كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام 18. باب جَامِعِ صَلاَةِ اللَّيْلِ وَمَنْ نَامَ عَنْهُ أَوْ مَرِضَ: باب: رات کی نماز کے احکام اور جس سے سونے یا بیمار ہونے کی وجہ سے رہ جائے۔
ابن ابی عدی نے سعید (ابن ابی عروبہ) سے، انھوں نے قتادہ سے اور انھوں نے زرارہ سے روایت کی کہ (حضرت انس رضی اللہ عنہ کے قریبی عزیز) سعد بن ہشام بن عامر نے ارادہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جنگ (جہاد) کریں، وہ مدینہ منورہ آگئے اور وہاں ا پنی ایک جائیداد فروخت کرنی چاہی تاکہ اس سے ہتھیار اور گھوڑے مہیا کریں اور موت آنے تک رومیوں کے خلاف جہاد کریں، چنانچہ جب مدینہ آئے تو اہل مدینہ میں سے کچھ لوگوں سے ملے، انھوں نے اس کو اس ارادے سے روکا اور ان کو بتایا کہ چھ افراد کے ایک گروہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ایسا کرنے کاارادہ کیاتھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک دیا تھا۔آپ نے فرمایا تھا: "کیا میرے طرز عمل میں تمھارے لئے نمونہ نہیں ہیں؟"چنانچہ جب ان لوگوں نے انھیں یہ بات بتائی تو انھوں نے اپنی بیوی سے رجوع کرلیا جبکہ وہ اسے طلاق دے چکے تھے، اور اس سے رجو ع کے لئے گواہ بنائے۔پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوکر ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر (بشمول قیام اللیل) کے بارے میں سوال کیا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں تمھیں اس ہستی سے آگاہ نہ کروں۔جو روئے زمین کے تمام لوگوں کی نسبت ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کو زیادہ جاننے والی ہے؟سعد نے کہا: وہ کون ہیں؟انھوں نےکہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ان کے پاس جاؤ اور پوچھو، پھر (دوبارہ) میرے پاس آنا اور ان کا جواب مجھے بھی آکر بتانا، (سعدنے کہا:) میں ان کی طرف چل پڑا اور (پہلے) حکیم بن افلح کے پاس آیا اور انھیں اپنے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس چلنے کو کہا تو انھوں نے کہا: میں ان کے پاس نہیں جاؤں گا کیونکہ میں نے انھیں (آپس میں لڑنے والی) ان دو جماعتوں کے بارے میں کچھ بھی کہنے سے روکا تھا۔تو وہ ان دونوں کے بارے میں اسی طریقے پر چلتے رہنے کے سوا اور کچھ نہ مانیں۔ (سعد نے) کہا: تو میں نے انھیں قسم دی تو وہ آگئے، پس ہم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف چل پڑے، اور ان سے حاضری کی اجازت طلب کی، انھوں نے اجازت مرحمت فرمادی اور ہم ان کے گھر (دروازے) میں داخل ہوئے، انھوں نے کہا: کیا حکیم ہو؟انہوں نے اسے پہچان لیا، اس نے کہا: جی ہاں۔تو انھوں نے کہا: تمہارے ساتھ کون ہے؟اس نے کہا: سعد بن ہشام۔انھوں نے پوچھا: ہشام کون؟ اس نے کہا: عامر رضی اللہ عنہ (بن امیہ انصاری) کے بیٹے۔تو انہوں نے ان کے لئے رحمت کی دعا کی اور کلمات خیر کہے۔قتادہ نے کہا: وہ (عامر رضی اللہ عنہ) غزوہ احد میں شہید ہوگئے تھے۔میں نے کہا: ام المومنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق مبارک کے بارے میں بتایئے۔انھوں نے کہا: کیاتم قرآن نہیں پڑھتے؟میں نے عرض کی: کیوں نہیں!انھوں نے کہا: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآن ہی تھا (آپ کی سیرت وکردار قرآن کا عملی نمونہ تھی) کہا: اس پر میں نے یہ چاہا کہ اٹھ (کر چلا) جاؤں اور موت تک کسی سے کچھ نہ پوچھوں، پھر اچانک ذہن میں آیا تو میں نے کہامجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے (رات کے) قیام کے بارے میں بتائیں، تو انھوں نے کہا: کیا تم (یَا أَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ) نہیں پڑ ھتے؟ میں نے عرض کی کیوں نہیں!انھوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آغاز میں رات کا قیام فرض قرار دیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں نے سال بھر قیام کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی آخری آیات بارہ ماہ تک آسمان پر روکے رکھیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آخر میں تخفیف کا حکم نازل فرمایاتو رات کا قیام فرض ہونے کے بعد نفل (میں تبدیل) ہوگیا۔ سعد نے کہا: میں نے عرض کی: اے ام المومنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں بتایئے۔