كِتَاب صِفَةِ الْقِيَامَةِ وَالْجَنَّةِ وَالنَّارِ قیامت اور جنت اور جہنم کے احوال Characteristics of the Day of Judgment, Paradise, and Hell 7. باب الدُّخَانِ: باب: دھوئیں کے بیان میں۔ Chapter: The Smoke (Ad-Dukhan) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم ، اخبرنا جرير ، عن منصور ، عن ابي الضحى ، عن مسروق ، قال: كنا عند عبد الله جلوسا وهو مضطجع بيننا، فاتاه رجل، فقال يا ابا عبد الرحمن: إن قاصا عند ابواب كندة يقص ويزعم ان آية الدخان تجيء، فتاخذ بانفاس الكفار وياخذ المؤمنين منه كهيئة الزكام، فقال عبد الله : وجلس وهو غضبان: يا ايها الناس اتقوا الله من علم منكم شيئا، فليقل بما يعلم، ومن لم يعلم، فليقل: الله اعلم، فإنه اعلم لاحدكم، ان يقول: لما لا يعلم الله اعلم، فإن الله عز وجل، قال لنبيه صلى الله عليه وسلم: قل ما اسالكم عليه من اجر وما انا من المتكلفين سورة ص آية 86 إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما راى من الناس إدبارا، فقال: " اللهم سبع كسبع يوسف "، قال: فاخذتهم سنة حصت كل شيء حتى اكلوا الجلود والميتة من الجوع، وينظر إلى السماء احدهم، فيرى كهيئة الدخان، فاتاه ابو سفيان، فقال يا محمد: إنك جئت تامر بطاعة الله وبصلة الرحم، وإن قومك قد هلكوا فادع الله لهم، قال الله عز وجل: فارتقب يوم تاتي السماء بدخان مبين {10} يغشى الناس هذا عذاب اليم {11} سورة الدخان آية 10-11 إلى قوله إنكم عائدون سورة الدخان آية 15 قال افيكشف عذاب الآخرة يوم نبطش البطشة الكبرى إنا منتقمون سورة الدخان آية 16 فالبطشة يوم بدر، وقد مضت آية الدخان والبطشة واللزام وآية الروم ".أخبرنا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِي الضُّحَى ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ جُلُوسًا وَهُوَ مُضْطَجِعٌ بَيْنَنَا، فَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ: إِنَّ قَاصًّا عِنْدَ أَبْوَابِ كِنْدَةَ يَقُصُّ وَيَزْعُمُ أَنَّ آيَةَ الدُّخَانِ تَجِيءُ، فَتَأْخُذُ بِأَنْفَاسِ الْكُفَّارِ وَيَأْخُذُ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ كَهَيْئَةِ الزُّكَامِ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ : وَجَلَسَ وَهُوَ غَضْبَانُ: يَا أَيَّهَا النَّاسُ اتَّقُوا اللَّهَ مَنْ عَلِمَ مِنْكُمْ شَيْئًا، فَلْيَقُلْ بِمَا يَعْلَمُ، وَمَنْ لَمْ يَعْلَمْ، فَلْيَقُلْ: اللَّهُ أَعْلَمُ، فَإِنَّهُ أَعْلَمُ لِأَحَدِكُمْ، أَنْ يَقُولَ: لِمَا لَا يَعْلَمُ اللَّهُ أَعْلَمُ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ سورة ص آية 86 إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا رَأَى مِنَ النَّاسِ إِدْبَارًا، فَقَالَ: " اللَّهُمَّ سَبْعٌ كَسَبْعِ يُوسُفَ "، قَالَ: فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ حَصَّتْ كُلَّ شَيْءٍ حَتَّى أَكَلُوا الْجُلُودَ وَالْمَيْتَةَ مِنَ الْجُوعِ، وَيَنْظُرُ إِلَى السَّمَاءِ أَحَدُهُمْ، فَيَرَى كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ، فَأَتَاهُ أَبُو سُفْيَانَ، فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ: إِنَّكَ جِئْتَ تَأْمُرُ بِطَاعَةِ اللَّهِ وَبِصِلَةِ الرَّحِمِ، وَإِنَّ قَوْمَكَ قَدْ هَلَكُوا فَادْعُ اللَّهَ لَهُمْ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ {10} يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ {11} سورة الدخان آية 10-11 إِلَى قَوْلِهِ إِنَّكُمْ عَائِدُونَ سورة الدخان آية 15 قَالَ أَفَيُكْشَفُ عَذَابُ الْآخِرَةِ يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ سورة الدخان آية 16 فَالْبَطْشَةُ يَوْمَ بَدْرٍ، وَقَدْ مَضَتْ آيَةُ الدُّخَانِ وَالْبَطْشَةُ وَاللِّزَامُ وَآيَةُ الرُّومِ ". منصور نے ابو ضحیٰ (مسلم بن صحیح) سے، انھوں نے مسروق سے روایت کی، کہا: ہم حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور وہ ہمارے درمیان (اپنے بستر یا بچھونے پر) لیٹے ہوئے تھے تو ایک شخص آیا اور کہنے لگا: ابو عبدالرحمان!ابواب کندہ (کوفہ کا ایک محلہ) میں ایک قصہ گو (واعظ) آیا ہوا ہے، وہ وعظ کررہا ہے اور یہ کہتا ہے کہ دھوئیں والی (اللہ کی) نشانی آئے گی اور (یہ د ھواں) کافروں کی روحیں قبض کرلے گا اور مومنوں کو یہ زکام جیسی کیفیت سے دو چار کرے گا۔حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) نے کہا اور وہ غصے کے عالم میں اٹھ کر بیٹھ گئے، لوگو! اللہ سے ڈرو، تم میں سے جو شخص کوئی چیز جانتا ہو، وہ اتنی ہی بیان کرے جتنی جانتاہو اور جو نہیں جانتا، وہ کہے: اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔بے شک وہ (اللہ تعالیٰ) تم میں سے اس کو (بھی) زیادہ جاننے والاہے۔جو اس بات کے بارے میں جو وہ نہیں جانتا، یہ کہتا ہے: اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔اللہ عزوجل نے ا پنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا؛"کہہ دیجئے: میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور نہ ہی بناوٹ کرنے والوں میں سے ہوں۔"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب لوگوں کی دین سے روگردانی دیکھی تو آپ نے (دعا کرتے ہوئے) فرمایا: "اے اللہ! (ان پر) یوسف علیہ السلام کےسات سالوں جیسے سات سال (بھیج دے۔) " (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے) کہا: تو انھیں (قحط کے) ایک سال نے آلیا جس نے ہر چیز کاصفایاکرایا، یہاں تک کہ ان (مشرک) لوگوں نے بھوک سے چمڑے اور مردار تک کھائے۔ان میں سے کوئی شخص آسمان کی طرف دیکھتا تو اسے دھوئیں کے جیسی ایک چیز چھائی ہوئی نظر آتی۔چنانچہ ابو سفیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ آئے ہیں، اللہ کی اطاعت اور صلہ رحمی کاحکم دیتے ہیں، آپ کی قوم (قحط اور بھوک سے) ہلاک ہورہی ہے۔ان کےلیے اللہ سے دعا کریں۔اللہ عزوجل نے فرمایا: " آپ اس دن کا انتظار کریں جب آسمان ایک نظر آنے والے دھوئیں کو لے آئے گا۔ (اور وہ) لوگوں کو ڈھانپ لے گا۔یہ دردناک عذاب ہوگا، سے لے کر اس کے فرمان: "نے شک تم (کفر میں) لوٹ جانے والے ہوگئے"تک۔ (حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے) کہا: کیا آخرت کا عذاب ہٹایا جائے گا؟"جس دن ہم تم پر بڑی گرفت کریں گے (اس دن) ہم انتقام لینے والے ہوں گے۔"وہ گرفت بدر کے دن تھی۔اب تک دھوئیں کی نشانی گرفت اور چمٹ جانےوالا عذاب (بدر میں شکست فاش اور قتل) اور روم (کی فتح) کی نشانی (سب) آکر گذر چکی ہیں۔ امام مسروق بیان کرتے ہیں،ہم حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور وہ ہمارے درمیان(اپنے بستر یا بچھونے پر) لیٹے ہوئے تھے تو ایک شخص آیا اور کہنے لگا:ابو عبدالرحمان!ابواب کندہ(کوفہ کا ایک محلہ) میں ایک قصہ گو(واعظ) آیا ہوا ہے،وہ وعظ کررہا ہے اور یہ کہتا ہے کہ دھوئیں والی(اللہ کی)نشانی آئے گی اور(یہ د ھواں) کافروں کی روحیں قبض کرلے گا اور مومنوں کو یہ زکام جیسی کیفیت سے دو چار کرے گا۔