ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت کریمہ تلاوت کی: «هو الذي أنزل عليك الكتاب منه آيات محكمات هن أم الكتاب وأخر متشابهات» اللہ تعالیٰ کے یہ فرمان «وما يذكر إلا أولو الألباب» تک: (سورة آل عمران: 7)، یعنی: ”وہی اللہ ہے جس نے تم پر کتاب اتاری، جس میں اس کی بعض آیات معلوم و متعین معنی والی محکم ہیں جو اصل کتاب ہیں، اور بعض آیات متشابہ ہیں، پس جن کے دلوں میں کجی اور ٹیڑھ ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں تاکہ فتنہ پھیلائیں اور ان کے معنی مراد کی جستجو کریں، حالانکہ ان کے حقیقی معنی مراد کو سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا، اور پختہ و مضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان رکھتے ہیں، یہ تمام ہمارے رب کی طرف سے نازل ہوئی ہیں، اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں“۔ اور (آیت کی تلاوت کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ! جب ان لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیات میں جھگڑتے اور بحث و تکرار کرتے ہیں تو یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے اس آیت کریمہ میں مراد لیا ہے، تو ان سے بچو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: پوری آیت اس طرح ہے: «يضاجعها» «هو الذي أنزل عليك الكتاب منه آيات محكمات هن أم الكتاب وأخر متشابهات فأما الذين في قلوبهم زيغ فيتبعون ما تشابه منه ابتغائ الفتنة وابتغائ تأويله وما يعلم تأويله إلا الله والراسخون في العلم يقولون آمنا به كل من عند ربنا وما يذكر إلا أولوا الألباب»(سورۃ آل عمران: ۷)۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید کو دو قسموں محکم اور متشابہ میں تقسیم کیا ہے، محکم اسے کہتے ہیں جس کی دلالت اور جس کا معنی پوری طرح واضح اور ظاہر ہو، اور جس میں کسی طرح کی تاویل اور تخصیص کا احتمال نہ ہو، اور اس پر عمل کرنا واجب ہے، اور متشابہ یہ ہے کہ جس کے معنی تک مجتہد نہ پہنچ پائے، یا وہ مجمل کے معنی میں ہے جس کی دلالت واضح نہ ہو، یا متشابہ وہ ہے جس کی معرفت کے لئے غور و فکر، تدبر اور قرائن کی ضرورت ہو، جس کی موجودگی میں اس کے مشکل معنی کو سمجھا جا سکے، اور محکم کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اصل کتاب فرمایا، پس اہل علم کے لئے ضروری ہے کہ وہ متشابہ کو محکم سے ملا کر اس کے معنی کو سمجھیں، اور یہی طریقہ سلف کا ہے کہ متشابہ کو محکم کی طرف پھیر دیتے تھے اور یہ جو فرمایا کہ جن لوگوں کے دل میں کجی ہے وہ پیروی کرتے ہیں اس متشابہ کی، اس سے مراد یہ ہے کہ وہ متشابہ کو محکم کی طرف نہیں پھیرتے کہ اس سے مشتبہ وجوہ سے صحیح وجوہ ان کے ہاتھ آ جائے بلکہ دوسری وجوہ باطلہ پر اس کو اتارتے ہیں اور اس میں وہ تمام اقوام باطلہ داخل ہیں جو حق سے پھری ہوئی ہیں اور «وما يعلم تأويله إلا الله» میں مفسرین کے دو قول ہیں: پہلا یہ کہ یہاں وقف ہے، یعنی «إلا الله» پر اور یہیں پر کلام تمام ہو گیا، اور اس صورت میں آیت سے مراد یہ ہو گا کہ تاویل یعنی متشابہات کی حقیقت کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا، اور اکثر مفسرین اسی کی طرف گئے ہیں، اور دوسرا قول یہ ہے کہ یہاں وقف نہیں ہے، اور «والراسخون في العلم» معطوف ہے اپنے ماقبل والے جملہ پر یعنی ان متشابہات کا علم اور ان کی تاویل و تفسیر اللہ تبارک و تعالیٰ اور علماء راسخین کو معلوم ہے، بعض مفسرین اس طرف بھی گئے ہیں۔
It was narrated that 'Aishah said:
"The Messenger of Allah (ﷺ) recited the following Verse: 'It is He Who has sent down to you (Muhammad) the Book (this Qur'an). In it are verses that are entirely clear, they are the foundations of the Book; and others not entirely clear (up to His saying: ) 'And none receive admonition except men of understanding.' Then he said: 'O 'Aishah, if you see those who dispute concerning it (the Qur'an), they are those whom Allah has referred to here, so beware of them.'"
