كِتَاب صِفَةِ الْقِيَامَةِ وَالْجَنَّةِ وَالنَّارِ قیامت اور جنت اور جہنم کے احوال 16. باب تَحْرِيشِ الشَّيْطَانِ وَبَعْثِهِ سَرَايَاهُ لِفِتْنَةِ النَّاسِ وَأَنَّ مَعَ كُلِّ إِنْسَانٍ قَرِينًا: باب: شیطان کا فساد مسلمانوں میں۔
جریر نےاعمش سے، انھوں نے ابو سفیان سے اور انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "شیطان اس بات سے ناامید ہوگیا ہے کہ جزیر ہ عرب میں نماز پڑھنے والے اس کی عبادت کریں گے لیکن وہ ان کے درمیان لڑائی جھگڑے کرانے سے (مایوس نہیں ہوا۔)
وکیع اور ابو معاویہ دونوں نے اعمش سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی۔
جریر اعمش سے، انھوں نے ابو سفیان سے اور انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "ابلیس کا تخت سمندرپر ہے۔وہ اپنے لشکر روانہ کرتا رہتا ہے تاکہ وہ فتنے برپا کریں۔اس کے نزدیک (شیطنت کے) درجے میں سب سے بڑا وہ ہے جو زیادہ بڑا فتنہ برپا کرے۔"
ابو معاویہ نے کہا: ہمیں اعمش نے ابو سفیان سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابلیس اپنا تخت پانی پر بچھاتا ہے پھر وہ اپنے لشکر روانہ کرتا ہے اس کے سب سے زیادہ قریب وہ ہوتا ہے جو سب سے بڑا فتنہ ڈالتا ہے ان میں سے ایک آکر کہتا ہے میں نے فلاں فلاں کا م کیا ہے، وہ کہتا ہے۔تم نے کچھ نہیں کیا، پھر ان میں سے ایک آکر کہتا ہے: میں نے اس شخص کو (جس کے ساتھ میں تھا) اس وقت تک نہیں چھوڑا، یہاں تک کہ اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان تفریق کرادی کہا: کہا: وہ اس کو اپنے قریب کرتا ہے اور کہتا ہے تم سب سے بہتر ہو۔" اعمش نے کہا میراخیال ہے اس (ابو سفیان طلحہ بن نافع) نے کہا: "پھر وہ اسے اپنے ساتھ لگالیتا ہے۔"
ابو زبیر نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "شیطان اپنے لشکروں کو بھیجتا ہے اور وہ لوگوں کو فتنوں میں ڈالتے ہیں اس کے نزدیک ان میں سے بڑے مرتبے والا وہ ہو تا ہے جو زیادہ بڑا فتنہ ڈالتا ہے۔"
عثمان بن ابی شیبہ اور اسحٰق بن ابراہیم نے کہا: ہمیں جریر نے منصور سے حدیث بیان کی، انھوں نے سالم بن ابی جعد سے، انھوں نےاپنے والد سے اور انھوں نےحضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کوئی شخص بھی نہیں مگر اللہ نے اس کے ساتھ جنوں میں سے اس کا ایک ساتھی مقرر کردیا ہے (جو اسے برائی کی طرف مائل رہتا ہے۔) "انھوں (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کے ساتھ بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اور میرے ساتھ بھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے مقابلے میں میری مدد فرمائی ہے اور وہ مسلمان ہوگیا، اس لیے (اب) وہ مجھے خیر کے سواکوئی بات نہیں کہتا۔"
سفیان اور عمار بن رزیق دونوں نے منصور سے جریر کی سند کے ساتھ انھی کی حدیث کے مانند روایت کی، مگر سفیان کی حدیث میں ہے: "ہر شخص کے لیے ایک ساتھی جنوں میں سے اور ایک ساتھی فرشتوں میں سے مقرر کر دیاہے۔ (جن اسے برائی کی طرف مائل کرتا ہے اور فرشتہ نیکی کی طرف۔فیصلہ خود اسی کو کرنا ہوتا ہے۔)
عروہ نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات ان کے پاس سے اٹھ کر باہر نکل گئے۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: مجھے آپ کے معاملے میں شدید غیرت محسوس ہوئی، پھر آپ واپس آئے اور دیکھا کہ میں کیا کر رہی ہوں (شدید غصے کے عالم میں ہوں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عائشہ رضی اللہ عنہا!تمھیں کیاہوا ہے کیا تم غیرت میں مبتلا ہو گئی ہو؟"میں نے کہا: مجھے کیا ہوا ہے کہ مجھ جیسی عورت کو (جس کی کئی سو کنیں ہوں) آپ جیسے مرد پر (جو ایک کو ایک سے بڑھ کر محبوب ہو) غیرت نہ آئے "تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " کیا تمھارے پاس تمھارا شیطان آیا تھا (اور اس نے تمھیں شک میں مبتلا کیا؟) " (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیا میرے ساتھ شیطان بھی ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں۔"میں نے کہا: ہر انسان کے ساتھ شیطان ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا: "ہاں۔"میں نے کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کے ساتھ بھی ہے؟آپ نے فرمایا: "ہاں لیکن میرے رب نے اس پر (قابو پانے میں) میری مددفرمائی اور وہ اسلام لے آیا ہے۔"
|