حضرت عبداللہ(بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے کہا اور وہ غصے کے عالم میں اٹھ کر بیٹھ گئے،لوگو! اللہ سے ڈرو،تم میں سے جو شخص کوئی چیز جانتا ہو،وہ اتنی ہی بیان کرے جتنی جانتاہو اور جو نہیں جانتا،وہ کہے:اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔بے شک وہ(اللہ تعالیٰ) تم میں سے اس کو(بھی) زیادہ جاننے والاہے۔جو اس بات کے بارے میں جو وہ نہیں جانتا،یہ کہتا ہے:اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔اللہ عزوجل نے ا پنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا؛"کہہ دیجئے:میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور نہ ہی بناوٹ کرنے والوں میں سے ہوں۔"(سورہ ص:86) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب لوگوں کی دین سے روگردانی دیکھی تو آپ نے (دعا کرتے ہوئے) فرمایا:"اے اللہ!(ان پر) یوسف ؑ کےسات سالوں جیسے سات سال(بھیج دے۔)"(عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا:تو انھیں (قحط کے) ایک سال نے آلیا جس نے ہر چیز کاصفایاکرایا،یہاں تک کہ ان(مشرک)لوگوں نے بھوک سے چمڑے اور مردار تک کھائے۔ان میں سے کوئی شخص آسمان کی طرف دیکھتا تو اسے دھوئیں کے جیسی ایک چیز چھائی ہوئی نظر آتی۔چنانچہ ابو سفیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا:اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ آئے ہیں،اللہ کی اطاعت اور صلہ رحمی کاحکم دیتے ہیں،آپ کی قوم(قحط اور بھوک سے) ہلاک ہورہی ہے۔ان کےلیے اللہ سے دعا کریں۔اللہ عزوجل نے فرمایا:" آپ اس دن کا انتظار کریں جب آسمان ایک نظر آنے والے دھوئیں کو لے آئے گا۔جولوگوں پر چھا جائے گا،جوالمناک عذاب ہوگا،(کہیں گے) اے ہمارے رب!ہم سے اس عذاب کو دور کر دے،ہم ایمان لے آئیں گے،اس وقت انھیں نصیحت کہاں کارگرہوگی،حالانکہ ان کے پاس رسول مبین(کھول کر بیان کرنے والا)آچکا ہے،پھر انہوں نے اس سے منہ موڑا اور کہنے لگے،یہ تو سکھایا پڑھایا دیوانہ ہے۔"ہم تھوڑی دیر عذاب ہٹادیں گے،مگر تم پھر وہی کروگے جوپہلے کرتے رہے۔"(دخان آیت نمبر۔10تا 15)حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا،کیا آخرت کا عذاب ہٹادیا جائےگا؟جس دن ہم سخت گرفت کریں گے،پھر انتقام لے کر رہیں گے۔"(آیت نمبر 16)۔سو پکڑے سے مراد،بدر کادن ہے،دھوئیں والی نشانی گزرچکی ہے،اس طرح پکڑ،لزام(قتل وقید) وروم کی فتح گزرچکی ہے۔"
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة، حدثنا ابو معاوية ، ووكيع . ح وحدثني ابو سعيد الاشج ، اخبرنا وكيع . ح وحدثنا عثمان بن ابي شيبة ، حدثنا جرير كلهم، عن الاعمش . ح وحدثنا يحيى بن يحيى ، وابو كريب واللفظ ليحيى، قالا: حدثنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن مسلم بن صبيح ، عن مسروق ، قال: جاء إلى عبد الله رجل، فقال: تركت في المسجد رجلا يفسر القرآن برايه يفسر هذه الآية يوم تاتي السماء بدخان مبين سورة الدخان آية 10، قال: ياتي الناس يوم القيامة دخان، فياخذ بانفاسهم حتى ياخذهم منه كهيئة الزكام، فقال عبد الله : من علم علما فليقل به، ومن لم يعلم فليقل الله اعلم من فقه الرجل، ان يقول: لما لا علم له به الله اعلم، إنما كان هذا ان قريشا لما استعصت على النبي صلى الله عليه وسلم دعا عليهم بسنين كسني يوسف، فاصابهم قحط