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث47
اردو حاشہ: (1) قرآن مجید کی بعض آیات احکام پر مشتمل ہیں جو واضح ہیں، یا صحیح احادیث سے ان کی وضاحت ہو جاتی ہے اور ان پر عمل کرنے میں کوئی مشکل نہیں، اس طرح کی سب آیات محکم ہیں۔ بعض آیات کا تعلق عقائد سے ہے، مثلا توحید، رسالت، قیامت وغیرہ۔ قرآن مجید اور احادیث میں ان کی تفصیل موجود ہے اور ان کے دلائل بھی مذکور ہیں، یہ بھی محکم ہیں۔ اس کے برعکس بعض آیات ایسی بھی ہیں جن کا واضح مفہوم متعین نہیں کیا جا سکتا، مثلا حروف مقطعات۔ ان پر اس حد تک ایمان لانا کافی ہے کہ یہ بھی قرآن کا جزء ہیں اور اللہ کا کلام ہیں جن کی تلاوت پر اسی طرح ثواب ملتا ہے جس طرح دوسری آیات کی تلاوت باعث ثواب ہے۔ اس سے زیادہ جستجو کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح وہ معاملات جن کا تعلق عالم غیب سے ہے ان پر بھی اسی انداز سے ایمان لانا کافی ہے کہ یہ اشیاء یقینا موجود ہیں، یا یہ حالات یقینا پیش آنے والے ہیں اور ان کی جو تفصیلات قرآن و حدیث میں مذکور ہیں، وہ ہمارے لیے کافی ہیں، اس سے زیادہ تحقیق و تفتیش کی ضرورت نہیں، مثلا فرشتے اللہ کی ایک اطاعت گزار مخلوق ہیں جو اپنے اپنے متعین دائرہ کار میں مصروف عمل ہیں۔ یا قیامت کے دن بندوں کے اعمال کا وزن ہو گا۔ اس پر ایمان لانا چاہیے۔ یہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں کہ اعمال تو غیر مادی اشیاء ہیں اور وزن مادی اشیاء کا ہوتا ہے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے جس طرح کے ترازو سے چاہے گا ان کو وزن کر لے گا۔ اسی طرح عذاب قبر کا تعلق بھی عالم غیب سے ہے۔ اس لیے یہ اعتراض بے جا ہے کہ ہمیں کافروں اور بدکاروں کی قبروں میں عذاب کے آثار نظر نہیں آتے اور نیک لوگوں کی قبروں میں نعمت کے آثار نظر نہیں آتے۔ ان مسائل میں جتنی زیادہ بحث و تمحیص کی جائے، لغزش کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں، لہٰذا ان پر مجمل ایمان کافی ہے۔
(2) متشابہات میں بلاضرورت بحث سے پرہیز ہی علمائے حق کا طریقہ ہے۔
(3) اس قسم کے معاملات کو زیر بحث لانے سے فتنے کے دروازے کھلتے ہیں، لہذا جو لوگ اس قسم کے مباحث چھیڑیں ان کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے تاکہ وہ عوام کے ایمان کے لیے خطرہ نہ بنیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 47
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 151
´گمراہ اور کج فکروں کی ایک علامت` «. . . وَعَن عَائِشَة قَالَتْ: تَلَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَات محكمات) وَقَرَأَ إِلَى: (وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ) قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَإِذَا رَأَيْتَ وَعِنْدَ مُسْلِمٍ: رَأَيْتُمُ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ فَأُولَئِكَ الَّذِينَ سَمَّاهُمُ الله فاحذروهم " . . .» ”. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کریمہ کی تلاوت کی «هو الذى أنزل عليك الكتاب منه آيات محكمات» سے «وما يذكر إلا أولو الألباب» یعنی اللہ وہ ہے جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب نازل کی ہے اس کتاب میں سے بعض آیتیں محکم ہیں آخر تک۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ان آیتوں کی تلاوت کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ جب تو دیکھے“ اور مسلم کی روایت میں ہے کہ ”جب تم دیکھو متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑنے والوں کو تو تم یہ سمجھ لو کہ ان کا نام اللہ تعالیٰ نے کجرو اور گمراہ رکھا ہے ان سے تم بچتے رہو۔“ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/: 151]