تو انھوں نے کہا: ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے آپ کی مسواک اور آپ کے وضو کا پانی تیار کرکے رکھتے تھے اللہ تعالیٰ رات کو جب چاہتا، آپ کو بیدار کردیتا تو آپ مسواک کرتے، وضو کرتے اور پھر نو رکعتیں پڑھتے، ان میں آپ آٹھویں کے علاوہ کسی رکعت میں نہ بیٹھتے، پھر اللہ کا ذکر کرتے، اس کی حمد بیان کرتے اور دعا فرماتے، پھر سلام پھیرے بغیر کھڑے ہوجاتے، پھر کھڑے ہوکرنویں رکعت پڑھتے، پھر بیٹھتے اللہ کا ذکر اور حمد کرتے اور اس سے دعا کرتے، پھر سلام پھیرتے جو ہمیں سناتے، پھر سلام کے بعد بیٹھ کر دو رکعتیں پڑھتے، تو میرے بیٹے! یہ گیارہ رکعتیں ہو گئیں۔پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک بڑھی اور (جسم پر کسی حد تک) گوشت چڑھ گیا (جسم مبارک بھاری ہوگیا) تو آپ سات وتر پڑھنے لگ گئے اور دو رکعتوں میں وہی کرتے جو پہلے کرتے تھے (بیٹھ کر پڑھتے) تو بیٹا!یہ نو رکعتیں ہوگئیں اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نماز پڑھتے تو آپ پسند کرتے کہ اس پرقائم رہیں اور جب نیند یا بیماری غالب آجاتی اور رات کا قیام نہ کر سکتے تو آپ دن کو بارہ رکعتیں پڑھ لیتے۔میں نہیں جانتی کہ اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پورا قرآن ایک رات میں پڑھا ہو اور نہ ہی آپ نے کسی رات صبح تک نماز پڑھی اور نہ رمضان کے سوا کبھی پورے مہینے کے روزے رکھے۔ (سعد نے) کہا: پھر میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف گیا اور انھیں ان (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) کی حدیث سنائی تو انھوں نے کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سچ کہا، اگر میں ان کے قریب ہوتا یا ان کے گھر جاتا ہوتا تو ان کے پاس جاتا تاکہ وہ مجھے یہ حدیث رو برو سناتیں۔ (سعد نے) کہا: میں نےکہا: اگر مجھے علم ہوتا ہے کہ آپ ان کے ہاں حاضر نہیں ہوتے تو میں آپ کو ان کی حدیث نہ سناتا (یہ سعد بالآخر سرزمین ہند میں شہید ہوئے)
۔ معاذ بن ہشام نے قتادہ سے انھوں نے زراہ بن اوفیٰ سے اور انھوں نے سعد بن ہشام سے روایت کی کہ انھوں نے بیوی کو طلاق دے دی، پھر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تاکہ اپنی جائیداد فروخت کریں۔۔۔ آگے اسی سابقہ حدیث کی) طرح بیان کیا۔
محمد بن بشر نے کہا: ہمیں سعید بن ابی عروبہ نے حدیث سنائی، کہا: ہم سے قتادہ نے حدیث بیا ن کی، انھوں نے زراہ بن اوفیٰ سے اور انھوں نے سعد بن ہشام سے رویت کی کہ انھوں نے کہا: میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کےپاس گیا اور ان سے وتر کےبارے میں سوال کیا۔۔ (اس کے بعد) انھوں نے اپنے پورے قصے سمیت حدیث بیان کی اور اس میں کہا: انھوں (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) نے کہا: کون ہشام؟میں نے عرض کی: عامر رضی اللہ عنہ کے بیٹے۔انھوں نے کہا: عامر بہت اچھے انسان تھے اُحد کے دن شہید ہوئے۔
معمر نے قتادہ سے اور انھوں نے زراہ بن اوفیٰ سے روایت کی کہ سعد بن ہشام ان کے پڑوسی تھے، انھوں نے ان کو بتایا کہ انھوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔۔آگے سعید (بن ابی عروبہ) کے ہم معنیٰ حدیث بیان کی۔اس میں ہے، (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: کون ہشام؟عرض کی: عامر رضی اللہ عنہ کے بیٹے۔انھوں نے کہا: وہ اچھے انسان تھے غزوہ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (لڑتےہوئے) تھے شہید ہوئے، نیز اس (روایت) میں ہے کہ (سعدکے بجائے) حکیم بن افلح نے کہا: اگر میں جانتا کہ آپ ان کے پاس حاضر نہیں ہوتے تو میں آپ کو ان کی حدیث نہ بتاتا۔
ابوعوانہ نے قتادہ سے، انھوں نے زراہ بن اوفیٰ سے، انھوں نے سعد بن ہشام سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب آپ کی رات کی نماز بیماری یا کسی اور وجہ سے رہ جاتی تو دن کو بارہ رکعتیں پڑھ لیتے۔
شعبہ نے قتادہ سے اسی سند کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی کام کرتے تو اس کو برقراررکھتے اور جب آپ رات سوتے رہ جاتے یا بیمار ہوجاتے تو آپ دن کو بارہ رکعتیں پڑھ لیتے۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (کبھی) نہیں دیکھا کہ آپ نے ساری رات صبح تک نماز پڑھی ہواور نہ (کبھی) آپ نے رمضان کے سوا مسلسل مہینے بھر کے روزے رکھے۔
عبدالرحمان بن عبدالقاری سے روایت ہے، کہا: میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس کسی کا حزب (قرآن کا 1/7) حصہ جو عموما ایک رات میں تہجد کے دوران میں پڑھا جاتا تھا) یا اس کا کچھ حصہ سوتے رہ جانے کی وجہ سے رہ گیا اور اس نے اسے نماز فجر اور نمازظہر کے درمیان پڑھ لیا تو اس کے حق میں یہ لکھا جائےگا، جیسے اس نے رات ہی کو اسے پڑھا۔"
|