وجهد حتى جعل الرجل ينظر إلى السماء، فيرى بينه وبينها كهيئة الدخان من الجهد وحتى اكلوا العظام، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم رجل، فقال: يا رسول الله، استغفر الله لمضر، فإنهم قد هلكوا، فقال: لمضر إنك لجريء، قال: فدعا الله لهم فانزل الله عز وجل إنا كاشفو العذاب قليلا إنكم عائدون سورة الدخان آية 15، قال: فمطروا فلما اصابتهم الرفاهية، قال: عادوا إلى ما كانوا عليه، قال: فانزل الله عز وجل فارتقب يوم تاتي السماء بدخان مبين {10} يغشى الناس هذا عذاب اليم {11} سورة الدخان آية 10-11 يوم نبطش البطشة الكبرى إنا منتقمون سورة الدخان آية 16، قال: يعني يوم بدر ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، وَوَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ ، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ كُلُّهُمْ، عَنْ الْأَعْمَشِ . ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَأَبُو كُرَيْبٍ وَاللَّفْظُ لِيَحْيَى، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ صُبَيْحٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ: جَاءَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ رَجُلٌ، فَقَالَ: تَرَكْتُ فِي الْمَسْجِدِ رَجُلًا يُفَسِّرُ الْقُرْآنَ بِرَأْيِهِ يُفَسِّرُ هَذِهِ الْآيَةَ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ سورة الدخان آية 10، قَالَ: يَأْتِي النَّاسَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ دُخَانٌ، فَيَأْخُذُ بِأَنْفَاسِهِمْ حَتَّى يَأْخُذَهُمْ مِنْهُ كَهَيْئَةِ الزُّكَامِ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ : مَنْ عَلِمَ عِلْمًا فَلْيَقُلْ بِهِ، وَمَنْ لَمْ يَعْلَمْ فَلْيَقُلِ اللَّهُ أَعْلَمُ مِنْ فِقْهِ الرَّجُلِ، أَنْ يَقُولَ: لِمَا لَا عِلْمَ لَهُ بِهِ اللَّهُ أَعْلَمُ، إِنَّمَا كَانَ هَذَا أَنَّ قُرَيْشًا لَمَّا اسْتَعْصَتْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا عَلَيْهِمْ بِسِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ، فَأَصَابَهُمْ قَحْطٌ وَجَهْدٌ حَتَّى جَعَلَ الرَّجُلُ يَنْظُرُ إِلَى السَّمَاءِ، فَيَرَى بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ مِنَ الْجَهْدِ وَحَتَّى أَكَلُوا الْعِظَامَ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اسْتَغْفِرِ اللَّهَ لِمُضَرَ، فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا، فَقَالَ: لِمُضَرَ إِنَّكَ لَجَرِيءٌ، قَالَ: فَدَعَا اللَّهَ لَهُمْ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّا كَاشِفُو الْعَذَابِ قَلِيلا إِنَّكُمْ عَائِدُونَ سورة الدخان آية 15، قَالَ: فَمُطِرُوا فَلَمَّا أَصَابَتْهُمُ الرَّفَاهِيَةُ، قَالَ: عَادُوا إِلَى مَا كَانُوا عَلَيْهِ، قَالَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ {10} يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ {11} سورة الدخان آية 10-11 يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ سورة الدخان آية 16، قَالَ: يَعْنِي يَوْمَ بَدْرٍ ". ابو معاویہ، وکیع، اور جریر نے اعمش سے، انھوں نے مسلم بن صحیح سے اور انھوں نے مسروق سے روایت کی کہ حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا: میں مسجد میں ایک ایسے شخص کو چھوڑ کر آرہا ہوں جو اپنی رائے سے قرآن مجید