تخریج الحدیث: [صحيح بخاري 4547]، [صحيح مسلم 6775]
فقہ الحدیث: ➊ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ امت میں بدعتی (مثلاً خوارج وغیرہ) لوگ پیدا ہوتے رہیں گے، لیکن ان سے بچنا ضروری ہے۔ ➋ محکم اس آیت کو کہتے ہیں جو ظاہر اور واضع ہو، اس میں کسی تاویل کی ضرورت نہ ہو، مثلًا حلال و حرام، وعد و وعید، عذاب و ثواب اور امر و نہی وغیرہ۔ متشابہ اس آیت کو کہتے ہیں جس میں مختلف معانی کا احتمال ہو، مثلاً حروف مقطعاًت وغیرہ۔ دیکھئے: تفسیر ابن جریر الطبری [118، 113/3] اور فتح الباری [210/8، 211 ح4547] ➌ بعض اہل بدعت یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا، آسمان دنیا پر نازل ہونا اور آیات صفات وغیرہ متشابہات میں سے ہیں، اہل بدعت کا یہ دعویٰ مردود ہے اور سلف صالحین سے بھی ایسی کوئی بات ثابت نہیں ہے۔ ➍ کتاب و سنت کا وہی مفہوم معتبر ہے جو راسخ فی العلم علماء یعنی ثقہ و صدوق سلف صالحین سے ثابت ہے۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4598
´قرآن میں جھگڑنا اور متشابہ آیات کے چکر میں پڑنا منع ہے۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کریمہ «هو الذي أنزل عليك الكتاب منه آيات محكمات» سے لے کر «أولو الألباب»۱؎ تک تلاوت کی اور فرمایا: ”جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیات کے پیچھے پڑتے ہوں تو جان لو کہ یہی لوگ ہیں جن کا اللہ نے نام لیا ہے تو ان سے بچو ۲؎۔“[سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4598]
فوائد ومسائل: 1۔ قرآنی آیات کے محکم اور متشابہ ہونے کے کئی معانی ہیں۔ مثلاًوہ آیات جو دوسری ایات کے لیے ناسخ ہیں۔ یا جن میں حلال وحرام کا بیان آیا ہے۔ یا وہ آیات جن کے معانی واضح اور بندے ان سے آگاہ ہیں۔ یا جن کی کوئی تاویل نہیں وہ محکم کہلاتی ہیں اور متشابہ سے مراد وہ آیات ہیں جو منسوخ ہوچکی ہیں۔ مگر تلاوت بھی ہورہی ہے۔ یا حق وصدق میں ایک دوسری کے مشابہ ہیں انہیں متشابہ کہا گیا ہے۔ یا ایسی آیات جن کے معانی ومفاہیم سے صرف اللہ عزوجل ہی آگاہ ہے۔ یا جن کے مفاہیم کئی پہلو رکھتے ہیں وہ متشابہات کہلاتی ہیں۔
2۔ جدال (لڑائی کرنا) بظاہر کوئی قابل تعریف نہیں سمجھا جاتا، مگر اظہار حق اور ابطال باطل کے لیے ازحد ضروری ہے اور قابل تعریف ہے، قرآن کریم میں اللہ تعالی نے اس کے لیے علم وحکمت کو شرط قرار دیا ہے۔ ارشاد الہی ہے: (وجادِلهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ)(النحل:١٢٥) محض ریاو سمعہ (شہرت) اور لوگوں کی توجہات حاصل کرنے کی کوشش میں یا باطل کی تائید میں جدال کرنا حرام ہے۔
3۔ اہل اہواء (اہل بدعت) اور متشابہات کے درپے ہونے والوں سے دور رہنا چاہیے تاکہ انہیں تقویت وشہرت نہ ملے اور کہیں کسی فتنے میں مبتلا نہ کردیں، البتہ راسخ علماء کا فریضہ ہے کہ حق کا اظہار وبیان کریں اور عوام کو باطل سے متنبہ اور آگاہ کرتے رہیں۔
4۔ اور ایسے لوگ مختلف ناموں سے ہر دور میں اور ہر جگہ موجود رہے ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4598
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2994
