صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
جماع أَبْوَابِ صَدَقَةِ الْحُبُوبِ وَالثِّمَارِ
اناج اور پھلوں کی زکوٰۃ کے ابواب کا مجموعہ
1610. ‏(‏55‏)‏ بَابُ ذِكْرِ صَدَقَةِ الْعَسَلِ إِنْ صَحَّ الْخَبَرُ؛ فَإِنَّ فِي الْقَلْبِ مِنْ هَذَا الْإِسْنَادِ
شہد کی زکوٰۃ کا بیان بشرطیکہ یہ روایت صحیح ہو کیونکہ اس سند کے بارے میں میرے دل میں تردد ہے
حدیث نمبر: 2324
Save to word اعراب
حدثنا احمد بن عبدة ، عن المغيرة وهو ابن عبد الرحمن بن الحارث . ح وحدثناه مرة، حدثنا مغيرة بن عبد الرحمن ، حدثني ابي عبد الرحمن ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان بني شبابة بطن من فهم، كانوا يؤدون إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من عسل لهم العشر، من كل عشر قرب قربة، وكان يحمي لهم واديين، فلما كان عمر بن الخطاب، استعمل عليهم سفيان بن عبد الله الثقفي، فابوا ان يؤدوا إليه شيئا، وقالوا: إنما ذاك شيء كنا نؤديه إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فكتب سفيان إلى عمر بذلك، فكتب إليهم عمر بن الخطاب رضي الله تعالى عنه:" إنما النحل ذباب غيث يسوقه الله رزقا إلى من يشاء، فإن ادوا إليك ما كانوا يؤدون إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاحم لهم وادييهم، وإلا فخل بين الناس وبينهما، فادوا إليه ما كانوا يؤدون إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، وحمى لهم وادييهم" .حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ ، عَنِ الْمُغِيرَةِ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ . ح وَحَدَّثَنَاهُ مُرَّةُ، حَدَّثَنَا مُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّ بَنِي شَبَابَةَ بَطْنٌ مِنْ فَهْمٍ، كَانُوا يُؤَدُّونَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عَسَلٍ لَهُمُ الْعُشْرَ، مِنْ كُلِّ عَشْرِ قِرَبٍ قِرْبَةٌ، وَكَانَ يَحْمِي لَهُمْ وَادِيَيْنِ، فَلَمَّا كَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، اسْتَعْمَلَ عَلَيْهِمْ سُفْيَانَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيَّ، فَأَبَوْا أَنْ يُؤَدُّوا إِلَيْهِ شَيْئًا، وَقَالُوا: إِنَّمَا ذَاكَ شَيْءٌ كُنَّا نُؤَدِّيهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَتَبَ سُفْيَانُ إِلَى عُمَرَ بِذَلِكَ، فَكَتَبَ إِلَيْهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِي اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ:" إِنَّمَا النَّحْلُ ذُبَابُ غَيْثٍ يَسُوقُهُ اللَّهُ رِزْقًا إِلَى مَنْ يَشَاءُ، فَإِنْ أَدُّوا إِلَيْكَ مَا كَانُوا يُؤَدُّونَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاحْمِ لَهُمْ وَادِيَيْهُمْ، وَإِلا فَخَلِّ بَيْنَ النَّاسِ وَبَيْنَهُمَا، فَأَدُّوا إِلَيْهِ مَا كَانُوا يُؤَدُّونَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَمَى لَهُمْ وَادِيَيْهِمْ" .
سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فہم قبیلے کی ایک شاخ بنی شبابہ کے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی شہد کی پیداوار کا دسواں حصّہ ادا کرتے تھے۔ ہر دس مشکیزوں میں سے ایک مشکیزہ ادا کرتے تھے اور آپ نے انہیں دو وادیاں الاٹ کی ہوئی تھیں۔ پھر جب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا دور حکومت آیا تو انہوں نے سفیان بن عبداللہ ثقفی کو ان کا امیر مقرر کیا تو اُنہوں نے سفیان کو زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کردیا اور کہنے لگے کہ ہم اس کی زکوٰۃ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو ادا کیا کرتے تھے تو جناب سفیان نے یہ بات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو لکھ کر بھیج دی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں خط لکھا کہ بیشک شہد کی مکھیاں تو بارش کی مکھیاں ہیں۔ جنہیں اللہ تعالیٰ رزق بناکر جس کی طرف چاہتا ہے چلاتا ہے۔ لہٰذا اگر یہ لوگ تمہیں وہی زکوٰۃ ادا کریں جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ادا کیا کرتے تھے تو تم انہیں ان کی دو وادیاں ٹھیکے پردے دینا وگرنہ ان کے ساتھ دیگر لوگوں کو بھی اجازت دے دینا (کہ وہ ان دو وادیوں کی گھاس اور شہد سے مستفید ہوں) چنانچہ انہوں نے سفیان کو وہ مقدار ادا کردی جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ادا کیا کرتے تھے اور سفیان نے ان کی دو وادیاں ان کو الاٹ کردیں۔

تخریج الحدیث: اسناده حسن
حدیث نمبر: 2325
Save to word اعراب
حدثنا الربيع ، حدثنا ابن وهب ، حدثني اسامة ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان بني شبابة، بطن من فهم، فذكر مثل حديث المغيرة بن عبد الرحمن سواء، قال ابو بكر: هذا الخبر إن ثبت ففيه ما دل على ان بني شبابة، إنما كانوا يؤدون من العسل العشر لعلة، لا لان العشر واجب عليهم في العسل بل متطوعين بالدفع لحماهم الواديين، الا تسمع احتجاجهم على سفيان بن عبد الله، وكتاب عمر بن الخطاب إلى سفيان، لانهم إن ادوا ما كانوا يؤدون إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يحمي لهم وادييهم، وإلا خلى بين الناس وبين الواديين، ومن المحال ان يمتنع صاحب المال من اداء الصدقة الواجب عليه في ماله إن لم يحمى له ما يرعى فيه ماشيته من الكلاء، وغير جائز ان يحمي الإمام لبعض اهل المواشي ارضا ذات الكلإ ليؤدي صدقة ماله، إن لم يحم لهم تلك الارض، والفاروق رحمه الله قد علم ان هذا الخبر بان بني شبابة قد كانوا يؤدون إلى النبي صلى الله عليه وسلم من العسل العشر، وان النبي صلى الله عليه وسلم كان يحمي لهم الواديين، فامر عامله سفيان بن عبد الله ان يحمي لهم الواديين إن ادوا من عسلهم مثل ما كانوا يؤدون إلى النبي صلى الله عليه وسلم، وإلا خلى بين الناس، وبين الواديين، ولو كان عند الفاروق رحمه الله اخذ النبي صلى الله عليه وسلم العشر من غلهم على معنى الإيجاب كوجوب صدقة المال الذي يجب فيه الزكاة لم يرض بامتناعهم من اداء الزكاة، ولعله كان يحاربهم لو امتنعوا من اداء ما يجب عليهم من الصدقة، إذ قد تابع الصديق رحمه الله مع اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم على قتال من امتنع من اداء الصدقة مع حلف الصديق انه مقاتل من امتنع من اداء عقال كان يؤديه إلى النبي صلى الله عليه وسلم، والفاروق رحمه الله قد واطاه على قتالهم، فلو كان اخذ النبي صلى الله عليه وسلم العشر من نحل بني شبابة عند عمر بن الخطاب على معنى الوجوب، لكان الحكم عنده فيهم كالحكم فيمن امتنع عند وفاة النبي صلى الله عليه وسلم من اداء الصدقة إلى الصديق، والله اعلم.حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنِي أُسَامَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّ بَنِي شَبَابَةَ، بَطْنٌ مِنْ فَهْمٍ، فَذَكَرَ مِثْلَ حَدِيثِ الْمُغِيرَةِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ سَوَاءً، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذَا الْخَبَرُ إِنْ ثَبَتَ فَفِيهِ مَا دَلَّ عَلَى أَنَّ بَنِي شَبَابَةَ، إِنَّمَا كَانُوا يُؤَدُّونَ مِنَ الْعَسَلِ الْعُشْرَ لِعِلَّةٍ، لا لأَنَّ الْعُشْرَ وَاجِبٌ عَلَيْهِمْ فِي الْعَسَلِ بَلْ مُتَطَوِّعِينَ بِالدَّفْعِ لِحِمَاهُمُ الْوَادِيَيْنِ، أَلا تَسْمَعُ احْتِجَاجَهُمْ عَلَى سُفْيَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَكِتَابَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ إِلَى سُفْيَانَ، لأَنَّهُمْ إِنْ أَدُّوا مَا كَانُوا يُؤَدُّونَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَحْمِيَ لَهُمْ وَادِيَيْهِمْ، وَإِلا خَلَّى بَيْنَ النَّاسِ وَبَيْنَ الْوَادِيَيْنِ، وَمِنَ الْمُحَالِ أَنْ يَمْتَنِعَ صَاحِبُ الْمَالِ مِنْ أَدَاءِ الصَّدَقَةِ الْوَاجِبِ عَلَيْهِ فِي مَالِهِ إِنْ لَمْ يُحْمَى لَهُ مَا يَرْعَى فِيهِ مَاشِيَتَهُ مِنَ الْكَلاءِ، وَغَيْرُ جَائِزٍ أَنْ يَحْمِيَ الإِمَامُ لِبَعْضِ أَهْلِ الْمَوَاشِي أَرْضًا ذَاتَ الْكَلإِ لِيُؤَدِّيَ صَدَقَةَ مَالِهِ، إِنْ لَمْ يَحْمِ لَهُمْ تِلْكَ الأَرْضَ، وَالْفَارُوقُ رَحِمَهُ اللَّهُ قَدْ عَلِمَ أَنَّ هَذَا الْخَبَرَ بِأَنَّ بَنِي شَبَابَةَ قَدْ كَانُوا يُؤَدُّونَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْعَسَلِ الْعُشْرَ، وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَحْمِي لَهُمُ الْوَادِيَيْنِ، فَأَمَرَ عَامِلَهُ سُفْيَانَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَنْ يَحْمِيَ لَهُمُ الْوَادِيَيْنِ إِنْ أَدُّوا مِنْ عَسَلِهِمْ مِثْلَ مَا كَانُوا يُؤَدُّونَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِلا خَلَّى بَيْنَ النَّاسِ، وَبَيْنَ الْوَادِيَيْنِ، وَلَوْ كَانَ عِنْدَ الْفَارُوقِ رَحِمَهُ اللَّهُ أَخْذُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعُشْرَ مِنْ غَلِّهِمِ عَلَى مَعْنَى الإِيجَابِ كَوُجُوبِ صَدَقَةِ الْمَالِ الَّذِي يَجِبُ فِيهِ الزَّكَاةُ لَمْ يَرْضَ بِامْتِنَاعِهِمْ مِنْ أَدَاءِ الزَّكَاةِ، وَلَعَلَّهُ كَانَ يُحَارِبُهُمْ لَوِ امْتَنَعُوا مِنْ أَدَاءِ مَا يَجِبُ عَلَيْهِمْ مِنَ الصَّدَقَةِ، إِذْ قَدْ تَابَعَ الصِّدِّيقُ رَحِمَهُ اللَّهُ مَعَ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قِتَالِ مَنِ امْتَنَعَ مِنْ أَدَاءِ الصَّدَقَةِ مَعَ حَلِفِ الصِّدِّيقِ أَنَّهُ مُقَاتِلٌ مَنِ امْتَنَعَ مِنْ أَدَاءِ عِقَالٍ كَانَ يُؤَدِّيهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْفَارُوقُ رَحِمَهُ اللَّهُ قَدْ وَاطَأَهُ عَلَى قِتَالِهِمْ، فَلَوْ كَانَ أَخْذُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعُشْرَ مِنْ نَحْلِ بَنِي شَبَابَةَ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ عَلَى مَعْنَى الْوُجُوبِ، لَكَانَ الْحُكْمُ عِنْدَهُ فِيهِمْ كَالْحُكْمِ فِيمَنِ امْتَنَعَ عِنْدَ وَفَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَدَاءِ الصَّدَقَةِ إِلَى الصِّدِّيقِ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ.
