجزیة والموادعة، حدیث: 3168)
اگر تحریر کا معاملہ اتنا ہی اہم اور ضروری ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے لکھوا سکتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ اس موضوع پر کوئی گفتگو نہیں فرمائی۔
دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت جھگڑے شور و غل اور باہمی اختلاف کو دیکھ کر اپنا ارادہ بدل دیا جو عین منشائے الٰہی کے مطابق ہوا اس کے بعد امر خلافت کے متعلق جو کچھ ہوا وہ بھی عین اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے مطابق ہوا۔
آثار و قرآئن سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلافت کے متعلق کچھ تحریر کرانا تھا۔
واللہ أعلم۔
حدیث اور عنوان میں مطابقت اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپس میں اختلاف اور جھگڑے کو پسند نہیں فرمایا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7366