´سورۃ آل عمران سے بعض آیات کی تفسیر۔` ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آیت «هو الذي أنزل عليك الكتاب منه آيات محكمات» کی تفسیر پوچھی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم ان لوگوں کو آیات متشابہات کے پیچھے پڑے ہوئے دیکھو تو سمجھ لو کہ یہی وہ لوگ ہیں جن کا اللہ نے نام لیا ہے اور ایسے لوگوں سے بچو۔“[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2994]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں، فتنے کی طلب اور ان کی غلط مراد کی جستجو کی خاطر، حالانکہ ان کے حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا (آل عمرآن: 7)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2994
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6775
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی،"وہی تو ہے جس نے آپ پر یہ کتاب نازل کی جس کی کچھ آیات محکم ہیں اور یہی کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دوسری متشابہت ہیں چنانچہ جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے تو وہ اس کی متشابہ آیات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں،فتنہ انگیزی کی خاطر اور ان کا حقیقی معنی تلاش کرنے کے لیے حالانکہ ان کا صحیح اور حقیقی مفہوم (اصل مراد) اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور جو لوگ علم میں پختہ ہیں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:6775]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: محكمات: جن کا معنی صاف اور واضح ہے، اس میں کوئی اشتباہ نہیں ہے اور بقول شاہ ولی اللہ، ماہر زبان جس سے ایک ہی معنی سمجھے وہ محکم ہے اور جس میں ایک سے زائد معانی کا احتمال ہو وہ متشابہہ ہے مثلاً ضمیر کے مرجع میں اختلاف ہے یا کلمہ کے ایک سے زائد معانی آتے ہیں، یا عطف قریب پر بھی ہو سکتا ہے اور بعید پر بھی، یا جملہ عاطفہ بھی ہو سکتا ہے اور مستانفہ بھی نیا اور مستقل جملہ۔ هن ام الكتاب: یعنی ساری کتاب کا مرجع و مرکز اور اصل وہی ہیں، ان کی روشنی میں متشابہات کا معنی کیا جائے گا، ان کے منافی معنی نہیں لیا جا سکے گا۔ وما يعلم تاويله الاالله: ان کی اصل حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، کیونکہ ان میں ایسی باتیں بیان کی گئی ہیں، جو ہمارے مشاہدے اور معلومات کی دسترس سے باہر ہیں، مثلاً اللہ کی صفات و افعال اللہ کی جنت میں نعمتیں اور دوزخ میں آلام و مصائب، ان کی اصل حقیقت اور صورت ہمارے ذہن میں بالا ہے، اگرچہ ان کا ظاہری معنی جو عبرت اور سبق آموزی کے لیے کافی ہے، ہم سمجھ سکتے ہیں اور اس معنی کے اعتبار سے راسخ فی العلم ان کے معانی اور مطالب کو جانتے ہیں، لیکن اصل حقیقت و ماہیت کے اعتبار سے نہیں جانتے، لیکن اس پر ایمان رکھتے ہیں، اس لیے جو لوگ ان کی اصل حقیقت کو جاننے کے درپے ہوں، ان سے بچنا ضروری ہے اور متکلمین نے آیات صفات کی تاویل کر کے، فتنہ کا دروازہ کھول دیا اور شعوری و غیر شعوری طور پر بدعتی فرقوں معتزلہ، مرجئہ اور خوارج کے لیے تاویل کی گنجائش کا راستہ کھول دیا، جس سے بدعتی فرقوں نے خوب فائدہ اٹھایا اور آج تک اٹھا رہے ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6775
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4547