امام صاحب نے ایک اور سند سے مذکورہ بالا روایت بیان کی ہے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر یہ روایت صحیح ثابت ہو جائے تو اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ بنی شبابہ کے لوگ شہد کا دسواں حصّہ بطور صدقہ کسی سبب کی بنا پر ادا کرتے تھے اس لئے نہیں کہ ان پر شہد کی زکوٰۃ واجب تھی بلکہ وہ نفلی طور پر یہ صدقہ ادا کرتے تھے کیونکہ انہیں خصوصی طور پر دو وادیاں ٹھیکے پردی گئی تھیں۔ کیا آپ نے سفیان بن عبداللہ کے خلاف ان کی دلیل اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے جوابی خط کو نہیں دیکھا کہ اگر وہ شہد کی اتنی ہی مقدار ادا کردیں جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ادا کیا کرتے تھے تو ٹھیک ہے وگرنہ ان کی خصوصی الاٹ منٹ ختم کردی جائے اور عام لوگوں کو بھی ان دو وادیوں سے فائدہ اُٹھانے کی اجازت دیدی جائے اور یہ بات ناممکن ہے کہ مالدار شخص اپنے مال کی واجب زکوٰۃ دینے سے صرف اس لئے انکار کردے کہ اس کے جانوروں کے لئے چراگاہ مختص نہیں کی گئی اور امام و حکمران کے لئے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ مخصوص لوگوں کے جانوروں کے لئے چراگاہ مختص کرے تاکہ وہ اپنے جانوروں کی زکوٰۃ ادا کریں اور اگروہ ان کے لئے چراگاہ مختص نہ کرے (تو وہ زکوٰۃ ادا نہیں کریںگے) اورسیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو یہ بات معلوم تھی کہ بنی شبابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی زکوٰۃ کا عشرادا کرتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دو وادیاں مختص کی ہوئی تھیں۔ اس لئے انہوں نے اپنے گورنر سفیان بن عبداللہ کو یہ حُکم دیا کہ اگر وہ لوگ اپنے شہد میں سے اتنی مقدار ادا کردیں جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ادا کیا کرتے تھے تو ان کے لئے دونوں وادیاں مخصوص رکھی جائیں وگرنہ عام لوگوں کو بھی ان سے مستفید ہونے کی اجازت دیدی جائے اور اگر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سے زکوٰۃ وصول کرنا واجب حُکم ہوتا جیسے کہ دیگر اموال کی واجب زکوٰۃ ہے تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ان کے زکوٰۃ ادا نہ کرنے پر خاموش نہ رہتے بلکہ وہ فرض زکوٰۃ ادا نہ کرنے پر ان کے ساتھ جنگ کرتے کیونکہ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کی معیت میں زکوٰۃ ادانہ کرنے والوں کے ساتھ جنگ کی تھی اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ قسم اُٹھائی تھی کہ اگر وہ ایک رسی جسے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ادا کرتے تھے، اب ادا نہ کریںگے تو وہ ان کے ساتھ جنگ کریںگے اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر صد یق رضی اللہ عنہ کی اس رائے میں موافقت کی تھی۔ لہٰذا اگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بنی شبانہ سے شہد کا دسواں حصّہ بطور قرض زکوٰۃ وصول کرنا ہوتا تو ان لوگوں کا حُکم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک وہی ہوتا جوحُکم ان لوگوں کا تھا جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تھا۔ واللہ اعلم۔

تخریج الحدیث: انظر الحديث السابق

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.