كتاب الرهون کتاب: رہن کے احکام و مسائل 20. بَابُ: الشُّرْبِ مِنَ الأَوْدِيَةِ وَمِقْدَارِ حَبْسِ الْمَاءِ باب: وادیوں سے آنے والے پانی کا استعمال کیسے کیا جائے۔
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک انصاری ۱؎ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حرہ کے نالے کے سلسلے میں جس سے لوگ کھجور کے درخت سیراب کرتے تھے، (ان کے والد) زبیر رضی اللہ عنہ سے جھگڑا کیا، انصاری کہہ رہا تھا: پانی کو چھوڑ دو کہ آگے بہتا رہے، زبیر رضی اللہ عنہ نہیں مانے ۲؎ بالآخر دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس معاملہ لے گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زبیر (پانی روک کر) اپنے درختوں کو سینچ لو پھر اپنے پڑوسی کے لیے پانی چھوڑ دو، انصاری نے یہ سنا تو ناراض ہو گیا اور بولا: اللہ کے رسول! وہ آپ کی پھوپھی کے بیٹے ہیں نا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زبیر! اپنے درختوں کو سینچ لو اور پانی روک لو یہاں تک کہ وہ مینڈوں تک بھر جائے“۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم، میں سمجھتا ہوں کہ آیت کریمہ: «فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم ثم لا يجدوا في أنفسهم حرجا مما قضيت ويسلموا تسليما» (سورة النساء: 65) ”سو قسم ہے تیرے رب کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلافات میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوش نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں“، اسی معاملہ میں اتری ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: (15) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: انصاری کا نام اطب تھا، انہوں نے ناسمجھی کی بنیاد پر نبی اکرم ﷺ کی شان میں ایسی بات کہہ دی، کہ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر ایسا گستاخانہ جملہ نبی اکرم ﷺ کی شان میں کہے تو وہ کافر ہو جائے گا، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ مسلمان نہیں بلکہ کافر تھا، لیکن یہ قول مرجوح ہے، «واللہ اعلم» ۲؎: کیونکہ ان کا باغ نہر کی جانب اونچائی پر تھا اور انصاری کا ڈھلان پر جس سے زبیر رضی اللہ عنہ کے باغ سے سارا پانی بہہ کر نکل جا رہا تھا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ثعلبہ بن ابی مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی مہزور کے نالہ کے سلسلہ میں یہ فیصلہ کیا کہ اوپری حصہ نچلے حصہ سے برتر ہے، جس کا کھیت اونچائی پر ہو، پہلے سینچ لے، اور ٹخنوں تک پانی اپنے کھیت میں بھر لے، پھر پانی کو اس شخص کے لیے چھوڑ دے جس کا کھیت نشیب (ترائی) میں ہو ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2074، ومصباح الزجاجة: 873)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الأقضیة 31 (3639) (حسن صحیح)» (سند میں زکریا بن منظور ضعیف، اور محمد بن عقبہ مستور راوی ہیں، لیکن شاہد سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: وہ بھی اپنے کھیت میں اتنا ہی پانی بھر کر تیسرے کی طرف چھوڑ دے جو اس سے نیچے علاقہ میں ہو،اسی طرح اخیر کیفیت تک عمل کیا جائے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی مہزور کے نالے کے متعلق یہ فیصلہ کیا کہ پانی ٹخنوں تک روک لیا جائے، پھر اسے چھوڑ دیا جائے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الاقضیة 31 (3639)، (تحفة الأشراف: 8735) (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کھجور کے درختوں کو نالہ سے سینچنے کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ کیا کہ جس کا باغ اونچائی پر ہو، پہلے وہ اپنے باغ کو ٹخنوں تک پانی سے بھر لے، پھر پانی کو نیچے کی طرف جو اس کے قریب ہے اس کے لیے چھوڑ دے، اسی طرح سلسلہ بہ سلسلہ سیراب کیا جائے، یہاں تک کہ باغات سینچ کر ختم ہو جائیں یا پانی ختم ہو جائے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5066، ومصباح الزجاجة: 874) (صحیح)» (سند میں اسحاق بن یحییٰ مجہول راوی ہیں، اور ان کا عبادہ رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر صحیح ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
|