کی تفسیر کرتا ہے وہ (قرآن کی) آیت: "جب آسمان سے واضح دھواں اٹھے گا"کی تفسیر کرتا ہے، کہتا ہے: "قیامت کےدن لوگوں کے پاس ایک دھواں آئے گا جو لوگوں کی سانسوں کو گرفت میں لے لے گا، یہاں تک کہ لوگوں کو زکام جیسی کیفیت (جس میں سانس لینی مشکل ہوجاتی ہے) درپیش ہوگی، توحضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) نے کہا: جس کے پاس علم ہو وہ اس کے مطابق بات کہے اور جو نہ جانتا ہو، وہ کہے: اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔یہ بات انسان کے فہم (دین) کاحصہ ہے۔ کہ جس بات کو وہ نہیں جانتا اس کے بارے میں کہے: اللہ زیادہ جاننے والاہے۔اس (دھوئیں) کی حقیقت یہ تھی کہ قریش نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سخت نافرمانی سے کام لیا تو آپ نے ان کے خلاف یوسف علیہ السلام (کے زمانےوالے) قحط کے سالوں جیسی قحط سالی کی دعاکی۔انھیں قحط اور تنگ دستی نے آلیا یہاں تک کہ (ان میں سے) کوئی شخص آسمان کی طرف دیکھنے لگتا تو بھوک کی شدت سے اسے اپنے اور آسمان کے درمیان دھواں ساچھایا ہوا نظرآتا یہاں تک کہ ان لوگوں نے (بھوک کی شدت سے) ہڈیاں تک کھائیں، چنانچہ (ان میں سے) ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ (قبیلہ) مضر کے لئے بخشش طلب فرمائیں۔وہ ہلاکت کا شکار ہیں، تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مضر کے لئے؟تو بہت جراءت والا ہے (کہ اللہ سے شرک اور اس کے رسول سے بغض کے باوجود د رخواست کررہا ہے کہ میں تمہارے لئے اللہ سے دعا کروں) "کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پھر بھی) ان کے حق میں دعا فرمادی۔اس پر اللہ عزوجل نے (آیت) نازل فرمائی: "ہم (تم سے) تھوڑے عرصے کے لئے عذاب ہٹادیتے ہیں۔تم (پھر کفر ہی میں) لوٹنے والا ہو۔" (حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے) کہا: پھر ان پر بارش برسائی گئی۔انھیں خوشحالی مل گئی، کہا: (تو پھر) وہ اپنی اسی روش پر لوٹ گئے جس سے پہلے تھے۔اس پر اللہ تعالیٰ نے (یہ حصہ) نازل فرمایا: "آپ انتظار کیجئے جب آسمان ظاہر دھواں لے آئے گا۔جو لوگوں کو ڈھانپ لے گا، یہ دردناک عذاب ہوگا۔ (پھر یہ آیت نازل فرمائی) جس دن ہم بڑ ی گرفت میں لیں گے، ہم انتقام لینے والے ہوں گے۔"کہا: یعنی جنگ بدر کو۔ امام مسروق رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں،حضرت عبداللہ(بن مسعود) رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا:میں مسجد میں ایک ایسے شخص کو چھوڑ کر آرہا ہوں جو اپنی رائے سے قرآن مجید کی تفسیر کرتا ہے وہ(قرآن کی) آیت:"جب آسمان سے واضح دھواں اٹھے گا"کی تفسیر کرتا ہے،کہتا ہے:"قیامت کےدن لوگوں کے پاس ایک دھواں آئے گا جو لوگوں کی سانسوں کو گرفت میں لے لے گا،یہاں تک کہ لوگوں کو زکام جیسی کیفیت(جس میں سانس لینی مشکل ہوجاتی ہے)درپیش ہوگی،توحضرت عبداللہ(بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ)نے کہا:جس کے پاس علم ہو وہ اس کے مطابق بات کہے اور جو نہ جانتا ہو،وہ کہے:اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔یہ بات انسان کے فہم(دین) کاحصہ ہے۔ کہ جس بات کو وہ نہیں جانتا اس کے بارے میں کہے:اللہ زیادہ جاننے والاہے۔اس(دھوئیں) کی حقیقت یہ تھی کہ قریش نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سخت نافرمانی سے کام لیا تو آپ نے ان کے خلاف یوسف ؑ (کے زمانےوالے)قحط کے سالوں جیسی قحط سالی کی دعاکی۔