كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام The Book of Prayer - Travellers 27. باب اسْتِحْبَابِ تَطْوِيلِ الْقِرَاءَةِ فِي صَلاَةِ اللَّيْلِ: باب: تہجد میں لمبی قرأت کا مستحب ہونا۔ Chapter: It is recommended to recite for a long time in the night prayers وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عبد الله بن نمير ، وابو معاوية . ح وحدثنا زهير بن حرب ، وإسحاق بن إبراهيم جميعا، عن جرير كلهم، عن الاعمش . ح وحدثنا ابن نمير واللفظ له، حدثنا ابي ، حدثنا الاعمش ، عن سعد بن عبيدة ، عن المستورد بن الاحنف ، عن صلة بن زفر ، عن حذيفة ، قال: " صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم ذات ليلة، فافتتح البقرة، فقلت يركع عند المائة، ثم مضى، فقلت: يصلي بها في ركعة، فمضى، فقلت: يركع بها، ثم افتتح النساء فقراها، ثم افتتح آل عمران فقراها، يقرا مترسلا، إذا مر بآية فيها، تسبيح سبح، وإذا مر بسؤال سال، وإذا مر بتعوذ تعوذ، ثم ركع، فجعل يقول: سبحان ربي العظيم، فكان ركوعه نحوا من قيامه، ثم قال: سمع الله لمن حمده، ثم قام طويلا، قريبا مما ركع، ثم سجد، فقال: سبحان ربي الاعلى، فكان سجوده قريبا من قيامه "، قال: وفي حديث جرير من الزيادة، فقال: سمع الله لمن حمده، ربنا لك الحمد.وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ . ح وحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ جميعا، عَنْ جَرِيرٍ كُلُّهُمْ، عَنِ الأَعْمَشِ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ ، عَنْ الْمُسْتَوْرِدِ بْنِ الأَحْنَفِ ، عَنْ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ: " صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَافْتَتَحَ الْبَقَرَةَ، فَقُلْتُ يَرْكَعُ عِنْدَ الْمِائَةِ، ثُمَّ مَضَى، فَقُلْتُ: يُصَلِّي بِهَا فِي رَكْعَةٍ، فَمَضَى، فَقُلْتُ: يَرْكَعُ بِهَا، ثُمَّ افْتَتَحَ النِّسَاءَ فَقَرَأَهَا، ثُمَّ افْتَتَحَ آلَ عِمْرَانَ فَقَرَأَهَا، يَقْرَأُ مُتَرَسِّلًا، إِذَا مَرَّ بِآيَةٍ فِيهَا، تَسْبِيحٌ سَبَّحَ، وَإِذَا مَرَّ بِسُؤَالٍ سَأَلَ، وَإِذَا مَرَّ بِتَعَوُّذٍ تَعَوَّذَ، ثُمَّ رَكَعَ، فَجَعَلَ يَقُولُ: سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ، فَكَانَ رُكُوعُهُ نَحْوًا مِنْ قِيَامِهِ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، ثُمَّ قَامَ طَوِيلًا، قَرِيبًا مِمَّا رَكَعَ، ثُمَّ سَجَدَ، فَقَالَ: سُبْحَانَ رَبِّيَ الأَعْلَى، فَكَانَ سُجُودُهُ قَرِيبًا مِنْ قِيَامِه "، قَالَ: وَفِي حَدِيثِ جَرِيرٍ مِنَ الزِّيَادَةِ، فَقَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ. عبداللہ بن نمیر، ابو معاویہ اور جریر سب نے اعمش سے، انھوں نے سعد بن عبیدہ سے، انھوں نے مستورد بن احنف سے، انھوں نے صلہ بن زفر سے اور انھوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی،۔انھوں نے کہا: ایک رات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، آپ نے سورہ بقرہ کا آغاز فرمایا، میں نے (دل میں) کہا: آپ سو آیات پڑھ کر رکوع فرمائیں گے مگر آپ آگے بڑھ گئے میں نے کہا: آپ اسے (پوری) رکعت میں پڑھیں گے، آپ آگے پڑھتے گئے، میں نے سوچا، اسے پڑھ کر رکوع کریں گے مگر آپ نے سورہ نساءشروع کردی، آپ نے وہ پوری پڑھی، پھر آپ نے آل عمران شروع کردی، اس کو پورا پڑھا، آپ ٹھر ٹھر کر قرائت فرماتے رہے جب ایسی آیت سے گزرتے جس میں تسبیح ہے توسبحان اللہ کہتے اور جب سوال (کرنے والی آیت) سے گزرتے (پڑھتے) تو سوا ل کرتے اور جب پناہ مانگنے والی آیت سے گزرتے تو۔ (اللہ سے) پناہ مانگتے، پھر آپ نے ر کوع فرمایا اور سبحان ربی العظیم کہنے لگے، آپ کا رکوع (تقریباً) آپ کے قیام جتنا تھا۔