كِتَاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ کتاب: قسم کھانے اور نذر کے احکام و مسائل 21. باب النَّهْىِ عَنِ النَّذْرِ باب: نذر کی ممانعت کا بیان۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نذر سے منع فرماتے تھے، اور فرماتے تھے کہ نذر تقدیر کے فیصلے کو کچھ بھی نہیں ٹالتی سوائے اس کے کہ اس سے بخیل (کی جیب) سے کچھ نکال لیا جاتا ہے۔ مسدد کی روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نذر کسی چیز کو ٹالتی نہیں ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/القدر 6 (6608)، الأیمان 26 (6693)، صحیح مسلم/النذر 2 (1639)، سنن النسائی/الأیمان 24 (3832، 3833)، سنن ابن ماجہ/الکفارات 15 (2122)، (تحفة الأشراف: 7287)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/61، 86، 118)، دی/النذور 5 (2385) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ نذر ماننے والے کو اس کی نذر سے کچھ بھی نفع یا نقصان نہیں پہنچتا کیونکہ نذر ماننے والے کے حق میں منجانب اللہ جو فیصلہ ہو چکا ہے اس میں اس کی نذر سے ذرہ برابر تبدیلی نہیں آ سکتی، اس لئے یہ سوچ کر نذر نہ مانی جائے کہ اس سے مقدر شدہ امر میں کوئی تبدیلی آ سکتی ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اللہ تعالیٰ کہتا ہے:) نذر ابن آدم کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں لا سکتی جسے میں نے اس کے لیے مقدر نہ کیا ہو لیکن نذر اسے اس تقدیر سے ملاتی ہے جسے میں نے اس کے لیے لکھ دیا ہے، یہ بخیل سے وہ چیز نکال لیتی ہے جسے وہ اس نذر سے پہلے نہیں نکالتا ہے (یعنی اپنی بخالت کے سبب صدقہ خیرات نہیں کرتا ہے مگر نذر کی وجہ سے کر ڈالتا ہے) ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 13857)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأیمان 26 (6692)، صحیح مسلم/النذر 2 (1640)، سنن الترمذی/النذر 10 (1538)، سنن النسائی/الأیمان 25 (3836)، سنن ابن ماجہ/الکفارات 15 (2123)، مسند احمد (2/235، 242، 301، 314، 412، 463) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث قدسی ہے اگرچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحۃً اسے اللہ کی طرف مرفوع نہیں کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|