انھیں قحط اور تنگ دستی نے آلیا یہاں تک کہ(ان میں سے) کوئی شخص آسمان کی طرف دیکھنے لگتا تو بھوک کی شدت سے اسے اپنے اور آسمان کے درمیان دھواں ساچھایا ہوا نظرآتا یہاں تک کہ ان لوگوں نے(بھوک کی شدت سے)ہڈیاں تک کھائیں،چنانچہ(ان میں سے) ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ(قبیلہ) مضر کے لئے بخشش طلب فرمائیں۔وہ ہلاکت کا شکار ہیں،تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"مضر کے لئے؟تو بہت جراءت والا ہے(کہ اللہ سے شرک اور اس کے رسول سے بغض کے باوجود د رخواست کررہا ہے کہ میں تمہارے لئے اللہ سے دعا کروں)"کہا:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے(پھر بھی) ان کے حق میں دعا فرمادی۔اس پر اللہ عزوجل نے(آیت) نازل فرمائی:"ہم(تم سے) تھوڑے عرصے کے لئے عذاب ہٹادیتے ہیں۔تم(پھر کفر ہی میں) لوٹنے والا ہو۔"(حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا:پھر ان پر بارش برسائی گئی۔انھیں خوشحالی مل گئی،کہا:(تو پھر) وہ اپنی اسی روش پر لوٹ گئے جس سے پہلے تھے۔اس پر اللہ تعالیٰ نے (یہ حصہ) نازل فرمایا:"آپ انتظار کیجئے جب آسمان ظاہر دھواں لے آئے گا۔جو لوگوں کو ڈھانپ لے گا،یہ دردناک عذاب ہوگا۔"(آیت نمبر 10تا12)"جس دن ہم بڑ ی گرفت میں لیں گے،ہم انتقام لینے والے ہوں گے۔(آیت نمبر16) اس سےمراد بدر کادن ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
قتیبہ بن سعید نے ہمیں حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ہمیں جریر نے اعمش سے حدیث بیان کی، انھوں نے ابو ضحیٰ سے، انھوں نے مسروق سے اور انھوں نے حضرت عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: پانچ (نشانیاں گزر چکی ہیں: دھواں، چمٹ جانے والا عذاب (بدر کے دن شکست اور ہلاکتیں) روم کی فتح (بدر کےدن ستر مشرکوں کی گرفتاری) سخت گرفت اور چاند (کادو ٹکڑے ہونا۔) حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، پانچ پیشین گوئیاں گزر چکی ہیں، الدخان (دھواں)(جنگ بدر میں) الزام (قتل وقید)رومیوں کی فتح،بدر کی پکڑاور انشقاق قمر۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وکیع نے کہا: ہمیں اعمش نے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث بیان کی۔ یہی روایت امام صاحب ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
محمد بن جعفر نے شعبہ سے، انھوں نے قتادہ سے، انھوں نے عزرۃ سے انھوں نے حسن عرفی سے، انھوں نے یحییٰ بن جزار سے، انھوں نے عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ سے اور انھوں نے حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ سے اللہ عزوجل کے فرمان: "اور بڑے عذاب سے پہلے ہم انھیں قریب کا (چھوٹا) عذاب چکھائیں گے۔" (کی تفسیر) کے بارے میں روایت کی، انھوں نے کہا (اسی) دنیا میں پیش آنے والے مصائب، روم کی فتح، گرفت (جنگ بدر) یا دھواں (مراد) ہیں۔گرفت اور دھوئیں کے بارے میں شک کرنے والے شعبہ ہیں۔ (ان سے اوپر کے راویوں نے یقین سے بتایا۔شعبہ نے کہا: انھیں شک ہوا ہے) حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ تعالیٰ کے فرمان،"ہم انہیں بڑے عذاب سے پہلے ہلکے عذاب سے دو چار کریں گے، ہلکے عذاب کا ذائقہ ضرورچکھائیں گے۔ سورۃ الم سجدہ آیت21۔فرماتے ہیں، اس سے مراد دنیا کی تکالیف و مصائب ہیں، فتح روم، پکڑیا دخان ہے، بطثہ ہے، یادخان شعبہ کو شک ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|