پھر آپ نے "سمع اللہ لمن حمدہ"کہا: پھر آپ لمبی دیر کھڑے رہے، تقریباً اتنی دیر جتنی دیر رکوع کیا تھا، پھر سجدہ کیا اور "سبحان ربی الاعلی" کہنے لگے اور آپ کا سجدہ (بھی) آپ کے قیام کے قریب تھا۔ جریر کی روایت میں یہ اضافہ ہےکہ آپ نے کہا: (سمع اللہ لمن حمدہ ربنا لک الحمد") یعنی ربنا لک الحمدکا اضافہ ہے۔) امام صاحب مختلف اساتذہ سے روایت کرتے ہیں، حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنی شروع کی، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ بقرہ پڑھنی شروع کردی، میں نے دل میں سوچا، آپصلی اللہ علیہ وسلم سو آیات پڑھ کر رکوع فرمائیں گے، مگر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد قرأت جاری رکھی، میں نے سوچا، آپصلی اللہ علیہ وسلم پوری سورت ایک رکعت میں پڑھیں گے، لیکن آپصلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے رہے، میں نے سوچا، آخر میں رکوع کریں گے، مگر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ نساء شروع کر دی، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پوری پڑھ ڈالی، پھر آل عمران شروع کر دی، اس کو پورا پڑھ ڈالا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر ٹھہر کر قرأ ت فرماتے رہے، جب تسبیح والی آیت سے گزرتے تو (سُبْحَانَ اللہ) کہتے اور جب سوال والی آیت سے گزرتے (پڑھتے) تو سوا ل کرتے اور جب تعوذ(اللہ سے پناہ مانگنا) والی آیت سے گزرتے تو اللہ سے پناہ مانگتے، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ر کوع کیا اور مسلسل (سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيْم) کہتے رہے،اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کا رکوع آپصلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کے قریب تھا۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے (سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ) کہا، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے طویل قیام کیا،جو رکوع کے برابر تھا، پھر سجدہ کیا اور (سُبْحَانَ رَبِّيَ الْاَعْلٰي) کہتے رہے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کا سجدہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کے قریب تھا۔ اور جریر کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے کہا (سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ) یعنی (رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ) کا اضافہ ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
جریر نے اعمش سے اور انھوں نے ابووائل سے روایت کی۔انھوں نے کہا: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازپڑھی آپ نے اتنی لمبی نماز پڑھی کہ میں نے ایک ناپسندیدہ کام کا ارادہ کر لیا۔کہا: تو ان سے پوچھا گیا آپ نے کس بات کا ارادہ کیا تھا؟ انھوں نے کہا: میں نے ارادہ کیا کہ بیٹھ جاؤں اور آپ کو (اکیلے ہی قیام کی حالت میں) چھوڑدوں۔" حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز شروع کی، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے بہت طویل نماز پڑھی حتی کہ میں نے ایک برے کام کا ارادہ کر لیا تو ان سے پوچھا گیا، آپ نے کس بات کا ارادہ کیا تھا؟ انہوں نے کہا، میں نے ارادہ کیا کہ میں بیٹھ جاؤں اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑا چھوڑ دوں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
علی بن مسہر نے اعمش سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند روایت کی۔ امام صاحب نے ایک دوسرے استاد سے بھی یہی حدیث نقل کی ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|