سنن ابن ماجه
كتاب السنة
کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت
3. بَابُ : التَّوَقِّي فِي الْحَدِيثِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث کی روایت میں احتیاط۔
حدیث نمبر: 26
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي السَّفَرِ ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ ، يَقُولُ:" جَالَسْتُ ابْنَ عُمَرَ سَنَةً فَمَا سَمِعْتُهُ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا".
عبداللہ بن ابی السفر کہتے ہیں کہ میں نے شعبی کو کہتے سنا: میں سال بھر ابن عمر رضی اللہ عنہما کی مجلسوں میں رہا لیکن میں نے ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی چیز بیان کرتے ہوئے نہیں سنا۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/أخبار الآحاد 6 (7267)، صحیح مسلم/الصید 7 (1944)، (تحفة الأشراف: 7111)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/84، 137، 157) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 26 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث26
اردو حاشہ:
(1)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر اسی وجہ سے روایت نہیں کرتے تھے جس وجہ سے مذکورہ بالا دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم احتیاط کرتے تھے، یعنی وہ ڈرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے سہواً ایسے الفاظ بیان نہ ہو جائیں جو آپ نے نہیں فرمائے۔
(2)
اس کا یہ مطلب نہیں کہ صحابہ کرام دین کی تبلیغ نہیں کرتے تھے، بلکہ بات یہ ہے کہ ان کا طریقہ مختلف تھا، وہ لوگوں کو بتاتے تھے کہ فلاں کام فرض ہے، فلاں حرام، فلاں کام کرنا جائز ہے اور فلاں کام سے اجتناب بہتر ہے۔
وہ حضرات یہ مسائل ان احادیث کی روشنی ہی میں بیان فرماتے تھے جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھیں، لیکن آپ کا نام بالعموم نہیں لیتے تھے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 26