طاؤس کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا: ہم تو بس حدیثیں یاد کرتے تھے اور حدیث رسول تو یاد کی ہی جاتی ہے، لیکن جب تم مشکل اور آسان راستوں پر چلنے لگے تو ہم نے دوری اختیار کر لی ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یہ کنایہ ہے افراط و تفریط سے، یعنی جب تم نقل میں افراط و تفریط سے کام لینے لگے اور احتیاط کا دامن چھوڑ دیا، تو ہم نے بھی احتیاط کی روش اختیار کی۔
It was narrated from Ibn Tawus that his father said:
"I heard Ibn 'Abbas saying: 'We used to memorize Ahadith, and Ahadith were memorized from the Messenger of Allah (ﷺ). But if you go to the extremes of either exaggeration or negligence (in narrating Ahadith), there is no way we can trust your Ahadith.'"
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث27
اردو حاشہ: (1) احادیث نبویہ شرعی حجت ہیں، اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پوری کوشش اور تندہی سے حدیثیں سنتے اور یاد کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بچپن کی عمر سے گزر رہے تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت کم حدیثیں سن سکے، البتہ بعد میں کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے بہت سی حدیثیں سن سن کر یاد کیں، حتی کہ ان کا شمار کثیر الروایت صحابہ کرام میں ہونے لگا۔
(2) اصل دلیل صرف فرمان نبوی ہے، دوسرے حضرات کے فتووں کا وہ مقام نہیں ہو سکتا، اس لیے ہر مسئلہ میں قرآن و حدیث سے دلیل تلاش کرنا ضروری ہے۔
(3) صحابہ و تابعین کے اقوال سے وہاں کام لیا جا سکتا ہے جہاں حدیث نبوی نہ ملے۔ اس لیے تابعین صحابہ کرام ؓ کے اقوال بھی لکھ لیتے تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس عمل کو مناسب نہیں سمجھا کہ حدیث نبوی کے ساتھ دوسروں کے اقوال لکھے جائیں، اس لیے توجہ دلائی کہ حدیثیں یاد کرو، اقوال اور فتوے نہیں۔
(4) سخت اور نرم زمین پر چلنے کا مطلب ہے کہ تم قابل قبول اور ناقابل قبول روایات میں امتیاز نہیں کرتے۔ (الصَّعْبَ وَالذَّلُولَ) کا ایک ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے: ”تم نے اڑیل اور مطیع جانوروں پر سواری کرنا شروع کر دی۔“ حالانکہ اڑیل جانور سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہر راوی سے روایت نہ لی جائے بلکہ صرف قابل اعتماد اور ثقہ حضرات کی روایت قبول کیا جائے تاکہ دانستہ طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی ایسی بات منسوب نہ ہو جائے جو آپ نے فرمائی ہی نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 27