4547. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: "وہی تو ہے جس نے تم پر یہ کتاب نازل کی، جس میں سے کچھ آیات محکم ہیں وہی کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور کچھ دوسری متشابہات، یعنی ملتی جلتی ہیں۔ پھر جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور انہیں معنی پہنانے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ ان کے حقیقی معنی اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا، ہاں جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں وہ کہتے ہیں: ہمارا ان پر ایمان ہے۔ یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز سے صحیح سبق تو صرف دانش مند ہی حاصل کرتے ہیں۔" حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو قرآن کریم کی متشابہ آیات کا کھوج لگانے کی کوشش کرتے ہیں تو سمجھ لو کہ یہی وہ لوگ ہیں جن کا نام اللہ تعالٰی نے اصحاب زیغ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4547]
حدیث حاشیہ: پہلے یہودی لوگ متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑے، انہوں نے اور کل سورتوں کے حرفوں سے اس آیت کی مدت نکالی پھر خارجی لوگ پیدا ہوئے۔ ابن عباس ؓ نے ان لوگوں سے خارجیوں کو مراد لیا ہے اور کہا کہ پہلی بدعت جو اسلام میں پیدا ہوئی وہ فتنہ خوارج ہے۔ صفات باری سے متعلق بھی جس قدر آیات ہیں ان کو ان کے ظاہری معانی پر محمول کرنا اور تاویل نہ کرنا ان کی حقیقت اللہ کے حوالہ کردینا یہی سلف صالح کا طریقہ ہے اور ان کی تاویلات کے پیچھے پڑنا اہل زیغ کا طریقہ ہے۔ اللہ تعالیٰ سلف صالحین کے راستے پر چلائے آمین، بعض سورتوں کے شروع میں جو الفاظ مقطعات ہیں ان کو بھی متشا بہات میں شمار کیا گیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4547
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4547
4547. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: "وہی تو ہے جس نے تم پر یہ کتاب نازل کی، جس میں سے کچھ آیات محکم ہیں وہی کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور کچھ دوسری متشابہات، یعنی ملتی جلتی ہیں۔ پھر جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور انہیں معنی پہنانے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ ان کے حقیقی معنی اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا، ہاں جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں وہ کہتے ہیں: ہمارا ان پر ایمان ہے۔ یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز سے صحیح سبق تو صرف دانش مند ہی حاصل کرتے ہیں۔" حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو قرآن کریم کی متشابہ آیات کا کھوج لگانے کی کوشش کرتے ہیں تو سمجھ لو کہ یہی وہ لوگ ہیں جن کا نام اللہ تعالٰی نے اصحاب زیغ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4547]
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جب تم ایسے لوگوں کو دیکھوتو انھیں فوراً پہچان لو اور ان سے دوررہو۔ " (جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 2993،2994) 2۔ سب سے پہلے یہودیوں نے متشابہ آیات کا اتباع کیا اور حروف مقطعات کی تاویل کرنے کی کوشش کی۔ پھر حساب جمل کےذریعے سے اس امت کی مدت بقا کی تعین کے لیے بے فائدہ کوشش کی۔ ان کے بعد خوارج نے یہ کام کیا حتی کہ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے آیت میں خوارج ہی کومراد لیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے مروی ہے کہ جب انھیں "ضبیع" نامی آدمی کے متعلق معلوم ہوا کہ وہ متشابہ آیات کی ٹوہ میں لگارہتا ہے تو اسے مار مار کراس کا سرلہولہان کردیا۔ (فتح الباري: 266/8) 3۔ حافظ ابن حجر ؒ متشابہ آیات کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: جس طرح اعضائے بدن کو مختلف عبادات کے ذریعے سے مبتلائے آزمائش کیا جاتا ہے اسی طرح متشابہ آیات کے ذریعے سے عقل کو آزمایا جاتاہے۔ اس کی مثال ایسے ہیے جیسے کوئی دانا آدمی کتاب تصنیف کرے تو بعض مقامات پر اجمال سے کام لے تاکہ ان مقامات پر شاگرد کو استاد کے سامنے جھکنا پڑے۔ (فتح الباري: 266/8) 4۔ ہمارے رجحان کے مطابق محکم آیات وہ ہیں جن کا مطلب واضح ہو اور ان میں کسی قسم کا اشتباہ نہ ہو اور نہ کوئی دوسرا مطلب ہی لیا جاسکتا ہو۔ ان سے مراد حلال حرام سے متعلق احکام ہیں۔ اور یہی چیزیں انسانی ہدایت کے لیے کافی ہیں۔ چونکہ قرآن کریم کا اصل موضوع انسان کی ہدایت ہےاور محکمات سے انسان کو پوری رہنمائی جاتی ہے، لہذا محکمات ہی کو ام الکتاب کا نام دیا گیا ہے۔ اور یہی وہ آیات ہیں جن کے متعلق قرآن کا دعویٰ ہے۔ کہ ہم نے قرآن کو آسان بنادیا ہے۔ متشابہات ایسی آیات ہیں جن کا مفہوم انسانی ذہن کی دسترس اور پہنچ سے بالاتر ہوتا ہے۔ انسان کی عقل چونکہ محدود ہے جبکہ کائنات اور اس کے حقائق لامحدود ہیں، لہذا عقل سلیم رکھنے والے لوگ ان کے درپے نہیں ہوتے بلکہ گمراہ لوگوں کا ہدف اور محل استدلال متشابہات ہوا کرتی ہیں جن سے دور رہنے کی حدیث میں تلقین کی گئی ہے۔ 5۔ چونکہ دونوں قسم کی آیات کا منبع ایک ہی ہے، اس لیے اہل علم دونوں کو منزل من اللہ کہتے ہیں اور متشابہات کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کے ارشادات ہیں لیکن اس کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے کیونکہ ایسی آیات کا انسانی ہدایت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، دوسرے ان کے پیچھے پڑنے میں گمراہی کا احتمال بہت زیادہ ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہی موقف راجح ہے، البتہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ متشابہات کی حقیقت کو اللہ ہی جانتاہے لیکن علم میں رسوخ رکھنے والے لوگ بھی جانتے ہیں جیسا کہ امام بخاری ؒ نے امام مجاہدؒ کا قول نقل کیا ہے کہ متشابہات کے معنی اللہ بھی جانتا ہے اورراسخین فی العلم بھی جانتے ہیں لیکن یہ موقف مرجوح ہے چنانچہ حافظ ابن حجرؒ نے مصنف عبدالرزاق کے حوالے سے حضرت ابن عباسؓ کی روایت نقل کی ہے کہ وہ اس طرح پڑھا کرتے تھے: ﴿وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ ۗ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ﴾ اس کے معنی یہ ہیں کہ متشابہات کے معانی کا اللہ کے سوا کسی کو علم نہیں اور راسخین فی العلم کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے۔ اس روایت سے اگرچہ قراءت تو ثابت نہیں ہوتی لیکن کم از کم صحیح سند کے ساتھ، ترجمان القرآن سے منقول ہونا تو مسلم ہے، اس لیے ترجمان القرآن کے قول کو باقی تمام اقوال پر ترجیح دینی چاہیے۔ (فتح الباري: 264/8) علاوہ ازیں بے شمار متشابہات ایسی ہیں جن کی حقیقت اللہ کے سوا کسی راسخ فی العلم کو بھی معلوم نہیں ہوسکتی، جن میں فہرست توحروف مقطعات ہیں، البتہ ذو معنی الفاظ والی آیات کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ علم میں رسوخ رکھنے والے شاید ان کی حقیقت کو پاسکیں۔ 6۔ بہرحال علم میں پختہ کار لوگوں کا شیوہ صرف یہ نہیں ہوتا کہ وہ متشابہات کی تاویل کے پیچھے نہیں پڑتے بلکہ اللہ سے یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ جو فتنہ انگیز لوگ متشابہات کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ان کی فکر ہمارے دل ودماغ پر کہیں اثر انداز نہ ہوجائے۔ اللہ اپنی رحمت سے ہمیں ایسے فتنہ پرورلوگوں کے افکار عقائد سے محفوظ رکھے اور صحیح عقل وفکر عطا فرمائے۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4547